پارلیمانی نظام کی ’’برکات‘‘

2019 ,اپریل 13



ہمیں اپنے اردگرد، برادری اور خاندان میں سیاست گریز کے ساتھ ساتھ سیاست سے نابلد لوگ بھی نظر آتے ہیں۔بعض ایسے بھی ہیں جن کو سیاست تو کیا زندگی کے عمومی معاملات سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ناخواندہ اور نیم خواندہ کوئی طعنہ اور مہنا نہیں ہے، عقل و دانش ڈگری ہولڈرز کی میراث نہیں، کم تعلیم یافتہ افراد بھی دانش کے راہوار ہو سکتے ہیں۔اکبر اعظم چٹا ان پڑھ تھا، اس نے پچاس سال سے زیادہ عرصہ بادشاہت کی۔ بہر صورت تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔اگر وہ پڑھا لکھا ہوتا تو شاید دین الٰہی جیسی خرافات کی تخلیق سے باز رہتا اور اس کا طویل دورِاقتدار زریں اورمثالی ہوتا۔ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت کے حسن کے لشکارے ووٹ کے حق سے نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان علم ودانش،تعلیم، سائنس ،سیاست اور ادب میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ دنیا و مافیہا سے بے نیاز و لاتعلق فرد کا ووٹ بھی ڈاکٹر صاحب کے ووٹ کے برابر ہے۔ہماری جمہوریت کا حسیں چہرہ ایسے ووٹرز کے حسن انتخاب سے مزید نکھر جاتا ہے جب منتخب ہونے والوں کی اہلیت و قابلیت پر نظر پڑتی ہے۔ گزشتہ دنوں نائب قاصد کی ملازمت کیلئے اشتہار میں پرائمری تعلیم کی شرط تھی،مگر جن لوگوں نے قانون سازی کرنی ہے،ان کیلئے تعلیم کی کوئی قید نہیں بلکہ جو کبھی تھی وہ بھی ختم کر دی گئی ہے ، شایدان کو اکبر بادشاہ کی طرح رول ماڈل مان لیا گیا ہے۔

جن معاشروں سے ہم نے جمہوریت کی نقالی کی وہاں ووٹر اورعوامی نمائندے کیلئے تعلیم کی کوئی قید نہیں‘ کیا وہ اور ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں؟ نہیں! وہاں کسی بھی فرد کے ناخواندہ ہونے کا تصورہی نہیں ہے۔قانون سازی کیلئے قانون سازوںو قانون کی بنیادی جزئیات سے ہی آگاہ نہیں اس شعبے میں ماہر ہونا ضروری ہے۔ ہر قانون ساز آئین سازی کا اہل ہو۔ اسمبلی اور سینٹ کے خواستگاروں اور انکو اس درجہ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ پہنچانے والوں کا عموماً یہ مطمحِ نظر نہیں رہا۔

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مراعات‘ اختیارات‘ فنڈز‘ عہدوں اور سٹیٹس میں اتنی کشش ہے کہ جسے اس جنت میں داخل ہونے کی موہوم سی امید بھی ہو تو وہ سارے گُر آزماتا اور وسائل جھونک دیتا ہے۔ مشیر وزیر ، کمیٹیوں کے سربراہ، جیلوں سے پروڈکشن آرڈر کے یہی لوگ حقدار قرار پاتے ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم تک پارلیمان سے لیے جاتے ہیں۔ قانون سازوں کیلئے قانون سازی کی اہلیت تک کی شرط نہیں رکھی گئی، بلکہ بھاری اکثریت کو قانون سازی کے سوا بہت کچھ آتا ہے۔ حتیٰ کہ نااہل ہو جائیں تو نااہلی کواہلیت میں بدلنے کے بھی دائو پیچ جانتے ہیں۔ آئین اور قانون کی روح کو سمجھنے والے کتنے ہوں گے؟ ایوان بالا اور زیریں کے فاضل ارکان کی اصل ذمہ داری قانون سازی ہے مگر ایوان میں قدم رکھنے سے قبل ہی عہدوں کیلئے جوڑ توڑ شروع ہو جاتا ہے اور پھر انتخابات پر اخراجات لاکھوں کروڑوں سے بڑھ کر اربوں روپے میں ہوتے ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینا اور جیت جانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں‘ خواہ کتنا ہی بڑا سائنس دان، کسی شعبے کا ماہر اور قانون پر مکمل دسترس رکھنے والا حتیٰ کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ لوگ جن کا ووٹ ڈاکٹر قدیر خان، چودھری اعتزاز احسن جیسے شہ دماغوں کے ووٹ کے برابر ہے انہوں نے افتخار محمد چودھری کو قانون سازی کے قابل نہ سمجھا۔ پارلیمنٹ میں جانیوالے چنیدہ اکابرین ملک و قوم کی خدمت کے دعویدار اس عظیم مقصد کیلئے عہدوں کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ذاتی حیثیت میں یہ جذبہ ماند ہی رہتا ہے۔ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آنیوالی پارٹی کو کبھی دیگر پارٹیوں اور گروپوں اور آزاد امیدواروں کی ضرورت پڑے تو وزارتوں کی سودے بازی ہوتی ہے ، فنڈ کی بات ہوتی ہے۔وزیر و مشیر بنا بنے اور فنڈز کے بغیر کیا قوم و ملک کی خدمت نہیں ہو سکتی؟ فنڈز اپنے اپنے علاقے میں ترقیاتی، کاموں جبکہ عہدے اپنے حلقے کے لوگوں کے کام نکلوانے، ملازمتیں دلانے ، تھانے کچہریوں پر اثرانداز ہونے اور رعب و دبدبے کیلئے ضروری سمجھے جاتے ہیں تاکہ آئندہ بھی حلقہ پکا رہے۔ پیرس جیسا پاکستان کا کوئی علاقہ نہیں ہے تاہم عوامی نمائندے پیرس بنانے کے وعدے اور دعوے ضرور کرتے ہیں۔ ایم پی ایز ، ایم این ایز اور وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ منصب تک پہنچنے والے بھی حلقے کے لوگوں کو ایسا ہی تاثر دیتے ہیں حالانکہ انکا اصل کام اور فرض قانون سازی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ انہی میں سے وزیر اور مشیر رکھنے کے پابند ہے۔ علاقے کے ترقیاتی کام کرانا بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

نظام کوئی بھی برا نہیں ہوتا‘ جن کے ہاتھوں میں یہ نظام ہے‘ وہ کیسے لوگ ہیں‘ یہ دیکھا جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام مفاد پرستوں بلکہ بقول میجر ندیر ڈاکوئوں اور لٹیروں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ اس مخلوق کی وجہ پارلیمانی نظامِ حکومت کی یہی قباحت ہے ، ارکانِ پارلیمان نے گلیاں نالیاں سڑکیں بنوانا ہوتی ہیں جسکے باعث وہ اپنے اصل فرائض قانون سازی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ یہ سسٹم کی خرابی ہے۔ جمہوریت کی ہرگز نہیں۔ آج پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کی بات ہو رہی ہے تو پارلیمانی نظام میں درآنیوالی خرافات اور خرابات کے باعث ہی ہو رہی ہے۔ صدارتی نظام میں سربراہِ مملکت وزیر مشیر پارلیمنٹ سے لینے کا پابند نہیں ہوتا وہ ملک کے اعلیٰ دماغوں کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے بہترین نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ صدارتی نظام میں پارلیمنٹرین صرف قانون سازی کرتے ہیں اور سربراہ مملکت کو یرغمال بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہتے۔

متعلقہ خبریں