سلمان خان کالا ہرن.... اور

2018 ,اپریل 11



نایاب ہوتے پرندوں اور جانوروں کے شکار پر ہر ملک میں پابندی ہے مگر شکاری ایسی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتے، کچھ اپنا شوق پورا کرنے کیلئے اور کچھ روٹی روزگار کیلئے شکار کرتے ہیں۔ کالا ہرن کی نسل پاکستان کی طرح بھارت میں بھی ختم ہورہی تھی اور اسکے شکار پر پابندی عائد تھی ہمارے ہاں تو کالے ہرن کا بالکل صفایا ہوگیا تھا۔ امریکہ سے ایک جوڑا درآمد کرکے اسکی نسل کَشی کی جارہی ہے۔ اب اسکی لال سہانڑہ پارک بہاولپور میں تعداد سو سے اوپر ہے جبکہ وائلڈ لائف کے پاکستان میں دیگر مراکز میں بھی کالے ہرن اور چنکارہ کی افزائش اطمینان بخش طریقے سے جاری ہے۔ 
ہندوستان میں کسی دور میں کالے ہرن کی بہتات تھی، دو سو سال قبل چالیس لاکھ ہرن ہندوستان میں قلانچیں بھرا کرتے تھے۔بیماریوں اور شکاریوں کے ہتھے چڑھتے چڑھتے یہ تعدادتقسیم کے موقع پر دو لاکھ رہ گئی۔80 کی دہائی میں مزید کم ہوکر 40 ہزار ہوئی تو حکومت نے اسکے شکار پر سختی سے پابندی لگا دی مگر نسل پھر بھی نایاب ہوتی گئی اور یہ تعداد سات ہزار رہ گئی۔ یہ وہی دن تھے جب بھارتی فلمی ہیرو سلمان خان اپنے ساتھی فنکاروں سیف علی خان، تبو، سونالی باندرے اور نیلم کے ساتھ شوٹنگ کےلئے راجستھان گئے تو انکے سر پر کالے ہرن کے شکار کا بھوت سوار ہوگیا۔خان نے دوہرن پھڑکا کر خوب داد لی۔یہ شکار فارم ہاﺅس میں کیا گیا۔متعلقہ محکمے والے اس سے بے خبر تھے،ان کو علم ہوتا تو بچنے کے ناقابلِ گرفت گُر بتا دیتے۔ ہندوو¿ں کا بشنوئی فرقہ ہرنوں کی پوجا کرتاہے ،اسی فرقے کے لوگوں نے مقدمہ درج کرایا تھاجس پر دس دن بعد خان گرفتار ہوئے۔ اس کیس میں تین چشم دید گواہ تھے جن میں ایک ساگر بشنوئی بھی تھا۔
بھارتی حکومت اس جانور کے تحفظ کیلئے سنجیدہ ہوتی تو ایسے مقدمات کا فیصلہ دنوں میں ہوجاتا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ایسے کئی مقدمات اب بھی زیر التوا ہیں جو سلمان خان کے شکار کے مقدمے سے قبل کے ہیں۔ بیس سال بعد سلمان خان کے مقدمے میں پانچ سال کی سزا سنا کر فلمی حلقوں میں طوفان اٹھا دیا گیا۔ اس شکار کیس میں سلمان خان پر دو مقدمات تھے۔ ایک تو ممنوعہ جانور کے شکار کا دوسرا غیر قانونی گن رکھنے کا جس سے شکار کیاگیا۔گن لائسنس والی ہوتی تو شکار ہونیوالے ہرن کو شاید کم تکلیف ہوتی یا وہ زندہ بچ جاتا، اس کیس میں بھی فلمی ہیرو کو پانچ سال قید ہوئی جو احتجاج ہونے پر ختم کردی گئی تھی۔
آج جب سلمان خان کو سزا سنائی گئی ہے تو بھارت میں کالے ہرن کی بہتات ہے اسکی تعداد لاکھ سے اوپر ہے۔ یہی فیصلہ شکار کے فوراً بعد کردیا جاتا تو اسکی کچھ معنویت اور افادیت ہوتی۔فلمی ہیروز کو اگر کاغذی ہیروز کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، یہ سکرپٹ کے ہیرو ہوتے ہیں ۔عام زندگی میں عموماً مٹی کے مادھو ثابت ہوئے۔ ہمارے سلطان راہی فلموں میں اکیلے 50 لوگوں کو ڈھیر کردیتے تھے مگر ڈاکوﺅں کے یا ”ساتھیوں“ کے ہتھے چڑھے تو ایک سے دو تک نہ گن سکے۔ ان کا قتل اندھا قتل ثابت ہوا، کیس کا لاینحل رہناپولیس کی انتہائی نالائقی کا ثبوت یا پھر کسی بڑے دباﺅ کا شاخسانہ ہے۔سلمان خان بھی فلمی ہیرو ہے شوخی میں ہرن تو پھڑکا دیا مگر عدالت میں جا کرشکارہی سے انکار کر دیا۔ گویا ہرن فلمی قافلے کے دیدار کو آیا اور ہیرو کے قدموںمیں آکر جان دیدی۔ بندوق کے غیر قانونی ہونے سے انکار کیا۔ اس کو لکڑی کی بندوق بھی کہہ سکتے تھے جو انکے پڑدادا کو سلطان حیدر علی نے تحفے میں دی تھی۔ ہمارے اعجاز الحق پر سرعام کلاشنکوف لہرانے کا مقصد درج ہوا تو جالندھری جرنیل کے پُت کو بچانے کیلئے فوج متحرک ہوئی۔” ماہرین“ کے کہنے پر اعجاز الحق نے عدالت میں ”یہ اصل نہیں پلاسٹک کی کھلونا گن تھی“ کہہ کر جان بچائی۔سلمان کیس میں سرکاری وکیل چھ سال کی سزا کا مطالبہ کررہا تھا شاید جج بریت پر آمادہ تھاجبکہ خان کے وکیل نے تین سال سے کم کی سزاپر اصرارکیا۔شنید ہے سزا سننے کے بعد اسی وکیل نے فوری طور پر دس ہزار جرمانے کی معافی کی درخواست کی تھی۔
ہیرو کی شان نہیںکہ سزا سے بچنے کیلئے جھوٹ بھی بولے مگر سزا پھر بھی ہو گئی اور پھرہیرو کوجیل کی ہوا اور روٹی بھی غیرانسانی محسوس ہوئی۔ دوسری ہندوآنہ سوچ بھی سوا نیزے پر نظر آئی جس کے تحت بیس سال بعداس ملک میں ہرن کو مارنے پر پانچ سال سزا دے دی گئی جس ملک میں انسانوں کو ہر ماہ سینکڑوں کی تعداد میں بے دردی سے ذبح کر دیا جاتا ہے مگر ایسے قاتلوں کو سزا تو درکنار شدت پسند اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ شدت پسند ایک گروہ اور طبقہ نہیں پوری بھارتی حکومت، اسکے وزراءاور وزیراعظم سمیت پورا مافیا ہے۔ 
کئی شکاری پورے ہرن کو اور اکثر اس کا سر حنوط کر کے اڑتالیس انچ تک لمبے سینگوں کو اپنے ڈرائنگ رومز کی زینت بناتے ہیں۔ اسکی کھال سے قیمتی مصنوعات بنتی ہیں اور اسکی ناف سے کستوری بھی نکلتی ہے۔ گوشت دیگر برآمدات کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ تاہم پاکستان کی سرزمین سے کالے اور چنکارا ہرن کا وجود گوشت کے شوق نے لاوجود کر دیا تھا۔ بڑے لوگ وائلڈ لائف کے اہلکاروں سے مل کر شادی بیاہوں پر ہرنوں کا گوشت پیش کیاکرتے تھے۔ 
آج پاکستان میں ہرنوں کی افزائش کےلئے وائلڈ لائف والے سرگرم ہیں تو ان سے زیادہ اس کاز کےلئے ابوظہبی کی حکومت کوشاں ہے۔ اس صحرائی و جنگلی حیات کے تحفظ کےلئے انٹرنیشنل فنڈ فار ہوبارہ کنزویشن قائم کررکھا ہے۔ یہ بنیادی طور پر تلور کی بریڈنگ اور ریلیزنگ کےلئے ہے مگر دیگر صحرائی و جنگلی حیات کےلئے بھی کام کرتا ہے۔ اس فنڈ کے چیئرمین ابوظہبی کے ولی عہد الشیخ محمد بن زایدالنہیان ہیں۔پاکستان میں بہاولپور میں 64 مربع کلومیٹر کا ایریا کالے اور چنکارہ ہرن کی افزائش کیلئے مختص کیا گیا ہے جہاں سینکڑوں ہرنوں کو قدرتی ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ رحیم یار خان میں پچاس ہزار ایکڑ پرمشتمل ایریا آہنی باڑ سے کور کیا گیا ہے‘ جہاں ہزاروں ہرن پل بڑھ رہے ہیں۔ ان دو علاقوں میں ہرن تو کیا کسی بھی جانور اور پرندے کے شکار کی قطعی اجازت نہیں۔ رحیم یار خان میں اس ایریا سے الگ جبکہ بہاولپور لال سہانڑہ پارک میں ہرنوں کے اسی مسکن کوتلور ریلیز مرکزکے طور پر بھی استعمال کیا جاتاہے۔ ان پوائنٹس پر تلور کےلئے دوستانہ فضا کے باعث دیگر کئی پرندے بھی آ جاتے ہیں۔ بہاولپور میں تو ایسے پرندے بھی آ گئے جو پاکستان میں موجود ہی نہیں ہیں۔وائلڈ لائف کی ٹیم نے معمول کے سروے کے دورا ن 15بھکر دیکھے یہ تلور کی ایک نایاب نسل ہے۔ بھارت میں بھکروں کی تعداد دوسو سے زیادہ نہیں ۔ بھکر نسل کے تلور بھارت سے پاکستان موافق ہوا اور فضا کے باعث چلے آئے۔ 
مجھے گزشتہ دنوں دبئی جانے کا اتفاق ہوا تو ابوظہبی میں تلورکی بریڈنگ کےلئے قائم سنٹرز بارے معلومات کےلئے ابوظہبی بھی جانا ہوا جہاں سے ہوبارہ فنڈ سے وابستہ کرِس کیرنگٹن اور علی شمسی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ تلور کی بریڈنگ کے دو سنٹر ابوظہبی‘ ایک مراکش اور ایک تاجکستان میں ہے۔ انکے مطابق انٹرنیشنل فنڈ فار ہوبارہ کا تلور کے شکار سے کوئی تعلق نہیں ان کا کام صرف تلور کی پیدائش افزائش اور ریلیزنگ ہے۔ وہ یہ سب شیخ زاید کے دنیا بھر میں نایاب پرندوں اور جانوروں کے تحفظ کے وژن کے تحت کر رہے ہیں۔ تلور کی نسل کم ہو رہی تھی جس میں بتدریج پہلے دھیرے اور اب تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔1996ءمیں تمام سنٹرز سے 15 تلور پیدا ہوئے۔ 2000ءمیں یہ تعداد 446 تھی۔ 2010ءمیں 19 ہزار جبکہ گزشتہ سال 2017ءتک 59294 ہو گئی۔ اسی طرح 1998ءمیں 2 تلور آزاد فضا میں چھوڑے گئے۔ 2000ءمیں تعداد 40 ‘ 2010 ءمیں 13379 اور گزشتہ سال پاکستان سمیت پوری دنیا میں 45619 ریلیز کئے گئے۔

متعلقہ خبریں