جونیجو دورجیسی سادگی؟

آمریت کے سائے میں چند سال محمد خان جونیجو بھی وزیراعظم رہے ہیں۔ وہ سادگی‘ انکساری اور متانت کے باعث بھی یاد رکھے جاتے ہیں۔ انہیں کوئی درویش وزیراعظم‘ کوئی ’’جتی ستی‘‘ کوئی مرنجان مرنج اور کوئی ملنگ وزیراعظم کہتا تھا۔ سندھ میں سائیں آپ جناب‘ اور حضور سرکار کے معانی میں مستعمل ہے۔ پنجابی میں سائیں فقیر فُقرے‘ غریب‘ غربے اور اللہ لوک کوبھی کہتے ہیں۔ سائیں لوک ملنگ قسم کے آدمی کیلئے بولا جاتا ہے۔ محمد خان جونیجو کچھ ایسے ہی وزیراعظم تھے۔ لگتا تھا، ایسے وضعدار وزیراعظم کا جنرل ضیاء الحق سے نبھا قیامت تک ہو سکتا ہے۔ ضیاء الحق نے قیامت تک تو صدر نہیں رہنا تھا‘ البتہ وہ تاحیات با وردی صدر کل اختیار بمع 58 ٹو بی کی تلوار کے ساتھ اقتدار میں رہنے کی پلاننگ کئے بیٹھے تھے۔
سیدھے سادے نظر آنیوالے سندھی ’’مانوں‘‘ نے وزیراعظم بنتے ہی ’’مارشل لاء اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ‘‘ بیان دیکر اپنے محسن و مربی کو چوکنا کر دیا۔ پھر واقعی جرنیل صدرکو مارشل لاء اٹھانا پڑا مگر 58 ٹو بی کی تلوار نیام میں نہ ڈالی جو نہ صرف جنرل ضیاء نے بلکہ انکے جا نشین غلام اسحاق خان نے بھی ایک نہیں دو بار استعمال کی۔جنرل ضیاء کو مولا نے 58 ٹو بی کے وارکی صرف ایک مرتبہ مہلت دی۔ اسکے چند دن بعد وہ شاید اپنی دعا ’’میری زندگی نوازشریف کو لگ جائے‘‘ قبول ہونے کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے ۔
ضیاء الحق نے یہ دعا سرراہ دی تھی۔ دل میں شاید یہ سوچ رکھتے ہوں کہ ایسی دعا جس کو دی جاتی اسکی ’’منجی‘‘ کے سات پھیرے لینے سے ہی پوری ہوتی ہے۔ بہرحال میاں صاحب کچھ اپنی اور کچھ ضیاء الحق کی زندگی، کبھی آسائشوں سے معمور اور کبھی اپنوں سے دور جیل اور جلاوطنی میں گزارتے چلے آرہے ہیں۔جونیجو کے بیان سے شاید ضیاء کے دل میں جمہوریت اور جونیجو بارے میل آنے لگی۔ مردِ مومن نے ایک مرتبہ سیاستدانوں کا یہ کہہ کر مضحکہ اڑایا ۔ ’’میں اشارہ کروں تو سیاستدان دم ہلاتے چلے آئیں۔‘‘ اس کا جواب وقت آنے پرشاہ احمد نورانی نے دیا تھا۔
افغانستان سے سوویٹ یونین کوچ کر رہا تھا،جنیوا میں روسی فوجوں کے انخلاء کے حوالے سے معاہدہ ہونا تھا۔ ضیاء الحق معاہدے کے مخالف تھے۔ سوویٹ یونین بچے ہوئے سنگ سمیٹ کر واپس جانا چاہتا تھا۔ ضیاء کی خواہش تھی جنگوں میں بھارت کا ساتھ دینے والے سوویٹ یونین کا ’’ککھ‘‘ نہ رہے۔ کابینہ کی میٹنگ جاری تھی کہ جنرل ضیاء اچانک آدھمکے۔ انکے اس طرح آنے سے وزیراعظم اور کابینہ ششدر رہ گئی۔ جمہوری حکومت میں فوج کے نمائندہ اور طاقتور وزیر ملک نسیم احمد آہیر کہتے ہیں، جنرل صاحب نے کھڑے کھڑے وزیرخارجہ برائے مملکت زین نورانی کو مخاطب کرکے پنجابی میں موٹی سی گالی دیتے ہوئے کہا ’’معاہدہ کرکے آئے تو قوم تیری بوٹیاں نوچ لے گی۔‘‘ جنرل یہ کہہ اور اجلاس میں سراسیمگی پھیلا کر چل دیئے۔ جونیجو معاہدے کا ارادہ کر چکے تھے اور یہ فیصلہ انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر کیا تھا۔ اس میں اپوزیشن کے بینظیر بھٹو سمیت سرکردہ رہنما شامل تھے۔ اسی اجلاس میں شاہ احمد نورانی نے کہا تھا۔’’ جونیجو صاحب کنوئیں سے پانی کے ڈول نہیں کتا نکالیں‘‘۔ اس پر وزیراعظم کے خاموش رہنے سے جنرل کے دل میں ایک اور گانٹھ پڑ گئی۔
آج یہ دعویٰ کرنیوالے‘ ہم اقتدار کی نہیں‘ اقدار کی سیاست کرتے ہیں‘ انکے وزیراعظم کو برطرف کر دیا گیا‘ مگروہ بدستور وزیراعلیٰ رہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ نسیم آہیر ہی بتاتے ہیں کہ چین‘ کوریا اور فلپائن کے دورے پر وزیراعظم جونیجو کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب بھی گئے تھے۔ وہاں صدر کوری اکینو نے اپنے جرنیلوں کی طرف سے حکومتی معاملات میں مداخلت کی بات کی تو جونیجو نے پاکستان میں ایسی ہی صورتحال کا تذکرہ کرتے کہا، ’’اب جا کے سب ٹھیک کردونگا۔‘‘ وہاں یہ بات بھی ہوئی کہ یکم جون سے بجٹ سیشن ہو رہا ہے‘ اس دوران جنرل ضیاء کو برطرف، جنرل حمید گل اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کا کورٹ مارشل کیا جائیگا۔ یہ ایکشن شایداوجڑی کیمپ کی تباہی کے الزام پر لیا جانا تھا۔ کہا جاتا ہے وزیراعلیٰ پنجاب نے صدر صاحب کو فون کرکے ان کیخلاف ہونے والی ’’سازش‘‘ یا پلاننگ سے آگاہ کر دیا جس پر جنرل ضیاء الحق نے اسی طرح جہاز میں محمد خان جونیجو کو برطرف کردیا جس طرح میاں نوازشریف نے آرمی چیف جنرل مشرف کو کیا تھا۔
محمد خان جونیجو نے ایک مرتبہ تقریر لکھوانے کیلئے لاہور سے ایک بڑے دانشور کو وزیراعظم ہائوس بلوایا۔ یہ ’’بڑے‘‘ ہوکر میاں نوازشریف کے درباریوں کے امام بنے۔ وہ کہتے ہیں،مجھے دیکھ کر وزیراعظم ہائوس کے ملازمین کے چہرے کھلے ہوئے اور وہ چہک رہے تھے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا ، جب سے جونیجو صاحب وزیراعظم بنے‘ یہاں دال ہی پکتی ہے۔ آپ مہمان خاص ہیں‘ جب تک یہاں رہیں گے گوشت پکے گا۔
جونیجواورمرحوم مجید نظامی میں دوستی تھی‘ جونیجو نے نظامی صاحب کو دعوت پر گھر بلایا۔ اس دعوت میں صرف دال اور روٹی تھی۔
جونیجو نے فضول اخراجات کم کرنے کی کوشش کی۔ سادگی کو اصول بنایا۔ پہلے اقدام کے طورپر اپنے اور صدر سمیت تمام عہدیداروں سے بڑی اور لگژری گاڑیاں واپس لیکر ہزار سی سی بلکہ سوزوکی گاڑیاں استعمال کرنے کی ہدایت کی۔ بڑی گاڑیاں نیلام کر دی گئیں۔ آج عمران خان کی بلٹ اور بم پروف گاڑیوں کی نیلامی پر کڑی نظر ہے۔ جونیجو دور میں گاڑیاں کیا نیلام ہوئیں جو بندر بانٹ اور اندھے کے ریوڑیاں بانٹنے کے مصداق کارروائی تھی جس سے ہنڈا ‘سوکس یا پجارو واپس لی گئی وہ اسکی طرف سے نامزد بولی دہندہ کو آدھی سے بھی کم میں دیدی گئی۔ اس افسر کو نئی کلٹس قسم کی گاڑی دی گئی جو ڈیڑھ دو سال میں کھڑک جانے سے اعلیٰ افسر کے شایان شان نئی گاڑی کی متقاضی تھی۔ سرکاری گاڑی کوافسرانِ اعلیٰ اور اہلکارانِ ادنیٰ سائیکل برابر سمجھتے ہیں۔ بڑے افسروں کو چھوٹی گاڑیوں میں وزیراعظم کے انتظامی حکم پر لابٹھایا گیا تھا۔ اِدھرجونیجو حکومت ختم ہوئی‘ اُدھر اعلیٰ عہدیداروں نے بڑی گاڑیوں کا تقاضا کیا‘ جن سے تقاضا کیا‘ انکے بھی چھوٹی گاڑیوں کے استعمال سے ’’پاسے‘‘ دُکھ رہے تھے۔ چونکہ چھوٹی گاڑیوں کے استعمال کے حوالے سے قانون سازی نہیںکی گئی تھی چنانچہ بڑی اور لگژری گاڑیوںکے فلیٹ در فلیٹ خریدے گئے۔ جونیجو کی وہ سادگی مہم قوم کو دُگنا مہنگی پڑ گئی۔ عمران حکومت کا بڑے عہدیداروں کیلئے ایک گاڑی کا فیصلہ قابل ستائش ہے‘ اسکی افادیت قانون سازی سے ہی مسلمہ ہو سکتی ہے۔جونیجو سے جو خلا رہ گیا تھا کپتان وہ نہ رہنے دیں۔