2021 ,ستمبر 14
لاہور(شفق ڈیسک): بڑے شہروں کے چوک چوراہوں سے گزرتے ہوئے بھکاری ایک یلغار کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ہیجڑوں کا روپ دھار کر مانگنے والے مرد حضرات کی بہتات ہوگئی ہے۔انہی چوکوں اور چوراہوں میں کچھ لوگ مختلف اشیاءبھی بیچتے ہیں،کچھ کا طریقہ کچھ کچھ بھکاریوں جیسا ہوتا ہے۔مگر یہ ان سے قدرے بہتر ہیں جو صرف مانگتے ہیں۔بائیک والوں کو کندھے سے ہلا کراور گاڑی کے شیشے پر دستک دیتے اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ایسی جگہوں پر کچھ بڑے اور چھوٹے ان میں خواتین بھی شامل ہیں،وہ وائپر اُٹھائے گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے نظر آتے ہیں۔اسے آپ چھوٹے پیمانے پر بزنس ماڈل کہہ سکتے ہیں۔آج کل ماسک ہر شخص کی ضرورت ہے۔بازاروں،سڑکوں اورگلیوں میں کوئی ریڑھی پر ماسک فروخت کرتا ہے کوئی ڈبہ میں اُٹھائے پارکوں اور پبلک مقامات پر بیچ رہا ہوتا ہے۔کسی ہوٹل بینک پٹرول پمپ اور دفاتر میں بغیر ماسک کے داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ماسک کی عمومی قیمت دس روپے ہے۔ریڑھیوں پر پانچ روپے میں بکتے ہیں۔بڑے لیول کے بزنس ماڈل کی بات کریں تو لاہور میں ان ڈور کرکٹ اور ٹینس کے انڈور ٹائپ گراﺅنڈ بنائے گئے ہیں۔دن کو جو لوگ فارغ نہیں ہوتے وہ رات کو کھیلتے ہیں۔دو گھنٹ کی فیس تین ہزار سے شروع ہوکر پندرہ ہزار تک ہے۔کوئی بھی گراﺅنڈآپ کو بکنگ کے بغیر دستیاب نہیں ہوتا۔تھوڑا غور کریں تو خود روزگار کے سلسلے نظر آئیں گے۔
چھوٹے ہوٹلوں،ریستورانوں میں گیٹ کھولنے کیلئے عموماً ایک چھوٹے قد کا آدمی کھڑا ملے گا۔وہ آنے جانے والوں کو بڑے ادب سے سلام پیش کرتا ہے۔اس کی تنخواہ شاید معمولی ہومگر اس کا روزگار لگا ہوا ہے۔لوگ اسے ٹپ دے کر اس کی تنخواہ میں کمی کی کسر نکال دیتے ہیں۔بڑی عمارات کی لفٹوں میں اپریٹر کے طور پر کوئی معذور بھی آپ کو ملے گا۔بڑے لوگوں کا ایسے افراد کو ملازمت دینا بڑا پن ہے۔
بڑے ہوٹلوں میں ویٹر سر پر اونچے شملے والی پکڑی پہنا کر تعینات کئے ہوتے ہیں۔دیہی کلچر میں پگڑی عزت اور توقیر کی علامت ہے۔گو یہ کلچر معدوم ہورہا ہے مگر اس کی جھلک اب بھی نظر آجاتی ہے۔شہروں تک میںشادیوں پر پگڑی پہننے کا بدستور رواج ہے۔جہاں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا بھی بر محل ہوگا۔گاﺅں سے بارات آئی۔ان کے لئے بڑے ہوٹل میں بکنگ کرائی گئی۔گاﺅں کے چودھری ویٹرز کے کُلے اور شملے دیکھ کر ان کو اپنے سے بڑا چودھری سمجھ کر ملنے لگے۔
عدالت کی طرف رُخ کریں تو وکلاءبہترین لباس کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملیں گے۔اپنے لباس کے اور گاﺅن پہن کر مزید باوقار ہو جاتے ہیں۔جب آپ عدالت کے عام اہلکاروں کو دیکھتے ہیں تو انہوں سے سر پر جناح کیپ رکھی اور واسکٹ پہنی ہوتی ہے۔جناح کیپ قائد اعظم کے لباس کا حصہ تھی۔اس کیپ والی ہی تصویر کرنسی نوٹوں پر چھاپی گئی ہے۔جناح کیپ والی تصویر کو ہی قائد اعظم کی قومی تصویر قرار دیا گیا ہے۔قائد کا لباس قاصدوں اور ہرکاروں کو پہنانے سے قائد کی توقیر کا نہیں توہین کا پہلو نکلتا ہے۔قائد کی عزت احترام اور تکریم اس میں ہے کہ جج صاحبان اور وکلاءحضرات جناح کیپ کو اپنے لباس کا حصہ بنائیں۔