رواداری

2018 ,ستمبر 16



امریکی بزنس مین البرٹو ویلارکی دولت کی مالیت ایک ارب ڈالرز تھی۔یہ امریکہ کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔2008میں البرٹو پر منی لانڈرنگ کا اورفراڈ کے الزامات ثابت ہوگئے ۔وہ کالے دھن سے بڑی ڈونیشن کیا کرتا تھا۔5فروری2010کو البرٹوویلارکو9سال کی جیل ہو گئی۔ اس نے اپیل بھی کی جس پر عدالت نے سزا میں ایک سال کا اضافہ کر دیا ۔جیل میں وہ کہتا ہے، کاش میں نے دو نمبری نہ کی ہوتی۔ شان کوِن آئرش بزنس مین ہے۔2008میں وہ ملک کاسب سے امیر آدمی بن گیا۔ اس کی دولت کی مالیت 6ارب ڈالرز تھی۔اس کے کئی فراڈ پکڑے گئے،اسے زیادہ قید تو نہ ہوئی البتہ دیوالیہ ہوکر کنگال ہوگیا،وہ اب کہتا ہے کاش میں نے یمانداری کو شعار بنایا ہوتا۔اینڈریو جیک نے تاریخ کی سب سے بڑی تین سو پندرہ ملین ڈالرز لاٹری جیتی ۔تین سو پندرہ ملین ڈالرز تقریبا32ارب پورے بنتے ہیں۔ اس شخص نے لاٹری جیتنے کے بعد کافی بھلائی کے کام کئے۔مگر جلددولت کا نشہ چڑھنے لگا۔ یہ دن بھر شراب کے نشے میں دھت رہنے لگا، بھاری رقم جوئے میں ہار جاتا ۔ اس کی پوتی اور اس کا بوائے فرینڈ اسی کے گھر میں ڈرگز کے زیادہ استعمال کی وجہ سے مر گئے۔ اس کی بیٹی بھی مر گئی۔اس وقت اس نے کہا کہ کاش میں وہ لاٹری کا ٹکٹ پھاڑ دیتا۔ 
 ہمارے ہاں امیر اور امیر ترین لوگوں کی کمی نہیں۔خیرات اور صدقات کا جذبہ تو غریب، سفید پوش اور امرا میں یکساں پایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں کھلے دل کے امراءکی کمی نہیں تاہم مکھی چوس بڑی ”مقدار“ میں پائے جاتے ہیں۔دمڑی جانے پر ان کی چمڑی سلگنے لگتی ہے سب کچھ لٹنے اور اجڑنے پرگھٹی گھٹی آواز میںکاش کاش،اے کاش کہتے ہیں !دھن دولت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا،وہ بے نیاز ذات چاہے تو کنگلے کو کروڑ پتی بنا دے اور بادشاہ کو ”ککھوں“ سے ہلکا کر دے۔ ایسا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں مگر ہم ایمان کے اس ”درجے“ پر فائز ہیں کہ اپنے اعمال کو کمالات سمجھتے ہیں۔
عوام کے لئے ان کے سیاستدان آئیڈیل ہیں۔ کوئی سول نافرمانی کی تحریک چلا دے، کوئی بے ایمانی سے قوم کے اربوں کھربوں دبالے یا ملک وقوم کے خلاف بدترین بیان بازی اور زبان درازی پر اتر آئے، اس پر بھی لبیک کہنے والے بیشمارہیں۔ اپوزیشن کا کام ایسے حکومتی اقدامات پر تنقید ضرور ہے جو عوامی فلاح اور ملکی مفاد سے لگا نہیں کھاتے مگر ہمارے ہاں ہر حکومتی اقدام کی مخالفت اور کھل کر مخالفت کرنا اپوزیشن کے ایمان کا حصہ ہے، خواہ وہ قومی و ملکی مفاد ہی میں کیوں نہ ہو۔ بیان بازی کے جوہر دکھا کر اپنے ”کوے“ کو سفید ظاہر کیا جاتا ہے۔ سیاست میں اگر ہم کسی حوالے سے اوج ثریا پر پہنچے ہیں تو وہ عدم برداشت کا رویہ ہے۔ تحمل، صبر اور رواداری سے کوسوں دور رہے ہیں۔ اگر کبھی رواداری کا موقع آیا تو اس کی مدت ، میعاد و حیثیت ہوا کے جھونکے اور پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیںہوتی۔ 
آج ایک بار پھر سیاست میں کچھ رواداری، کچھ تحمل اور برداشت کی فضا نظر آتی ہے۔دیکھیں یہ ہوا کے دوش پر رکھاچراغ یایا کچھ دیرپا ثابت ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کے انتقال پر وزیراعظم عمران خان، مسلم لیگ ن کے حلیفوں اور حریفوں سب نے غمزہ خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔ میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو کلثوم نوازکی وفات کے فوری بعد اور ان کی میت لاہور پہنچنے سے دو روز قبل رہا کر کے لاہور میں ان کی قیام گاہ جاتی امرا پہنچا دیا گیا جہاں انہوں نے تجہیز و تکفین میں حصہ لیا دیگر رسوم بھی ان کی موجودگی میں جاری رہیں۔ حکومت نے میاں صاحب کیلئے پیرول پر رہائی میں نہ صرف کوئی پریشانی پیدا نہ کی بلکہ ممکنہ حد تک فسیلٹی کیا تحریک انصاف کے وفد نے جنازے میں شرکت کی۔
میاں نواز شریف نے بھی کلثوم نواز کی رحلت اور اپنی رہائی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا۔ شاید وہ واقعہ ان کے ذہن میں ہو: طیارہ اغوا کیس میں میاں صاحب لانڈھی جیل میں تھے، ان کے سسر کا انتقال ہوا تو مشرف کی آمریت میں دو دن پیرول پر رہائی ملی۔ میاں صاحب لاہور آئے۔ صحافی حضرات نے بے موقع مشرف کے حوالے سے سوال داغ دیا۔ میاں صاحب نے جذبات میں آکر فرمایا، سو مشرف بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس کو بعدازاں لاکھ آف دی ریکارڈ کہا گیا مگر خبر طشت ازبام ہوئی تو اسی وقت میاں صاحب کو لاہور سے لانڈھی جیل کراچی پہنچا دیا گیا۔ اس پرمشرف کی طرف سے کم ظرفی نہیں ہونی چاہئے تھی۔
شریف خاندان پاکستان کے تین امیر ترین خاندانوں میں ایک کلثوم نواز کے علاج کیلئے دنیا کی بہترین علاج گاہ میں مرحومہ کو داخل کرایا گیا۔ پیسہ پانی کی طرح عملی طور پر بہایا گیا۔ عام مریض یہیں پاکستان میں ایڑیاں رگڑ کر دم توڑ جاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے کلثو کی بیماری کو ڈرامہ بازی بھی کہا جو اب معذرت کر رہے ہیں۔ ایسے بیانات سے کتنی دل آزادی ہوتی اور بیان دینے والوں کو بھی کس قدر نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ صدارتی الیکشن میں اعتزاز احسن کو مسلم لیگ ن کی طرف سے ووٹ نہ دینے سے ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے نوازشریف کے دل کے اپریشن کو بھی ڈرامہ قرار دیا تھا وہ بھی ایسے بیانات سے رجوع کرلیں۔
عمران خان کی والدہ شوکت خانم کینسر کے موذی مرض سے لڑتے ہوئے دارفانی سے کوچ کر گئیں تو عمران خان نے ان کے نام پر ہسپتال بنا دیا جو صدقے خیرات اور زکٰوة پر چلتا ہے۔ اس میں عمران خان خود حصہ ڈالتے ہیں۔ نواز شریف اپنی اہلیہ مرحومہ کے نام پر پاکستان میں کینسر ہسپتال بنا دیں جس میں ہر مریض کا فری علاج ہو۔ شوکت خانم میں صرف 25 فیصد افراد کا مفت علاج ہوتا ہے۔تواتر سے پھیلتی کینسر ایسی موذی بیماری ہے جس کے لئے تین ہسپتال کم ہیں۔ نواز شریف بہت بڑا کلثوم کینسر ہسپتال بنا کر یہ کمی پوری کر سکتے ہیں۔ 
حکومت کی رواداری کا جواب اسی جذبے سے دینے کی ضرورت ہے۔ قومی مفاد کے منصوبوں کی اول تو حمایت کی جائے اگر دل نہیں مانتا تو مخالفت بھی نہ کی جائے۔ 10 ارب درخت لگانا مشترکہ قومی کاز ہونا چاہئے۔ ڈیمز کی تعمیر کے لئے فنڈ ریزنگ کو خیرات کا نام دیکر حکومت کو بھکاری قرار دیا جا رہا ہے۔یہ بھیک اس دولت کے ہمالیہ سے کہیں بالانشیں ہے جو غریبوں کا خون چوس کر جمع کی جائے۔ 
عمران نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے پاکستانیوں سے چندے کی فریاد کی ہے۔ یہ ڈیم پاکستان اور پاکستانیوں کے کام آنا ہے۔ جنگ تبوک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے حصہ ڈالنے کو کہا تو حضرت عمرؓ گھر کا آدھا اور حضرت ابوبکرؓ پورا سامان اٹھا لائے تھے۔ مدینہ ہجرت پر مسلمانوں کے لئے کنواں حضرت عثمان نے خرید کر دیا تھا۔ اگر عام لوگوں سے چندہ نہیں لینا تو امیر لوگ دل بڑا کریں ایک ایک ارب ڈالر دے دیں۔ صرف 14 مخیر اور دل گردے والے لوگ اس کار خیر کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ میاں نوازشریف‘ آصف زرداری‘ جہانگیر ترین جیسے تو انفرادی طور پر بھاشا ڈیم کے اخراجات اٹھانے کی استعداد رکھتے ہیں۔ پاکستانی دولتمند ایسے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس سے قبل کہ کاش کہتے ہوئے بے بس اور پشیمان ہوں۔ 

متعلقہ خبریں