قائد اعظم کسی طرح کی بھی وفاقی سروس کے خلاف تھے، لیکن کیوں؟ تفصیل جانئے اس خبر میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 30, 2021 | 06:46 صبح

قائد اعظم کسی طرح کی بھی وفاقی سروس کے خلاف تھے ۔ان کے پہلے 15 اگست 1947 کے ایگزیکٹیو آرڈر میں صاف لکھا ہے کوئی بھی سروس آل پاکستان نہیں ہوگی ان کے مشہور چودہ نکات میں بھی صوبائی حقوق پر بہت زور دیا گیا

پاکستان میں سی ایس ایس کا امتحان اور وفاقی افسران کی صوبوں میں تعیناتی قائد اعظم کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے یہی وجہ ہے کہ سی ایس ایس کرنے والے افسران آج تک نہ تو تھانہ اور پولیس کلچر کی اصلاح کر سکتے ہیں اور نہ ہی ریونیو اور پٹواری کے نظام کو ٹھیک کر سکیں گے

اگر سی ایس ایس کرنے والے اتنے قابل ہیں تو پاکستان کے ادارے تباہ حال کیوں ہیں..؟؟ آپ ریلوے کا حال دیکھ لیں..؟ آپ پولیس کا حال دیکھ لیں..؟ آپ سینکڑوں کی تعداد میں موجود سرکاری اداروں کا حال دیکھ لیں۔۔۔؟ دوسری طرف ‏آپ پاکستان کے تمام بڑے کاروباری اور منافع بخش ادارے دیکھ لیں وہاں کوئی سی ایس ایس افسر نہیں ہے..!!

تمام کامیاب اور منافع بخش اداروں میں آپ کو پروفیشنل لوگ ملیں گے۔ اینگرو گروپ عارف حبیب گروپ نشاط گروپ سمیت تمام کامیاب ادارے پروفیشنل لوگ چلا رہے ہیں ۔ ٹی سی ایس میں ایک بھی سی ایس ایس آفیسر کام نہیں کرتا لیکن ٹی سی ایس پاکستان پوسٹ سے زیادہ منافع میں کیوں ہے..؟ ‏دنیا بھر میں پروفیشنل لوگوں انجینئرز ، ڈاکٹرز , سائنسدانوں اور اساتذہ کی عزت ہے۔ ایسے پروفیشنلز جو اپنے ممالک کو ترقی کے آسمان تک لے گئے. بدقسمتی سے ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ ایک پروفیشنل ،ڈاکٹر ، انجنیئر ،استاد اور کاروباری شخص جو ٹیکس دینے کے ساتھ ساتھ روزگار فراہم کرتا ہے، کے اوپر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر رعب جماتا ہے۔ ‏

جس کی قابلیت صرف انگریزی کا امتحان پاس کرنا ہے ۔ اگر انگریزی کو سی ایس ایس سے نکالا جائے تو پاس کرنے والے ہزاروں امیدوار ہونگے ۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک امریکی صدر سے پوچھا گیا کہ اگر آپ سے ملاقات کے لئے ایک سیاستدان ایک بزنس مین اور ایک سرکاری افسر آئے تو آپ پہلے کس سے ملیں گے تو اس نے جواب دیا بزنس مین سے ۔ ‏جاپان اور تائیوان کے پاس کوئی قدرتی وسائل نہیں ہیں لیکن وہ ٹیکنالوجی میں دنیا سے آگے ہیں ۔ ان ممالک میں سی ایس ایس جیسا امتحان نہیں ہوتا پر وہاں کے مضبوط اداروں کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔.!! پاکستان کو بھی ترقی کے لئے سرکاری افسر شاہی نہیں بلکہ پروفیشنلز کی ضرورت ہے۔