مسیحا اور مسیحائی

2018 ,مئی 6



صوفی برکت علی لدھیانوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صاحب کشف بزرگ تھے۔ ان سے کچھ کرامات بھی منسوب ہیں۔ اس حوالے سے ایک واقعہ ڈاکٹر عظمت الرحمن نے بھی سنایا۔ صوفی برکت علی لدھیانوی کے کشف کرامات کوئی تسلیم کرتا ہے کوئی انکار کرتا ہے مگر انکے تقوے کے معیار کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جو فیصل آباد سے آئے اور دو نوجوانوں نے 2017ء میں ایک انٹرویو کے دوران بیان کیا تھا۔ ’’ہم یہاں حاضری کیلئے آتے ہوئے چائے لے کر آیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ساتھ تین چار کباب بھی لے آئے۔ بابا جی نے چائے مجلس میں موجود شرکاء کو پلانے کو کہا جبکہ کباب ایک طرف رکھ لئے اور جاتے ہوئے گھر لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم واپس آنے لگے تو بابا جی سے ملنے گھر چلے گئے۔ وہ روٹی کھا رہے تھے۔ انہوں نے شاملِ طعام ہونے کی دعوت دی تو سعادت سمجھ کر ہم ساتھ بیٹھ گئے۔ پیالے میں وہی کباب پانی میں مکس کئے ہوئے تھے۔ ایک نوالا لگا کر کھایا تو اس قدر بدذائقہ کہ بمشکل ایک لقمہ حلق سے اتر سکا۔
ڈاکٹر عظمت الرحمن کا سنایا واقعہ حیران کن ہے۔ ڈاکٹر عظمت لاہور کے سرگنگارام، جنرل اور گھرکی ہسپتال کے ایم ایس رہ چکے ہیں۔ شہنشاہ ایران اور شاہی خاندان کے سرکاری معالج بھی رہے۔ اس واقعہ کے عینی شاہد اور راوی انکے دوست پروفیسر ڈاکٹر حامد شیخ ہیں جو پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ اپلائیڈ سائیکالوجی کے ہیڈ رہے۔ واقعہ کے مطابق ایک خاتون اپنے بیٹے کو لے کر صوفی صاحب کے ہاں حاضر ہوئی۔ اسکی کسی وجہ سے بینائی جاتی رہی تھی۔ خاتون نے بینائی بحال کرانے کی بڑی منت سماجت اور گریہ زاری کی۔ آخرکار بابا جی نے ایک معاون سے اسکی آنکھوں میں ڈراپ ڈال کر پٹی باندھنے کی ہدایت کی اور آٹھ دس دن پٹی کھولے بغیر لانے کو کہا۔ لڑکا وہاں آیا تو کئی لوگ انہونی دیکھنے کیلئے جمع ہو چکے تھے۔ پٹی کھولی گئی تو نوجوان کی بینائی بحال ہو چکی تھی۔
عظمت الرحمن بتاتے ہیں کہ ان کی اور حامد شیخ کی سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ آگے پیچھے تھی۔ دونوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد دولت کمانے کیلئے کوئی کاروبار کرنے کا مشورہ کیا۔ دالوں کی صفائی اور پیکنگ کے بزنس پر اتفاق ہو گیا۔ اسکے چند ماہ بعد پھر دونوں ڈاکٹر اکٹھے ہوئے۔ بزنس پر بات ہوئی۔ ایک نے پوچھا ہم یہ کاروبار کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا دولت کمانے کیلئے۔ دولت کما کر کیا کریں گے؟ اس سوال پر دونوں لاجواب ہوئے تو بزنس کی پلاننگ وہیں دم توڑ گئی۔ اگر یہی بزنس وہ نو پرافٹ نو لاس پر کرتے تو کئی لوگوں کو روزگار ملتا اور ایک وسیع طبقے کو صاف ستھری دالیں بھی میسر آتیں۔علامہ خادم رضوی ایک ملاقات کے دوران پاکستان کے دو لت کے انباروں پر بیٹھے اور مزید دولت کے خبط میں مبتلا اشرافیہ کی بابت پوچھ رہے تھے کہ ان لوگوں نے اتنی دولت کا کیا کرنا ہے؟ ہمارے ہاں زیادہ دولت شاید جیل جانے اور جیل کی زندگی آسودہ بنانے کیلئے جمع کی جاتی ہے۔ ایک طرف دولت کے انبار اور ان پر سانپ بنے بیٹھے ساہوکار نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بھوک ننگ سے سسکتی انسانیت ہے جو دو وقت کی روٹی اور دو پیسے کی میڈیسن کو بھی ترستی ہے۔
صوفی برکت علی لدھیانوی کے پاس نابینا بچے کو لے جانے والی خاتون ہو سکتا ہے کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی سکت ہی نہ رکھتی ہو۔ کچھ لوگ شاید اسے بابا جی کی کرامت ماننے پر تیار نہ ہوں۔ گزشتہ ایک کالم میں میاں نواز شریف کی صوفی لدھیانوی کے ہاں حاضری اور ان کو قبل از وقت وزیراعظم بننے کی مبارک باد کا واقعہ بیان کیا تھا۔ اس سے انکار کرنے والے بھی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے نواز شریف وہاں نہ جاتے تو بھی وزیراعظم بن جاتے۔ تاہم کرامات پر یقین رکھنے والا ایک طبقہ موجود ہے۔ اسے ان کے ایمان کی کمزوری یا پختہ عقیدگی کہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ لوگ اپنے روحانی مسائل کے حل کے علاوہ جسمانی عوارض سے نجات کیلئے بھی پیروں فقیروں‘ جوگیوں اور جوتشیوں کے پاس جاتے ہیں۔کئی کو افاقہ اور بہت سوں کے ساتھ فراڈ بھی ہوتا ہے۔ کسی کے عقیدے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی لیکن حکومت کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی کیلئے اپنی ذمہ داری ضرور پوری کرنی چاہئے۔
آج پورے ملک میں سرکاری ہسپتال مریضوں کی تعداد اور ضرورت کے مطابق نہیں ہیں۔ ان ہسپتالوں میں بلاشبہ کوالیفائیڈ ڈاکٹرز اور عملہ تعینات ہے‘ ان کی فنی تربیت میں کوئی کمی اور کجی نہیں ہے مگر اکثر اخلاقی تربیت سے عاری ہیں۔ سب سے زیادہ اخراجات ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر آتے ہیں اور شاید آمدن بھی ڈاکٹرز کی معاشرے میں سب سے زیادہ ہے۔ جائز طریقے سے کمائی میں کوئی حرج‘ قطعاً کوئی قباحت نہیں ہے مگر مریضوں کا اپنی دکانداری کیلئے خون نچوڑ لینا انسانیت سے دشمنی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مطلوبہ سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث پرائیویٹ ہسپتالوں کی چاندی ہو رہی ہے۔ پرائیویٹ شعبے میں اکثر ڈاکٹر اور ان کے مالکان جلاد کا روپ دھار چکے ہیں۔ دل کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر آن ڈیوٹی بھی پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں۔
ہمارے کولیگ منیر احمد مادر ملت کے نام سے ایک یادگار ہسپتال میں تین دن داخل رہے۔ کمرے کے کرائے سمیت بل 35 ہزار بن گیا۔ ڈاکٹر ایک بار معائنے کی 2 ہزار فیس لیتا ہے۔ منیر کا بخار نہیں جاتا تھا اس لئے پرائیویٹ ہسپتال چلے گئے۔ بل دیکھا تو تاپ جاتا رہا، پچھتا رہے ہیں کہ پہلے دن بل بنوا لیتے۔
2010ء سے قبل اپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 8 فیصد تھی۔ اب پرائیویٹ ہسپتالوں میں 90 فیصد بچے بڑے اپریشن سے پیدا ہوتے ہیں۔ دس فیصد نارمل زچگی اس لئے ہوتی ہے کہ عملے کی اپریشن کی تیاریوں سے قبل پیدائش ہو جاتی ہے۔ کسی بھی مرض میں اپریشن آخری آپشن ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں پیشہ ورانہ بددیانتی سے اپریشن کو پہلا آپشن قرار دیا جاتا ہے۔ دل کا مرض ہو‘ زچگی ہو یا کوئی معاملہ ڈاکٹر زبردستی نہیں کرتے مگر ڈراکر خوفزدہ کر کے واردات کرتے ہیں۔ ’’مریض بم پر بیٹھا ہے تاخیر ہوئی تو جان جا سکتی ہے‘‘۔ مریض کے لواحقین اپنے عزیز کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے‘ جائیدادیں بیچ دیتے ہیں، عزیز کو بچانے کے لئے کنگال ہو جاتے مگر اکثر ڈاکٹر ڈرامہ بازی کرتے ہیں اور یہ نوٹنکی پرائیویٹ ہسپتالوں میں زیادہ ہوتی ہے مگر پارسائی‘ مسیحائی اور انسانیت کی خدمت کے سب دعویدار ہیں۔ پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتالوں کے مابین بھی ’’مسیحائی‘‘ کے مضبوط رابطے ہیں۔ انسانیت کے خدمتگار مریض کو مخصوص لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ وہ جو ٹیسٹ کرتے ہیں اسے بیسن ٹیسٹ کا خود نام دیا ہوا ہے۔ خون لیں گے‘ اسے بیسن میں پھینک کر ڈاکٹر کی مرضی کی رپورٹ دیتے ہیں۔ ایسے ٹیسٹوں میں ڈاکٹر کا 60 فیصد تک بھی کمیشن ہوتا ہے۔ اُبکائی کی صورت میں دس روپے کی ٹیبلٹ سے افاقہ ہو سکتا ہے۔ بڑے لوگ بڑے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے اپینڈیکس پھٹ گیا ہے‘ ڈیڑھ لاکھ میں اپریشن ہو جائے گا۔ ایک گھنٹے میں آپریشن کے نام پر ایک چیرا دے کر سی دیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں دل کے 90 فیصد اپریشن بلاضرورت ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر جائز طریقے سے بھی یہ کمائی سکتے ہیں۔ مریضوں کی تعداد بڑھا لیں کمائی اتنی رہے گی۔ والیوم بڑھا لیں ویلیو کم ہو جائے گی۔ مریض کے اخراجات بھی کم ہوں گے۔ 

متعلقہ خبریں