مصنوعی بارش: ڈاکٹر منورکا عزمٓ

2022 ,جنوری 6



گزشتہ شام ڈاکٹر منور صابر سے ان کے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ماﺅنٹین انوائرمنٹل سائینس میں ملاقات ہوئی۔انہوں نے پاکستان میں مصنوعی بارش کے تجرجے کو دہرانے کی کوشش کی ہے۔کئی ممالک میں کلاﺅڈ سیڈنگ کے طریقے سے مصنوعی بارش برسائی جاتی ہے۔ڈاکٹر منور صابر اسی طریقے سے پاکستان میں بھی ایسا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔سموگ جو کئی مسائل،مصائب،مشکلات اور بیماریوں کا سب بن رہی ہے۔اس کا تدارک بارش کی صورت میں ہوسکتا ہے۔جن دنوں بارش کی شدت سے ضرورت ہوتی ہے نماز استسقاءادا کی جاتی ہے۔دیہات میں توچندہ جمع کرکے دلیئے کی دیگیں چڑھائی جاتی ہیں۔کئی ٹوٹکے بھی استعمال ہوتے ہیں۔شدید حبس کے دنوں میں لوگ ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں۔ہمیں اب معلوم ہورہا ہے کہ بارش مصنوعی طریقے سے بھی برسائی جاسکتی ہے۔بارش خودساختہ طریقے سے ہوگی مگر پانی اصل یعنی وہی ہوگا جو قدرتی بارش کی صورت میں ہوسکتا ہے۔کَل ڈاکٹر منور صابر سے ملاقات ہوئی۔آج صبح فجر کے بعد میں تلاوت کررہا تھا۔یہ سورة مومنوںکی آیت نمبر 18تھی اس کا ترجمہ یوں ہے:اور ہم ایک اندازے کے مطابق(عرصہ دراز تک) بادلوں سے پانی برساتے رہے۔پھر(جب زمین ٹھنڈی ہوگئی تو)ہم نے اس پانی کوزمین کی (نشیبی جگہوں)میں ٹھہرا دیا(جس سے ابتدائی سمندر وجود میں آئے)اور بے شک ہم اسے (بخارات بنا کر)اڑا دینے کی بھی قدرت رکھتے ہیں۔(ترجمہ: عرفان القرآن ڈاکٹر طاہرالقادری)۔ دنیاکے کل رقبے کا تقریبا71 فیصدحصہ پانی پر مشتمل ہے۔اس سے اندازہ کرلیجئے کتنی بارش برسی ہوگی۔ آج کئی ممالک پانی کی کمی دور کرنے کیلئے کلاﺅڈ سیڈنگ کا طریقہ اختیا ر کررہے ہیں۔۔ ان میں چین شامل ہے۔دوسرا ملک امریکہ ہے جہاں خشک علاقوں میں ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی مدد سے مصنوعی بارش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تیسرا ملک انڈیا ہے جہاں کئی ریاستوں میں مصنوعی بارش کا سہارا لیا جاتاہے۔اب عرب ممالک بھی اس طرف آرہے ہیں۔لگ بھگ ایک سال قبل سعودی کابینہ نے مملکت میں مصنوعی بارش کے جس منصوبے کی منظوری دی اس سے بارش کا تناسب بیس فیصد تک بڑھ جائے گا۔ فی الوقت بارش کا سالانہ اوسط 100ملی میٹر سے زیادہ نہیں بڑھتا۔جس سے سعودی عرب انتہائی خشک ممالک کی فہرست میں چلاگیا ۔ سعودی عرب دریاﺅں،جھیلوں اور مستقل نوعیت کے کھلے آبی ذخائر سے بھی محروم ہے سعودی کابینہ نے مصنوعی بارش پروگرام کی منظوری گزشتہ عشروں کے دوران آبی وسائل پر دباﺅ بڑھ جانے کی وجہ سے دی ۔ مصنوعی بارش کے پروگرام کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کھارے پانی کو استعمال کے قابل بناکر سمندری پانی پر انحصار کیے ہوئے ہے۔ سعودی عرب کھارے پانی کو استعمال کے قابل بنانے والی ٹیکنالوجی پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے جس کا بہترین متبادل مصنوعی بارش کی صورت میں سامنے آیا ہے۔سعودی عرب نے مصنوعی بارش کا پہلا تجربہ 2006 کے دوران مملکت کے وسطی علاقے میں کیا تھا۔آج کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 15 جنوری 2022ءکو ریاض میں پہل مصنوعی بارش برسائی جائے گی۔اس پروگرام کا اعلان موسمیات کے قومی مرکز کے ایگزیکیٹو چیئرمین ڈاکٹر ایمن غلام نے کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ متعین علاقوں میں مصنوعی بارش کے موقع پربعض ہوائی اڈوں کو مکمل لاجسٹ سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ مصنوعی بارش کے پروگرام میں غیرملکی ماہرین شریک ہوں گے اور اس نظام پرمکمل عبور اور مطلوبہ ٹیکنالوجی مملکت منتقل ہونے تک غیر ملکی ماہرین کی مدد لینے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ان کا کہنا ہے کہ مملکت کے بعض علاقوں میں بارش کا تناسب پانچ فیصد سے بڑھا کر20 فیصد تک کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔قارئین!مصنوعی بارش کیلئے قدرتی بادلوں کا ہونا ضروری ہے۔سعودی موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوری کے وسط میں ریاض میں ایسے بادل امڈیں گے جن سے منصوعی بارش برسائی جاسکے گی۔متحدہ عرب امارات پہلے ہی کلاو¿ڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی کو بھی میٹھے پانی کی قلت سے نمٹنے کے طور پر استعمال کررہاہے۔امارات میں یہ کام 2017 میں شروع ہوا تھا۔ بارش میں اضافے کے9 منصوبوں میں 15 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ سعودی عرب اور امارات نے مصنوعی بارش کیلئے غیر ملکی ماہرین خی خدمات حاصل کی ہیں۔ہمارے پاس ماہرین اور وسائل موجود ہیں مگر سمت درست نہیں ہے۔پاکستان میں مصنوعی بارش کا تجربہ 2001 ءمیں کیا گیا تھا۔اُسے جگاڑ کا نام نام جاسکتا ہے۔ڈاکٹر منور کہتے ہیں کہ کلاﺅڈ سیڈنگ کیلئے چھوٹے جہاز کی ضرورت ہے۔جس میں نمک اور ڈرائی آئس(خشک برف) کے سلنڈر یا ڈرم رکھے جاتے ہیں۔جہاز کو بادلوں کے اوپر لے جاکرنمک اور برف کا سپرے کیا جاتا ہے جس سے بادل برسنے لگتے ہیں۔2001ءمیں نمک خشک برف اور پانی مکس کرکے سیسنا جہاز کے ذریعے بادلوں پر چھڑک دیا گیا تھا ۔اس بھی بارش تو ہوگئی مگراصل اور سودمندطریقہ خشک برف اور نمک کا سپرے ہے۔ ڈاکٹر منور صابر نے مصنوعی بارش کے تجربے کی بات کی تو ان کی نہ صرف متعلقہ اداروں کی طرف سے حوصلہ افزائی نہیں کی گئی بلکہ ان کے کام میں روڑے بھی اٹکائے جانے لگے۔وہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔تجربے پر چند لاکھ روپے کے اخراجات ہونگے یونیورسٹی کا بجٹ اربوں روپے میں ہے۔یہ تجربہ یونیورسٹی کے کریڈٹ پر رہے گا۔اس سارے معاملے سے وی سی پروفیسر نیازصاحب لاتعلق اوربے نیاز نظر آتے ہیں۔ منور صابر اپنی طرف سے تجربے کی مکمل تیاری کئے ہوئے ہیں۔گزشہ ماہ خانصپور تجربے کیلئے گئے مگر موسم کی ناسازی اور پھر بارش ہونے کے باعث تجربہ مکمل نہ کرسکے۔لاہور میں ان کو جہاز دستیاب ہے نہ ڈرون مل رہا ہے۔والٹن ایئر پر جہاز کھڑے ہیں مگر ان کو اُڑانے کی اجازت نہیں جبکہ ان جہازوں میں کٹ بھی نہیں ہے۔ 2020ءمیں کورونا کے ساتھ ٹڈی دل نے بھی حملہ کیا جس سے جہاز کے ذریعے سپرے کرکے نجات حاصل کی گئی۔یہ جہاز مصنوعی بارش کیلئے بہترین ثابت ہوسکتا ہے مگر یہ بھی ان کی دسترس میں نہیں ہے۔سول اداروں کے کرتا دھرتاﺅں سے مایوس ہوکر ڈاکٹر منور اب پاک فضائیہ سے رابطہ کررہے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ کالم نگار اور ٹی وی تجزیہ کار ہارون رشید نے تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اڑھائی لاکھ ر روپے کا بندوبست کیا۔میں نے انہیں مشورہ دیا کی وہ پاکستان کی سیاست کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی فعال نوائے وقت کے ڈپٹی چیف ایڈیٹر اکرم چودھری سے رابطہ کریں۔ان کا حکومت میں بھی بڑا اثرو رسوخ ہے اور ویسے بھی وہ لاہور میں بارش کے خود بھی اخراجات ادا کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں پورے لاہور میں بارش کیلئے کل پانچ کروڑ کے اخراجات ہوسکتے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں آج پوری دنیا کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔جسے مصنوعی بارش کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔کراچی میں سال کے کئی ماہ بادل امڈے رہتے ہیں۔ملک کے دیگر حصوں میں جولائی اگست ستمبر برسات کے مہینے ہیں۔ان مہینوں میں کہیں کم کہیں زیادہ بارش ہوتی ہے اور کئی علاقوں سے بادل بن برسے گزر جاتے ہیں۔برسات کے پانی نے ڈیم بھرے جاسکتے ہیں۔ہمارے پاس ڈیم کم ہیں مزید کی تعمیر کی سائٹس موجودہیں وہاں تعمیر ہوسکتے ہیں۔ڈیم ہمیشہ نشیبی علاقوں میں بنتے ہیںلیکن اب میدانی اور ان علاقوں میں بھی بن سکتے ہیں جو میدانی علاقوں سے اونچے ہیں۔مضبوط ڈیم بنا لیں ان کو مصنوعی بارش سے بھر لیں۔کراچی میں پینے کے پانی کی قلت ہے ۔دور سے نہرکے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے۔کراچی کے قریب ڈیم بنائیں انہیں مصنوعی بارش سے بھریں ۔یوں کراچی میں پانی کی قلت ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گی۔منور صابر کی صورت میں پاکستان کے پاس بہترین ماہر موجود ہے اگر اسے کریڈٹ دیتے ہوئے جان جاتی ہے تو کوئی ”ڈاکٹرثمر“ سامنے لے آئیں مگر کارِخیرمیں مزید تاخیر نہ کی جائے۔

متعلقہ خبریں