صدارتی نظام، متناسب نمائندگی

صدارتی نظام کی بات کرنے والوں پر پارلیمانی نظام کے لیے جاں سوزی دکھانے کے لیے کوشاں کچھ دانشور شترکینہ توزی کو مات کر رہے ہیں۔ دلائل بے روح کے انبوہ لگا رہے ہیں۔ پلٹ کر جھپٹ رہے ہیں۔ منہ سے کف اڑ رہی، زباں انگارے اُگل رہی ہے،تسلسلِِ سیاپاسے حلق خشک اور اشتعال سے تالو ابھر رہے ہیں۔ اونٹ کینہ پور پرور اور پرلے درجے کا غصیلہ بھی ہے جس سے بگڑ جائے اسے معاف نہیں کرتا۔ کچھ عرصہ قبل شدید گرمیوں میں راجستھان کا اڑجارام اونٹ کو دھوپ سے چھائوں میں لے جانا بھول گیا۔ شام کو یاد آیا، کفِ افسوس ملتا سائے میں لے جانے لگا تو اونٹ نے گردن دبوچ کر پٹخا اور ٹانگوں سے دھنائی کر دی۔ اڑ جارام لمحوں میں اجڑا رام بن گیا۔ اونٹ کینہ نکالنے کے لیے بندے کو بے بس کر کے اس کے اوپر بیٹھ جاتا ہے۔ انسان غصے کی آگ میں جل رہا ہو تو لگتا ہے دماغ اُبل رہا ہے۔ اونٹ اس کیفیت میں ہو تو اس کا تالو ابھر آتا ہے۔
کسی بھی نظام کی حمایت و مخالفت اس کے حسن و قبح کی بنیاد پر کی جاتی ہے مگر کچھ دانشوران عظام کو صدارتی و پارلیمانی نظام کے محاسن و مصایب سے غرض نہیں، یہ بات چونکہ حکومتی حلقوں کی طرف سے سامنے آئی ہے اس لیے مخالفت اس انداز سے کی جا رہی ہے جو خاص بیانیہ والوں کے دل پر اثر رکھی ہے۔
قائد اعظم نے ذاتی ڈائری میں پاکستان کے لیے صدارتی نظام کی موزونیت کی بات کی۔ اسے کچھ ’’ڈائون لوڈڈ‘‘ دانشور شریف الدین پیرزادہ کی اختراع بلکہ کارستانی تک قرار دیتے ہیں۔ قائداعظم جب تک زندہ رہے عملی طور پر فیصلہ سازی کے اختیارات بطور گورنر جنرل ان کے پاس رہے جو صدارتی نظام کی عملی شکل تھی۔ صدارتی نظام اتنا ضرررساں ہوتا تو قائداعظم کی بہترین تربیت سے مرقع فاطمہ جناح نے ایوب خان کے دور میں صدارتی الیکشن میں کیوں حصہ لیا؟۔ بالفرض قائد اعظم پارلیمانی نظام کے حامی تھے تو وقت گزرنے کے ساتھ قائداعظم کے ساتھی صدارتی نظام کو قبول کر چکے تھے۔ قائد اعظم کے فرمودات میں کہیں بھی بہتری کی گنجائش کو محدود و معدوم نہیں کیا گیا۔ اول تو قائد اعظم نے پارلیمانی نظام کے اجرا پر زور نہیں دیا، ایک بار پھر فرض کر لیں وہ ایسا ہی چاہتے تھے، وہ تو اور بھی بہت کچھ چاہتے تھے۔ آزادی کشمیر کے حوالے سے قائداعظم کی کمٹمنٹ لازوال تھی۔ کرپشن اور بے ضابطگیوں اور ذمہ داریوں کے حوالے سے ان کے ارشادات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ان کا قائد کے جانشین کہلانے والو ں نے کتنا پاس کیا؟۔ وہ چیختے چنگھاڑتے مقدمات‘ سزائوں اور مسئلہ کشمیر کے قائداعظم کی وفات کے بعدسے آج تک جام ہونے سے واضح ہو جاتا ہے۔ قائداعظم کی اس حوالے سے کمٹمنٹ کی تو پروا نہیں‘ مگرپارلیمانی نظام کی فکر ہے‘ جس کے نفاذ کے حوالے سے قائداعظم سے کوئی حوالہ نہیں ملتا۔
بالفرض قائداعظم پارلیمانی نظام کو فوقیت دیتے تھے۔ آج پارلیمانی جمہوریت جس حال اور حلیے میں ہے ‘ وہ اُس دور جیسی رہی ہی نہیں جسے اس کے حامی قائد کی زندگی میں نافذالعمل قرار دیتے ہیں۔ بلاول کہتے ہیں صدارتی نظام لایا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ ملک ایوب اور یحییٰ خان کے صدارتی نظام کے سنگم پر ٹوٹا مگر اس عمل میں ذوالفقار علی بھٹو کا وجود بھی تخلیق کیا گیا تھا۔ اب اگر صدارتی نظام رائج ہوتا ہے تو ذوالفقار علی بھٹو کے وجود کا تخلیق ہونا ممکن نہیں۔ اس لئے قوم ایسی کالی زبانوں کی فکر نہ کرے جو ملک ٹوٹنے کی بات کرتے ہیں۔دنیا کے اکثر ممالک میں پارلیمانی کے مقابلے میں امریکہ سمیت صدارتی نظام صدیوں سے رائج ہے۔
صدارتی نظام میں صدر اختیارات کا مرکز اور پارلیمان کام صرف قانون سازی ہوتا ہے۔ صدر کابینہ کے ارکان پارلیمان سے لینے کا پابند نہیں ہوتا۔آج کی پارلیمنٹ کے ہونہار ممبران بڑے طمطراق سے کہتے حکومت اور پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دیںگے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی سربراہی کیلئے حکومت کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔آج بڑے بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے صدارتی نظام کی بات ہو رہی ہے۔ صدارتی نظام کے نفاذ کی کوئی سبیل نکلتی ہے تو عمران خان کو بھی ایک دن اقتدارسے جانا ہوگا۔ ان کی جگہ بلاول آتے ہیں‘ مریم‘ حمزہ یا کالا چور آجائے تو یہ سارے اختیارات اسے منتقل ہو جائیں گے۔
سیاسی اجارہ داریاں توڑنے کیلئے متناسب نمائندگی کی طرف بھی جانا ہوگا جو صدارتی نظام کا تقاضا اور بہت سے مسائل کا مداوا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس متفق ہیں کہ متناسب نمائندگی کا نظام زیادہ جمہوری ہے، اس میں قوم کی خواہش اور جماعتوں کی معاشرے میں حمایت زیادہ واضح انداز میں سامنے آتی ہے۔یہ نظام الیکٹیبلز کی مجبوری سے بھی آزاد کردیتاہے ۔ اس میں معاشرے کے قابل آدمی الیکشن کی قباحتوں سے بچ کر مْلک اور معاشرے کی بھلائی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں ۔یہ نظام اس وقت ناروے،فن لینڈ،سویڈن،سپین روس اور اسرائیل میں کسی نہ کسی شکل میں نافذ ہے متناسب نمائندگی کے نظام میں انتخابی حلقوں میں انتخاب لڑنے کی ضرورت نہیں ہو گی،بلکہ لوگ پروگرام دیکھ کر پارٹیوں کو ووٹ ڈالیں گے اور کسی پارٹی کوڈالے گئے ووٹوں کے تناسب سے اسے پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل ہوں گی۔پارٹیوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کو امدواروں کی لسٹ دی جائے گی ۔مثلاًایم این کے لئے ایک لاکھ ووٹ درکار ہیں۔جس پارٹی کو ایک کروڑ ووٹ ملیں اسے سو سیٹیں مل جائینگی ۔کچھ پارٹیوں کو دس لاکھ ووٹ ملتے ہیں مگر سیٹ ایک بھی نہیں ملتی،اس نظام میں اسے بھی دس نشستیں مل جائینگی،گویا ووٹ نہ ہونے کے برابر ضائع ہوتے ہیں۔کسی امیدوار کو کروڑوں کے اخراجات کی ضرورت نہیں رہے گی۔صدارتی نظام کا اگر کچھ لوگوں کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے تو قائد کے دور کے گورنر جنرل کا عہدہ پھر سے تخلیق کیا جاسکتا ہے۔