حیرت کی دنیا

2018 ,جولائی 2



 ہم اورہمار ے سیاسی اکابرین‘ بیوروکریٹ، جرنیلی و ججی اشرافیہ اور بے شمار و بے کنار دولت کے مالک بھی ایسے بے منزل جہاز کے مسافر بن سکتے ہیں۔ ہزار دو ہزار سال بعد دنیا میں واپس آئیں گے تو نہ اقتدار و اختیار کی کلغی ہو گی نہ جائیداد و محلات کی ملکیت ہو گی۔
ملائیشن ین ایئر لائنز کے جہاز ایم ایچ تین سو ستر کو لاپتہ ہوئے کئی سال ہو گئے یہ جہاز 8 مارچ 2014ءکو رات بارہ بج کر اکتالیس منٹ پر کوالالمپور ایئر پورٹ سے محوِ پرواز ہوا یہ جہاز چائنہ کے شہر بیجنگ کی جانب گامزن تھا اور اسے وہاں کے وقت کے مطابق ساڑھے 6 بجے لینڈ کرنا تھا۔ کوالالمپور سے بیجنگ تک کا فاصلہ چار ہزار تین سو پچاس کلو میٹر ہے۔ لیکن قریباً ڈیڑھ بجے کے قریب ایئر ٹریفک کنٹرول روم کا اس جہاز سے رابطہ کٹ گیا۔ اس وقت یہ جہاز ویتنام کے سمندر کے اوپر تھا جب مقررہ وقت کے کافی دیر بعد بھی جہاز بیجنگ نہ پہنچا اور اس سے رابطہ نہ ہو پایا تو پہلی خبر جو پوری دنیا کے میڈیا نے دی وہ یہ تھی۔ ”کوالالمپور سے بیجنگ جانے والا ایم ایچ تین سو ستر ویت نام کے سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا۔ ملبے کی تلاش جاری۔“ ملبے کی تلاش کو بحری جہاز اور فائٹر ہوائی جہاز روانہ کیے گئے لیکن پوری رات اور پورا دن گزرنے کے باوجود ملبہ توکیا دوردور تک سمندر میں ایک پلاسٹک کا ٹکڑا بھی نہ ملا۔ یہیں سے پراسراریت کا آغاز ہوا۔ تلاش کا دائرہ وسیع کیا گیا۔ اس جہاز میں سب سے زیادہ شہری چین کے تھے۔ لہٰذا چین نے بھی اپنے بحری جہاز بھیجے، اپنے غوطہ خور بھیجے۔ یہ حادثہ چونکہ ویت نام کے سمندر میں ہوا تھا لہٰذا ویت نام کی حکومت کی جانب سے بھی امداد پہنچ گئی جبکہ جہاز ملائشیا کا تھا لہٰذا ان کی فکرمندی اور ذمہ داری سب سے زیادہ تھی۔
تین ممالک نے دن رات ایک کر دیئے۔ تلاش کا دائرہ کار مزید وسیع کر دیاگیا۔پھر دو دن بعد خبر آئی کہ سمندر کے پانی پر تیل ملا جو کہ ممکنہ طور پر جہاز کا تیل ہے۔ بعد میں یہ بات بھی مسترد کر دی گئی۔ وہ جہاز کا تیل نہیں تھا۔ پھر علم ہوا، جہاز میں دو ایرانی لڑکے کسی کا پاسپورٹ چوری کر کے سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ پاسپورٹ تھائی لینڈ سے چرائے تھے۔ ان لڑکوں کی تصاویر شائع کی گئیں۔ اب دنیا کی نظر ہائی جیکنگ پر لگی تھی۔لیکن ان لڑکوں کے والی وارث جب سامنے آئے تو پتا چلا کہ یہ لڑکے بے ضرر ہیں جو چوری کے پاسپورٹ پر یورپ جانا چاہتے تھے۔ ان کا ہائی جیکنگ تو دور کسی دہشت گرد تنظیم سے ذرا سا بھی رابطہ سامنے نہیں آیا۔ لاپتہ ہونے کے دس دن بعد جہاز میں سوار انیس لوگوں کے لواحقین نے دعویٰ کیا ، ان کے رشتے داروں کے موبائل آن ہیں، بیل جا رہی ہے لیکن کوئی اٹھا نہیں رہا۔امریکی رپورٹس میں کہا گیا کہ طیارہ پاکستان میں اترا۔ 16مارچ 2014ءکو ملائیشین وزیر اعظم نجیب رزاق نے جنوبی بحیرہ چین میں تلاش ختم کر نے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی وضاحت کی ملائیشیا کا طیارہ پاکستان میں اترنے کی تمام خبریں بے بنیاد ہیں۔
شروع کے دنوں میں بہت سے سوالات اٹھے: کیا جہاز تباہ ہو گیا ہے؟لیکن جہاز ایک دم سے تباہ نہیں ہوتا اس میں خرابی سامنے آتی تو پائلٹ کنٹرول روم سے رابطہ کرتے ہیں یا اچانک جہاز دھماکے سے بھی پھٹ پڑے تو کم از کم ایک سیکنڈ کا لمحہ مل ہی جاتا ہے کہ پائلٹ کنٹرول روم سے بات کر سکے لیکن پائلٹ کی جانب سے مکمل خاموشی رہی۔ جہاز کی تباہی میں زیادہ تر ہاتھ موسم کی خرابی کا ہوتا ہے یا ٹیکنیکل خرابی کا، یہی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ موسم اس دن بہترین تھا اور جس ماڈل کا یہ جہاز ہے بوئنگ ٹرپل سیون اس ماڈل کا ریکارڈ شاندار ہے اور اگر جہاز تباہ بھی ہوا ہے تو ملبہ کہاں گیا؟ سمندر میں تو سینکڑوں کلو میٹر دور دور تک تلاش کی جاتی رہی۔ بیس سے زیادہ بحری جہاز اور جنگی ہوائی جہاز دن رات تلاش میں رہے لیکن ملبے کے نام پر پلاسٹک کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ملا۔ سمندر میں کہیں بھی جہاز کے تیل کے نشان نہیں ملے۔ اگر جہاز تباہ نہیں ہوا تو کیا اغواءیعنی ہائی جیک ہو گیا؟ لیکن ہائی جیکر جہاز کو کہاں لے گئے ہیں؟ چین نے اس جہاز کی خاطر فضا میں اپنے سیٹلائٹ چھوڑے ۔جہاز میں چین کے دو سو کے قریب مسافرتھے۔ انہی کی فکر میں چین دن رات ایک کئے ہوئے تھا۔ اس نے فضا میں اپنے سیٹلائٹ چھوڑے کہ جہاز کی نشاندہی ہو سکے۔ لیکن یہ سیٹلائٹ بھی جہاز کی نشاندہی کرنے سے قاصر رہے۔ زمین پرایسی کون جگہ جہاں چین جیسی سپر پاور کے چھوڑے گئے سیٹلائٹ نہیں پہنچ پائے۔ جہاز میں ایک عدد ڈیوائس ہوتی ہے جسے بلیک باکس کہا جاتا ہے۔ جتنا مرضی بری طرح جہاز تباہ ہو دھماکہ جتنا ہی کیوں شدت والا نہ ہوا بلیک باکس کو کبھی کچھ نہیں ہوتا، یہ باکس ایسی دھات سے بنا ہے جو کبھی بھی خراب یا تباہ نہیں ہوتا۔ بلیک باکس جہاز میں اس لیے ہوتا ہے کہ جہاز کی تباہی کے بعد بلیک باکس کو ڈھونڈھ کر اس میں موجود پائلٹ کی گفتگو کی آخری ریکارڈنگ سنی جا سکے تاکہ پتا چلے جہاز میں کیا خرابی ہوئی یہ کیوں تباہ ہوا؟ اس بلیک باکس میں اس کی لوکیشن بتانے والا نظام بھی نصب ہوتا ہے۔ لیکن اس معاملے میںبلیک باکس کی نشاندہی بھی نہیں ہو رہی۔جہاز تباہ ہوا ہے تو ملبہ کہاں ہے؟ اگر ہائی جیک ہوا ہے تو کون سی ایسی جگہ ہے جہاں یہ کھڑا ہے۔ انیس مسافروں کے موبائل کیسے آن رہے؟ وہ فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے؟ جہاز میں دو سو ستائیس مسافر اور عملے کے بارہ لوگ سوار ہیں۔ جی ہاں سوار ہیں۔پانچ مسافر شیر خوار بچے ہیں جن کی عمریں پانچ سال سے کم ہیں۔ 
ملائشین مسافر طیارے کے غائب ہونے کی طرح پاکستان کا ایک مسافر طیارہ بھی پراسرار طور پر غائب ہو چکا ہے۔ پی آئی اے کا فوکر جہاز جو 25 اگست 1989 میںگلگت سے اسلام آباد آتے ہوئے راستے میں غائب ہو گیا تھا اس کا اتا پتا آج تک نہ مل سکا۔ اس میں 54 افراد سوار تھے ۔جہاز کا ملبہ آج تک نہیں مل سکا۔ یہ پاکستان کی ہوا بازی کی تاریخ کا انتہائی خوفناک سانحہ ہے۔ ملبے کی تلاش نہ صرف جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے کی گئی بلکہ اس جدید دور کی تمام تر تکنیکی صلاحیتوں، سعی و تغیر کی سرزمین میں ستاروں پر کمند ڈالنے والے نجومیوں، جنات، مو¿کل رکھنے والے کامل پیروں اور سورج، چاند اور ستاروں کی چال پر نظر رکھنے والے جو تشیوں سے بھی مدد لی گئی مگر اس جہاز کی ہمالیہ کے پہاڑوں میں گمشدگی ہنوز معمہ ہے۔ یہ تو یقین کر لینا چاہئے کہ اگر یہ طیارے حادثے کا شکار ہوتے تو ان کا کوئی نہ کوئی سراغ مل جاتا۔ اگر یہ حادثات سے دوچار نہیں ہوئے تو پھر کہاں گئے۔ اس کا بھی ایک جواب ہے‘ جو اس واقعہ سے ملتا ہے۔
یہ ایک ایسے جہاز کی سچی کہانی ہے جس نے 1955 ءمیں نیو یارک سے میامی کیلئے 57 مسافروں کے ساتھ اڑان بھری۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جہاز ٹیک آف کرنے کے کچھ دیر بعد کہیں کھو گیا اور پھر 37 سال کے طویل عرصے تک جہاز اور اس کے بدقسمت مسافروں کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ دنیا اس مسافر طیارے کے بارے میں حیران رہی کہ اسے آسمان نگل گیا یا کیا ہوا اس کے ساتھ۔ سالوں سال گزرنے کے بعد ابھی یہ معاملہ سلجھ نہیں پایا تھا کہ اچانک 1992 ءمیں ایک دن کارکس وینیز ویلا کے ہوائی اڈے پر ایک اجنبی جہاز کی آمد ہوئی جو ڈی سی فور، فلائٹ نمبر 914 راڈار پر آئے بغیر ظاہر ہوئی۔ جس پر کنٹرول ٹاور کے عملے نے پائلٹ سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ جس پر عملے نے محسوس کیا کہ پائلٹ بہت ہی ڈرا اور گھبرایا ہوا ہے۔ ڈپٹی منسٹر آف سول ایوی ایشن رومن ایسٹو ور نے ان حالات کا خلاصہ پیش کیا جس میں بتایا کہ مذکورہ جہاز صرف کچھ سیکنڈز کیلئے وہاں رکا اور دوبارہ اڑان بھرتے ہوئے غائب ہو گیا۔ اگرچہ شہادت یہ بھی ہے کہ جہاز نیو یارک سے فلائی کرنے کے بعد کچھ سیکنڈز کیلئے فلوریڈا کے ہوائی اڈے پر بھی لینڈ کیا تھا۔ لیکن اصل مدّا تو یہ ہے کہ یہ جہاز 37 سال تک رہا کہاں۔ ہوائی اڈّوں کے عملے کے مطابق یہ بالکل غیر فطری اور عجیب واقعہ ہے۔ جس میں انہوں نے دیکھا کہ اچانک ایک ہوائی جہاز ہوائی اڈے کی حدود میں داخل ہوا لیکن راڈار اسے نہیں دیکھ سکا۔ بقول ان کے یہ جہاز انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن راڈار پر نام و نشان تک نہیں آیا ۔عملے نے جہاز کے پائلٹ سے کہا کہ وہ ہم سے رابطہ کرے لیکن سہمی ہوئی آواز آئی۔’ ہم کہاں ہیں‘؟ پھر پائلٹ نے بتایا وہ نیو یارک سے میامی کیلئے اڑے ہیں۔ ہماے ساتھ عملے کے 4 افراد کے علاوہ 57 مسافر بھی ہیں۔ اس کے بعد اس جہاز سے رابطہ ٹوٹ گیا۔گراو¿نڈ عملے کے مطابق ہم حیران تھے کہ یہاں سے 1800 کلو میٹر دور یہ جہاز بغیر کسی رابطے کے کیسے پہنچ گیا۔ کچھ دیر بعد پھر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب نہیں آیا اور چند منٹوں بعد پائلٹ نے بڑی مہارت سے جہاز رن وے پر اتار دیا۔ کنٹرول ٹاور کے عملے نے سنا کہ پائلٹ اپنے ساتھی پائلٹ سے کہہ رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے ہمیں تو فلاں تاریخ کو اتنے بجے لینڈ کرنا تھا، شاید کچھ غلط ہو گیا ہے۔ ایئر پورٹ کے گراو¿نڈ کے عملے نے دیکھا کہ مسافروں کے چہرے جہاز کی کھڑکیوں کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں، ایک کریو جہاز کے اندر گیا‘ اس نے پائلٹ کے پاس جانے کی کوشش کی مگر پائلٹ نے اسے اشارے سے منع کر دیا‘ اس دوران اس کریو کو جہاز میں ایک کیلنڈر بھی ملا جو 1955ءکا تھا۔کریو جہاز سے اتراپائلٹ نے پھر سے پرواز اڑا لی اور غائب ہو گیا۔ اس کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔
37 سال یہ طیارہ کہاں رہا؟ اس کا جواب تلاش کیا جا رہا ہے۔ ممکنہ طور پر اسے کچھ قوتیں اس عالم میں لے گئی ہوں گی جہاں وقت کا دھارا ہماری دنیا کے مقابلے میں برق رفتاری سے چلتا ہے۔ وہ کیسے؟ وہ اس طرح: ایک شخص قبرستان سے گزر رہا تھا۔ اس نے ایک قبر کھلی ہوئی دیکھی‘ جس میں ایک بزرگ کو عبادت میں مصروف دیکھا تو یہ شخص ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا‘ بزرگ سے سوال جواب کرنے کی کوشش کی۔ بزرگ نے اسے جلد سے جلد اپنی دنیا میں جانے کو کہا مگر یہ کچھ نہ کچھ نیاز مندی پر اصرار کرتا رہا۔ چند ساعتوں کے بعد باہر نکل آیا تو اس نے خود کو کسی دوسری دنیا میں پایا۔ حالانکہ یہ دوسری دنیا نہیں تھی‘ وہی قبرستان تھا‘ وہی گاؤں تھا مگر دو سو سال سب کچھ ایڈوانس ہو چکا تھا۔ اس کے قبر میں گزرے دس پندرہ منٹ دو سو سال پر محیط ہو گئے تھے۔ گاؤں شہر بن چکا تھا۔ قارئین آپ جہاں بیٹھے ہیں۔ ذرا سوچیں دو سو سال قبل گرد و نواح اور یہ جگہ کیسی ہو گی اور دو سو سال بعد بھی کیا ایسی ہی رہے گی جیسی اب ہے؟ یہاں سے اڑنے والا جہاز اس عالم میں سے شاید ایک لمحے کے لئے داخل ہوا ہو جو ہمارے 37 سال پر محیط ہو گئے۔
یہی جہاز دوبارہ زمین پر اتر سکتا ہے۔ ملائشیا اور پاکستان کے گم شدہ طیارے بھی واپس آ سکتے ہیں۔ نہ جانے وہ ہمارے ماہ و سال کے مطابق سو سال یا ہزاروں سال بعد واپس آئیں۔ اس وقت اس دنیا میں ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ ہو اور انہیں خلائی مخلوق قرار دیا جانے لگے۔ اب وہ جہاز کہاں ہوں گے؟ اگر اس جہان میں یہاں وقت کو پر لگے ہوئے ہیں تو اب تک کروڑوں سال کا سفر طے کر چکے ہوں گے؟ ایک عالم ایسا بھی جہاں وقت تھم جاتا ہے۔ وہیں میامی جانے والا طیارہ لے جایا گیا ہو اور برق رفتاری سے گزرنے وقت والے عالم میں چند سیکنڈ گزرنے کے بعد ہماری دنیا میں آیا ہو؟ 
 یہ غائب ہونے والے جہاز اس عالم میں ہو سکتے یہاں وقت تھم جاتا ہے اور بھی کچھ ہو سکتا ہے تاہم ایک سوال‘ بڑا سوال بلکہ بہت بڑا سوال یہ ہے۔ ایسے واقعات آئندہ بھی پیش آ سکتے ہیں‘ ہم بھی ایسے طیارے کے مسافر ہو سکتے ہیں جسے ممکنہ طور پر ملائشین امریکن اور پاکستانی طیارے کی طرح پراسرار طور پر اُچکا جا سکتا ہے۔ ہمار ے سیاسی اکابرین‘ بیوروکریٹ، جرنیلی و ججی اشرافیہ اور بے شمار و بے کنار دولت کے مالک بھی ایسے بے منزل جہاز کے مسافر بن سکتے ہیں۔ ہزار دو ہزار سال بعد دنیا میں واپس آئیں گے تو نہ اقتدار و اختیار کی کلغی ہو گی نہ جائیداد و محلات کی ملکیت ہو گی۔

متعلقہ خبریں