لندن سے کس چور کی آمد ہے

بالآخر پاکستان میں انتخابی ماحول بن ہی گیا‘ جلسے ہو رہے ہیں‘ اپنی اپنی پارٹیوں کے منشور پیش کئے جارہے ہیں۔ اِدھر تحریک انصاف کا انتخابی منشور آیا۔ اُدھر میاں نوازشریف لندن سے پاکستان آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن بھی منشور جاری کر چکی ہے۔ تحریک انصاف نے انتخابات جیتنے کی صورت میں 100دن کا پروگرام دیا تو نواز لیگ نے کہا کہ یہ ان کا چرایا ہوا پروگرام ہے۔ اب بھی پی ٹی آئی پر مسلم لیگ کے منشور کے چربے کا الزام لگ سکتا ہے۔ الزام لگانے والے دانشوروں نے کبھی اپنا منشور پڑھا نہ تحریک انصاف کا پڑھا ہوگا۔ منشور چوری کی طرز پر اشعار چوری کا واقعہ ذہن میں آ گیا۔ ایک شاعر کی نظم بڑی ہٹ ہوئی۔ بڑی شہرت ملی، انعام و کرام بھی سمیٹے بعد میں انکشاف ہوا کہ فلاں غیرمعروف شاعر کا کلام موصوف نے نقل کیا ہے۔ ان سے پوچھا تو ان کا ترنت جواب تھا ’’یہ دراصل میرا کلام ہے جو انہوں نے چرایا اور چند الفاظ تبدیل کرکے اپنے نام کر لیا۔ معروف شاعر سے ان کا سن ولادت پوچھا گیا جس سے چار سال قبل ان کا کلام چرانے والا شاعر دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ معروف شاعر سے سینہ زوری کے باوجود اختلاف نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ یہ شاعر کبھی نہ کبھی حق دوستی ادا کر سکتا تھا جبکہ جو مر گیا سو مر گیا۔ سینہ زوری ہمارے معاشرے کا عمومی چلن ہے’ سیاست‘ سیاستدان، جج ، جنرل جرنلسٹ بھی معاشرے سے باہر نہیں ۔
میاں نوازشریف کا احتساب ہوا اور کڑا احتساب ہوا جو جاری ہے مگر انکی نظروں میں یہ کھرا احتساب نہیں ہے ۔ اب ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ احتساب کا مریل گھوڑا اب تندرست ہو کر سرپٹ دوڑتا نظر آتا ہے ۔قرائن و شواہد سے لگتا ہے میاں نوازشریف کے بعد زرداری کی باری ہے۔ کہا جا رہا ہے 70ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی۔ سپریم کورٹ نے آصف زرداری اور انکی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کو ملک سے باہر جانے سے روک کر کل طلب کر لیا ہے۔ ایف آئی اے نے پاناما طرز پر جے آئی ٹی قائم کردی جس کے سربراہ آصف زردری کے باغی دست راست ذوالفقار مرزا کے عزیز نجف قلی خان مرزا مقرر کئے گئے ہیں۔ ایک بڑے طبقے کا جائزسوال تھاصرف ایک ہی خاندان کا احتساب کیوں اور اصرار تھا‘سب کا یکساں احتساب کیا جائے ۔ زرداری صاحب کا ’’تتے توے‘‘ پر پائوں آیا تو مسلم لیگ ن کی طرف ترحم سے دیکھ رہے ہیں۔ کل میاں نوازشریف نے انکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو زرداری صاحب نے بے رحمی سے جھٹک دیا تھا۔ اب دیکھیں شیر اپنے کیا تیور دکھاتا ہے۔
میاں نوازشریف نے لندن سے واپسی کا اعلان کردیا۔ پاکستان کی طرح لندن میں بھی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ دونوں جگہ عوامی جذبات عروج پر ہیں پاکستان میں صورتحال تو یوں ہے بقول شاعر ، کس شیر کی آمد ہے۔ یوں یاد آیا 1988ء کے انتخابات کے نتیجے میں بینظیر بھٹو نے حکومت بنائی۔ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں مولانا عبدالستار نیازی آئے تو کسی جیالے نے مصرع پڑھ دیا…؎
’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘‘۔ مولانا کو کچھ ناگوار گزرا اور کہا کہ یہ مصرع یوں پڑھیں… ’’رن کانپ رہی ہے‘‘۔
چیف رپورٹر نوائے وقت لاہور برادرم خواجہ فرخ سعید کے مطابق لندن میں میاں نوازشریف کے ساتھ ملاقاتیوں کا تانتا بندھ گیا۔ واپسی کی بھرپور تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس منظر میں محترمہ کلثوم نواز پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ انکی صحت کے بارے میں میڈیا خاموش ہے۔ میاں نوزشریف واپسی پر جہاں لیگی حلقے پرجوش ہیں وہیں ادھار اور مستعار نگران حکومت کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میاں شہبازشریف نے کہا نوازشریف ملک کیلئے واپس آ رہے ہیں‘ انتظامیہ شہریوں کا راستہ نہ روکے۔ ادھر میاں نوازشریف کی عمر رسیدہ والدہ محترمہ نے اعلان کیا کہ وہ خود اپنے فرزند ارجمند کا استقبال کریں گی۔ گرفتار کیا گیا تو ساتھ جائوں گی۔ بلاشبہ میاں نوازشریف سزا یافتہ ہونے کے بعد گرفتاری دینے آ رہے ہیں، انکی والدہ کے بیان سے گرفتاری میں مزاحمت کا عندیہ ملتا ہے۔ ہو سکتا ہے والدہ محترمہ نے بیٹے کی محبت میں خود ساتھ جانے کی جذباتی بات کی ہو۔ مسلم لیگ ن کے چاہنے والوں کی تعداد لاتعداد ہے۔ میاں نوازشریف کے بعد شہبازشریف نے بھی ان کو ایئرپورٹ پہنچنے کی کال دی ہے۔ ماضی کا ریکارڈ ایسے معاملات میں مایوس کن ہے۔ لیگی متوالے چوری کھانے والے میاں مٹھو ثابت ہوتے رہے ہیں۔ اب ہو سکتا ہے سخن بے کانہ کی طرح ہمت رندانہ بھی آ گئی ہو اور لاہور انسانوں کے سمندر سے 1986ء کی طرح جام پیک ہو جائے جب بینظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے لندن سے لاہور آئی تھیں ۔ اب میاں نوازشریف پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یہ فقرا دہرانے کے بجائے کہ کوئی نہیں تھا ان کو لیڈر اور کارکن سروں پر کفن باندھے حد نظر تک دکھائی دیں۔ ان کا فقید المثال ریکارڈ توڑ استقبال ہو۔
یہاں ایک لمحہ توقف فرمایئے گا، میاں نوازشریف 10سال قید کی سزا ملنے پر پاکستان آ رہے ہیں۔ حکومت نے ان کو اڈیالہ جیل منتقل کرنا ہے۔ انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں جس کی قیادت میاں شہبازشریف کرینگے ساتھ والدہ بھی ہوں گی تو میاں نوازشریف کو ایئرپورٹ سے حراست میں لینا آسان نہیں ہوگا۔ نیب ان کو جہاز کے اندر سے گرفتار کرنے کی کوشش کر سکتاہے۔ جہاز میں غیر ملکی میڈیا ٹیمیں براہ راست دکھانے والے کیمروں کے ساتھ موجود ہونگی۔ میاں نوازشریف کی جہاز کے اندر سے گرفتاری انکے عدم تعاون کے باعث تماشا بن جائیگی۔
حکومت ممکنہ بدمزگی سے بچنے کیلئے ان کو ایک دن کا فری ہینڈ دیدے۔ قیادت اور کارکنوں کو دل کے ارمان پورے کرنے دے۔ لائو لشکر میں انہیں جاتی امرا جانے دے۔ ایک دن کیلئے انکی رہائش گاہ کوسب جیل قرار دیا جا سکتا ہے کیا یہ حق صرف ایک آمر تک محدود نہیں ہے؟ پوری سزا گھر کو جیل قرار دے کر گزارنے میں کوئی امر مانع ہے تو کم از کم جنرل مشرف جتنا عرصہ تو گھر کو جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔
دلیل سے کی گئی کچھ باتیں دل میں ایسی راسخ ہوتی ہیں کہ پتھر پر لکیر بن جاتی ہیں، آپ کو تذبذب سے نکال دیتی ہیں۔ میاں نوازشریف اور مریم نوز کیخلاف آنیوالے باالترتیب دس اور سات سال کی قید اور مجموعی طور پر ایک ارب 63کروڑ پر جرمانے کے فیصلے کو قبل ازیں اور بعد ازاں سیاسی فیصلہ کہا جاتا رہا ہے۔ میں بھی متذبذب تھا کہ فیصلہ میرٹ پر ہو گا یا سیاسی ہوگا۔ فیصلے کے روز وقت نیوز کی ٹرانسمیشن جاری تھی ۔ فیصلہ سے قبل خواجہ فرخ سعید کے ساتھ مجھے بھی چینل پر بلایا گیا تھا، فیصلہ تاخیر کا شکار ہو رہا تھا۔ اس موقع پر خواجہ فرخ سعید کے تجزیے سے میری تذبذب دور اور میری رائے پختہ ہو گئی کہ فیصلہ سیاسی نہیں میرٹ پر ہوا ہے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا، فیصلہ سیاسی ہوا تو نوازشریف کو سزا اور مریم کو بری کر دیا جائیگا تاکہ خاندان میں پھوٹ پڑ جائے۔ میرٹ پر ہوا تو دونوں کو سزا ہو گی۔
ایک بار استاد الاساتذہ اور صحافت کے ماتھے کے جھومر جناب مجیب الرحمن شامی نے مجلس میں فرمایا ۔ ’’عمران خان قائداعظم کی طرح سچے اور کھرے لیڈر ہیں‘‘۔ انکی یہ بات شاید عدالت نے بھی سن لی اور خان کو صادق اور امین ہونے کا باقاعدہ سرٹیفکیٹ دیدیا۔ ہم نے شامی صاحب کا قول پلے باندھ لیا یہ بدستور پلے سے بندھا ہے۔ لندن فلیٹس کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہے ہم وہی کہیں گے جو میاں نوازشریف نے کہا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں فرمایا جو لفظ بلفظ یوں ہے ’’جدہ کی یہ فیکٹری جون 2005ء میں تقریباً 64ملین ریال یعنی 17ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔ حضور! یہ ہیں وہ ذرائع اور وسائل جن سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے‘‘۔ الحمدللہ!