مسیحائی!

2018 ,مئی 9



پاکستان اور بھارت کے کچرہ کوڑا کلچرمیں زیادہ فرق نہیں۔ بھارت میں میڈیکل کے شعبے میں جہاں لوٹ مار ہے وہیں کچھ بہتری بھی آئی ہے۔ بھارت میں میکڈونلڈ ماڈل پر آنکھوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ میکڈونلڈ بڑی تعدد میں برگرتیارکرکے سستے فروخت کرتا ہے۔ اس نے گاہکوں کی تعداد بڑھا لی ہے۔ امریکہ میں جس اپریشن پر دو ہزار ڈالر خرچ آتا ہے بھارت میں اروند آئی کیئر والے دس ڈالر میں یہ اپریشن کرتے ہیں۔پاکستان میں بہت سے ٹرسٹ ہسپتال ایسے اپریشن فری بھی کرتے ہیں۔ 
پاکستان میں بلاشبہ بہت سے ٹرسٹ ہسپتال ہیں جہاں فری علاج بھی ہوتا ہے مگر ان اداروں تک ہر مریض کی رسائی ممکن نہیں۔ سرکاری ہسپتال ہی ہر شہری کو صحت کی مناسب سہولتیں فراہم کر سکتے ہیں۔لوٹ مار صرف ہسپتالوں ہی میں نہیں‘ اس سے متعلقہ شعبوں اور اداروں میں بھی ہے۔ گزشتہ سال 50 ہزار بچے انٹری ٹیسٹ میں میڈیکل کالجز میں داخلے کے معیار پر پورا اترے۔ سرکاری میڈیکل کالجز میں 25 سو نشستیں ہیں۔ ان کالجز کی سالانہ فیس بشمول ہوسٹل اخراجات 52 ہزار روپے جبکہ پرائیویٹ کالجوں میں بارہ لاکھ ہے۔ اب لوٹ مار کرنیوالے کالجز کے مالکان چیف جسٹس کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں۔پاکستان سے ڈاکٹری کی تعلیم کےلئے کچھ بچے دوسرے ممالک بھی جاتے ہیں۔ میڈیکل کی سستی تعلیم کا ایک حل بہرحال یہاں بھی موجود ہے۔ ہر ڈی ایچ کیو ہسپتال کے ساتھ میڈیکل کالج بنا دیا جائے ہر ہسپتال سے ٹیچر مل سکتے ہیں۔ ایسا ہو تو ڈاکٹری کرنے کیلئے دوسرے ممالک سے لوگ پاکستان آئینگے۔ ہمارے ہاں آبادی کے مطابق ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور صحت کی سہولتوں کی شدید کمی ہے۔ فلاحی ریاست میں صحت اور تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے۔ صحت مند معاشرے کیلئے پہلے صحت‘ اسکے بعد تعلیم اور پھر دیگر ترقیاتی کاموں کی فطری درجہ بندی اور ترجیح ہے مگر صحت اور تعلیم دونوں کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو کہ دی جانی چاہیے تھی۔
صحت کی سہولتوں کے فقدان‘ سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کی کمی کو شہروں اور دیہات میں نان کوالیفائیڈ لوگ پورا کرتے ہیں۔ آج محکمہ صحت اتائیوں کےخلاف سرگرم ہے۔ محکمہ کے اہلکاروں کی ”عطا“ کے بغیر عطائی ایک دن بھی اپنا کاروبار نہیں کر سکتے۔ ایسے نان کوالیفائیڈ جو بیماریوں اور علاج کی ابجد سے بھی ناواقف ہوں اور کلینک کھول کر علاج شروع کر دیں وہ اتائی کے زمرے میں آتے اور مستوجب سزا ہیں۔ جن لوگوں نے باقاعدہ کوئی کورس کر رکھا ہے، ان کو اتائی کے ضمن میں لانا اور پکڑ کر ”پھڑکانا“ بے رحمی ہے۔ نہروں تالابوں جوہڑوں کا پانی مضر صحت ہے۔ شفاف پانی کی فراہمی کے بغیر یہاں سے پانی پینے پر پابندی کیا عقلمندی ہو گی؟ دیہات میں اتنی ہی تعداد میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بٹھاکر ڈسپنسروں کے کلینک بند کروا دیں۔ یہ لوگ اپریشن کرتے ہیں نہ ٹی بی کینسر گردے اور کالے یرقان کا علاج کرتے ہیں۔ بخار، زکام سر درد کی دوا دیتے ہیں جو سستی بھی ہے۔ بڑے امراض کے مریض پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ شہروں اور دیہات میں دکانوں پر کھانسی کا سیرپ، ڈسپرین اور پینا ڈال رکھنے والے بھی جعلی ڈاکٹر اور اتائی قرار پاتے ہیں۔ یہ لوگ دراصل مریض کے معاون ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال پہنچنے تک ان سے ٹیبلٹ لی جا سکتی ہے۔ مریض کو موت کے منہ میں پہنچانے والے بہرحال قابل معافی نہیں ہیں۔ 
پاکستان میں کامیاب ترین اور حددرجہ نفع بخش صنعت میڈیکل انڈسٹری ہے جس میں بیرون ملک سے بھی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔چینی ریستورانوں کی طرح چینی شفاخانے (ہسپتال) بھی کھل چکے ہیں۔ ہومیوپیتھک بے ضرر ہونے کے ساتھ ساتھ سستا طریقہ علاج ہے۔ زندگی ہو تو مریض کبھی تو ٹھیک ہو ہی جاتا ہے۔ غیر ملکی شفاخانوں میں مریض سے بھاری فیس لی جاتی۔دوا دی جاتی ہے اور صحت یابی کی نوید سنا کر مریض کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنا لیا جاتا ہے۔مریض جب تک کنگال یا زندگی کے جنجال سے نکل نہیں جاتا، انکے جال میں پھنسا رہتا ہے۔ ایک پتہ کی بات بھی نوٹ کر لیجئے۔ فراڈیوں سے بچیئے، انکے ہتھے چڑھ کر صحت اور پیسہ برباد کرنے سے بہتر ہے ٹرسٹ ہسپتال جائیں جہاں فری علاج ہوتا ہے، ڈونیشن کی صورت میں آپ ادائیگی کر کے خیرات کی دوا سے بچتے ہوئے کارخیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔ بہترین علاج کےلئے فوجی ہسپتال بھی موجود ہیں۔ سی ایم ایچ ، نیول اور ایئرفورس اور فوجی فاﺅنڈیشن ہسپتالوں میں پرائیویٹ علاج بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ایک کولیگ سی ایم ایچ گئے۔ ٹیسٹوں اور ڈاکٹر کی فیس زیادہ نہیں اور ڈاکٹر و عملہ بھی کوالیفائیڈ ہے۔ پاکستان کے سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں قابل ترین اور ایماندار اور انسانیت کا درد رکھنے والے ڈاکٹر یقیناً موجود ہیں مگر زیادہ دولت جمع کرنے کے خبط اور جنون میں انسانی اقداراورانسانیت کوبھی بھول جاتے ہیں۔ آگے جا کے جو حساب ہونا ہے اسکی فکر نہیں تاہم اس دنیا میں عزت و تعظیم انسانیت کے ہمدردوں ہی کو ملتی ہے۔
میجر نذیر کے دوست ضمیر شاہ کو میری لینڈ امریکہ میں دل کا دورہ پڑا،فون کرنے پرہیلی کاپٹر نے گھر سے پِک کرکے جان ہافکن ہسپتال پہنچایا۔ تندرست ہو کر ہسپتال سے آنے لگے تومعالج ڈاکٹرنارمن نے 60 ہزار ڈالر کا بل تھما دیا، جسے دیکھتے ہی ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ قریب تھا دل دھڑکنا بھول جاتا۔ ڈاکٹر نارمن نے اڑی رنگت دیکھتے ہوئے پوچھا ”کیا ہوا“ گھبرائے لہجے اور بھرائی آواز میں بل اوقات سے زیادہ ہونے کا رونا رویا۔ ڈاکٹر نے اپنی فیس کچھ ٹیسٹوں وغیرہ کے پیسے منہا کردیئے، اب چالیس ہزار ڈالر کا بل باقی تھا۔ یہ بھی زیادہ تھا ڈاکٹر نے انکی پریشانی دیکھ کر بل پر لکھ دیا ”بل کی ادائیگی ریاست کرے“ پاکستانی مریض اس ڈاکٹر کی انسانیت اور جذبہ ترحم سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسے سلام کیا اور بڑے مو¿دبانہ لہجے میں پوچھا ”سر آپ مسلمان ہیں؟ اس ڈاکٹر نے قدرے ترش ہو کر جواب دیا کہا۔ ”میرا مذہب انسانیت ہے“ ڈاکٹر صاحب کو شاید علم نہ تھا کہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام واحد مذہب ہے جس نے انسانیت کی تکریم کا حکم کے درجے میں ذکر کیا ہے۔ ہم ہی انسانوں اور انسانیت سے دور ہورہے ہیں۔ ایک مصدقہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں ڈاکٹر اور میڈیکل مافیا انسانیت کو بے رحمی سے لوٹ رہا ہے۔ اصل علاج پر صرف 10 فیصد اخراجات آتے ہیں 90 فیصد کمشنوں میں چلا جاتا ہے اسی لئے علاج مہنگا ہے۔ 
ہمارے وزیر داخلہ احسن اقبال پر نارووال میں فائرنگ ہوئی۔ان کو فوری طور پر لاہور منتقل کر دیا گیا۔ نارووال سیالکوٹ میں ایسی طبی سہولیات جو لاہور کے سروسز ہسپتال میں ہیں، ہوتیں تو ان کا وہیں علاج ہوتا۔احسن اقبال پر جس کارنر میٹنگ میں فائرنگ کی گئی اس میں وہ کہہ رہے تھے کہ نارووال میں دو یونیورسٹیاں بنا دی گئی ہیں۔ تعلیم سے بھی پہلے صحت ہے ۔ایک دوست دوسرے سے بحث کررہا تھا کہ پہلے سڑکیں پل انڈر پاس ضروری ہیں یہ ہونگے تو لوگوں کو آسانی سے ہسپتال لے جایا جا سکے گا۔ اس نے یہ بھی باور کرایا کہ ذرا آزادی چوک دیکھو کتنا خوبصورت ہے۔ چند روز بعدتعمیرات کے گن گانے والے کو گردن میں تکلیف ہوئی، فوری طور پر قریبی کلینک پر لے جایا گیا انہوں نے ایم آئی آر کرانے کو کہا تو جناح، گنگا رام اور میو ہسپتال گئے۔ میو میں مشین نہیں تھی‘ باقی دو میں خراب تھی، پرائیویٹ ٹیسٹ استطاعت سے باہر تھے۔ گردن کے درد کے مریض کو اس کا دوست آزادی چوک لے گیا اور کہا اس خوبصورت چوک کو دیکھو ہو سکتا ہے درد دور ہو جائے۔پاکستان میں اہل اور ایماندار ڈاکٹر ضرور موجود ہیں۔ مگر اتنی تعداد میں ”تو ڈھونڈانہیں چراغِ رخِ زیبا لے کر“ ابھی تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر ایوب چیسٹ سپیشلسٹ سے ملاقات ہوئی،انہوں نے پھیپھڑوں کے مریض کو بے ہوش کئے بغیر اپنی نوعیت کا دنیا میں پہلا کامیاب اپریشن کیا،وہ کسی ریوارڈ اور ریگارڈ کے متمنی تو نہیں مگر جنہوں نے اعزاز دینا تھا وہ بھی خاموش رہے،خبر تک نہ لگنے دی۔ڈاکٹر عفوان اکرم برطانیہ سے آئے۔پنجاب یونیورسٹی میں تعینات ہوئے،وہ آدھی قیمت پر میڈیکل ٹیسٹ کرنے میں مہارت رکھتے تھے،انہیں صرف نوکری کرنے کو کہا گیا اور مایوس ہوکر واپس چلے گئے یوں یہ ”بدقسمت“ قوم دھیرے دھیرے جوہر قابل سے محروم ہوتی جارہی ہے!

متعلقہ خبریں