پتریاٹہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 24, 2021 | 17:28 شام

یہ ہمارا ایک اور ٹرپ تھا۔ ہم میڈیا کے کچھ لوگ پتریاٹہ گئے ۔ یہ تفریحی، مطالعاتی اور ترغیباتی ٹور تھا۔ ترغیباتی کی تھوڑی سی وضاحت کر دیتے ہیں ۔ پاکستان دنیاکے حسین ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اگر ہم لوگ کسی طرح مینج کر لیں تو پاکستان سیاحت کے حوالے سے دنیا کے سر فہرست ممالک کے ٹاپ پر آسکتا ہے۔دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جس میں سیاحوں کی دلچسپی و دلکشی کے سارے مناظر موجود ہوں۔اگر کسی ملک میں دریا، سمندر، صحرا، چشمے، آبشاریں ، جنگلات پاکستان ہی کی طرح ہیں تو وہاں چار موسم نہیں ہو سکتے۔ پاکستان
میں سیاحت کے خلاف کئی قوتیں سازشیں کرتی ہیں۔ پاکستان کو شدت پسند، دہشتگردی کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔پاکستان کے اجلے چہرے کو گہنا اور دُھندلا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس میںغیروں کے ساتھ کچھ اپنے بھی شامل ہیں اور یہ ”اپنے“جو ہیں وہ اپنے کرتوتوں کے باعث غداروں کی صف میں شامل ہوتے ہیں۔ہم لوگ سوشل اور ریگولر میڈیا کے توسط سے پاکستان کا حقیقی دل نشیں تصور دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جہاں تک ہماری بات اورآواز پہنچ سکتی ہے وہاں تک پہنچانے کی ہر ممکن جدوجہد کرتے ہیں۔پاکستان میں ٹورزم کے فروغ کے لیے کچھ بھی کرنا ہمارا مقصد ہے۔ پتریاٹہ میں جو کچھ ہے وہ گوگل کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔ معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ ہم ان سے ہٹ کر مشاہدات اور تجربات آپ کے ساتھ شیئر کرتے ہیں ۔ لاہور سے ہم لوگ دو روز کے لیے پتریاٹہ گئے ۔ یہ ٹرپ پاکستان میڈیا کلب کے چیئرمین افتخار خان کی مہمیز اور سیکرٹری جنرل طاہر تبسم درانی کی کاوش سے ممکن اور کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ہمارے اس ٹرپ کے گروپ میں ڈاکٹر امانت علی اسجد(میڈیکل ایڈوئزر)، عبدالوہاب ملک (لیگل ایڈوائزر)، صفیہ خاتون درانی، عدنان احمد، حامد اسلم ، نوید احمد، فیضان نسیم قریشی تھے۔ یہ ٹرپ ہم نے خود آرگنائز کیا۔ فیملیز کو ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔دو فیملیز بھی ہمارے ساتھ گئیں۔ہر کسی نے اپنے اخراجات ادا کئے۔ طاہر درانی نے یہ ٹرپ بڑے زبردست طریقے سے منظم کیا۔ کھانا اور چائے وہ اپنی اہلیہ کو ساتھ ملا کر بناتے رہے، محض بچت کے لئے....۔ پتریاٹہ کا خاصہ دلکش نظاروں کے ساتھ کیبل کار اور چیئر لفٹ بھی ہے۔ یہ تیس سال قبل کا بنایا تفریحی پارک ہے۔ پہلے کیبل کار ، اگلے سٹاپ سے چیئر لفٹ شروع ہوتی ہے۔ کبھی یہ کار اور لفٹ فلک بوس اور کبھی زمین کو سلامی دیتی ہے۔ سپیڈ کبھی بالکل آہستہ اور کبھی تھوڑی سی تیز ، ہوا سے باتیں کرتی رفتارہرگز نہیں ہے۔تین سو روپے ٹکٹ ہے۔ اس تفریح گاہ کے قیام سے قبل علاقہ پسماندہ تھا۔ آج اس پارک کے توسط اور بر کت سے ہر گھر میں خوشحالی آ گئی ہے۔بوریا اور ویرانہ نشیں محلات کے مالک بن گئے۔ بستیاں جدید شہر کا روپ دھار گئیں۔زندگی جدتوں سے آراستہ ہو گئی۔ یہ سب اس تفریح گاہ کی بدولت ہوا۔ اس پارک میں سو کے قریب ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب کے ملازم ہیں۔ آج کل اس منصوبے کے ہیڈ اعجاز بٹ ہیں جو ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کارپوریشن آف پنجاب (ٹی ڈی سی پی)میں ریجنل مینیجرہیں۔ ان سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اس پراجیکٹ کے بارے میں بریفنگ دی۔ سیکرٹری ٹورزم اور مینجنگ ڈائریکٹرٹی ڈی سی پی اسداللہ فیض،جنرل مینجر اپریشن عاصم رضا چودھری ٹورزم کے فروغ کیلئے انتھک کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تنویر جبارکا کام اور کرکردگی بھی نمایاں رہی ہے۔ اعجاز بٹ کا کرونا کے آغاز کے دنوں میں یہاں تبادلہ ہوا ۔اس دور میں ہر شعبہ اور کارپوریشن میں چھانٹیاں ہونے لگیں۔ان کی درخواست پر حکام نے ہمدردانہ غور کیا اور ایک بھی ملازم کو نہیں نکالا۔ کرونا میں کمی ہونے کے ساتھ ہی سیاحوں کی توجہ ادھر مبذول ہوئی، ان کو عزت دی گئی۔زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کی گئی تو آمدن گزشتہ سال کی نسبت دُگنا ہو گئی۔ جس میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ انکومیڈیکل دیا گیا۔کسی کے بیٹے بیٹی کی شادی تو اس میں مدد دی جاتی ہے۔ کسی کی والدہ والد فوت ہوئے تو تجہیز و تکفین کے لیے فنڈ مقرر کر دیا۔ جب ملازمین کی معاشی حالت بہتر ہو تو وہ یکسوئی اور لگن سے کام کرتے ہیں۔ ایسا ہی وہاں ہو رہا ہے۔ جس کا فائدہ یہ ہوا ، اس پراجیکٹ کا وزٹ کرنے والے لوگوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ اعجاز بٹ مشاورت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ملازمین کی بات سنتے ہیں ان کو موٹیویٹ کرتے ہیں ۔ دکان داروں اور اہل علاقہ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سیاحوں کے ساتھ مقامی لوگوں کے تلخ رویوں کی شکایات سامنے آئی تھیں تو سیاحت کو نقصان پہنچا۔ لوگوں کا ان علاقوں کی طرف رجحان کم ہو گیا۔جس کے اثرات دکانداروں اور مقامی لوگوں کے کاروبار پر بھی پڑے۔ کرونا کے دنوں میں تو حالت بہت پتلی ہوگئی۔ یہ مقامی لوگ ایک بار پھر تیس چالیس قبل کے دور میں جاتے محسوس ہوئے۔ کچھ انہوں نے اس سے سبق سیکھا اور کچھ اعجاز بٹ کی موٹیویشن کام آئی۔مگر آج بھی وہاں کالی بھیڑیں موجود ہیں مگر بہت کم ہیں ۔ جو وہاں آنے والوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ کار اور لفٹ خطر ناک ہے، گر جاتی ہے توہڈی پسلی ایک ہو جاتی ہے۔ ایسی تفریح کا کیا فائدہ ہے۔آپ ہمارے ساتھ آؤ اتنے ہی پیسوں میں پورا علاہ دکھاتے ہیں ۔ وہاں لوئر پتریاٹہ میں ایسے لوگوں کی باتوں میں نہ آنے کی اناؤنسمنٹ ہوتی رہتی ہے۔ گاڑیوں کی پارک کے لیے جگہ موجود ہے۔ مگر کچھ لوگ اپنی دکانوں کے سامنے گاڑی پارک کر اکے منہ مانگی فیس لیتے ہیں۔دکاندار عموماً دوسو کی چیز ہزار پندرہ سو روپے میں فروخت کرتے تھے۔ اب صورت حال میں بہتری آئی ہے۔اب بھی داوؤ لگانے والے موجود ہیں مگر بہت کم ہیں۔شالیں، گھڑیاں ، جیکٹس، زیورات، کھلونوں اور تحائف کی دکانیں ہیں۔ مول تول کرنے سے مناسب داموں میں پسند کی چیز مل سکتی ہے۔ہر دکان پر دکاندار کا نام بمع فون اور دکان نمبر لکھ دیا گیا ہے۔ ریکوری کی شرح99فیصد ہے۔ یہ وہ ریکوری ہے جو کسی کی کوئی چیز چیئر لفٹ میں سفر کے دوران گر جاتی ہے۔ایک خاتون کے پرس میں 16لاکھ مالیت کے زیورات اور کرنسی تھی وہ اس تک پہنچا دی گئی۔سیلفی لیتے فون عموماً گر جاتے ہیں ۔ وہ ان کے مالکان تک پہنچا دیئے جاتے ہیں ۔ہماری طر ف سے اعجاز بٹ کو کچھ تجاویز بھی دی گئیں جن میں ایک اس پارک میں ، ہاٹ ایئر بیلون کے ذریعے علاقے کی سیاحت بھی ہے۔ کیپیڈوشیا ترکی میں ایک وقت میں ہزاروں بیلون مختلف کمپنیوں کی طرف سے سیاحوں کی تفریح کے لیے اڑائے جاتے ہیں۔ ایک بیلون میں 24لوگ سوار ہوتے ہیں۔ پتریاٹہ پارک میں تیس سال کے دوران ایک بھی حادثہ نہیں ہوا۔ ان مشینوں کی باقاعدہ انسپکشن روزانہ کی بنیاد پرہوتی ہے۔ ہفتہ وار اور ماہانہ معائنہ ہوتا ہے۔ غیر ملکی ماہرین بھی ایک مخصوص وقفے سے معائنہ کرتے ہیں۔ اپر پتریاٹہ اگلوگلیمپنگ پوڈ منصوبہ سیاحوں کی دلکشی اور دلچسپی کا باعث ہے۔ڈبل ٹرپل چار اور چھ بیڈ کے لکڑی کے کمرے اگلو کی طرز پر بنائے گئے ہیں۔ جن کو جدید سہولتوں سی مزین کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان ایک بہترین سیاحتی ملک ہے۔ اس کے حسین نظاروں میں ایک پتریاٹہ کا سپاٹ بھی ہے۔ کیبل کار اور چیئر لفٹ کے ذریعے سات کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا جاتا ہے یہ سفر رسک فری ہے۔ جیسا کہ اس کی ہسٹری سے ظاہر ہوتا ہے۔ ٭....٭....٭