صدارت کیلئے موزوں ڈاکٹر اے کیو خان

2018 ,اگست 15



دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگا ساکی پر برسائے گئے ایٹم بموں نے ان بڑے شہروں اور ان کیساتھ ہر ملحقہ بستی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جنگی قوانین سول آبادیوں پر بمباری و گولہ باری کی اجازت نہیں دیتے مگر انسانیت کا دم بھرنے والی دنیا کی قدیم جمہوریت اور جدید طرز زندگی کی نمائندہ امریکی حکومت انسانیت کے ماتھے پر کلنک بن گئی۔ پرل ہاربر پر جاپانی فائٹر و بمبار جہازوں نے چھاﺅں کر دی۔ امریکی دعوے کے مطابق تین ہزار اہلکار اس حملے میں لقمہ اجل بن گئے۔ اس سانحہ سے امریکہ نے انگاروں پر لوٹنا ہی تھا۔ بدلے کی آگ جاپان اور جرمنی کو سبق سکھا کر ہی ٹھنڈی ہو سکتی تھی۔ جاپان نے امریکہ کی طرف سے اس جنگ میں کودنے کی اطلاعات پر پرل ہاربر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دوسری جنگ عظیم میں جاسوسی کا کردار بے مثال رہا، کئی جاسوس ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرتے رہے۔ اس کی پاداش میں کئی کو پھانسیاں لگیں کئی کو میڈل اور مراعات ملیں۔ پرل ہاربر حملے کو بھی اتحادیوں کی جاسوسی کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔ ڈبل کراس ایجنٹوں کے فریب میں آکر جاپان نے پرل ہاربر کا رخ کرکے بُل کو سرخ جھنڈی دکھا دی اور نوبت ایٹمی حملے تک جا پہنچی۔ ہزاروں میل دور جا کر جاپان نے امریکی پورٹ کو اڑا کے رکھ دیا۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر کس طرح امریکی جہاز بلا روک ٹوک آئے اور بم گرا کر چل دیئے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے؟ اگر جاپان کے پاس ایٹمی بم ہوتا تو کیا پھر بھی امریکہ اس کے دو شہروں کو ملیا میٹ اور چلتے پھرتے لاکھوں انسانوں کو ”ہاویہ“ کی نذر کر دیتا؟ پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں نیو کلیئر ٹیسٹ کا اعلان کرتے ہوئے تیاری شروع کی تو امریکہ سمیت پوری دنیا پاکستان کو باز رہنے پر قائل کر رہی تھی۔ جاپانی سفیر نے بھی پاکستانی حکام پر اپنی حکومت کی طرف سے دھماکے نہ کرنے پر زور دیا تو جاپانی سفیر کے سامنے بھی یہی سوال رکھا گیا: جاپان کے پاس ایم بم ہو تا تو کیا امریکہ ایٹم بم استعمال کرتا؟ اس کا جاپانی سفیر نے کوئی جواب نہ دیا۔ مگر جواب ظاہر ہے”نہیں“ کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
 جنوبی ایشیا میں اسلحہ کی دوڑ کی شروعات بھارت نے کیں۔ یہ اس کی یکطرفہ دوڑ ہے۔ پاکستان اسلحہ کی مقدار، فوجوں کی تعداد اور دنیا کیلئے ڈیڑھ ارب لوگوں کی مارکیٹ کی استعداد کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔پاکستان کے بھارت سمیت کسی ملک کیلئے جارحانہ عزائم نہیں رہے۔ بھارت کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے ہمارے پاس جارحیت کی سکت نہیں ہے جبکہ بھارت نے کبھی خیر نہیں کی۔ اس نے 1971ء میں ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور کچھ لوگوں کو غداری کو بروئے کار لا کر پاکستان کو دولخت کر دیا۔ پاکستان کیلئے یہ بھیانک اور ہولناک خواب سے بھی بُرا اور بڑا سانحہ تھا۔ بھارت نے اپنے مذموم و مکروہ مقاصد و عزائم کو اس وقت عملی جامہ پہنایا جب اس کا ایٹمی پروگرام ابتدائی مراحل اور اخفاض میں تھا۔ جہاں پھر وہی سوال ہے۔ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو کیا بھارت مشرقی پاکستان پر حملے کی جرا¿ت کرتا؟ بھارت نے ایٹم بم بنا کر خود کو احمق ثابت کیا ہے۔
 ایٹم بم بھارت نے بنایا دفاع پاکستان کا مضبوط سے مضبوط تر ہوکر ناقابل تسخیر ہو گیا۔ ایٹم بم کے بغیر بھارت جنوبی ایشیا کی دفاعی سپر پاور تھا۔ اس کے ایٹم بم کے جواب میں پاکستان کو بھی بم بنانے کی طرف راغب ہونا پڑا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا ۔ حالات نامساعد، دنیا کا دباﺅ، پابندیوں کی دھمکیاں وسائل کی نایابی کے باوجود پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیادوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا خون موجود ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو ایٹمی پروگرام سے باز ‘ دوسری صورت میں عبرتناک انجام سے دوچار ہونے کیلئے تیار رہنے کی تنبیہ کی تھی۔ بھٹو کا ایٹمی پروگرام کے حوالے سے برملا موقف تھا ‘ کھاس کھا لیں گے ایٹم بم ضرور بنائیں گے اور پھر پاکستان کا ایٹم بم بنا اور پاکستان ہمیشہ کیلئے اپنے بدترین دشمن کے ناپاک مقاصد کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا۔ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔
 پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں جس اہلکار نے ایک پن لگائی، جن حکام نے انجینئرز کےلئے آسانی پیدا کی، حکمرانوں نے تعاون کیا وہ ہمارے ہیرو ہیں اور سب سے بڑھ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں شبانہ روز محنت کی وہ پاکستان کے محسن ہیں۔ پاکستانی قوم ان کی تہہ دل سے شکر گزار ہے جبکہ کچھ کردار محسن کش ثابت ہوئے ہیں۔ بھارت نے ایٹم بم بنانے کے انعام میں ڈاکٹر عبدالکلام کو صدر کے منصب پر لا بٹھایا جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قید اور رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
میاں نوازشریف نااہلی کی زد میں آئے تو انہیں ایک بار پھر اور تیسری بار وزارت عظمیٰ کی آئینی مدت ادھوری چھوڑنا پڑی۔ وہ شکوہ کناں ہیں کہ 70 سال میں کسی وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ ایک طرف کسی وزیراعظم نے پانچ سال کی مدت پوری نہیں کی، دوسری طرف جنرل ایوب، جنرل محمد ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف دس دس سال صدر رہے۔ سول صدور کی بات کی جائے تو فاروق لغاری اور رفیق تارڑ بھی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے تھے البتہ آصف علی زرداری اور ممنون حسین مدت پوری کرنے میں سرخرو رہے۔ صدر ممنون حسین اگلے ماہ ستمبر 2018ءمیں آئینی مدت کی تکمیل پر منصب صدارت سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ ممنون حسین کو مسلم لیگ ن نے نامزد کیا۔ سیاسی حوالے سے ان کا جھکاﺅ غیر جانبداری کے دعوﺅں کے باوجود تعینات کرنیوالی پارٹی کی طرف رہا۔ اخلاقی طورپر ایسا ہونا بھی چاہئے تھا۔ اپنے کئی اقدامات اور سوچ کے حوالے سے انہیں درویش صدر کہا جا سکتا ہے۔ اپریل 2016ءمیں پاناما کا ہنگامہ برپا ہوا تو انہوں نے اسے اللہ کی طرف سے آیا ہوا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب کرپٹ لوگوں میں سے کوئی ایک ماہ میں کوئی دو ماہ کوئی چھ مہینے اور سال میں اپنے انجام سے دوچار ہوگا۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا پاکستان 8ہزار روپے کا مقروض ہوگیا۔ عوام حکمرانوں سے پوچھیںنہ کوئی ڈیم بنا نہ بڑا منصوبہ، پھر یہ پیسے کدھر گئے۔ وہ کرپشن کو لعنت سمجھتے ہیں۔ انہیں کرپٹ چہروں پر نحوست نظر آتی ہے جس کا اظہار اپنے بیان میں کر چکے ہیں۔ آئین میں ترامیم کی بھرمار کے بعد صدر کا کردار علامتی رہ گیا ہے مگر اس منصب کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ ممنون حسین اگلی مدت کیلئے بھی صدر رہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ ان کے نام پر اتفاق رائے اور قانونی طریقے سے انتخاب آسانی سے ہو سکتا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں حکومت میں آنیوالی پارٹی تحریک انصاف اگر ممنون حسین کو تبدیل کرنا چاہتی ہے جو اس کا حق اور اختیار ہے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہترین متبادل ہو سکتے ہیں ملک و قوم پر احسانات ان پر یہ منصب نچھاور کرنے کے متقاضی ہیں۔

متعلقہ خبریں