دہشت گردوں کوانکے جنگل میں جا کر جہنم واصل کرنے والے شہید میجرکی روداد شجاعت
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع مارچ 30, 2018 | 07:24 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): ’’بابا! ہم ایک خاص آپریشن پر جارہے ہیں ، ہمارے لئے دعا کرنا۔‘‘
موبائل فون کے اِن باکس میسج میں رکھی اِس تحریر نے بوڑھے باپ کے اندر بیٹھے تجربہ کار فوجی کو جگا دیا جو کئی برس پہلے اپنے کندھوں پر چمکتے تاروں کو نکال کر جواں سال بیٹے کی خاکی وردی پر ٹانک چکا تھا۔ اْس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی کیوں کہ اْسے خبر تھی کی اْس کا بیٹا جب بھی کسی آپریش پر روانہ ہونے والا ہوتا تو ایسا ایک میسج کر دیا کرتا تھا تاکہ اْس کے پٹھوں میں پڑی دعاؤں کا
بار بڑھتا رہے اور وہ سینہ تان کر آگے ہی آگے چلتا رہے۔
پھر دو روز موبائل نے مکمل خاموشی میں بسر کئے لیکن تیسرے دن اچانک اْس کی اطلاعی گھنٹی جاگ اْٹھی اور اسکرین پر ایک انجانا نمبر چمکنے لگا۔بابا نے لپک کر فون اْٹھایا اور رابطہ ہوتے ہی دوسری جانب سے کہا گیا۔
’’ سر! میں میجر جہانزیب کا یونٹ آفیسر بات کر رہا ہوں۔۔۔آپ کے بیٹے ایک آپریشن میں دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں‘‘۔
چند ثانیے کے توقف کے دوران ہی بوڑھے باپ نے کھونٹی پر لٹکی وردی تن پر ڈالی اور کمال حوصلے سے گویا ہوا ’’الحمدللہ! آج میں سرخرو ہوا کہ میرا بیٹا بھی شہیدوں کی اْس قبیل میں شامل ہو گیا جو تب وتابِ جاودانہ کے حقدار ٹھہرائے گئے ہیں‘‘
لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ ملک نور محمد جنہوں نے اپنی دو جوانیاں پاک فوج میں گزاریں، پہلی بار سیکنڈ لیفٹیننٹ نور کے روپ میں اور دوسری سیکنڈ لیفٹیننٹ جہانزیب کے روپ میں اوردونوں ہی اپنے پاکستان کی آن بان کی خاطر قربان کر ڈالیں، ایک غازی بن کر اور دوسری شہید ہوکر۔
شہادت سے چند دن پہلے ہی میجر جہانزیب عدنان کی یونٹ کو حکم مل چکا تھا کہ علاقے میں موجود دہشت گردوں کے چند ساتھی کسی بڑی کارروائی کی تیاری میں ہیں جن کی بروقت سرکوبی سے معصوم لوگوں کی جانوں کو محفوظ بنایا جانا بہت ضروری ہوگا۔
’’سر! میں خود جاتا ہوں، چند گھنٹوں کی بات ہے۔۔۔ آپ کو آل اوکے کی رپورٹ دیتا ہوں‘‘۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی میجر جہانزیب نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کے سامنے خود کو والنٹیئرکرتے ہوئے کہا۔
سب جانتے ہیں کہ وہ ایسا ہی سپاہی تھا جو ہر میدان میں اپنا آپ پیش کردیتا تھا۔ یونٹ کا سیکنڈ اِن کمانڈ ہو کربھی اْس نے ہر آپریشن میں حصہ لیا اور کامیابیاں سمیٹیں۔
پاک فوج جیسی عمدہ مثال دنیا کی کسی بھی چھوٹی بڑی سپاہ میں نہیں ملتی جہاں کسی بھی رینک میں ہوکر بھی آفیسر جوانوں کے لئے مثال بنتا ہوا دکھائی دیتا ہے یعنی قیادت کا عملی ثبوت پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ہونے والی شہادتوں میں کسی بھی رینک میں شہید آفیسرز کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے جو ہمارے لئے قابلِ فخر بھی ہے اور قابل تقلیدبھی۔
کمانڈنگ آفیسر نے مسکراتے ہوئے ، میجر جہانزیب اور ایک دوسرے آفیسر کو سولجرز کی مخصوص تعداد کے ہمراہ مقررہ مقام کی جانب روانگی کے لئے اجازت دے دی۔
خصوصی اطلاعات کے ذریعے یہ معلومات بہم پہنچائی جا چکی تھیں کہ کس مقام پر دہشت گردوں کی ممکنہ کارروائی ہو سکتی ہے لہٰذا تربیت یافتہ سپاہ کا یہ گروپ اپنی قیادت کے ہم قدم مستقر کی جانب بڑھنے لگے۔
مقررہ مقام پر پہنچنے پر سپاہ نے علاقے کا گھیراؤ کیا اورتلاش شروع کردی۔ اس دوران دہشت گردوں نے گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کی اور ایک مکان میں جا گھسے۔ دونوں اطراف سے فائرنگ کا بھر پور تبادلہ ہونے لگا۔ دہشت گردوں نے بھاگنے کی آخری کوشش کی جس میں چند ایک قریبی جنگل میں گم ہو جانے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن چند کو میجر جہانزیب کی رائفل نے تاک لیا تھا۔
میجر جہانزیب نے اپنے ساتھیوں کو پوزیشن لینے کا اشارہ کیا’’پوزیشن لو،میں انکے پیچھے جارہا ہوں،دیکھو کوئی بھی بزدل بھاگنے نہ پائے‘‘۔۔۔ اور خود ایک بار پھروہ والنٹیئرہوگیا تاکہ گھر کے دروازے کو توڑا جاسکے اور منہ چھپا کر بیٹھے گیدڑوں کو باہر نکالا جا سکے۔
میجر جہانزیب نے خود کو مخصوص آڑ سے نکالا اور بھاگ کر دروازے پر یوں برسا کہ وہ اس کے پیروں میں ڈِھ گیا۔ اچانک زور دار حملے نے اندر چھپے دہشت گردوں کے اوسان خطا کر ڈالے اور انھوں نے اندھادھند گولیاں برسانا شروع کر دیں جن میں سے چند ایک نے میجر جہانزیب کے ماتھے اور سینے پر بوسے دیے کیوں کہ انھیں خبر تھی کہ یہ چٹان سینہ ایک شہید کا ہے۔ اگرچہ اس فائرنگ کے دوران میجر جہانزیب کی گولیوں نے دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کر ڈالا لیکن دریں اثنا وہ بھی سینے پرتمغے سجائے نعرہ لاتذر لگاتے ہوئے گرے اور شہادت کی جاوداں منزل کو پا گئے۔
میجر جہانزیب جو ہمیشہ اپنے ساتھیوں میں نمایاں نظر آتا رہا، جو ہر کام میں دو قدم آگے نکل کرخود کو والنٹیئر کرتا رہا، آج پھر اپنے ساتھیوں میں سب سے نمایاں تھا۔آج وہ خود کو حقیقی والنٹیئر ثابت کر گیا اوراْس اعزاز و مرتبے کو پا گیا کہ جس کی خواہش ہر سپاہی کا اوّلین خواب ہوتا ہے۔
جی ہاں! شہادت کا مقام و مرتبہ بھلا قرآن پاک سے بہتر کون بتلائے گا جو اِ س زندگی کو تب و تابِ جاودانہ کہہ رہا ہے۔ جو کہہ رہا ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے، ہاں ! مگر تم اس کا ادراک نہیں رکھتے جیسا کہ یہاں تفسیر لکھتا ہوں’’دفاعِ وطن میں سبھی کام آئے ہوئے نوجوانو! تمہارے ہی بارے خدانے بھی تو، بارگاہِ محبت سے خوشبو میں لیپٹی ہوئی آیتوں کو نچھاور کیا تھا، کہاتھا۔۔۔
’’سوحق راستوں پر جوچلتے ہوئے لوگ مارے گئے ہیں وہ زندہ تھے اور ہمیشہ ہی زندہ رہیں گے‘‘
میجر جہانزیب عدنان جنوری 1983ء کو لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) ملک نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر آتے ہیں لیکن آج سب پر برتری لے کر پہلے نمبر پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔ عسکری روایات کے بیچ پروان چڑھے اور پی ایم اے 107لانگ کورس میں شامل ہو کر کیڈٹ شپ کی تربیت حاصل کی اور 2003 ء میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ، تب و تابِ جاودانہ کے سفر پر نکلے۔انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی مایہ ناز پلٹن ’’تین۔ اِکونجا‘‘ میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ شمولیت اختیارکی۔فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی کالے بٹنوں والی یونیفارم ان کو اس قدر پسند تھی کہ انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں شمولیت کا استحقاق بھی رد کیا۔ یونٹ سے محبت کا یہ عالم رہا کہ جب بھی گاڑی خریدی اس کا نمبر بھی ’’تین۔ اِکونجا‘‘ ہی لیا۔ جو سپاہی اپنی یونٹ سے اتنی محبت رکھتا ہو ، اْس کے لئے وطن کی محبت کا عالم کیا ہوگا۔ یہی وہ محبت میں دیوانہ پن ہے جو ایک سپاہی کی میراث جانا جاتا ہے اور آج میجر جہانزیب نے اپنی میراث کی ہی لاج نبھائی ہے۔
پھر دو روز موبائل نے مکمل خاموشی میں بسر کئے لیکن تیسرے دن اچانک اْس کی اطلاعی گھنٹی جاگ اْٹھی اور اسکرین پر ایک انجانا نمبر چمکنے لگا۔بابا نے لپک کر فون اْٹھایا اور رابطہ ہوتے ہی دوسری جانب سے کہا گیا۔
’’ سر! میں میجر جہانزیب کا یونٹ آفیسر بات کر رہا ہوں۔۔۔آپ کے بیٹے ایک آپریشن میں دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں‘‘۔
چند ثانیے کے توقف کے دوران ہی بوڑھے باپ نے کھونٹی پر لٹکی وردی تن پر ڈالی اور کمال حوصلے سے گویا ہوا ’’الحمدللہ! آج میں سرخرو ہوا کہ میرا بیٹا بھی شہیدوں کی اْس قبیل میں شامل ہو گیا جو تب وتابِ جاودانہ کے حقدار ٹھہرائے گئے ہیں‘‘
لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ ملک نور محمد جنہوں نے اپنی دو جوانیاں پاک فوج میں گزاریں، پہلی بار سیکنڈ لیفٹیننٹ نور کے روپ میں اور دوسری سیکنڈ لیفٹیننٹ جہانزیب کے روپ میں اوردونوں ہی اپنے پاکستان کی آن بان کی خاطر قربان کر ڈالیں، ایک غازی بن کر اور دوسری شہید ہوکر۔
شہادت سے چند دن پہلے ہی میجر جہانزیب عدنان کی یونٹ کو حکم مل چکا تھا کہ علاقے میں موجود دہشت گردوں کے چند ساتھی کسی بڑی کارروائی کی تیاری میں ہیں جن کی بروقت سرکوبی سے معصوم لوگوں کی جانوں کو محفوظ بنایا جانا بہت ضروری ہوگا۔
’’سر! میں خود جاتا ہوں، چند گھنٹوں کی بات ہے۔۔۔ آپ کو آل اوکے کی رپورٹ دیتا ہوں‘‘۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی میجر جہانزیب نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کے سامنے خود کو والنٹیئرکرتے ہوئے کہا۔
سب جانتے ہیں کہ وہ ایسا ہی سپاہی تھا جو ہر میدان میں اپنا آپ پیش کردیتا تھا۔ یونٹ کا سیکنڈ اِن کمانڈ ہو کربھی اْس نے ہر آپریشن میں حصہ لیا اور کامیابیاں سمیٹیں۔
پاک فوج جیسی عمدہ مثال دنیا کی کسی بھی چھوٹی بڑی سپاہ میں نہیں ملتی جہاں کسی بھی رینک میں ہوکر بھی آفیسر جوانوں کے لئے مثال بنتا ہوا دکھائی دیتا ہے یعنی قیادت کا عملی ثبوت پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ہونے والی شہادتوں میں کسی بھی رینک میں شہید آفیسرز کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے جو ہمارے لئے قابلِ فخر بھی ہے اور قابل تقلیدبھی۔
کمانڈنگ آفیسر نے مسکراتے ہوئے ، میجر جہانزیب اور ایک دوسرے آفیسر کو سولجرز کی مخصوص تعداد کے ہمراہ مقررہ مقام کی جانب روانگی کے لئے اجازت دے دی۔
خصوصی اطلاعات کے ذریعے یہ معلومات بہم پہنچائی جا چکی تھیں کہ کس مقام پر دہشت گردوں کی ممکنہ کارروائی ہو سکتی ہے لہٰذا تربیت یافتہ سپاہ کا یہ گروپ اپنی قیادت کے ہم قدم مستقر کی جانب بڑھنے لگے۔
مقررہ مقام پر پہنچنے پر سپاہ نے علاقے کا گھیراؤ کیا اورتلاش شروع کردی۔ اس دوران دہشت گردوں نے گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کی اور ایک مکان میں جا گھسے۔ دونوں اطراف سے فائرنگ کا بھر پور تبادلہ ہونے لگا۔ دہشت گردوں نے بھاگنے کی آخری کوشش کی جس میں چند ایک قریبی جنگل میں گم ہو جانے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن چند کو میجر جہانزیب کی رائفل نے تاک لیا تھا۔
میجر جہانزیب نے اپنے ساتھیوں کو پوزیشن لینے کا اشارہ کیا’’پوزیشن لو،میں انکے پیچھے جارہا ہوں،دیکھو کوئی بھی بزدل بھاگنے نہ پائے‘‘۔۔۔ اور خود ایک بار پھروہ والنٹیئرہوگیا تاکہ گھر کے دروازے کو توڑا جاسکے اور منہ چھپا کر بیٹھے گیدڑوں کو باہر نکالا جا سکے۔
میجر جہانزیب نے خود کو مخصوص آڑ سے نکالا اور بھاگ کر دروازے پر یوں برسا کہ وہ اس کے پیروں میں ڈِھ گیا۔ اچانک زور دار حملے نے اندر چھپے دہشت گردوں کے اوسان خطا کر ڈالے اور انھوں نے اندھادھند گولیاں برسانا شروع کر دیں جن میں سے چند ایک نے میجر جہانزیب کے ماتھے اور سینے پر بوسے دیے کیوں کہ انھیں خبر تھی کہ یہ چٹان سینہ ایک شہید کا ہے۔ اگرچہ اس فائرنگ کے دوران میجر جہانزیب کی گولیوں نے دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کر ڈالا لیکن دریں اثنا وہ بھی سینے پرتمغے سجائے نعرہ لاتذر لگاتے ہوئے گرے اور شہادت کی جاوداں منزل کو پا گئے۔
میجر جہانزیب جو ہمیشہ اپنے ساتھیوں میں نمایاں نظر آتا رہا، جو ہر کام میں دو قدم آگے نکل کرخود کو والنٹیئر کرتا رہا، آج پھر اپنے ساتھیوں میں سب سے نمایاں تھا۔آج وہ خود کو حقیقی والنٹیئر ثابت کر گیا اوراْس اعزاز و مرتبے کو پا گیا کہ جس کی خواہش ہر سپاہی کا اوّلین خواب ہوتا ہے۔
جی ہاں! شہادت کا مقام و مرتبہ بھلا قرآن پاک سے بہتر کون بتلائے گا جو اِ س زندگی کو تب و تابِ جاودانہ کہہ رہا ہے۔ جو کہہ رہا ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے، ہاں ! مگر تم اس کا ادراک نہیں رکھتے جیسا کہ یہاں تفسیر لکھتا ہوں’’دفاعِ وطن میں سبھی کام آئے ہوئے نوجوانو! تمہارے ہی بارے خدانے بھی تو، بارگاہِ محبت سے خوشبو میں لیپٹی ہوئی آیتوں کو نچھاور کیا تھا، کہاتھا۔۔۔
’’سوحق راستوں پر جوچلتے ہوئے لوگ مارے گئے ہیں وہ زندہ تھے اور ہمیشہ ہی زندہ رہیں گے‘‘
میجر جہانزیب عدنان جنوری 1983ء کو لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) ملک نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر آتے ہیں لیکن آج سب پر برتری لے کر پہلے نمبر پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔ عسکری روایات کے بیچ پروان چڑھے اور پی ایم اے 107لانگ کورس میں شامل ہو کر کیڈٹ شپ کی تربیت حاصل کی اور 2003 ء میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ، تب و تابِ جاودانہ کے سفر پر نکلے۔انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی مایہ ناز پلٹن ’’تین۔ اِکونجا‘‘ میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ شمولیت اختیارکی۔فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی کالے بٹنوں والی یونیفارم ان کو اس قدر پسند تھی کہ انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں شمولیت کا استحقاق بھی رد کیا۔ یونٹ سے محبت کا یہ عالم رہا کہ جب بھی گاڑی خریدی اس کا نمبر بھی ’’تین۔ اِکونجا‘‘ ہی لیا۔ جو سپاہی اپنی یونٹ سے اتنی محبت رکھتا ہو ، اْس کے لئے وطن کی محبت کا عالم کیا ہوگا۔ یہی وہ محبت میں دیوانہ پن ہے جو ایک سپاہی کی میراث جانا جاتا ہے اور آج میجر جہانزیب نے اپنی میراث کی ہی لاج نبھائی ہے۔