علامہ اقبال اور عشق رسول ﷺ

حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم عین ایمان ہے۔ قرآن کریم کی کئی آیات اور متعدد احادیث مبارکہ سے اطاعت و اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت و فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :کہہ دو، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو،اللہ تم سے محبت کریگا اور تمھارے گناہوں کو بخشے گا۔ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔( آل عمران)۔ متعدد حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا گیاہے۔ بخاری و مسلم کی مشہور حدیث ہے:تم میں سے کوئی ایمان میں اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری محبت اسکے دل میں اسکے باپ، بیٹے اورتمام انسانوں سے بڑھ کر راسخ نہ ہو جائے۔
قرآن کریم کی انہی آیات اور سیرت پاک کے گہرے مطالعہ نے علامہ اقبال کو ایک سچا عاشق رسول بنا دیا۔ ایک ایسا عاشق رسول کہ اسم ’محمدؐ‘ سنتے ہی جس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے اور دل بے تاب و بے قرار ہو جاتا۔ فقیر سید وحید الدین ’’روزگار فقیر‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ڈاکٹر صاحب کا دل عشق رسول نے گداز کر رکھا تھا۔ زندگی کے آخری زمانے میں تو یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بندھ جاتی تھی اور وہ کئی منٹ تک مکمل سکوت اختیار کر لیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں۔ ‘‘
علامہ اقبال کی نظروں میں عشق ہی حاصل دنیا و دین ہے اور اس کا سرچشمہ وہ ذات اقدس ہے جس کے طفیل سارے عالم کی تخلیق ہوئی اور جس کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے۔ علامہ اقبال کا حب رسولؐ اس کمال عہ پہنچا ہوا ہے کہ بسا اوقات فرط جذبات سے مغلوب ہو کر وہ اپنی اور مسلمانان عالم کی بے بسی و بے کسی کی فریاد براہ راست رحمت للعالمین کے حضور کرنے لگتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے روبرو تشریف فرما ہیں اور علامہ آپؐ سے دستگیری اور فریاد رسی کی التجا کر رہے ہیں۔
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایمان زناری
کرم اے شہہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تونے عطا کیا ہے جنھیںدماغ قلندری
علامہ اقبال نے سنت رسول کی پیروی کو اپنا شیوۂ حیات بنا لیا تھا۔ محمد حسنین سید نے مولانا مودودی کے حوالے سے اپنی کتاب ’جوہر اقبال‘ میں ایک عجیب اور بصیرت افروز واقعہ بیان کیا ہے جس سے علامہ اقبال کے جذبہ شوق و اطاعت رسولؐ کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کیلئے اقبال اور سر فضل حسین اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں انکے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال نے اپنے کمرے میں آرام کرنے کیلئے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر، اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً انکے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسولؐ پاک کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہمیں یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سو کر زندگی گذار دی تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور ہچکی بندھ گئی۔ اسی بستر پر لیٹنا ان کیلئے ناممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے، اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا، اور ایک چارپائی اسی غسل خانے میں بچھوائی۔ جب تک وہاں مقیم رہے ، غسل خانے ہی میں سوئے۔ الغرض علامہ اقبال کی زندگی اور انکی شاعری محبت رسولؐ کے جذبے سے معمور ہے۔ ذات محمدی تک رسائی کو ہی وہ سراپا دین قرار دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ سب کچھ انکی نظروں میں بو لہبی اور بے دینی ہے۔
عاشقان رسولؐ میں غازی علم الدین بلند مرتبت ہستیوں میں شامل ہیں۔ اس دور میں انکے جنازہ میں لاکھوں لوگ دور دراز سے شامل ہوئے علامہ اقبال بھی ان میں شامل تھے۔ علامہ نے اسی موقع پر فرمایا… ’’آج ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا‘‘۔ پیر جماعت علی شاہ غازی علم الدین کا آخری دیدار کرنے لگے تو فرمایا ’’اسکے پاؤں سے کپڑا ہٹایا جائے۔ آپ نے انکے پاؤں پر بوسا دیا۔ انکے پاؤں پر بوسا دینے کا بھی ایک پس منظر ہے۔ جیل میں غازی علم کے پہریداروں میں ایک نواب دین تھا اس نے پیرانہ سالی کے دنوں میں رنگ محل لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران کہا: ایک روز غازی علم الدین اپنے سیل سے غائب ہو گیا جس پر افراتفری پھیل گئی، انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ تاہم تھوڑی دیر بعد وہ وہیں پر موجود تھا۔ افسروں نے غائب ہونے کی وجہ پوچھی، جواب تھا کیا باہر سے تالا کھلا یا ٹوٹا یا دیوار میں کوئی نقب لگا ہوا ہے؟ تاہم نواب دین نے اسے نبیؐ کا واسطہ دے کر پوچھا تو غازی نے بتایا کہ حضرت علیؓ انہیں نبی کریمؐ کی بارگاہ میں لے گئے۔ رسولؐ خدا نے میری پیشانی پر بوسہ دیا اور واپس بھجوا دیا۔ پیر جماعت علی شاہ نے فرمایا پیشانی پر میرے آقاؐ نے بوسہ دیا غلام غازی کے پاؤں پر ہی بوسہ دے سکتا ہے۔ جب روحانیت کی بات ہوتی ہے تو میانوالی کے مجذوب کا واقعہ بھی سامنے آتا ہے۔ وہ زندگی بھر نہیں بولا تھا۔ ایک روز بازار میں جھاڑو کرتے اور یارسول اللہؐ کے نعرے لگانے لگا۔ یہ وہ دن تھا جب غازی علم الدین کو لاہور سے میانوالی جیل منتقل کیا جانا تھا۔ مجذوب انکے استقبال کی تیاری کر رہا تھا، اسکے ساتھ ہی کہا ایک شہر میں دو عاشق نہیں رہ سکتے، ادھر غازی کی سواری پہنچی ادھر وہ مجذوب راہی ملک عدم ہو گیا۔
دنیا میں بہت کچھ بدل گیا مگر عاشقان رسولؐ کی تاجدار ختم نبوت کے ساتھ جذباتی وابستگی اور ناموس رسالت پر جاں نچھاور کرنے کے جذبے میں کمی نہیں آئی۔ کسی نہ کسی صورت میں راج پال آتے رہے۔ ان کو غازی بھی ملتے رہے اور تاقیامت یہ سلسلہ ختم ہونیوالا نہیں۔