پریشانیوں سے نجات۔۔۔۔صوفی برکت علی کی یاد

ریس کورس میں پھولوں کی نمائش لگی تھی، رنگ رنگ کے پھول جداگانہ خوشبوئیں بکھیر رہے تھے، یہ نمائش ہمیشہ کی طرح ایک حسین منظر نامہ ہوتا ہے، اس دوران رش ایسا کہ پورے شہر کا پارک میں امڈ آنے کا گماں گزرتا ہے۔ عموماً یہ نمائش ہفتہ بھر چلتی ہے۔ اس کا اہتمام سال میں دوبار نومبر اور مارچ میں کیا جاتا ہے۔ جیلانی پارک ریس کورس میں اچھا واکنگ ٹریک ہے۔ شام کو واک کے دوران نمائش کو بھی دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں پھولوں کی مصنوعی کیاریوں، ڈھیروں اور مختلف شکلوں میں سجائے پھولوں کی پارک سے گزر رہا تھا۔رنگ برنگے پھولوں، اِرد گرد کے ماحول میں بسی خوشبوﺅں ، برقی قمقموں اور رنگ برنگی روشنیوں سے پارک کایہ حصہ واقعی رنگ نور اور خوشبوﺅں میں نہایا ہوا تھا۔اسی دوران سپیکر پر اعلان ہوا،”میرا پرس گر گیا ہے جس میں ضروری کارڈز اور 13سو روپے ہیں جسے ملے پرس میں موجود ایڈریس پر پہنچا دے۔ پیسوں کا مسئلہ نہیں اس میں کارڈز بڑے اہم ہیں۔ انکی گمشدگی پر پریشانی ہے یہاں تک اعلان روٹین کا تھا۔ اسکے آگے اس شخص نے کہا آپ لوگ ایک بار درود شریف پڑھ لیں:
”اللھم صلی علٰی محمد.... اللہ میری اور آپ کی پریشانی دور فرمائے“۔ یقین جانیں اس حسین فضا میں لگا کہ درود شریف کی خوشبو بھی شامل ہو گئی ہے۔ اسکے اگلے روز وٹس اَپ پر درود شریف کے حوالے سے ایک واقعہ پڑھا تو درود شریف کی تاثیر اور خوشبو دل اور روح تک اُترتی محسوس ہوئی۔
”ایک یہودی کسی مسلمان کا پڑوسی تھا۔ ان میں اچھی علیک سلیک تھی۔ مسلمان کی عادت تھی اس یہودی سمیت ہر ملنے والے سے یہ جملہ کہتا۔ ”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے دعا قبول، مراد پوری اور ہر پریشانی دور ہوتی ہے ۔یہودی کو اس قول سے چِڑ سی ہوگئی۔
اس نے نیک سیرت مسلمان کو رسوا اور ”درود شریف“ کی تاثیر پر اسکے یقین کو کمزور کرنے کی سازش تیار کی۔یہودی نے ایک ہیروں والی مہنگی انگوٹھی خریدی اور مسلمان کے پاس چلاآیا۔اسے کہا کہ وہ سفر پر جا رہا ہے اور وہ قیمتی انگوٹھی امانت کے طور پر اسکے پاس رکھنا چاہتا ہے۔مسلمان نے انگوٹھی پکڑ کر درود کی فضیلت والا اپنے فقرہ دہرایا اور درود پڑھتے ہوئے انگوٹھی دوسرے کمرے میں جاکر اپنی اہلیہ کے حوالے کردی۔ رات کو بدنیت یہودی نے مسلمان کے گھر سے انگوٹھی چوری کرلی اور اگلے روز سمندری سفر پر روانہ اور گہرے سمندر میں انگوٹھی پھینک دی۔ چند دن بعدیہودی واپس آیا اورسیدھا مسلمان کے پاس گیا، جاتے ہی اپنی انگوٹھی طلب کی۔ مسلمان نے کہا آپ اطمینان سے بیٹھیں آج درود شریف کی برکت سے میں صبح دعا کر کے شکار کےلئے نکلا تھا تو مجھے ایک بڑی مچھلی ہاتھ لگ گئی۔ آپ سفر سے آئے ہیں وہ مچھلی کھا کر جائیں۔ مسلمان کی بیوی اس وقت مچھلی صاف کررہی تھی ۔وہ اچانک زور سے چیخی۔ میاں بھاگ کر گیا تو بیوی نے بتایا کہ مچھلی کے پیٹ سے سونے کی انگوٹھی نکلی ہے اور یہ بالکل ویسی ہے جیسی ہم نے اپنے یہودی پڑوسی کی انگوٹھی امانت رکھی تھی۔ دونوں نے جلدی سے اس جگہ جاکردیکھا جہاں یہودی کی انگوٹھی رکھی تھی۔ انگوٹھی وہاں موجود نہیں تھی۔ وہ درود پڑھتے ہوئے مچھلی کے پیٹ والی انگوٹھی یہودی کے پاس لے آیا اور آتے ہی کہا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے دعا ئیں،قبول حاجات پوری اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔
یہودی کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔کانپتے ہونٹوں سے پوچھا: انگوٹھی کہاں سے ملی؟ مسلمان نے کہا۔ جہاں ہم نے رکھی تھی وہاں ابھی دیکھی وہاں تو نہیں ملی مگر جو مچھلی آج شکار کی اسکے پیٹ سے ملی ہے۔ معاملہ مجھے بھی سمجھ نہیں ا ٓرہا مگر الحمد للہ آپ کی امانت آپ کو پہنچی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے پریشانی سے بچا لیا۔ بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے ہر دعاءقبول مراد پوری اور ہرپریشانی دور ہوتی ہے۔ یہ سن کر یہودی کانپتا رہا پھر بلک بلک کر رونے لگا اور وہیںاسکے ہاتھ پرکلمہ پڑھ کر چوری اور مسلمان کی درود شریف سے اعتقاد ختم کرانے کی سازش کا اعتراف کرتے ہوئے مسلمان ہوگیا۔
آجکل میاں نوازشریف کو حد درجہ پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں سکون کی تلاش میں انسان کو سہاروں کی تلاش ہوتی ہے۔ میاں نوزشریف گزشتہ دنوں مریم نواز کے ساتھ صوفی برکت علی لدھیانوی کے مرقد پر حاضر ہوئے۔ یہ خبر دیکھی تو میں ماضی میں کئی سال پیچھے چلا گیا۔ صوفی برکت علی جنوری 1997ءکو دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ میں ان دنوں جناب ادیب جادوانی کے ماہنامہ مون ڈائجسٹ میں انٹرویو نگار تھا۔ صوفی صاحب کی قل خوانی والے دن ادیب جادوانی مجھے اور فوٹو گرافر نعیم کو ساتھ لے گئے، وہاں صوفی صاحب کے عقیدت مندوں کا جم غفیر تھا۔ ان میں سے کئی لوگوں کے خیالات ریکارڈ کئے۔
صوفی برکت علی لدھیانوی کے کچھ معتمدخاص بھی ملے انہوں نے بتایا کہ میاں نوازشریف صوفی صاحب کی خدمت میں عموماًحاضر ہوا کرتے تھے۔ نوے کے انتخابات ہو رہے تھے۔ میاں صاحب دارالاحسان آئے اور اپنا مدعا بیان کیا، اس پر صوفی برکت علی اور ان دوسرے درویش ساتھی بابا صمد کھڑے ہو گئے اور ایک دائرے میں جھومنے کے انداز میں گھومنے لگے،شاید اسی کورقص درویش کہتے ہیں۔ جھومتے اور گھومتے ہوئے کہتے رہے ”اپنی منوا کے رہیںگے۔“ تھوڑی دیر بعد دونوں درویش بیٹھ گئے۔صوفی صاحب نے میاں نوازشریف کو تھپکی اور وزیراعظم بننے کی مبارکباد دی۔ جب صوفی صاحب کا انتقال ہوا تو میاں نوازشریف وہاں نہیں گئے تھے۔ بتایا گیا کہ 96ءکی انتخابی مہم میں میاں نوازشریف دالو وال(فیصل آباد کے مغرب میں سمندری روڈ پر) کے آئے مگر صوفی صاحب سے ملنے کی شاید فرصت نہیں تھی۔ میاں نوازشریف نے اچھا کیا کہ اب سے پھر بابا جی کے ساتھ رابطہ قائم کر لیاہے۔ یہ رابطہ بحال رہنے سے میاں صاحب کے مسائل کم ہوسکتے جبکہ درود شریف تو پریشانیوں کے خاتمے کا مجرب نسخہ ہے۔ میاں نوازشریف یہ بھی ضرور دیکھنے کی کوشش کریں کہ ان سے دانستہ یا نادانستہ کیا کوتاہیاں سرزد ہوئیں کہ ان کو عہدے کی منتہیٰ سے نااہلی کی پستی میں گرنا پڑا اور جیل بھی نظر آ رہی ہے۔ کبھی ہمارے ملک میں جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی تھی، شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کا فیصلہ کیا تو اس پر سٹے لے لیا گیا۔ ممتاز قادری کو پھانسی دینے میں عجلت کا مظاہرہ کیا، ایک دو سال سے یوم اقبال کی چھٹی ختم کرا دی گئی۔ حلف نامے میں تبدیلی ہو گئی۔ہمارا یقین ہے کہ : ع
”نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“
شاید کوئی مرِد مومن میاں صاحب کی مشکلات کامداوا کر دے۔