ڈاکٹر صفدر محمود:قائد اعظم شناس
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع ستمبر 22, 2021 | 18:47 شام
ڈاکٹر صفدر محمود بڑے آدمی تھے۔بہت بڑے آدمی۔میرا ان کیساتھ دوستی کا دعویٰ نہیںہے تاہم ان کیساتھ دعا سلام اور احترام کا رشتہ ضرور تھا۔میری ڈاکٹر صاحب سے چند ملاقاتیں ہوئیں۔فون پر ان کیساتھ گفتگو عموماً ہوتی رہتی تھی۔ہم جیسے لوگ رہنمائی کے لئے رابطہ کرتے انہیں کچھ معلوم کرنا ہوتا تو فون کرلیتے۔ڈاکٹر صفدر محمود پاکستان کی اساس کے امین تھے۔ بانی پاکستان کے حوالے سے انتہائی زیادہ حساس تھے۔ ڈاکٹر صاحب کوقائد
اعظم شناس کہا جائے توزیادہ درست اور بہترہوگا۔قائد کے حوالے سے غلط منسوبات سامنے آتے تو ڈاکٹر صفدر محمودبے چین ہو جاتے ہیں، بے تاب ہو جاتے ہیں اور تب تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک ان کا مدلل،مو¿ثر پورے شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ رد نہ کردیتے۔ڈاکٹر صفدر محمود نے درجن بھر کتابیں لکھیں۔ان میں سے ایک کتاب کا نام" حیاتِ قائد"۔ اس کتاب پرپنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔
قائد اعظم کے حوالے سے غلط منسوبات پروہ کس قدر حساس تھے اور تحقیق کیلئے کس حد تک چلے جاتے تھے۔ اس کا ندازہ ایک دو واقعات سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر صفدر محمود نے ایک آرٹیکل میں لکھاکہ" عام طور پر قائداعظمؒ کے ایک بیان کا حوالہ بار بار دیا جاتا ہے ”پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔“ ایک طویل عرصے سے مقررین اپنی تقاریر میں زور پیدا کرنے کے لئے اس فقرے کو بے دریغ بیان کر رہے ہیں اور مضمون نگار اکثر اوقات اس فقرے کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہو لیکن اس بیان کا ثبوت کیا ہے؟ راوی کون ہے؟ یا کس نے یہ فقرہ اپنے کانوں سے سنا ہے، اس پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔ چنانچہ قائداعظمؒ کے عظیم کردار، تاریخی جدوجہد اور پرخلوص قیادت کے پس منظر میں عوامی سطح پر اس بیان کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اب تو نوبت بایں جارسید کہ بعض معروف سکالر اور مورخین بھی اس فقرے کو بلاتحقیق سچ سمجھ کر اپنے مضامین میں استعمال کر رہے ہیں بلکہ ایک مخصوص مکتب فکر کے حضرات قائداعظمؒ کی عظمت کو گھٹانے اور ان کے بارے میں غلط تاثر پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں اور جب ان سے اس بیان کا حوالہ (Source) پوچھا جائے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔
اس وقت میرے سامنے روزنامہ ڈان کا سپلیمنٹ ”کتابیں اور مصنفین“ رکھا ہے جس میں معروف مورخ مبارک علی کا ایک مضمون بعنوان "Jinnah:making of a myth" شامل اشاعت ہے۔ اس مضمون میں جناب مبارک علی صاحب نے درج ذیل فقرے لکھے ہیں جنہیں غور سے پڑھیے اور ان کا مفہوم سمجھنے کی کوششیں کیجئے۔جناح نے بہت سے مواقع پر کہا میں پاکستان کا واحد خالق ہوں۔ ایک مشہور بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا تھا۔میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو ڈان سے ایڈریس لے کر ڈاکٹر مبارک علی کو ای میل بھیجی کہ آپ نے اپنے مضمون میں قائداعظمؒ کے بیان کا حوالہ دیا ہے اور اس سے اپنے من پسند نتائج اخذ کئے ہیں۔ براہ کرم مجھے اس بیان کا ثبوت دیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا بیان کہ میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے پاکستان بنایا، پاکستان کے قیام کے بعد ہی دیا جا سکتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم آخری سانس تک نہ صرف مقبول ترین لیڈر اور بابائے قوم سمجھے جاتے تھے بلکہ گورنر جنرل بھی تھے اور اس پس منظر میں ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر فقرہ چھپا ہوا ہے۔ محققین نے ان کے بیانات، تقریریں، انٹرویوز اور تحریریں بڑی محنت سے اکٹھی کر کے کتابی صورت میں شائع کی ہیں۔ میں نے اپنے طور پر قائداعظم کی تقریروں کو غور سے پڑھا ہے اور مجھے ان کی تقاریر سے ایک فقرہ تو کیا ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملا جس سے ان کے رفقاءیا عوام کی جدوجہد پر حرف آتا ہو۔ میں نے ڈاکٹر مبارک علی کو لکھا کہ وہ جتنا چاہیں وقت لے لیں لیکن مجھے اس بیان کا ثبوت دے دیں، میں ممنون ہوںگا۔ ایک عرصے کے بعد ان کا جواب آیا کہ اس کا تحریری ثبوت تو نہیں مل سکا البتہ میں نے یہ بات ممتاز مسلم لیگی لیڈر سعید احمد کرمانی سے سنی ہے۔ چنانچہ میں کرمانی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور اس ضمن میں ان سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے یا ان کے کسی ساتھی یا بزرگ نے کبھی یہ فقرہ قائداعظم سے سنا یا کہیں پڑھا ہے یا کسی معتبر ذریعے سے یہ بیان ان تک پہنچا ہے۔ ان کا جواب مکمل نفی میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے کبھی ایسی بات نہیں کی، تا ہم ہم سیاسی لیڈران اپنی تقاریر میں زور پیدا کرنے کے لئے قائداعظم کے عظیم ترین رول Greatest Contribution کو اجاگر کرنے کے لئے ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ میں نے محترم کرمانی صاحب سے اپنی گفتگو بذریعہ ای میل ڈاکٹر مبارک علی کو لکھ دی اور پھر انہوں نے چپ سادھ لی۔"
تحریک پاکستان کے ضمن میں قائداعظم لائبریری لاہور کے ہال میں ایک جلسہ ہوا جہاں مقررین میں میں بھی شریک تھا۔ اس جلسے میں لاہور کی ایک معروف لکھاری خاتون پروفیسر نے اپنی تقریر میں یہ انکشاف کیا کہ جن دنوں قائداعظم زیارت میں شدید علیل تھے ان سے ملنے کے لئے ایک مسلم لیگی وفد وہاں پہنچا جس سے گفتگو کے دوران قائداعظم نے اپنے سرہانے رکھے ٹائپ رائٹر کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔ ایک ذمہ دار پروفیسر نے جس افسانوی انداز میں یہ واقعہ بیان کیا اس سے میں حیران و پریشان ہو گیا۔ چنانچہ میں نے اسی شام قائداعظم کے اے ڈی سی جناب بریگیڈیئر ریٹائرڈ نور حسین صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے اس واقعے کی تصدیق چاہی کیونکہ قائداعظم کے آخری ایام کے واحد عینی شاہد محترم نور حسین صاحب ہیں جو طویل عرصے تک ان کے اے ڈی سی رہے اور زیارت میں ہمہ وقت ان کے پاس موجود رہے۔ بریگیڈیئر نور حسین جو اس وقت کیپٹن نور حسین تھے، نے مجھے بتایا کہ میں تمام ملاقاتوں میں قائداعظم کے پاس موجود رہتا تھا ما سوا ایک دو ایسی ملاقاتوں کے جہاں قائداعظم کسی سے تنہائی میں ملنا چاہتے تھے انہوں نے کہا کہ اول تو علالت کے سبب عام وفود کی ملاقاتوں پر پابندی تھی۔ دوم ان کے سرہانے ہر گز کوئی ٹائپ رائٹر موجود نہ تھا۔ سوم قائداعظم نے کبھی ایسی بات نہیں کہی بلکہ ایسا فقرہ تک بھی کبھی نہیں کہا جس سے اس تاثر کا شائبہ ملتا ہو۔ اس کے برعکس بریگیڈیئر صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک موقع پر میرے ایک ساتھی نے قائداعظم سے یہ کہا کہ ”قائداعظم آپ نے پاکستان بنایا ہے؟“ تو قائداعظم نے فوراََ وضاحت کی کہ ”نہیں پاکستان مسلم لیگ اور عوام نے بنایا ہے۔“ لیکن ہماری قابل احترام پروفیسر صاحبہ اس اعتماد سے یہ واقعہ بیان کر گئیں جیسے وہ خود موقع پر موجود تھیں ”وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آجائے“
اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی قائداعظمؒ سے منسوب یہ فقرہ بھی ہے کہ میر ی جیب میں کھوٹے سکے ڈال دیئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔ بلاشبہ مسلم لیگ کی قیادت میں وڈیروں، خودغرض اور ابن الوقت لیڈروں کی بہتات تھی اور قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قائداعظمؒ کے ساتھیوں کی اکثریت کھوٹے سکے ہی تھی لیکن خود قائداعظمؒ نے ایسا کبھی نہیں کہا۔ قائداعظمؒ کو کھوٹے سکوں کے علاوہ انتہائی مخلص، بے لوث اور قابل ساتھی بھی ملے تھے جن کی وہ دل سے عزت کرتے تھے۔
قائد اعظم کے ایئر ایڈی کانگ یعنی اے ڈی سی عطا ربانی ہوا کرتے تھے۔انہوں نے ایک کتاب لکھ دی دی سن شیل رائز(TheSunShallRise ) یہ "پونی پرشاد" سینٹر رضا ربانی کے والد تھے۔کیسے کیسے بدبخت بابے ہو گزرے ہیں۔انہوں نے اپنی میں لکھا کہ قائد اعظم نے تین غلطیاں کیں۔ایسے ہی ایک بابے ارشاد احمد حقانی بھی ہوئے ہیں۔وہ جنگ اخبار کے کرتا دھرتا تھے۔انہوں نے قائد اعظم کے ان اقدامات کو بڑے اہتمام کیساتھ اُجاگر کیا جو ربانی کی لنگڑی عقل میں غلطیاں تھیں۔ان کے مطابق "پاکستان بنتے ہی 15اگست 1947ءکو ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں قائداعظم نے تین غلطیاں کیں۔ ان کے ایک بیورو کریٹ ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیر خزانہ بنانا پہلی ”غلطی“تھی۔ اس ”غلطی“ نے آنے والے دنوں میں نوزائیدہ مملکت کو بے انتہا اور لاتعداد نقصانات پہنچائے۔پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ کو نافرمانی کی سزا نہ دینا دوسری ”غلطی“ تھی۔اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا قائداعظم کی تیسری ”غلطی“ تھی۔اے ڈی سی ہی غلطیاں بتارہا ہے۔کیا پدی ۔۔۔
حقانی صاحب نے عطا ربانی کی کتاب کو لے کر کالموں کی ایک سیریز لکھ دی۔اس پر سخت جوابات کا آنا فطری امر تھا۔بھارت کیساتھ تعلقات کے حوالے سے جنگ کے مالکان اور حقانی صاحب کے نظریات ایک جیسے تھے۔یہ انتظامیہ کا بڑا پن ہے کہ اسی اخبار میں اس نکتہ نظر کے خلاف آرٹیکلز بھی شائع ہوتے رہے۔2009ءکے شروع میں حقانی صاحب اور ڈاکٹر صفدر محمود صاحبمابین جنگ کے پلیٹ فارم سے اچھی خاصی لے دے ہوتی رہی۔برسبیل تذکرہ مجید نظامی صاحب کی ہدایت پر میں نے تین مبینہ غلطیوں کا جواب دیا تھا۔میرا جواب علمی کم میرے جذبات کا زیادہ عکاس تھا۔"گستاخان قائد پھر سرگرم" یہ ایک دن میں شائع ہونیوالا شاید طویل کالم تھا۔ڈاکٹر صاحب نے فون کرکے شاباش دی تھی۔یہیں سے ہماری علیک سلیک ہوئی۔اُن دنوں یہ بحث دوسرے اخبارات میں بھی جاری رہی۔میں نے وہ آرٹیکل اکھٹے کر کے کمپوز کرا کے انہیں کتابی شکل دیدی مگر وہ کتاب کبھی شائع نہیں ہو سکی۔یہ مضمون کے کچھ مندرجات اُسی مسودے سے لئے ہیں۔
تین غلطیاں شمار کراتے کراتے حقانی صاحب ایسے ''کُراہ" پڑے کہ کہیں سے کہیں نکل گئے۔عائشہ جلال کی تحریروں اور کیبنٹ مشن کے حوالے دے کر ثابت کرنے پر تُل گئے کہ پاکستان قائد اعظم کی کوششوں سے نہیں بنا۔ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں کہ ان کو کسی دوست نے فون کرکے آگاہ کیا کہ ذرا دیکھیں حقانی صاحب کیا کررہے ہیںانہوں نے فون پر حقانی صاحب کی تحریر کا اقتباس دُہرایا©"۔’ اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگریسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھرجاتا ہے۔ چونکہ حقانی صاحب کے بقول، پاکستان کابینہ مشن پلان کی ناکامی کے نتیجے کے طور پر معرض وجود آیا تھا جبکہ حقانی صاحب کا دل کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر دکھ سے بھرا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے اور قیام پاکستان پر خوش نہیں ہیں۔" اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا جو ہم جیسے طالب علموں کیلئے بہترین رہنمائی کا باعث بنا۔ ان کی طرف سے مبینہ تین غلطیوں کا بھی تشفی اور تسلی بخش جواب دیا۔یہ بھی قائد پر بہتان باندھا جارہا ہے کہ انہوں نے بنگالی کو بنگالیوں کی زبان نہیں بننے دیا۔پورے ملک کی قومی زبان کو اس دور کی قانون ساز اسمبلی نے قرار دیا جس پر قائد اعظم کے بطور گورنر جنرل دستخط تھے۔بس اس کو لے کر قائد پر بہتان باندھ دیا جاتا ہے۔اس کے بعد مشرقی پاکستان اسمبلی نے بنگالی کوصوبے کی زبان قراردیا تھا۔اس سب سے ڈاکٹر صفدر محمود نے قوم کو آگاہ کیا۔اب ان جیسا کوئی نابغہ روزگار نظر نہیں آتا۔ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے واقعی پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
قائد اعظم کے حوالے سے غلط منسوبات پروہ کس قدر حساس تھے اور تحقیق کیلئے کس حد تک چلے جاتے تھے۔ اس کا ندازہ ایک دو واقعات سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر صفدر محمود نے ایک آرٹیکل میں لکھاکہ" عام طور پر قائداعظمؒ کے ایک بیان کا حوالہ بار بار دیا جاتا ہے ”پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔“ ایک طویل عرصے سے مقررین اپنی تقاریر میں زور پیدا کرنے کے لئے اس فقرے کو بے دریغ بیان کر رہے ہیں اور مضمون نگار اکثر اوقات اس فقرے کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہو لیکن اس بیان کا ثبوت کیا ہے؟ راوی کون ہے؟ یا کس نے یہ فقرہ اپنے کانوں سے سنا ہے، اس پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔ چنانچہ قائداعظمؒ کے عظیم کردار، تاریخی جدوجہد اور پرخلوص قیادت کے پس منظر میں عوامی سطح پر اس بیان کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اب تو نوبت بایں جارسید کہ بعض معروف سکالر اور مورخین بھی اس فقرے کو بلاتحقیق سچ سمجھ کر اپنے مضامین میں استعمال کر رہے ہیں بلکہ ایک مخصوص مکتب فکر کے حضرات قائداعظمؒ کی عظمت کو گھٹانے اور ان کے بارے میں غلط تاثر پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں اور جب ان سے اس بیان کا حوالہ (Source) پوچھا جائے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔
اس وقت میرے سامنے روزنامہ ڈان کا سپلیمنٹ ”کتابیں اور مصنفین“ رکھا ہے جس میں معروف مورخ مبارک علی کا ایک مضمون بعنوان "Jinnah:making of a myth" شامل اشاعت ہے۔ اس مضمون میں جناب مبارک علی صاحب نے درج ذیل فقرے لکھے ہیں جنہیں غور سے پڑھیے اور ان کا مفہوم سمجھنے کی کوششیں کیجئے۔جناح نے بہت سے مواقع پر کہا میں پاکستان کا واحد خالق ہوں۔ ایک مشہور بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا تھا۔میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو ڈان سے ایڈریس لے کر ڈاکٹر مبارک علی کو ای میل بھیجی کہ آپ نے اپنے مضمون میں قائداعظمؒ کے بیان کا حوالہ دیا ہے اور اس سے اپنے من پسند نتائج اخذ کئے ہیں۔ براہ کرم مجھے اس بیان کا ثبوت دیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا بیان کہ میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے پاکستان بنایا، پاکستان کے قیام کے بعد ہی دیا جا سکتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم آخری سانس تک نہ صرف مقبول ترین لیڈر اور بابائے قوم سمجھے جاتے تھے بلکہ گورنر جنرل بھی تھے اور اس پس منظر میں ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر فقرہ چھپا ہوا ہے۔ محققین نے ان کے بیانات، تقریریں، انٹرویوز اور تحریریں بڑی محنت سے اکٹھی کر کے کتابی صورت میں شائع کی ہیں۔ میں نے اپنے طور پر قائداعظم کی تقریروں کو غور سے پڑھا ہے اور مجھے ان کی تقاریر سے ایک فقرہ تو کیا ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملا جس سے ان کے رفقاءیا عوام کی جدوجہد پر حرف آتا ہو۔ میں نے ڈاکٹر مبارک علی کو لکھا کہ وہ جتنا چاہیں وقت لے لیں لیکن مجھے اس بیان کا ثبوت دے دیں، میں ممنون ہوںگا۔ ایک عرصے کے بعد ان کا جواب آیا کہ اس کا تحریری ثبوت تو نہیں مل سکا البتہ میں نے یہ بات ممتاز مسلم لیگی لیڈر سعید احمد کرمانی سے سنی ہے۔ چنانچہ میں کرمانی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور اس ضمن میں ان سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے یا ان کے کسی ساتھی یا بزرگ نے کبھی یہ فقرہ قائداعظم سے سنا یا کہیں پڑھا ہے یا کسی معتبر ذریعے سے یہ بیان ان تک پہنچا ہے۔ ان کا جواب مکمل نفی میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے کبھی ایسی بات نہیں کی، تا ہم ہم سیاسی لیڈران اپنی تقاریر میں زور پیدا کرنے کے لئے قائداعظم کے عظیم ترین رول Greatest Contribution کو اجاگر کرنے کے لئے ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ میں نے محترم کرمانی صاحب سے اپنی گفتگو بذریعہ ای میل ڈاکٹر مبارک علی کو لکھ دی اور پھر انہوں نے چپ سادھ لی۔"
تحریک پاکستان کے ضمن میں قائداعظم لائبریری لاہور کے ہال میں ایک جلسہ ہوا جہاں مقررین میں میں بھی شریک تھا۔ اس جلسے میں لاہور کی ایک معروف لکھاری خاتون پروفیسر نے اپنی تقریر میں یہ انکشاف کیا کہ جن دنوں قائداعظم زیارت میں شدید علیل تھے ان سے ملنے کے لئے ایک مسلم لیگی وفد وہاں پہنچا جس سے گفتگو کے دوران قائداعظم نے اپنے سرہانے رکھے ٹائپ رائٹر کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔ ایک ذمہ دار پروفیسر نے جس افسانوی انداز میں یہ واقعہ بیان کیا اس سے میں حیران و پریشان ہو گیا۔ چنانچہ میں نے اسی شام قائداعظم کے اے ڈی سی جناب بریگیڈیئر ریٹائرڈ نور حسین صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے اس واقعے کی تصدیق چاہی کیونکہ قائداعظم کے آخری ایام کے واحد عینی شاہد محترم نور حسین صاحب ہیں جو طویل عرصے تک ان کے اے ڈی سی رہے اور زیارت میں ہمہ وقت ان کے پاس موجود رہے۔ بریگیڈیئر نور حسین جو اس وقت کیپٹن نور حسین تھے، نے مجھے بتایا کہ میں تمام ملاقاتوں میں قائداعظم کے پاس موجود رہتا تھا ما سوا ایک دو ایسی ملاقاتوں کے جہاں قائداعظم کسی سے تنہائی میں ملنا چاہتے تھے انہوں نے کہا کہ اول تو علالت کے سبب عام وفود کی ملاقاتوں پر پابندی تھی۔ دوم ان کے سرہانے ہر گز کوئی ٹائپ رائٹر موجود نہ تھا۔ سوم قائداعظم نے کبھی ایسی بات نہیں کہی بلکہ ایسا فقرہ تک بھی کبھی نہیں کہا جس سے اس تاثر کا شائبہ ملتا ہو۔ اس کے برعکس بریگیڈیئر صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک موقع پر میرے ایک ساتھی نے قائداعظم سے یہ کہا کہ ”قائداعظم آپ نے پاکستان بنایا ہے؟“ تو قائداعظم نے فوراََ وضاحت کی کہ ”نہیں پاکستان مسلم لیگ اور عوام نے بنایا ہے۔“ لیکن ہماری قابل احترام پروفیسر صاحبہ اس اعتماد سے یہ واقعہ بیان کر گئیں جیسے وہ خود موقع پر موجود تھیں ”وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آجائے“
اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی قائداعظمؒ سے منسوب یہ فقرہ بھی ہے کہ میر ی جیب میں کھوٹے سکے ڈال دیئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔ بلاشبہ مسلم لیگ کی قیادت میں وڈیروں، خودغرض اور ابن الوقت لیڈروں کی بہتات تھی اور قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قائداعظمؒ کے ساتھیوں کی اکثریت کھوٹے سکے ہی تھی لیکن خود قائداعظمؒ نے ایسا کبھی نہیں کہا۔ قائداعظمؒ کو کھوٹے سکوں کے علاوہ انتہائی مخلص، بے لوث اور قابل ساتھی بھی ملے تھے جن کی وہ دل سے عزت کرتے تھے۔
قائد اعظم کے ایئر ایڈی کانگ یعنی اے ڈی سی عطا ربانی ہوا کرتے تھے۔انہوں نے ایک کتاب لکھ دی دی سن شیل رائز(TheSunShallRise ) یہ "پونی پرشاد" سینٹر رضا ربانی کے والد تھے۔کیسے کیسے بدبخت بابے ہو گزرے ہیں۔انہوں نے اپنی میں لکھا کہ قائد اعظم نے تین غلطیاں کیں۔ایسے ہی ایک بابے ارشاد احمد حقانی بھی ہوئے ہیں۔وہ جنگ اخبار کے کرتا دھرتا تھے۔انہوں نے قائد اعظم کے ان اقدامات کو بڑے اہتمام کیساتھ اُجاگر کیا جو ربانی کی لنگڑی عقل میں غلطیاں تھیں۔ان کے مطابق "پاکستان بنتے ہی 15اگست 1947ءکو ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں قائداعظم نے تین غلطیاں کیں۔ ان کے ایک بیورو کریٹ ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیر خزانہ بنانا پہلی ”غلطی“تھی۔ اس ”غلطی“ نے آنے والے دنوں میں نوزائیدہ مملکت کو بے انتہا اور لاتعداد نقصانات پہنچائے۔پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ کو نافرمانی کی سزا نہ دینا دوسری ”غلطی“ تھی۔اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا قائداعظم کی تیسری ”غلطی“ تھی۔اے ڈی سی ہی غلطیاں بتارہا ہے۔کیا پدی ۔۔۔
حقانی صاحب نے عطا ربانی کی کتاب کو لے کر کالموں کی ایک سیریز لکھ دی۔اس پر سخت جوابات کا آنا فطری امر تھا۔بھارت کیساتھ تعلقات کے حوالے سے جنگ کے مالکان اور حقانی صاحب کے نظریات ایک جیسے تھے۔یہ انتظامیہ کا بڑا پن ہے کہ اسی اخبار میں اس نکتہ نظر کے خلاف آرٹیکلز بھی شائع ہوتے رہے۔2009ءکے شروع میں حقانی صاحب اور ڈاکٹر صفدر محمود صاحبمابین جنگ کے پلیٹ فارم سے اچھی خاصی لے دے ہوتی رہی۔برسبیل تذکرہ مجید نظامی صاحب کی ہدایت پر میں نے تین مبینہ غلطیوں کا جواب دیا تھا۔میرا جواب علمی کم میرے جذبات کا زیادہ عکاس تھا۔"گستاخان قائد پھر سرگرم" یہ ایک دن میں شائع ہونیوالا شاید طویل کالم تھا۔ڈاکٹر صاحب نے فون کرکے شاباش دی تھی۔یہیں سے ہماری علیک سلیک ہوئی۔اُن دنوں یہ بحث دوسرے اخبارات میں بھی جاری رہی۔میں نے وہ آرٹیکل اکھٹے کر کے کمپوز کرا کے انہیں کتابی شکل دیدی مگر وہ کتاب کبھی شائع نہیں ہو سکی۔یہ مضمون کے کچھ مندرجات اُسی مسودے سے لئے ہیں۔
تین غلطیاں شمار کراتے کراتے حقانی صاحب ایسے ''کُراہ" پڑے کہ کہیں سے کہیں نکل گئے۔عائشہ جلال کی تحریروں اور کیبنٹ مشن کے حوالے دے کر ثابت کرنے پر تُل گئے کہ پاکستان قائد اعظم کی کوششوں سے نہیں بنا۔ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں کہ ان کو کسی دوست نے فون کرکے آگاہ کیا کہ ذرا دیکھیں حقانی صاحب کیا کررہے ہیںانہوں نے فون پر حقانی صاحب کی تحریر کا اقتباس دُہرایا©"۔’ اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگریسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھرجاتا ہے۔ چونکہ حقانی صاحب کے بقول، پاکستان کابینہ مشن پلان کی ناکامی کے نتیجے کے طور پر معرض وجود آیا تھا جبکہ حقانی صاحب کا دل کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر دکھ سے بھرا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے اور قیام پاکستان پر خوش نہیں ہیں۔" اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا جو ہم جیسے طالب علموں کیلئے بہترین رہنمائی کا باعث بنا۔ ان کی طرف سے مبینہ تین غلطیوں کا بھی تشفی اور تسلی بخش جواب دیا۔یہ بھی قائد پر بہتان باندھا جارہا ہے کہ انہوں نے بنگالی کو بنگالیوں کی زبان نہیں بننے دیا۔پورے ملک کی قومی زبان کو اس دور کی قانون ساز اسمبلی نے قرار دیا جس پر قائد اعظم کے بطور گورنر جنرل دستخط تھے۔بس اس کو لے کر قائد پر بہتان باندھ دیا جاتا ہے۔اس کے بعد مشرقی پاکستان اسمبلی نے بنگالی کوصوبے کی زبان قراردیا تھا۔اس سب سے ڈاکٹر صفدر محمود نے قوم کو آگاہ کیا۔اب ان جیسا کوئی نابغہ روزگار نظر نہیں آتا۔ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے واقعی پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔