نواسۂ رسولؐ

لاہور(آغا سید حامد علی شاہ موسوی ): نبی کریم حضرت محمد مصطفی ؐ کے پیارے نواسے حضرت امام حسینؓ علی ابن ابی طالب و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓکے پاکیزہ آنگن میں تین شعبان المعظم 4ہجری کو تشریف لائے۔ اللہ کا دین پہنچانے اور اس کی تکمیل کی سند حاصل کرنے والے نانا کو اپنے دین کے محافظ حسین کیؓ آمد کا بے چینی سے انتظار تھاجیسے ہی نواسے کی خوشخبری سنی جناب رسالت مابؐ ؐتشریف لائے، بیٹے کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان نواسے کے منہ میں دے دی۔
جس طرح ہدایت کے متلاشی صدیوں سے نبی کریم ؐ کے منتظر تھے اسی طرح مسیحائی کے متلاشی جن و انس و ملائک نبی ؐ کے نواسے کے انتظار میں تھے کتب تاریخ ؒ میں مرقوم ہے کہ ستر ہزار فرشتوں کا سردار فطرس جسے بال و پر سے اس لئے محروم کر دیا گیا تھا کہ اس نے مرضی معبود سمجھنے میں ایک پل کی دیر لگائی تھی جب اسے معلوم ہوا کہ نبی کریم کے گھر میں نواسے کی آمد ہوئی ہے اور جبریل رسول خدا ؐ کو امام حسین ؑ کی ولادت پر تہنیت پیش کرنے جا رہے ہیں تو گڑگڑایاکہ مجھے بھی ساتھ لے چلو وہیں سے مجھے شفا اور معافی مل سکتی ہے ،روح الامین انہیں ساتھ لے آئے اور سرور کونین کو غایت بیان فرمائی تو آنحضور ؐ نے فرمایا کہ اس معتوب فرشتے کو امام حسینؓ کے جسم اطہر سے مس کرو،جیسے ہی ایسا کیا گیا تو اس کے بال و پر دوبارہ نمودار ہوگئے اور وہ فخرو مباہات کرتا ہوا آسمان پر چلا گیا اور حسب سابق ستر ہزار فرشتوں کی سرداری کرنے لگا۔(روضۃ الشہداء ، غنیۃ الطالبین از شیخ عبد القادر جیلانیؒ)
امام حسینؓشتوں کے بھی مسیحا بنے اور انسانیت کے بھی ، آمریت و ملوکیت کامرض جب اسلام پر حملہ آور ہوا تو حسین دین مصطفویؐکے معالج بن گئے قربانی اسمعیل ؑ کی تعبیر بن کر شہادت کی صورت دین کو ایسا نسخہ اکسیر دیا کہ ابد تک دین کی حفاظت کا سامان کردیا،آج اگر پوری کائنات میں صدائے لاالہ گونج رہی ہے اور ہر مسلمان کے قلب پر نقش ہے تو یہ قربانی حسین ؓکا صدقہ ہے ۔اسی لئے سلطان الہند تحفۃ الرسول ؐ خواجۂ اجمیر حضرت معین الدین چشتیؒ پکار اٹھتے ہیں ۔
شاہ است حسین ؓ بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ دین پناہ است حسین ؓ
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ
حسین تا ابد دین مصطفیؐ کی پناہ بن گئے حسینؓ اپنی اور اپنے پیاروں و جانثاروں کی لازوال قربانی دے کر نہ صرف کلمہ توحید اور مشن رسالت ؐکی لاج رکھی وہاں تا ابد ہر مظلوم و ناکس کو ظالموں سے ٹکرانے اور ڈکٹیٹروں پر چھا جانے کا حوصلہ بھی عطا کیا۔یہی وجہ ہے کہ ہر حریت پسندہی نہیںبلاتفریق مذہب ہر قوم حسین ؓکو سلام پیش کرتی ہے ۔حسین ؓہر مظلوم کے مسیحا بن گئے حسین ؓ ہر بیمار قوم کے نجات دہندہ بن گئے ۔
ماہ شعبان المعظم کو نبی کریم ؐ کا مہینہ کہا گیا اوریہ رمز الٰہی ہے کہ نبی کریم ؐ کے پہنچائے ہوئے دین اسلام کی حفاظت کی جنگ لڑنے والے میدان کربلا کے اکثر ہیر و عقیلہ بنی ہاشم نواسی رسول ؐ سیدہ زینب بنت علیؓ اما م حسین ؓتاجدار وفا علمدار کربلاحضرت عباس علمدا رؓامام زین العابد ینؓنوشہ کربلاحضرت قاسم ا بن حسنؓ ہم شکل پیغمبرؐ شہزاد علی الاکبر بن امام حسینؓ ماہ مقدس میں دنیا میں تشریف لائے ۔حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ وہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آج رات ایک خوف ناک خواب دیکھا ہے، سرکار نے ارشاد فرمایا آپ نے کیا خواب دیکھا؟ عرض کرنے لگیںوہ بہت ہی فکر کا باعث ہے ،آپ نے ارشادفرمایاوہ کیا ہے؟ عرض کرنے لگیں : میں نے دیکھا گویا آپ کے جسد اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ دیا گیا اور میری گود میں رکھ دیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، ان شاء اللہ فاطمہ زہراؑ کے صاحبزادے تشریف لائیں گے( دلائل النبوۃللبیہقی، شواہد النبوۃ)
دونوں جہاں کا راج دلارا حسین ہے
ہر قوم کہہ رہی ہے ہمارا حسین ؓہے
ماہرین علم النسب کا کہنا ہے کہ خداوندعالم نے فاطمہ زہراؓکے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین کے نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔ رسول اللہ ؐنے امام حسنؓ طرح امام حسینؓے عقیقہ میں ایک ایک مینڈھا ذبح فرمایا۔امام عالی مقام حضر ت امام حسینؓ کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور القاب مبارکہ سید الشہداء ، سبط اصغر،ریحانۃ الرسولؐ، سیدشباب اہل الجنۃ ،الرشید، الطیب ، الزکی ،السید، المبارک ہیں۔ پیغمبر اسلام ؐ کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ’’الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنتہ و ابوہما خیر منہما‘‘ حسن اور حسینؓ جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدر بزرگواران دنوں سے بہتر ہیں (ابن ماجہ)۔
جامع ترمذی اور دیگر کتب احادیث میں منقول ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک دن فاطمہ زہراؓ رسول اللہؐ کے لئے غذا لے کرآئیں اس دن رسول اللہؐ میرے گھر میں تشریف رکھتے تھے رسول اللہؐ نے اپنی بیٹی کی تعظیم کی اور فرمایا جاؤ میرے چچازاد بھائی علی اور میرے بچوں حسن و حسین کو بھی بلالاؤتاکہ ہم مل کرکھانا کھائیں کچھ دیر بعدعلی و فاطمہ حسنین کا ہاتھ تھامے ہوئے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اسی وقت جبرئیل آیۃتطہیر لے کر نازل ہوا۔اے پیغمبر کے اھل بیت خدا تو بس یہ چاھتاہے کہ تم کوہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویساپاک و پاکیزہ رکھے۔ (احزاب 33 )حضرت انس بن مالک ؓسے روایت کرتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک لایا گیا اور طشت میں رکھا گیا تو ابن زیاد (ان کی آنکھ اور ناک میں) چھڑی مارنے لگا اور آپ کی خوبصورتی میں اعتراض کیا تو حضرت انسؓ نے فرمایا آپ سب سے زیادہ رسول اللہ ؓ کے مشابہ تھے اور اس وقت حضرت امام حسینؓ کے سر اور داڑھی میں وسمہ کا خضاب کیا ہوا تھا۔(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 985 )۔امام حسینؓ ولادت پرنور کا سعید دنآج تفرقے ،دہشت گردی اور استعمار گردی کا شکار امت مسلمہ سے تقاضا کررہا ہے کہ نبی کا کلمہ پڑھنے والے متحد ہو جائیں اور اپنے دلوں سے استعماری ممالک کی طاقت کا خوف دور کر کے جذبۂ حسین ؓ کو بیدار کریں۔