متحدہ عرب امارات کی رونقیں اور ہم

متحدہ عرب امارات کی ریاستوں میں دن رات کا کوئی فرق نہیں۔ روشنیوں میں نہائے ہوئے شہروں میں رات بھر ٹریفک چلتی ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات و رسومات جہاں موجود غیر ملکی اپنے اپنے کلچر کے مطابق ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کے بحران کے باعث رات دس بجے تقریبات کا خاتمہ ضروری ہے ۔ امارات میں بجلی کی کمی نہیں اس نے ہوٹلوں اور گھروں میں تقریبات رات گئے بلکہ صبح تک جاری رہتی ہیں۔ ہم لوگ تین دن تو مہندی بارات اور ولیمے میں مصروف رہے ۔یہ تقریبات رات کو تھیں دن میں کچھ وقت گھومنے کو مل جاتا تھا۔ آخری دو روز العین میں چڑیا گھر کی معلوماتی وزٹ کی اور ابوظہبی میں مسجد شیخ زاید اور ان کے مرقد کو دیکھنے کا موقع ملا۔ العین کا چڑیا گھر یورپین ایسوسی ایشن آف زوز کا ممبر ہے۔ یہ ایسوسی ایشن آپس میں جانوروں کا تبادلہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر ارشد طوسی اس چڑیا گھر کے میڈیکل شعبہ کے ہیڈ ہیں۔ انہوں نے 9سو ہیکٹر پر مشتمل اور سفاری کے اہم حصوں کے بارے میں گراں قدر معلومات سے آگاہ کیا ۔ چڑیا گھر تو نام ہے یہ جگہ کسی میوزیم سے کم نہیں۔ العین اور ابو ظہبی بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ شیخ زاید کی قبر پر جانے اور باہر سے فوٹو گرافی کرنےکی بھی اجازت نہیں ۔مسجد کی وزٹ نان مسلم بڑی تعداد میں کرتے ہیں۔ اس دوران خواتین کا سر ڈھانپا ضروری ہے اور اس پر سختی سے عمل کرایا جاتا ہے۔ اس روز ابو ظہبی میں فالکن (عقاب) ہسپتال جانے کا پروگرام تھا وہ بوجوہ اگلے دن پر موخر ہوا جبکہ اگلے روز واپسی تھی۔ ابو ظہبی میں میری سب سے زیادہ دلچسپی مودی کے مندر میں تھی۔ سنا تھا اس کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔ میں مندر کی سائٹ دیکھنا چاہتا تھا۔ گوگل میں اس کی لوکیشن نہیں آ رہی تھی پوچھنے پر اس سائٹ کی کئی لوگوں نے نشاندہی کی ۔رسول خان ڈرائیور کیساتھ ساٹھ کلو میٹر کا سفر کیا۔ ریگستان میں مودی کا کہیں مندر نہ مل سکا۔ اسکی زمین خریدی جا چکی ہے۔ مودی اس جگہ کا دورہ کر چکے ہیں ۔چالاک مودی کو چکمہ بھی نہیں دیا جا سکتا ۔ بات سات میں سے ابتدائی دنوں کی ہو رہی تھی۔اس دوران برج الخلیفہ جانے کا پروگرام بنا ۔ ایک کلو میٹر اونچا ٹاور اور دبئی مال آمنے سامنے ہیں۔ جہاں میٹرو ٹرین کے ذریعے گئے، میٹرو ٹرین میں ہزاروں لوگ بیک وقت سوار ہوتے ہیں۔ کئی بوگیوں کی ایک ہی بوگی ہے، اس میں ڈرائیور کا تکلف نہیں کیا گیا۔ دومونھی کی طرح دونوں سائیڈز یعنی آگے پیچھے سسٹم (انجن)ہے، سٹیشن فل اے سی، شہباز بھی یہ تجربہ کر رہے ہیں۔ امارات ملٹی کلچر سوسائٹی اور ملٹی لینگویج ملک ہے۔ اسکی ایک اپنی زبان تخلیق ہو رہی ہے۔ پاکستانی مذہبی حوالے سے مطمئن ہیں، نماز مذہبی فریضے کے ساتھ ایک پختہ کلچر کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ دبئی مال میں طاہر نے اپنے شعبے کے حوالے سے کچھ معلومات حاصل کرنی اور خریداری کرنی تھی۔ ایپل کے شو روم قسم کے سٹور میں گئے تو اسی روز ایک گھنٹے کا موبائل آئی فون سے تصویریں بنانے کی ٹیکنیک سے آگاہی کا سنشم ہونا تھا۔ اس کی رجسٹریشن کرائی ،اس سیشن میں طاہر اور میرے علاوہ کراچی سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان عدنان تھا۔ یہ سیشن دو گھنٹے پر محیط ہو گیا۔ برج خلیفہ کو ایک سنیپ میں سمیٹنا نا ممکن ہے مگر اس سٹیشن کے بعد آئی فون سے پورے ٹاور کی تصویریں بن گئیں۔ سامنے 180ڈگری کی تصویر بھی لی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر طوسی سے بات کی تو وہ پہلے سے اس ٹیکنیک سے آگاہ تھے۔ آپ سامنے اور عقب کا پورا منظر ایک تصویر میں کور کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست پر امارات میں بات ہوتی ہے ۔ ٹی وی پر سارے چینل چلتے ہیں۔ چینل کی ٹیوننگ سے گھر والوں کی سیاسی وابستگی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ میاں نواز شریف کے ہمدرد موجود ہیں۔ عمران خان کو پسند کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ زرداری صاحب کی چالاکیوں کی باتیں ضرور ہوتی ہیں مگر ایک بھی حامی ہمدرد اور جیالا سونگھنے کو بھی نہیں ملتا۔ کرپشن کے خلاف ساری مخلوق ہے مگر اکثر احتساب کو مشروط کر دیتے ہیں۔ غیر ممالک میں بلا شبہ وطن سے محبت کے جذبات زیادہ امڈتے ہیں۔ یہی حال امارات میں موجود پاکستانیوں کی وطن سے محبت کا ہے۔امارات کے شہروں میں فلک بوس عمارات زمین سے اُگی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ہوٹلوں کا کوئی شمار قطار نہیں ، ریسٹورنٹ ہیں ہر ملک کے کھانے دستیاب ہیں۔ نئی سے نئی گاڑی سڑکوں پر رواں دواں نظر آتی ہے۔ بہت سے لوگ یہاں سے کما کر اپنے ممالک بھیجتے ہیں۔ بہت سے ممالک کے امیر زادے یہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اپنے ملک سے ٹیکس بچا کر اور آمدن چھپا کر امارات اور یورپ کے ممالک میں چھپاتے ہیں۔ امارات سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کیلئے بھی جنت ہے۔ امارات کو محنت اور لگن سے شیخ زید نے پوری دنیا کا مرکز بنا دیا۔ جہاں ایسا کچھ بھی انوکھا نہیں جو پاکستان میں نہ ہو۔ دبئی میں ڈیزرٹ اور دبئی سفاری سے حکومت کروڑوں ڈالر سالانہ کماتی ہے۔پاکستان میں یہ صلاحیت اور ٹیلنٹ انتہائی زیادہ ہے۔ وسائل ہیں کہ لامحدود ہیں صرف مینیج کرنے کی ضرورت ہے، امارات میں بہت کچھ خود ساختہ ہے پاکستان میں پہاڑ، جھلیں سبزہ زار، ریگزار اور جنگلات نیچرل ہیں اور باعث کشش ہیں۔ یو ای اے میں کشادہ اور ہموار سڑکیں کہ آپ آرام سے 100کلو میٹر پر جاتی گاڑی میں چائے پی سکتے ہیں۔ اس امیر ریاست میں سوائے ایک دو ریاستوں میں تیل کی کم پیداوار کے کوئی فرق نہیں۔ سرمایہ کاری کیلئے حالات اطمینان بخش ہیں۔ ٹورازم معیشت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں اگر تیل نکلتا ہے جس کی پیداوار کم ہو رہی ہے، ہمارے پہاڑوں میں سونا موجود ہے۔ ایسا پتھر ٹنوں کے حساب سے ہے جس کی فی تولہ قیمت چھ لاکھ ہے۔ لاتعداد اور بے شمار وسائل جن سے شاید ہی دنیا کا کوئی ملک معمور ہو۔ پاکستان صرف نمک کی برآمدات سے چالیس ارب ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔ پاکستان سیاحوں کیلئے بھی جنت ہے من کے کالوں نے اسے جہنم زار بنا دیا ہے۔ اس سب کے باوجود ہم لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت تو ہے اور اسی جمہوریت کے ثمرات سے ہر پاکستانی صحت تعلیم اور روزگار اور اپنا گھر ہونے کی صورت میں مستفید ہو رہا ہے۔ جہاں امارات میں مقامی عربی لوگ جمہوریت کے ثمر آور شجر کے سائے سے محروم ہیں جس کا رس ہمیں شہد سے بھی میٹھا لگتا ہے۔ جمہوریت کے ثمرات سے مستفیدہونے والے پاکستانیوں ، بھارتیوں اور بنگالیوں کے دماغ میں جمہوریت کا کیڑا کلبلاتا ہے تو وہ عربوں کو بھی جمہوریت لانے پر اکساتے اور جوتے کھاتے ہیں۔ وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت تو کیا ان کے بارے میں کوئی منفی بات بھی سننا گوارہ نہیں کرتے۔ حکمرانوں کے سامنے شاید اس ارشاد کا خوف ہے کہ تم میں سے ہر کسی سے اس کی رعیت بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پوری ریاست میں جہاں کہیں چھوٹی سے چھوٹی آبادی ہے حتیٰ کہ ایک بھی گھر ہے، وہاں بھی زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں ۔ اجاڑ بیاباں صحراؤں میں کلب قائم کئے گئے ہیں، تعلیم اور صحت کی سہولیات فری ہیں، بچوں کی یونیفارم کتابیں ریاست فراہم کرتی ہے۔ ہر بچے کیلئے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت موجود ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی آمد زیادہ ہوئی، تحقیق پر پتہ چلا کہ لوگ نیٹ کمپیوٹر اور جدید سہولیات کے باعث سہل پسند ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو گھروں سے پارکوں اور شاپنگ سنٹرز تک لانے کیلئے منسٹری آف ہیپی نیس قائم کردی گئی۔ واک مارکیٹ اوردیرا دبئی میں واٹر فرنٹ مارکیٹس بنا دی گئیں، جہاں فری وائی فائی فری ہےاور پارکنگ ذرا فاصلے پر بنائی گئی ہے تاکہ لوگ پیدل چلیں۔ وزارت خوشی سے قبل وزارت رواداری اور وزارت برداشت بھی امارات میں تشکیل دی جا چکی ہے۔ دبئی میں پشیا ناول کے تلیقا کار شبیر بٹ سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ لندن جاتے ہوئے دبئی میں رکے تھے ۔ پاکستان میں تو ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ دبئی میں انہوں نے شام کو کھانے پر بلایا۔ اس روز عارف علوی کا ولیمہ تھا۔ میری درخواست پر شبیر بٹ وہیں چلے آئے اور کھانے کے بعد ہمیں دیرا دبئی لے گئے۔ ادھر دیرا دبئی دوسری طرف بار دبئی عرف عام میں اسے پار دبئی کہتے۔ درمیان میں سمندر کی ڈیڑھ دو کلو میٹر چوڑی سمندر کی پٹی ہے۔ ایک کشتی میں بیس افراد بیٹھ سکتے ہیں، کرایہ ایک درہم ہے۔ رات بارہ بجے بھی لوگ آر پار جا رہے تھے۔ ہم نے بھی یہ سفر کیا۔ رات کو بھی پانچ منٹ میں کشتی بھر گئی۔ اسی سمندر کی پٹی میں سی سفاری ہوتی ہے، بڑی کشتیوں میں کھانے کے پیکج کے ساتھ بیس25کلو میٹر خوبصورتی سے سجی کشتیوں میں لوگ سفر کرتے ہیں۔ حکمرانوں کی سخاوت اور رویوں کے اثرات ان کی رعایا پر بھی نظر آتے ہیں۔ شبیر بٹ بیس بائیس سال دبئی میں، دس بارہ سال سے برطانیہ میں ہیں۔ وہ ایک بیوہ کے کرایہ دار تھے۔ ان کے ساتھ نو دیگر کرایہ دار بھی رہتے تھے۔ یہ گھر سرکاری سکیم میں آ گیا، بوڑھی بیوہ اپنے مرحوم بیٹے کے دو بیٹوں یعنی پوتوں کے ساتھ رہتی تھی۔ حکومت نے مارکیٹ ریٹ سے تین گنا خاتون کو ادا کرکے العین میں ایک ولا بھی دیدیا وہ خوشی خوشی ولا میں منتقل ہو گئی۔ اس کا گھر ایک سال بعد گرایا گیا اس دوران کرائے دار وہاں رہے۔ بٹ صاحب کی ذمہ داری دیگر کرایہ داروں سے وصولی کرنا بھی تھا جس کے معاوضے کے طور پر ان کا کرایہ ایک ہزار درہم فری کر دیا۔ ایک بار خاتون اپنا وہ گھر دیکھنے آئی جو حکومت نے خرید لیا تھا۔ ان دنوں بٹ صاحب فیملی کو بھی دبئی میں اسی گھر میں لا چکے تھے۔’’ماما‘‘ نے دیکھا تو کہا کہ ساتھ والے مکان کا کرایہ ہر ماہ اپنی اہلیہ کو دیدیا کرو۔ ہماری حکمران اشرافیہ بھی بیوائوں کا خیال کرتی ہے مگر سلیکٹو کا ہر کسی کا نہیں جبکہ ضرورت ہر ضرورت مند کے سر پر ہاتھ رکھنے کی ہے۔ ہمارے ہاں بھکاری بھی بیماری ہیں مگر یہ بیماری اشرافیہ کی لگائی ہوئی، عدل کی بڑی باتیں ہوتی ہیں عدل یہ نہیں کہ آپ سینکڑوں کنال اور ایکڑز کی رہائش گاہوں اور فارم ہائوسز میں رہیں جبکہ کروڑوں پاکستانیوں کے پاس سر کی چھت بھی نہ ہو اور دعوے کریں 21کروڑ کی نمائندگی کے۔ امارات کے حکمرانوں اور ان کی رعایا سے سیکھنے کی کوشش کریں جہاں امارات کے حکمران رعایا کا اولاد کی طرح خیال رکھتے ہیں وہیں بغاوت کے جراثیم کے خاتمے کا علاج بھی کرتے ہیں۔ میٹرو ٹرین میں دو نوجوان باتیں کر رہے تھے کہ قطر کیساتھ عربوں کے تعلقات بگڑے تو جمعہ کے خطبے کے آخر میں اعلان ہوتا کہ قطر کی حمایت میں بولنے پر دس سال قید، پچاس ہزار درہم جرمانہ ہوگا۔امارات میں کھانے اور گاڑیاں سوچنے سے بھی زیادہ، ارزاں ہیں جبکہ ٹیکسی اور گھروں کے کرائے ہوشربا ہیں۔ آخر میں یہ بھی واضح کر دوں کہ دبئی صرف پیسے والے لوگ ہی نہیں جا سکتے آپ بھی آسانی سے جا سکتے ہیں۔ دو ماہ قبل ٹکٹ بک کرائیں تو ریٹرن ٹکٹ بیس ہزار میں مل سکتا ہے۔ ایک ماہ کے ویزے کی فیس دس ہزار ہے۔ آپ تیس ہزار کی ایسی اشیاء خرید کر پاکستان میں ڈبل ریٹ پر فروخت کر سکتے ہیں جن کی درآمد پر پابندی نہیں۔