توہین، تحسین، تسکین!۔

2018 ,فروری 4



الگور فلوریڈا میں 2000ءمیں چند سو ووٹ پنچ کرنے میں مشینی غلطی کے باعث انتخاب ہار گئے۔ ان امریکی انتخابات میں جارج بش اور الگور کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا، فلوریڈا کی ریاست میں تو یہ حال تھا کہ شام آٹھ بجے تمام بڑے نیوز چینلز نے ایگزٹ پول کی بنیاد پر الگور کے کھاتے میں پچیس الیکٹورل ووٹ لکھ ڈالے تھے لیکن دس بجے کے قریب اصل نتائج کے بعد پتہ چلنا شروع ہوا کہ بش یہاں سے سبقت لے رہا ہے چنانچہ میڈیا نے فلوریڈا کے نتائج کو غیر حتمی کہنا شروع کر دیا، رات ڈھائی بجے جب پچاسی فیصد ووٹوں کا نتیجہ آ چکا تو بش کی سبقت ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی سو انہی نیوز چینلز نے بش کو فاتح قرار دے دیا مگر صبح ساڑھے چار بجے کے قریب جب باقی ماندہ ووٹوں کی گنتی ہوئی تو بش کی جیت کا مارجن فقط دو ہزار رہ گیا، الگور نے، جو بش کو انتخاب جیتنے کی مبارکباد دے چکا تھا، اپنی مبارکباد واپس لے لی۔ ایک مرحلے پر یہ فرق گھٹ کر تین سو رہ گیا ۔ریاست کے قانون کے مطابق ووٹوں کا فرق اب اس نہج پر آچکا تھا کہ وہ دوبارہ گنتی کی درخواست دے سکتے تھے۔ اس امریکی ریاست میں جارج ڈبلیو بش کے بھائی جیب بش گورنر تھے اور ڈیٹرایٹ میں ووٹ گننے والی 83 مشینیں نامعلوم وجوہ کی بنا پر خراب ہوگئی تھیں۔ یہ معاملہ فلوریڈا کی سپریم کورٹ تک پہنچا جس نے الگور کے حق میں فیصلہ دیا مگر بعد ازاں امریکی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس پرجارج بش امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس پرالگورنے کوئی واویلا نہ کیا، خاموشی اختیار کرنے کے بارے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا صدر بننے کی بجائے نظام کو بچانا میری ترجیح ہے۔
گو پاکستان امریکہ نہیں ہے مگر انسانی نفسیات اور ملکی مفاد تو ہر جگہ ایک جیسا ہے۔ آج پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوازم سوا نیزے پر ہے تو اس سے تھوڑا سا متاثر ہونے والوں کا اشتعال، غصہ اور جارحانہ رویہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ میاں نواز شریف اپنی نااہلیت کے فیصلے پر آپے سے باہر ہیں۔ وہ نااہلیت کے داغ کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور کے لئے ہجوم عاشقاں میں روانہ ہوئے تو جیسے جیسے ان کا قافلہ لاہور کی طرف بڑھتا گیا۔میاں صاحب کو غصہ چڑھتا گیا۔ کاررواں میںفاقہ مست اور ان کی نمائندگی کرنے والے بسیارخور اناج پرست زیادہ تھے ۔ میاں صاحب تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہے، ان سے زیادہ اداروں کے بارے میں بات کرنے کی حدود سے کون واقف ہو سکتا ہے، مگر انہوں نے پہلے فوج اور عدلیہ کو ایک ساتھ طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا۔ سعودی عرب کے دورے کے بعد صرف عدلیہ پر برس، رہے ہیں ۔ میاں صاحب عدلیہ کے خلاف لے جہاں پر چھوڑتے ہیں جانثاران اور وفاداران مرغ بادنما وہیں سے اٹھا کر آسمان تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہال ہاشمی سب پر سبقت لے گئے۔ اکشے کمار کے لہجے اور نانا پاٹیکر کی رنگت کیساتھ جسم و جاں میں پورا اشتعال لئے گویاہوئے۔ ”پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کیلئے زمین تنگ کردی جائے گی۔ حساب لینے والے کل ریٹائر ہو جائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنا دینگے۔ جنہوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں کان کھول کے سن لو! ہم نے چھوڑنا نہیں تم کو“۔ مخالفین کی ایسی توہین پر لیڈرتحسین کرتے اور تسکین پاتے ہیں۔ یہی ہماری سیاست کا عمومی رویہ ہے۔ مسلم لیگ ن نے نہال کو پارٹی سے نکالا اور سینٹ کی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایمانداری سے پارٹی قیادت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سینٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ آصف کرمانی نے یہ خلا پُر کرنے کے لئے آستینیں چڑھا لی تھیں مگر کسی کی تھپکی پر یا اپنی مرضی سے نہال نے استعفیٰ واپس لے لیا۔ نہال ہاشمی کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے توہین عدالت پر ایک ماہ قید، 50 ہزار جرمانے کی سزا سنا دی۔ مسلم لیگ ن ان سے اشتعال انگیز روئیے اور بیان پر لاتعلق ہونے کا اعلان کر چکی تھی مگر فیصلہ آنے پر بھڑک اٹھی ہے۔ مریم نواز شریف،رانا ثناءاللہ اور طلال چودھری سمیت دیگران کے سخت بیانات آئے۔ وہ لاتعلقی اور ڈسپلن کی خلاف ورزی کیا ڈرامہ تھی؟ 
طلال چودھری اور دانیال کو بھی سپریم کورٹ نے توہین عدالت میں طلب کیا ہے۔ اس پر مشرف‘ عمران اور دیگر کیخلاف کارروائی نہ کرنے کی دہائی دی جارہی ہے۔کیا ان لوگوںکا رویہ اور لب و لہجہ نہال ہاشمی جیسا ہے؟توہین عدالت میں سزا دینانہ دینایا نظرانداز کرنا عدالت کی صوابدید ہے۔
طلال چودھری نے جڑانوالہ میں جلسہ عام میں میاں نواز شریف کو کہا تھا ان ججوں کو وہاں سے اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ اس پر نوٹس ملا تو کہتے ہیں کہ لیڈر نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنی ہوتی ہے۔ میں نے عوام کے جذبات کے مطابق بات کی کوئی توہین نہیں کی۔طلال چودھری اور دانیال عزیز جو بھی عدلیہ کے بارے میں کہتے رہے ہیں۔عدالت کے روبرو اپنے بیانات دہرا کر ن لیگ کی قیادت اور حامیوں کے لئے ”رام“ بن سکتے ہیں۔ نہال ہاشمی تو معافی مانگ کر راون بن گئے ۔نااہلیت کی مدت کے تعین کے لئے سپریم کورٹ میں اپیلوں کی سماعت جاری ہے۔ اس پروزیراعظم خاقان عباسی کہتے ہیں کہ کسی کو ایک دن کوئی ساری زندگی کے لئے نااہل، عجیب فیصلے ہیں۔ خود میاں نواز شریف عین اس روز جب ان کی نااہلیت کی مدت تاحیات سے کم ہونے کی بحث ہو رہی تھی فرماتے ہیں مجھے الیکشن سے دور رکھنے کی ترکیبیں سوچی جا رہی ہیں، تاحیات نااہلی قبول نہیں کریں گے۔نااہلی کی مدت کے تعین میں شاید میاں نواز شریف کو سنجیدگی دکھانے پر کچھ ریلیف مل جائے۔ پہلے تو انہوں نے وکیل ہی نہیں بھیجا اگلے روز وکیل بھیج دیا۔ میاں نواز شریف نے 1956ءسے زیر التوا ایک کیس کا دلسوز واقعہ کراچی کے وکلا کو سنایا۔سپریم کورٹ اس کیس کو فوج کی طرف سے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کرنے کے کیس کے ساتھ ہی سن کر فیصلہ کردے تو اچھا ہے۔
میاں صاحب کے لئے سپریم کورٹ نے ایک گنجائش نکالی ہے۔ نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت سماعت شروع ہوئی تو ایک شہری کے وکیل ایڈووکیٹ کامران مرتضٰٰی نے کہا دلائل نہیں دے سکوں گا، کیونکہ نہال ہاشمی کی سزا پر ڈسٹرب ہوں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے آپ دلائل دیں۔ کامران مرتضٰی نے دلائل میں کہا توبہ کا تصور بھی موجود ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا نااہلی کے مقدمات میں توبہ گالیاں دے کر ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ غلطی کی معافی بھی پبلک ہونی چاہیے توبہ کرنے کا لوگوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے۔ اگر آپ شرمندہ ہیں تو عدالتی فیصلہ قبول کریں۔ کنڈکٹ سے ثابت کرنا ہوگا بددیانتی ایمانداری میں تبدیل ہوگئی ہے۔یقیناً میاں نوازشریف نے اس آپشن پر غور نہیں کرنا۔ وہ نااہلیت سے بچنے اور آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کےلئے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں۔ اس میں کامیابی ناممکن نہیں ہے۔ جہاں سب چلتا ہے ۔ سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی ایوان بالا میں بھی اکثریت ہو جائے گی اور قانون موم کی ناک بنے نظر آئیں گے۔ نامی گرامی وکلاءکی اکثریت انکے ساتھ عدالت کے پھٹے چک چکے ہیں۔ یہ عمل دہرایا جا سکتا ہے۔ مگر مشورہ یہ ے کہ کچھ عرصہ انتظار کریں، کوئی صدقہ ؒخیرات دیں اللہ کے سامنے توبہ کریں۔ آسائش سے زندگی گزارنے کی دولت پاس رکھ کر باقی قائداعظم کی طرح قوم کے نام کر دیں تو بحالی خود قدموں میں آ سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں