اندر داخل ہوتے ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں ایک راہداری میں آگے بڑھ رہا ہوں۔ یہاں فرش، چھت اور دیواریں سب بالکل سفید دودھیا رنگ کی تھیں۔ اندر داخل ہوتے ہی مجھے ایک بہت خوشگوار احساس ہورہا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ یہ راستہ غیر محسوس طریقے پر دائیں سمت میں مڑ رہا ہے۔ میں کچھ ہی دور گیا تھا کہ اچانک رنگ و نور کے مرغولوں نے میرا احاطہ کرلیا۔ قوس و قزح کے رنگ میرے اطراف میں جگمگانے لگے۔ میں پورے سکون و اعتماد کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ یکایک نور کی ایک چادر میرے آرپار ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی میرے وجود کا
ریشہ ریشہ لطف و سرور کے احساس میں ڈوب گیا۔ مجھے لگا کہ میں ہواوں میں اڑرہا ہوں۔ میرا جسم بالکل بے وزن اور ہلکا ہوگیا۔ مجھے لگا کہ میرا جسم تحلیل ہوگیا ہے اور میں صرف روح کی شکل میں باقی ہوں۔ میں بے خود ہوکر آگے بڑھتا رہا۔ کچھ ہی دیر بعد پھر وہی دودھیا راہداری میرے سامنے تھی اور میں اس میں چلا جارہا تھا۔ مگر اب میرے احساسات میں زمین آسمان کا فرق آچکا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں بدل کر کچھ سے کچھ ہوچکا ہوں۔ قوت، طاقت، سکون و اطمینان اور اعتماد کی ایک ناقابل بیان کیفیت تھی جس میں میں چلا جارہا تھا کہ اچانک مجھے ٹھہرنا پڑا۔ میرے سامنے ایک ایسا مقام تھا جہاں سے آٹھ راستے نکل رہے تھے۔ ہر راستے پر یہ درج تھا کہ یہ راستہ جنت کے کس دروازے پر نکلے گا۔ میں یہ پڑھنے کی کوشش کررہا تھا کہ کیا لکھا ہے کہ ایک آواز آئی:
”شہدا کے دروازے سے اندر چلے جاو¿۔“
میں نے غور کیا تو دائیں طرف پہلا دروازہ انبیا کا تھا اور ا س کے برابر میں دوسرا دروازہ صدیقین اور پھر شہدا کادروازہ تھا۔ میں اسی میں داخل ہوگیا۔ یہ بھی ایک راہداری تھی جو ایک دروازے پر ختم ہورہی تھی۔ میں اس دروازے سے باہر آگیا۔ اس سے پہلے کہ میں باہر نکل کر کسی چیز کا جائزہ لیتا، میں نے اپنے سامنے صالح کو موجود پایا۔ اس کے ساتھ ایک فرشتہ کھڑا ہوا تھا۔ صالح کے بجائے اس نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور کہا:
”السلام علیکم۔ہمیشہ باقی رہنے والی جنت کی اس بستی میں آپ کو خوش آمدید۔ صالح نے مجھے آپ کا نام اعمال دیا جس میں آپ کا نام عبد اللہ بیان ہوا ہے۔ مگر اس کے ساتھ اعزازات اتنے لکھے ہوئے تھے کہ سمجھ میں نہیں آتا آپ کو کیا کہہ کر مخاطب کروں۔“
صالح نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:
”سر دست سردار عبداللہ سے کام چلائیے۔ کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کے بعد یہ کہہ کر ان کے استقبال کے لیے بھیجا تھا کہ میرا بندہ عبد اللہ سردار ہے۔ اسے لے کر میرے پاس آو¿۔“
”ٹھیک ہے۔ سردار عبداللہ! ختم نہ ہونے والی بادشاہی میں آنا مبارک ہو۔“، یہ کہتے ہوئے اس نے مجھ سے معانقہ کیا۔
”ہمارے میزبان کا نام کیا ہے؟“، معانقہ کرتے ہوئے میں نے صالح سے پوچھا۔
”یہ میزبان نہیں دربان ہیں اور ان کا نام رضوان ہے۔“
رضوان ہنستے ہوئے بولے:
’یہاں میزبان آپ ہیں سردار عبد اللہ۔ یہ آپ کی بادشاہی ہے۔ ذرا دیکھیے تو آپ کہاں ہیں۔“
اس کے کہنے پر میں نے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ میں ایک بالکل نئی دنیا میں داخل ہوچکا ہوں۔ یہاں آسمان و زمین بدل کر کچھ سے کچھ ہوچکے تھے۔ نئے آسمان اور نئی زمین پر مشتمل یہ ایک ایسی دنیا تھی جہاں یقینا سب کچھ تھا۔ مگر اس کے حسن اور کاملیت کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ میں زندگی بھر ایک قادر الکلام شخص رہا۔ مجھے زبان و بیان پر غیر معمولی عبور حاصل تھا، الفاظ میری دہلیز پر سجدہ کرتے اور اسالیب مجھ پر القا ہوتے۔ خدا نے مشکل سے مشکل حقائق کے بیان کو ہمیشہ میرے لیے بے حد آسان کیے رکھا تھا۔ مگر اس لمحے مجھے اندازہ ہوا کہ دنیا کی ہر زبان ان حقیقتوں کو بیان کرنے سے عاجز ہے جو میرے سامنے موجود تھیں۔ میں بالکل اسی کیفیت میں تھا جو پتھر کے زمانے کے کسی انسان پر صنعتی دور کے کسی جدید شہر میں اچانک آکر طاری ہوسکتی تھی۔ جو شخص اپنے غار کو لکڑیاں جلاکر روشن کرتا رہا ہو وہ اچانک لیزر لائٹ کی قوس و قزح اور ٹیوب لائٹ کی دودھیا روشنی کے جلوے دیکھ لیتا تو کبھی اس کی حقیقت کو بیان کرنے کیے الفاظ نہیں پاسکتا تھا۔ یہی کیفیت اس وقت میری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صالح میری بے خودی دیکھ کر بولا:
”سردار عبد اللہ! بے خود ہونے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اپنی منزل کی طرف چلیے۔“
رضوان نے ایک راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
”چلیے۔ آپ کی رہائش گاہ کا علاقہ اس سمت میں ہے۔“
ہم آگے بڑھے۔ ایک دبیز سرخ رنگ کا قالین اس راستے میں بچھا ہوا تھا۔ ہم اس پر چلنے لگے۔ اس راستے میں دونوں سمت فرشتوں کی قطار تھی جو ہاتھوں میں گلدستے لیے، ریشمی رومال لہراتے،پھولوں اور خوشبو کا چھڑکاو کرتے سلام و مرحبا کہتے میرا استقبال کررہے تھے۔ یہ ایک طویل راستہ تھا جو دور تک چلتا چلا جارہا تھا۔ بچپن میں تصوراتی پرستان اور کوہ قاف کی کہانیاں شاید سب سنتے پڑھتے ہیں۔ یہ راستہ ایسے ہی کسی پرستان پر جاکر ختم ہورہا تھا۔ دور سے اس پرستان کی بلند و بالا تعمیرات نظر آرہی تھیں۔ یہ عالیشان عمارات اور شاندار محلات کا ایک منظر تھا جو سبزے سے لدے پہاڑوں، اس کے دامن میں پھیلے پانی کے فرش اور نیلگوں آسمان کی چھت کے ساتھ ایک خیالی دنیا کی تصویر لگ رہا تھا۔
میں نے رضوان سے پوچھا:
”اس وقت ان گنت لوگ جنت میں داخل ہورہے ہیں، آپ کے پاس کیا اتنا فارغ وقت ہے کہ سب کو چھوڑ کر میرے ساتھ آگئے ہیں؟“
وہ ہنس کر بولے:
”یہاں وقت رکا ہوا ہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ دو جنتی جو ایک کے بعد ایک کرکے اندر داخل ہورہے ہیں، ان کے اندر آنے میں کافی وقفہ ہوتا ہے۔ اور جو جنتی ذرا کم درجے کے ہیں وہ تو مہینوں اور برسوں نہیں صدیوں کے فرق سے اندر آئیں گے۔“
میں نے صالح کی سمت دیکھ کر کہا:
”ناعمہ؟“
میری بات کا جواب رضوان نے دیا:
”سردار عبد اللہ! آپ تو بہت پہلے اندر آگئے ہیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ناعمہ اور دیگر لوگ کچھ عرصے ہی میں یہاں آجائیں گے۔ مگر اس وقت میں آپ کے کرنے کا یہاں بہت کام ہے۔ آپ کو اپنی جنت، اپنی اس دنیا، اس کی بادشاہی ، یہاں کے خدام اوردیگر متعلقہ لوگوں سے واقفیت حاصل کرنی ہے۔“
”اچھا ! یہاں اور کون ہے؟“
”دیکھیے یہ آپ کے خدام میں سے چند نمایاں لوگ کھڑے ہیں۔“
رضوان کے توجہ دلانے پر میں نے دیکھا کہ فرشتوں کے بعد قطار میں دونوں سمت ایسے لڑکے کھڑے تھے جو اپنی ٹین ایج کی ابتدا میں تھے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ غلمان ہیں اور یہی وہ لڑکے ہیں جن کے لیے قرآن نے موتیوں کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یہ واقعتا ایسے ہی تھے۔ بلکہ شاید موتیوں سے بھی زیادہ صاف، شفاف اور چمکتے ہوئے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ قرآن نے جن حقائق کو بیان کرنے کی ذمے داری اٹھائی تھی، انسانی زبانیں ان کے بیان کے لیے اسالیب، تشبیہات اور استعاروں کا کتنا مختصر سرمایہ اپنے اندر لیے ہوئے تھیں۔ آج جو حقائق سامنے تھے وہ بیان کرنے کے نہیں صرف دیکھنے اور محظوظ ہونے کی چیز تھے۔ یہ غلمان بھی ایک ایسی ہی حقیقت تھے۔ فرشتوں کی طرح غلمان بھی پرجوش انداز میں میرا استقبال کررہے تھے۔ البتہ جیسے ہی میں ان کے قریب پہنچتا وہ گھنٹوں کے بل بیٹھ کر اپنا سر جھکادیتے۔ یہ موتیوں کی ایک لڑی تھی جو میرے استقبال میں بچھی جارہی تھی۔
قطار جب کافی طویل ہوگئی تو میں نے صالح سے کہا:
”بھائی یہ نمایاں لوگ ہی اتنی تعداد میں ہیں تو کل خدام تعداد میں کتنے ہوں گے۔ اور اتنے لوگوں کا میں کیا کروں گا؟“
صالح کے بجائے رضوان نے جو اسرار جنت سے زیادہ واقف تھے، جواب دیا:
”آپ زمین سے آسمانوں تک پھیلی ہوئی ایک عظیم بادشاہی کے سربراہ ہیں۔
ہم کچھ دور اور چلے تو صالح نے کہا:
”اب حوریں آرہی ہیں۔“
ہم جیسے ہی ان کے قریب پہنچے تو غلمان کے برخلاف انہوں نے ایک مختلف کام کیا۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے بجائے دو زانو بیٹھیں اور کمر کو خم دے کر سر جھکادیا۔
میں نے رک کر صالح سے پوچھا:
”یہ کیا کر رہی ہیں؟“
”یہ دیدہ و دل فرشِراہ کررہی ہیں۔“، اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
رضوان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:
”اصل میں انھوں نے آپ کے قدموں کو راحت پہنچانے کے لیے اپنے بال فرش پر بچھائے ہیں۔ اسی لیے یہ اس طرح جھکی ہوئی ہیں۔“
اس کے کہنے پر میں نے غور کیا کہ وہ اس طرح سر کو جھٹکا دے کر جھک رہی ہیں کہ دونوں سمتوں سے ان کے بال زمین پر بچھ کر ایک ریشمی فرش بناتے جارہے ہیں۔ حسن کی یہ ادا میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی۔ میں پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ مسکراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ جب میرے قدموں نے ریشمی زلفوں سے بنے اس فرش کو چھوا تو سرور کی ایک لہر میری روح کے اندر تک تیرتی چلی گئی۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ گرچہ میرے جسم پر انتہائی لطیف، مخملی اور دیدہ زیب شاہی لباس تھا لیکن میں نے جوتے نہیں پہن رکھے تھے۔ آخر کار یہ استقبالی قطار ایک بلند و بالا دروازے پر ختم ہوئی۔ ہمارے قریب پہنچنے سے قبل ہی دروازے کے دونوں پٹ کھل چکے تھے۔ یہاں سے رضوان واپس لوٹ گئے اور میں صالح کے ساتھ اپنی رہائش گاہ میں داخل ہوگیا۔میں نے اس وسیع منظر نامے پر نظر ڈالتے ہوئے صالح سے دریافت کیا:
”اتنے سارے محلات میں سے میری رہائش گاہ کون سی ہے؟“
اس نے ہنستے ہوئے کہا:
”یہ محلات تمھاری رہائش گاہ نہیں۔ یہ تمھارے انتہائی قریبی خدام کی رہائش گاہ ہیں۔ تمھاری رہائش یہاں سے کافی دور ہے۔ تم چاہو تو پیدل بھی جاسکتے ہو، مگر بہتر ہے کہ اپنی سواری میں جاو¿۔“
یہ کہہ کر اس نے ایک طرف بڑھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے اس سمت دیکھا تو ایک انتہائی شاندارمگر قدرے چھوٹاسا گھربنا ہوا تھا۔ چھوٹا اس دنیا کے حسا ب سے تھا وگرنہ پچھلی دنیا کے اعتبار سے یہ کوئی عظیم الشان محل جتنا وسیع تھا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ صالح توجہ نہ دلاتا تو میں کبھی اس کی موجودگی محسوس نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہ مکمل طور پر شیشے کا بنا ہوا اور اتنا شفاف تھا کہ اس کے آر پار سب کچھ نظر آرہا تھا۔ صالح آگے بڑھا تو میں اس کے پیچھے اس خیال سے چلا کہ اس گھر میں کوئی گاڑی وغیرہ جیسی سواری کھڑی ہوگی۔ مگر وہ سیدھا مجھے اس گھر کے وسط میں موجود ایک کمرے میں لے گیا جہاں ہیرے جواہرات سے مرصع شاہانہ انداز کی عالیشان نشستیں نصب تھیں۔ صالح نے مجھے اشارے سے بیٹھنے کے لیے کہا۔ پھر وہ بولا:
”یہ تمھاری سواری ہے جو تمھیں تمھاری منزل تک پہنچادے گی۔ میں تمھیں تنہا چھوڑ رہا ہوں تاکہ تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ یہاں کے اصل بادشاہ تم ہو۔ تمھیں کسی سہارے، کسی خادم اور کسی فرشتے کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم جو چاہو گے وہ خود بخود ہوجائے گا۔ اب میں تمھیں تمھارے گھر میں ملوں گا۔“اس کے ساتھ ہی یہ گھر جو ایک سواری تھی خود بخود فضا میں بلند ہونے لگا۔ میں خوشی سے کھلکھلا اٹھا اور میں نے زور سے پکار کر کہا:
”بسم اللہ مجریہا و مرسہا“
یہ پیغمبر نوح علیہ السلام کے الفاظ تھے جوآپ نے اپنی کشتی میں بیٹھ کر کہے تھے۔ میری سواری دھیرے دھیرے ایک سمت بڑھنے لگی۔ میں خاموشی سے سر ٹکاکر نیچے پھیلے ہوئے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ گھر دھیرے دھیرے اڑ رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ نیچے شام کا سا دھندلکا پھیلنے لگا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ہر طرف مکمل تاریکی چھاگئی۔ اس کے ساتھ ہی شیشے کا یہ گھر دودھیا رنگ کی ا±س روشنی سے جگمگا اٹھا جس کا ماخذ اور منبع کہیں نظر نہ آتا تھا۔میری خواہش پر ایک دفعہ پھر تاریکی چھاچکی تھی۔ تاریکی سے مجھے خیال آیا کہ کچھ اہل جہنم کا حال بھی دیکھوں۔ میں نے سبحان اللہ کہا اور اس کے ساتھ ہی میرے بائیں طرف نیچے کی سمت ایک اسکرین سی نمودار ہوگئی۔ اس پر جو منظر نمودار ہوا وہ حد درجہ دہشت ناک تھا۔ یہ جہنم کے وسطی حصے کا منظر تھا۔ خوفناک اور توانا فرشتے بھڑکتی ہوئی آگ سے چند انتہائی بدہیبت اور بدشکل انسانوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر نکال رہے تھے۔ ان کے گلوں میں طوق تھے اور ہاتھ پاو¿ں میں بھاری اور نوکیلی زنجریں بندھی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کا گوشت آگ میں جھلس چکا تھا۔ ان کے جسم پر تارکول کا بنا ہوا لباس تھا، جس سے سلگتی آگ ان کے گوشت کو جلارہی تھی۔ وہ شدتِ تکلیف کے مارے چیخ رہے تھے۔ رو رو کر اللہ سے فریاد کررہے تھے کہ انھیں ایک دفعہ دنیا کی زندگی میں جانے کا موقع دیا جائے پھر وہ کبھی ظلم، کفر اور ناانصافی کے قریب بھی نہیں پھٹکیں گے۔ مگر وہاں چیخنا، رونا اور دانت پیسنا سب بے سود تھا۔
پھر ان جہنمیوں نے چلا چلا کر پانی مانگنا شروع کیا تو فرشتے ان کو گھسیٹتے ہوئے پانی کے کچھ چشموں تک لے گئے۔ یہاں ابلتے پانی سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ مگر یہ جہنمی اتنے پیاسے تھے کہ اسی پانی کو پینے پر مجبور تھے۔ وہ کھولتے ہوئے پانی کو پیتے اور چیختے جارہے تھے۔ وہ اس پانی سے منہ ہٹاتے مگر کچھ ہی دیر میں اتنی شدید پیاس لگتی کہ پھر جانوروں کی طرح اسی پانی کو پینے پر خود کو مجبور پاتے۔ اس عمل کے نتیجے میں ان کے چہروں کی کھال اتر گئی اور ان کے ہونٹ نیچے تک لٹک گئے تھے۔
اسی اثنا میں مجھے محسوس ہوا کہ سواری کی رفتار دھیمی ہورہی ہے۔ میں نے اشارہ کیا اور اسکرین غائب ہوگئی۔ میری سواری منزل مقصود پر پہنچ رہی تھی۔ بلندی سے یہ جگمگاتا ہوا محل اتنا حسین لگ رہا تھا کہ میرا دل چاہا کہ میں یہاں ٹھہر کر یہ منظر دیکھتا رہوں۔ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے میں نے محل کے اطراف میںدو تین چکر لگائے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ صالح نیچے میرا منتظر ہے۔ اس لیے میں نے اترنے کا فیصلہ کیا۔ میری یہ سواری یا شیش محل اسی جگہ دھیرے سے اترگیا جہاں صالح موجود تھا۔
میں باہر نکلا تو صالح نے ایک قہقہہ لگاکر میرا استقبال کیا اور بولا:
”میں یہ سمجھ رہا تھا کہ تم اسے عرش سمجھ کر اس کا طواف کررہے ہو۔ اچھا ہوا تم نے سات چکر نہیں لگائے۔“
اس کے دلچسپ تبصرے پر میں خود بھی اس کی ہنسی میں شریک ہوکر اس سے بغلگیر ہوگیا۔ پھر وہ مجھ سے علیحدہ ہوتے ہوئے بولا:
”تم پہلے اپنے محل کا معائنہ کرو گے یا کھانے پینے کا ارادہ ہے؟“
”میں تو اس رہائش گاہ کے حسن سے مبہوت ہوکر رہ گیا ہوں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ خوبصورتی اس طرح بھی تخلیق کی جاسکتی ہے۔“
”عبداللہ! یہ تو صرف آغاز ہے۔ اس وقت سے لے کر دربار والے دن تک جو کچھ بھی تم دیکھو گے قرآن اس سب کو ’نزل ‘یعنی ابتدائی مہمانی کا سر و سامان کہتا ہے۔ جو کچھ اس کے بعد ملے گا وہ تو نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل پر کبھی اس کا خیال گزرا ہے۔“
”تم ٹھیک کہتے ہو۔ یہ باتیں قرآن و حدیث میں بیان ہوئی تھیں، مگر جنت اس سے مختلف ہے جو نقشہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ یہ اس بیان سے کہیں زیادہ خوبصورت جگہ ہے۔“
”شہدا کے دروازے سے اندر چلے جاو¿۔“
میں نے غور کیا تو دائیں طرف پہلا دروازہ انبیا کا تھا اور ا س کے برابر میں دوسرا دروازہ صدیقین اور پھر شہدا کادروازہ تھا۔ میں اسی میں داخل ہوگیا۔ یہ بھی ایک راہداری تھی جو ایک دروازے پر ختم ہورہی تھی۔ میں اس دروازے سے باہر آگیا۔ اس سے پہلے کہ میں باہر نکل کر کسی چیز کا جائزہ لیتا، میں نے اپنے سامنے صالح کو موجود پایا۔ اس کے ساتھ ایک فرشتہ کھڑا ہوا تھا۔ صالح کے بجائے اس نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور کہا:
”السلام علیکم۔ہمیشہ باقی رہنے والی جنت کی اس بستی میں آپ کو خوش آمدید۔ صالح نے مجھے آپ کا نام اعمال دیا جس میں آپ کا نام عبد اللہ بیان ہوا ہے۔ مگر اس کے ساتھ اعزازات اتنے لکھے ہوئے تھے کہ سمجھ میں نہیں آتا آپ کو کیا کہہ کر مخاطب کروں۔“
صالح نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:
”سر دست سردار عبداللہ سے کام چلائیے۔ کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کے بعد یہ کہہ کر ان کے استقبال کے لیے بھیجا تھا کہ میرا بندہ عبد اللہ سردار ہے۔ اسے لے کر میرے پاس آو¿۔“
”ٹھیک ہے۔ سردار عبداللہ! ختم نہ ہونے والی بادشاہی میں آنا مبارک ہو۔“، یہ کہتے ہوئے اس نے مجھ سے معانقہ کیا۔
”ہمارے میزبان کا نام کیا ہے؟“، معانقہ کرتے ہوئے میں نے صالح سے پوچھا۔
”یہ میزبان نہیں دربان ہیں اور ان کا نام رضوان ہے۔“
رضوان ہنستے ہوئے بولے:
’یہاں میزبان آپ ہیں سردار عبد اللہ۔ یہ آپ کی بادشاہی ہے۔ ذرا دیکھیے تو آپ کہاں ہیں۔“
اس کے کہنے پر میں نے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ میں ایک بالکل نئی دنیا میں داخل ہوچکا ہوں۔ یہاں آسمان و زمین بدل کر کچھ سے کچھ ہوچکے تھے۔ نئے آسمان اور نئی زمین پر مشتمل یہ ایک ایسی دنیا تھی جہاں یقینا سب کچھ تھا۔ مگر اس کے حسن اور کاملیت کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ میں زندگی بھر ایک قادر الکلام شخص رہا۔ مجھے زبان و بیان پر غیر معمولی عبور حاصل تھا، الفاظ میری دہلیز پر سجدہ کرتے اور اسالیب مجھ پر القا ہوتے۔ خدا نے مشکل سے مشکل حقائق کے بیان کو ہمیشہ میرے لیے بے حد آسان کیے رکھا تھا۔ مگر اس لمحے مجھے اندازہ ہوا کہ دنیا کی ہر زبان ان حقیقتوں کو بیان کرنے سے عاجز ہے جو میرے سامنے موجود تھیں۔ میں بالکل اسی کیفیت میں تھا جو پتھر کے زمانے کے کسی انسان پر صنعتی دور کے کسی جدید شہر میں اچانک آکر طاری ہوسکتی تھی۔ جو شخص اپنے غار کو لکڑیاں جلاکر روشن کرتا رہا ہو وہ اچانک لیزر لائٹ کی قوس و قزح اور ٹیوب لائٹ کی دودھیا روشنی کے جلوے دیکھ لیتا تو کبھی اس کی حقیقت کو بیان کرنے کیے الفاظ نہیں پاسکتا تھا۔ یہی کیفیت اس وقت میری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صالح میری بے خودی دیکھ کر بولا:
”سردار عبد اللہ! بے خود ہونے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اپنی منزل کی طرف چلیے۔“
رضوان نے ایک راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
”چلیے۔ آپ کی رہائش گاہ کا علاقہ اس سمت میں ہے۔“
ہم آگے بڑھے۔ ایک دبیز سرخ رنگ کا قالین اس راستے میں بچھا ہوا تھا۔ ہم اس پر چلنے لگے۔ اس راستے میں دونوں سمت فرشتوں کی قطار تھی جو ہاتھوں میں گلدستے لیے، ریشمی رومال لہراتے،پھولوں اور خوشبو کا چھڑکاو کرتے سلام و مرحبا کہتے میرا استقبال کررہے تھے۔ یہ ایک طویل راستہ تھا جو دور تک چلتا چلا جارہا تھا۔ بچپن میں تصوراتی پرستان اور کوہ قاف کی کہانیاں شاید سب سنتے پڑھتے ہیں۔ یہ راستہ ایسے ہی کسی پرستان پر جاکر ختم ہورہا تھا۔ دور سے اس پرستان کی بلند و بالا تعمیرات نظر آرہی تھیں۔ یہ عالیشان عمارات اور شاندار محلات کا ایک منظر تھا جو سبزے سے لدے پہاڑوں، اس کے دامن میں پھیلے پانی کے فرش اور نیلگوں آسمان کی چھت کے ساتھ ایک خیالی دنیا کی تصویر لگ رہا تھا۔
میں نے رضوان سے پوچھا:
”اس وقت ان گنت لوگ جنت میں داخل ہورہے ہیں، آپ کے پاس کیا اتنا فارغ وقت ہے کہ سب کو چھوڑ کر میرے ساتھ آگئے ہیں؟“
وہ ہنس کر بولے:
”یہاں وقت رکا ہوا ہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ دو جنتی جو ایک کے بعد ایک کرکے اندر داخل ہورہے ہیں، ان کے اندر آنے میں کافی وقفہ ہوتا ہے۔ اور جو جنتی ذرا کم درجے کے ہیں وہ تو مہینوں اور برسوں نہیں صدیوں کے فرق سے اندر آئیں گے۔“
میں نے صالح کی سمت دیکھ کر کہا:
”ناعمہ؟“
میری بات کا جواب رضوان نے دیا:
”سردار عبد اللہ! آپ تو بہت پہلے اندر آگئے ہیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ناعمہ اور دیگر لوگ کچھ عرصے ہی میں یہاں آجائیں گے۔ مگر اس وقت میں آپ کے کرنے کا یہاں بہت کام ہے۔ آپ کو اپنی جنت، اپنی اس دنیا، اس کی بادشاہی ، یہاں کے خدام اوردیگر متعلقہ لوگوں سے واقفیت حاصل کرنی ہے۔“
”اچھا ! یہاں اور کون ہے؟“
”دیکھیے یہ آپ کے خدام میں سے چند نمایاں لوگ کھڑے ہیں۔“
رضوان کے توجہ دلانے پر میں نے دیکھا کہ فرشتوں کے بعد قطار میں دونوں سمت ایسے لڑکے کھڑے تھے جو اپنی ٹین ایج کی ابتدا میں تھے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ غلمان ہیں اور یہی وہ لڑکے ہیں جن کے لیے قرآن نے موتیوں کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یہ واقعتا ایسے ہی تھے۔ بلکہ شاید موتیوں سے بھی زیادہ صاف، شفاف اور چمکتے ہوئے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ قرآن نے جن حقائق کو بیان کرنے کی ذمے داری اٹھائی تھی، انسانی زبانیں ان کے بیان کے لیے اسالیب، تشبیہات اور استعاروں کا کتنا مختصر سرمایہ اپنے اندر لیے ہوئے تھیں۔ آج جو حقائق سامنے تھے وہ بیان کرنے کے نہیں صرف دیکھنے اور محظوظ ہونے کی چیز تھے۔ یہ غلمان بھی ایک ایسی ہی حقیقت تھے۔ فرشتوں کی طرح غلمان بھی پرجوش انداز میں میرا استقبال کررہے تھے۔ البتہ جیسے ہی میں ان کے قریب پہنچتا وہ گھنٹوں کے بل بیٹھ کر اپنا سر جھکادیتے۔ یہ موتیوں کی ایک لڑی تھی جو میرے استقبال میں بچھی جارہی تھی۔
قطار جب کافی طویل ہوگئی تو میں نے صالح سے کہا:
”بھائی یہ نمایاں لوگ ہی اتنی تعداد میں ہیں تو کل خدام تعداد میں کتنے ہوں گے۔ اور اتنے لوگوں کا میں کیا کروں گا؟“
صالح کے بجائے رضوان نے جو اسرار جنت سے زیادہ واقف تھے، جواب دیا:
”آپ زمین سے آسمانوں تک پھیلی ہوئی ایک عظیم بادشاہی کے سربراہ ہیں۔
ہم کچھ دور اور چلے تو صالح نے کہا:
”اب حوریں آرہی ہیں۔“
ہم جیسے ہی ان کے قریب پہنچے تو غلمان کے برخلاف انہوں نے ایک مختلف کام کیا۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے بجائے دو زانو بیٹھیں اور کمر کو خم دے کر سر جھکادیا۔
میں نے رک کر صالح سے پوچھا:
”یہ کیا کر رہی ہیں؟“
”یہ دیدہ و دل فرشِراہ کررہی ہیں۔“، اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
رضوان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:
”اصل میں انھوں نے آپ کے قدموں کو راحت پہنچانے کے لیے اپنے بال فرش پر بچھائے ہیں۔ اسی لیے یہ اس طرح جھکی ہوئی ہیں۔“
اس کے کہنے پر میں نے غور کیا کہ وہ اس طرح سر کو جھٹکا دے کر جھک رہی ہیں کہ دونوں سمتوں سے ان کے بال زمین پر بچھ کر ایک ریشمی فرش بناتے جارہے ہیں۔ حسن کی یہ ادا میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی۔ میں پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ مسکراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ جب میرے قدموں نے ریشمی زلفوں سے بنے اس فرش کو چھوا تو سرور کی ایک لہر میری روح کے اندر تک تیرتی چلی گئی۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ گرچہ میرے جسم پر انتہائی لطیف، مخملی اور دیدہ زیب شاہی لباس تھا لیکن میں نے جوتے نہیں پہن رکھے تھے۔ آخر کار یہ استقبالی قطار ایک بلند و بالا دروازے پر ختم ہوئی۔ ہمارے قریب پہنچنے سے قبل ہی دروازے کے دونوں پٹ کھل چکے تھے۔ یہاں سے رضوان واپس لوٹ گئے اور میں صالح کے ساتھ اپنی رہائش گاہ میں داخل ہوگیا۔میں نے اس وسیع منظر نامے پر نظر ڈالتے ہوئے صالح سے دریافت کیا:
”اتنے سارے محلات میں سے میری رہائش گاہ کون سی ہے؟“
اس نے ہنستے ہوئے کہا:
”یہ محلات تمھاری رہائش گاہ نہیں۔ یہ تمھارے انتہائی قریبی خدام کی رہائش گاہ ہیں۔ تمھاری رہائش یہاں سے کافی دور ہے۔ تم چاہو تو پیدل بھی جاسکتے ہو، مگر بہتر ہے کہ اپنی سواری میں جاو¿۔“
یہ کہہ کر اس نے ایک طرف بڑھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے اس سمت دیکھا تو ایک انتہائی شاندارمگر قدرے چھوٹاسا گھربنا ہوا تھا۔ چھوٹا اس دنیا کے حسا ب سے تھا وگرنہ پچھلی دنیا کے اعتبار سے یہ کوئی عظیم الشان محل جتنا وسیع تھا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ صالح توجہ نہ دلاتا تو میں کبھی اس کی موجودگی محسوس نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہ مکمل طور پر شیشے کا بنا ہوا اور اتنا شفاف تھا کہ اس کے آر پار سب کچھ نظر آرہا تھا۔ صالح آگے بڑھا تو میں اس کے پیچھے اس خیال سے چلا کہ اس گھر میں کوئی گاڑی وغیرہ جیسی سواری کھڑی ہوگی۔ مگر وہ سیدھا مجھے اس گھر کے وسط میں موجود ایک کمرے میں لے گیا جہاں ہیرے جواہرات سے مرصع شاہانہ انداز کی عالیشان نشستیں نصب تھیں۔ صالح نے مجھے اشارے سے بیٹھنے کے لیے کہا۔ پھر وہ بولا:
”یہ تمھاری سواری ہے جو تمھیں تمھاری منزل تک پہنچادے گی۔ میں تمھیں تنہا چھوڑ رہا ہوں تاکہ تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ یہاں کے اصل بادشاہ تم ہو۔ تمھیں کسی سہارے، کسی خادم اور کسی فرشتے کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم جو چاہو گے وہ خود بخود ہوجائے گا۔ اب میں تمھیں تمھارے گھر میں ملوں گا۔“اس کے ساتھ ہی یہ گھر جو ایک سواری تھی خود بخود فضا میں بلند ہونے لگا۔ میں خوشی سے کھلکھلا اٹھا اور میں نے زور سے پکار کر کہا:
”بسم اللہ مجریہا و مرسہا“
یہ پیغمبر نوح علیہ السلام کے الفاظ تھے جوآپ نے اپنی کشتی میں بیٹھ کر کہے تھے۔ میری سواری دھیرے دھیرے ایک سمت بڑھنے لگی۔ میں خاموشی سے سر ٹکاکر نیچے پھیلے ہوئے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ گھر دھیرے دھیرے اڑ رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ نیچے شام کا سا دھندلکا پھیلنے لگا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ہر طرف مکمل تاریکی چھاگئی۔ اس کے ساتھ ہی شیشے کا یہ گھر دودھیا رنگ کی ا±س روشنی سے جگمگا اٹھا جس کا ماخذ اور منبع کہیں نظر نہ آتا تھا۔میری خواہش پر ایک دفعہ پھر تاریکی چھاچکی تھی۔ تاریکی سے مجھے خیال آیا کہ کچھ اہل جہنم کا حال بھی دیکھوں۔ میں نے سبحان اللہ کہا اور اس کے ساتھ ہی میرے بائیں طرف نیچے کی سمت ایک اسکرین سی نمودار ہوگئی۔ اس پر جو منظر نمودار ہوا وہ حد درجہ دہشت ناک تھا۔ یہ جہنم کے وسطی حصے کا منظر تھا۔ خوفناک اور توانا فرشتے بھڑکتی ہوئی آگ سے چند انتہائی بدہیبت اور بدشکل انسانوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر نکال رہے تھے۔ ان کے گلوں میں طوق تھے اور ہاتھ پاو¿ں میں بھاری اور نوکیلی زنجریں بندھی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کا گوشت آگ میں جھلس چکا تھا۔ ان کے جسم پر تارکول کا بنا ہوا لباس تھا، جس سے سلگتی آگ ان کے گوشت کو جلارہی تھی۔ وہ شدتِ تکلیف کے مارے چیخ رہے تھے۔ رو رو کر اللہ سے فریاد کررہے تھے کہ انھیں ایک دفعہ دنیا کی زندگی میں جانے کا موقع دیا جائے پھر وہ کبھی ظلم، کفر اور ناانصافی کے قریب بھی نہیں پھٹکیں گے۔ مگر وہاں چیخنا، رونا اور دانت پیسنا سب بے سود تھا۔
پھر ان جہنمیوں نے چلا چلا کر پانی مانگنا شروع کیا تو فرشتے ان کو گھسیٹتے ہوئے پانی کے کچھ چشموں تک لے گئے۔ یہاں ابلتے پانی سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ مگر یہ جہنمی اتنے پیاسے تھے کہ اسی پانی کو پینے پر مجبور تھے۔ وہ کھولتے ہوئے پانی کو پیتے اور چیختے جارہے تھے۔ وہ اس پانی سے منہ ہٹاتے مگر کچھ ہی دیر میں اتنی شدید پیاس لگتی کہ پھر جانوروں کی طرح اسی پانی کو پینے پر خود کو مجبور پاتے۔ اس عمل کے نتیجے میں ان کے چہروں کی کھال اتر گئی اور ان کے ہونٹ نیچے تک لٹک گئے تھے۔
اسی اثنا میں مجھے محسوس ہوا کہ سواری کی رفتار دھیمی ہورہی ہے۔ میں نے اشارہ کیا اور اسکرین غائب ہوگئی۔ میری سواری منزل مقصود پر پہنچ رہی تھی۔ بلندی سے یہ جگمگاتا ہوا محل اتنا حسین لگ رہا تھا کہ میرا دل چاہا کہ میں یہاں ٹھہر کر یہ منظر دیکھتا رہوں۔ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے میں نے محل کے اطراف میںدو تین چکر لگائے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ صالح نیچے میرا منتظر ہے۔ اس لیے میں نے اترنے کا فیصلہ کیا۔ میری یہ سواری یا شیش محل اسی جگہ دھیرے سے اترگیا جہاں صالح موجود تھا۔
میں باہر نکلا تو صالح نے ایک قہقہہ لگاکر میرا استقبال کیا اور بولا:
”میں یہ سمجھ رہا تھا کہ تم اسے عرش سمجھ کر اس کا طواف کررہے ہو۔ اچھا ہوا تم نے سات چکر نہیں لگائے۔“
اس کے دلچسپ تبصرے پر میں خود بھی اس کی ہنسی میں شریک ہوکر اس سے بغلگیر ہوگیا۔ پھر وہ مجھ سے علیحدہ ہوتے ہوئے بولا:
”تم پہلے اپنے محل کا معائنہ کرو گے یا کھانے پینے کا ارادہ ہے؟“
”میں تو اس رہائش گاہ کے حسن سے مبہوت ہوکر رہ گیا ہوں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ خوبصورتی اس طرح بھی تخلیق کی جاسکتی ہے۔“
”عبداللہ! یہ تو صرف آغاز ہے۔ اس وقت سے لے کر دربار والے دن تک جو کچھ بھی تم دیکھو گے قرآن اس سب کو ’نزل ‘یعنی ابتدائی مہمانی کا سر و سامان کہتا ہے۔ جو کچھ اس کے بعد ملے گا وہ تو نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل پر کبھی اس کا خیال گزرا ہے۔“
”تم ٹھیک کہتے ہو۔ یہ باتیں قرآن و حدیث میں بیان ہوئی تھیں، مگر جنت اس سے مختلف ہے جو نقشہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ یہ اس بیان سے کہیں زیادہ خوبصورت جگہ ہے۔“