یہ انداز مسیحائی !

2018 ,اکتوبر 1



بچے پر ”باہر لی“ چیزوں کا مہلک اور خطرناک سایہ ہے مگر اب فکر اور پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ بروقت اور صحیح جگہ آگئے ہیں“۔ یہ باتیں پانچ سالہ بچے کی طرف دیکھتے اور مجھے مخاطب کر کے پہنچے ہوئے پیر کی شہرت رکھنے والے کمر خمیدہ اور چشم نم نیدہ اجلّ عامل نے بتائیں۔ میرے بیٹے طاہر کے ساتھ تین چار سال کی عمر سے مسئلہ تھا کہ وہ کبھی کبھی رات کو ہڑ بڑا کر اٹھ جاتا۔ جسم پر لرزا طاری ہوتا اور کچھ نہ سمجھ آنیوالی باتیں کرتا۔اسے چپ کرانے اور تسلی دینے کی کوشش کی جاتی، میں اسے گھر سے باہر لے جاتا تو دس پندرہ منٹ میں وہ ٹھیک ہو جاتا۔ ہم نے کسی ڈاکٹر کو دکھانے کے بجائے عامل کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ عامل نے کچھ ”تراہ“ نکالا اور کچھ تسلی دی۔ پریشانی کیفیت بھانپتے ہوئے اس نے کہا بس عمل کےلئے بکرا اور چاولوں کی دیگ دینا پڑےگی۔ مجھے بکرے کی خریداری اور دیگ کے انتظام کے تردد سے بچانے کیلئے ایسا مشورہ دیا جو اسکی نظر میں نسخہ کیمیا سے کم نہیں تھا۔ انگلیوں پر کچھ گنتے ہوئے بکرے، دیگ، دیگر لوازمات، نائی پکائی کی اجرت سب ملا کر ٹوٹل رقم بتا دی۔ میں نے رقم کا بندوبست کر کے آنے کا وعدہ کیا۔ اس کا آخری فقرہ تھا.... ”تین دن میں نہ آئے تو ہماری گارنٹی ختم“۔اللہ کی کرم نوازی سے نو دس سال کی عمر میں یہ مسئلہ خود بخود ختم ہو گیا۔ 
مجھے ہاضمے کی شکایت ہوئی تو ایک دوست نے حکیم حاذق کے بارے میں بتایا۔ دوست کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر میں حکیم صاحب کو ملنے چل پڑا۔ دوا خانے حاضر ہو کر پہلے حوالہ دیا پھر اپنا مرض بتایا جو میری دانست میں پھکی سے دور ہو سکتا تھا۔ حکیم صاحب نے مجھے غور سے بلکہ گھور کے دیکھا۔ میں نے نبض دکھانے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا تو فرمایا.... چہرے کی جھلک سے ہم ہر بیماری کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ آپکے معدے کی جھلی کے بُرجھڑتے جارہے ہیں ‘کورس مکمل کرنا ہو گا۔ کورس کی قیمت بتائی اور کہا ہفتے میں علاج شروع نہ کیا تو مرض لاعلاج ہو جائیگا پھر ہماری گارنٹی نہیں ہو گی۔ میں نے رقم کا بندوبست کر کے آنے کا وعدہ اور سردست پھکی کا تقاضا کیا۔ انہوں نے کرسی دائیں گھماتے ہوئے ڈبیا اٹھائی ساتھ ہی کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ دو تین منٹ بعد سنبھلے تو پھکی میری طرف بڑھا دی۔ میں تھوڑا آگے ہوا تو سگریٹ کی آلودہ ہواڑ آئی، میں سگریٹ نوش نہیں ہوں۔ دوست نے واپسی پر ڈن ہل سگریٹ لانے کو کہا تھا۔ حکیم صاحب کے سامنے ایش ٹرے میں ولز سگریٹ کے ٹکڑے پڑے تھے‘ میں نے پھکی کی قیمت کے طور پر ڈن ہل ان کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے ڈن ہل دیکھ کر شاعرکو داد دینے والے انداز میں واہ.... کہا اور کرسی پھر دائیں گھماتے ہوئے مزید پھکی کی ڈبیاں شاپر میں ڈال دیں۔ آج اس قصے کو پندرہ سال ہو گئے۔ ہاضمہ اور معدہ جہاں تھا جیسے تھا وہیں اور ویسا ہی ہے۔ 
دو سال سے زیادہ عرصہ ہوا، اہلیہ کو دل کا مسئلہ ہوا چیک اپ کرایا۔ سرکاری ہسپتال کے نامور ڈاکٹر نے فوری طور پر تین سٹنٹ ڈلوانے یا بائی پاس کرانے کا مشورہ دیا بلکہ زور دیا۔ انکی طرف سے ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن تھی انہوں نے بھی کہا ورنہ انکی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ اڑھائی سال سے سیب کے سرکے، شہد، لیموں اور ادرک والا نسخہ استعمال کرا رہے ہیں۔ 
ہمارے سینئر کولیگ حفیظ قریشی بڑے بی بے انسان ہیں، انگلش میں شاید ڈیسنٹ اردو میں نستعلیق اور نفیس کہا جاتا ہے۔ ساتھیوں کیلئے ایثار اور پیار کے جذبات رکھتے ہیں البتہ سیاسی نظریات میں توازن سے کبھی کبھی ہٹ جاتے ہیں جس کا انکی انسان دوستی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایک سیاسی گروہ کے گرو کو پارسا باصفا اور بلند نگاہ جبکہ دوسرے گروپ کے سرغنہ کو راندہ درگاہ سمجھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں انسولین کے بعد نہ جانے تھوڑی سی سستی ہو گئی حالانکہ بڑے کیلکولیٹڈہیں ادویات لینے اور کھانا کھانے تو کیا پانی پینے کے بھی اوقات مقرر ہیں۔ شوگر لو ہونے کا احساس نہ ہوا تو بے ہوشی کی کیفیت میں آگئے‘ گھر والوں کے ہاتھ پاؤں تو پھولنا ہی تھے فوری طور پر ایک نامی گرامی ہسپتال لے گئے۔ شوگر لو ہونے کا بتایا تو ٹیکہ لگنے سے اگلے چند منٹ میں ہوش آگیا۔ ڈاکٹر ایکشن میں آچکے تھے۔ ٹیسٹوں کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ سب ارجنٹ اور ایمرجنسی میں ہو رہا تھا۔ کچھ ٹیسٹوں کا رزلٹ آیا کچھ کا آنا تھا۔ ڈاکٹر آخر ڈاکٹر ہوتا ہے تجربہ بھی کوئی چیز ہے۔ بتایا گیا گردے فیل ہو گئے، دل اپنی جگہ سے ہل گیا، جگر بڑھ گیا، پتا کام نہیں کر رہا، دماغ بائیں ہو گیا۔ قریشی صاحب کو اپنے مرض کی نوعیت کا علم تھا۔ ڈاکٹروں کی باتیں سنیں اور ان سے بل بنانے کو کہا 36 گھنٹے کا بل 76 ہزار اور چار سو روپے بتایا تو شکر، قومے میں جانے سے محفوظ رہے۔ ہسپتال سے باہر آکر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے ہاتھ اٹھائے، بچڑ خانے سے صحیح سلامت تمام اعضا سمیت واپس آنے پر خدا کا شکر ادا کیا اور ہسپتال کےلئے دعائے مغفرت کی۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور کے چار بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان اور انتظامی سربراہان پر برہم ہوتے ہوئے کہا، لوگوں کے کپڑے نہ اتاریں گدھ نہ بنیں۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھانجی ہسپتالوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا نہیں ہونا چاہئے۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ ایک مریض کے ایک ماہ علاج کا بل چالیس لاکھ بنا دیا گیا۔ انہی میں سے ایک ہسپتال میں دبئی پلٹ میرے بھائی لطیف کی انجیو گرافی ہوئی۔ میں انکے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر نے طلب کر کے کمپیوٹر پر وین میں رکاوٹ دکھاتے ہوئے کہا ، ایک سٹنٹ ڈلے گا۔ انجیو پلاسٹی کیلئے یہی عمل دہرانا پڑےگا ‘بہتر ہے ابھی سٹنٹ ڈلوا لیں خرچہ ایک لاکھ نوے ہزار بتایا گیا۔ لطیف کی شاید کوئی سٹڈی تھی سو انکار کر دیا۔ 4 سال سے وہ بھی مذکورہ نسخہ استعمال کر رہا ہے۔
ایک نجی ہسپتال میں میرے محترم استاد ادیب جاودانی کی اہلیہ فوزیہ ادیب ڈاکٹروں کے تجربات کی نذر ہوئیں اور پھر خود جاودانی مرحوم اسی ہسپتال میں ڈاکٹروں کی عدم توجہ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جس ہسپتال سے مریض کے جانے اور لاش کے باہر آنے کی چیف جسٹس نے بات کی اس میں ہمارے عزیزوں کی ایک خاتون لائی گئی جو گئی تو زندہ مگر لاش سے کم نہ تھی جلد دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ 
پرائیویٹ ہسپتالوں خصوصی طور پر مہنگے ہسپتالوں کا رخ دھن دولت والے کرتے ہیں۔ ویسے تو 20 روپے سے سینکڑوں اور ہزاروں میں علاج کرنے والے معالج اور علاج گاہیں بھی ہیں۔ اچھے برے سرکاری ہسپتال بھی ہیں۔ مہنگے ہسپتالوں میں دولت اور دل والے جاتے ہیں یہی صورتحال تعلیمی اداروں کی ہے۔ ان کو چلنے دیں۔ سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت سدھار دیں۔ لوٹ مار کی ذہنیت والے ہسپتال اور تعلیمی ادارے اپنی موت مر جائینگے۔ 
سردست یہ ہو سکتا ہے کہ ان کو کچھ فیصد مستحق مریضوں کا فری علاج کرنے کا پابند کر دیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں بھی د س پندرہ فیصد مستحق بچوں کو فری تعلیم دینے کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ ہسپتالوں میں شاید اعداد و شمار کی ہیرا پھیری ہو سکتی ہے اس لئے بہتر ہو گا نجی ہسپتالوں کے مالکان کو کسی سرکاری ہسپتال کے کسی وارڈ کے مریضوں کے علاج کی یا اخراجات برداشت کرنے کی ذمہ داری دے دی جائے۔

متعلقہ خبریں