حقائق کو مسخ کرنے کیلئے قرآن و حدیث کی من پسند تشریح

2018 ,مارچ 9



لاہور(نصرت علی شہانی):   امیر المومنین حضرت علی ؑ کے فرمان کا مفہوم ہے حق کوپہچانو (پھر اس کے ذریعہ ) اہل حق کوپہچانو ۔یعنی اصل بنیاد حق ہے مگر اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی پسند کو ”حق “ قرار دے کر منوانے کی کوشش کریں چنانچہ ہم پہلے اپنی ذات ، خاندان ، قبیلہ ، مذہب ، مسلک ، پارٹی کے مفادات کو ”حق “ قرار دیتے ہیں پھر چاہتے ہیں دوسرے بھی اسے ہی حق مانیں۔فتنہ  خوارج کا بھی یہی نعرہ تھا لا حکم الااللہ یعنی فقط اللہ کا قانون۔ مگر اس کی آڑ میں وہ حضرت علی ؑ و دیگر بزرگ صحابہ ؓ کو باطل اور واجب القتل قرار دیتے تھے چنانچہ انہوں نے حضرت علی ؑ کوحالت ِ سجدہ میں شہید کیا ۔ حضرت علی ؑ نے انہی کے بارے فرمایاکلمة الحق یراد بھا الباطل ان کا نعرہ حق پر مبنی مگر مصداق و مراد باطل ہے ۔
اوریا مقبول صاحب نے روزنامہ92 میں 2ا ور 5مارچ کے کالم میں شام اور غوطہ کے حوالے سے آنحضور ﷺ سے منسوب احادیث کی آڑ میں وحشی صفت داعش کے حامیوں کی وکالت اور ان سے بر سر ِ پیکار حقیقی مجاہدین کو دہشتگرد قرار دے کر اسرائیلی مفادات کا دانستہ ،نادانستہ دفاع کرنے میں زور ِ قلم صرف کیا ہے ۔واضح رہے حدیث فہمی ،علم ِ حدیث ایک عمیق و دقیق علم ہے جوکہ اوریا صاحب کا میدان ہی نہیں ۔اقسام ِ حدیث ، اسکی سند ،متن ،راوی اور اس کا حسب و نسب ، صحیح ، حسن، ضعیف ،متواترحدیث،۔۔۔علم ِ رجال ، راویان ِ حدیث ۔۔۔ان پر عبور کیلئے حددرجہ زحمت و محنت درکار ہوتی ہے۔ کسی حدیث کا ترجمہ لکھ کر اُسے حالات ِ حاضرہ پر منطبق کرنا اور اس کی من پسند تشریح کرنا حد درجہ خیانت اور ناقابل ِ معافی جرم ہے ۔کسی حدیث کا مصداق ثابت کرنے میں حد درجہ احتیاط کی ضرور ت ہوتی ہے ۔ کالم نگار کی اکثر و بیشتر انتہا پسندوں ، دہشتگردوں کی حمایت پر ذمہ دار حلقوں اور معاصردانشور ،کالم نگاروں نے بھی بارہا سخت تشویش کا اظہار کیا ہے ۔”شام “کی عظمت کے حوالے سے اوریامقبول نے جن احادیث کو ذکر کیا ہے، اس بارے اہل ِ علم کی رائے ان سے قطعی مختلف ہے ۔ فتنہ جعل ِ حدیث ایک مستقل باب ہے ۔یہ احادیث جعلی ہیںیا ان کی سند ضعیف ہے۔رحلت ِ پیغمبر کے بعد بدقسمتی سے کبھی بھی شام پر حاکم قوتوں اور اہل ِ شام کا کردار قابل ِ تعریف نہیں رہا ۔(مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت ملاحظہ ہو) اہل ِ شام نے جانشین ِ پیامبر ، خلیفہ  راشد ،حضرت علی ؑ سے جنگ کی ،کربلاکے المناک سانحہ میں اہل ِ شام کے مظالم واضح ہیں۔ بلا تفریق ِ مسلک تمام مو رخین نے لکھا کہ سانحہ کربلا کے اگلے سال واقعہ حرہ میں اہل ِ شام کی سیاہ بختی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ جب انہی پر مشتمل فوج نے مدینہ منورہ کو تاراج کیا، مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے ، سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئی، مدینہ کی گلیاں بے گناہوں کے خون سے سُرخ ہوئیں۔کالم میں ذکر کردہ حدیث کی صحت کا فیصلہ اور اس کا موجودہ اہل ِ شام پر انطباق خالصتاً علمی معاملہ ہے جس پر اوریا مقبول جیسے متنازعہ ، غیر عالم شخص کولکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔جہاںتک آخری بڑے معرکے ملحمة الکبریٰ کا تعلق ہے ، وہ ہرگز موجودہ جنگ وغارتگری نہیں بلکہ نسل ِ پیغمبر سے حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور کے وقت آخری معرکہ مراد ہے ۔ جس کے بعد عالَمی سطح پر حق کی حکومت قائم ہوگی ۔
کالم نگار کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کی اصل وجہ” غوطہ “ میں محصور دہشتگرد اور ان کے ہمنوا ﺅ ں کی بے بسی ہے جنہوںنے دیگر آبادی کو بھی انسانی ڈھال بنا رکھا ہے اور فرار کیلئے محفوظ راستہ مانگ رہے ہیں جس کیلئے ان کا سرپرست امریکہ ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے ۔آنحضور ﷺکی حدیث اس غوطہ کی موجودہ صورتحال کے بارے ہرگز نہیں ۔مستقبل کا حال اللہ بہتر جانتا ہے۔
اوریاصاحب نے حسب ِ عادت ، دہشتگردوں اور داعش سے اپنی دیرینہ ہمدردیوں کا ایک بار پھر بھونڈے انداز میں اظہار کرتے ہوئے ،اسرائیل کے ناک میں دَم کرنے والی مجاہد تنظیم حزب اللہ اورایرانی پاسداران ِ انقلاب کو ہدف بنایا ہے ۔وحشی داعش کے خلاف امام ِ کعبہ سمیت عالَم ِ اسلام کے تمام ذمہ دار علماءنے فتوے دیے فقط امریکہ ، اسرائیل اور وطن ِ عزیز میں اوریا مقبول اوربرقع پہن کرفرار ہونے والے لال مسجد کے خطیب کی رگِ حمایت وقت بے وقت پھڑکتی رہتی ہے ۔حزب اللہ اگر سنی مسلمانوں کو قتل کرتی تو لبنان میں ایک بھی سنی مسلمان نہ بچتا ۔حزب اللہ نے کسی ایک بھی مسلمان کو مسلک کی بنیاد پر تکلیف نہیں پہنچائی ۔لبنان کے سنی مسلمانوں کی اسرائیلی مظالم سے حزب اللہ نے حفاظت کی ہے ۔اوریا مقبول کے صریح جھوٹے الزام کے مطابق اگر ایرانی پاسداران ِ انقلاب دہشتگرد ہوتے تو ایران میں سُنی اکثریتی صوبوں سیستان ، بلوچستان وغیرہ میںسُنی بھائی امن و سکون کے ساتھ نہ رہ رہے ہوتے۔
داعش کے منحوس وجود کی تشکیل کو کالم نگا رنے سُنیوں کی قتل و غارت کا رد عمل قرار دیا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کیونکہ ان وحشی درندوں کے سفاکانہ مظالم کا بڑا ہدف سنی مسلمان بنے ہیںجس میں معصوم بچوں کا قتل ، زندہ انسانوں کی کھال اتارنا ، انبیائ، بزرگان و صحابہؓ کے مزارات منہدم کرنے جیسے انسانیت سوز جرائم شامل ہیں۔
کالم نگار اگر مظلوموں کا ہی حامی ہے تو حرمین شریفین کے جوار میں واقع اہل ِ یمن کی مظلومیت پر لکھنے سے اس کے ہاتھ شَل کیوں ہو جاتے ہیں ؟جہاں سنی عوام پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں، پورے ملک کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ اقوام ِ متحدہ کے مطابق 50 ہزار معصوم بچوں کی زندگیاں تلف ہوگئیں۔اِن کے قاتل کون ہیں،کیا یہ سفاکانہ دہشتگردی نہیں؟42ملکی نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد نے کشمیر ، فلسطین اور برما کے مظلوموں کیلئے کیا کیاہے؟
حزب اللہ اورپاسداران ِ انقلاب کے مجاہدین کو اسرائیل اور اس کے ہمنوادہشتگرد کہتے ہیںکیونکہ اُسے 60اسلامی ممالک اور کسی فوجی اتحاد سے نہیں بلکہ اِنہی حقیقی دو مجاہد تنظیموں سے خطرہ ہے ۔امریکی و اسرائیلی مفادات کے ترجمان اور اُنہی کی زبان بولنے والے کالم نگار کے بعید ازحقائق تجزیوں سے کوئی منصف مزاج مسلمان متفق نہیں ہو سکتا اور نہ ہی احادیث ِ پیامبر کی غلط تشریح پر روزِ قیامت اللہ و رسول معاف کریں گے۔اوریاصاحب ایک عرصہ سے مذہبی فرقہ واریت ،مسلماتِ دین کی توہین اور دہشتگردی کی بالواسطہ حمایت کرکے مذہبی رواداری اور قومی سا لمیت کو پاراپارا کر رہے ہیں۔اخبارات اور میڈیا کے ذمہ داران اپنی مسﺅلیت کا احساس کریں اور دہشتگردی و فرقہ واریت کی کاری ضربوں سے چھلنی جسد ِامت کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں۔

متعلقہ خبریں