ایک ایسی عورت کی کہانی جو دن کی روشنی میں باکردار تھی لیکن رات ہوتے ہی جسم کی بھوک اسے کسی کا بستر گرمانے پر اکساتی تھی۔۔۔۔۔ گناہ اور اُس کی رحمت

2023 ,جنوری 9



میں ایک مشہور گائنی سرجن ہوں۔ سرکاری جاب کے علاوہ میں ایک پرائیویٹ کلینک بھی چلاتی ہوں۔ شام کا بیشترحصہ کلینک ہی میں گزر جاتا ہے۔ فارغ وقت میں میں اپنے دن کا تمام حال ڈائری میں قلمبند کرتی ہوں۔ میری یہ عادت میری کئی یادوں کو محفوظ رکھتی ہے۔
میری ڈائری کے کچھ صفحات آپ بھی پڑھیں،جو میری دانست شاید سیاہ اوراق ہیں:
میرے سامنے سلمیٰ نامی بچوں والی عورت موجود تھی۔ اس کی عمر ستائیس سال تھی، رنگ گندمی، بھاری چھاتی،بھاری کولہے اور تھوڑا سا فربہی مائل جسم۔ شادی اور بچوں کی پیدائش کے بعد ایسا جسم ہونا عام بات ہے۔ گال سرخی مائل اور ہونٹ گلابی سے تھوڑے گہرے۔ اس کے جسم پر مہنگا جوڑا تھا اور گلے میں قیمتی سونے کی چین تھی۔میں نے اس کی رپورٹ دیکھی جو پازیٹو تھی۔

Women's health: OB-GYNs worry women aren't getting health care they need  during pandemic | CNN
میں بولی:ہاں جی ! کہیں کیا بات ہے۔
وہ بولی:میں یہ بچہ گرانا چاہتی ہوں۔
میں بولی:مگر کیوں، اگر ایسا تھا تو تم پہلے ہی کوئی احتیاطی تدابیر کرتیں۔ یوں اس مرحلے پر بچہ گرانا مناسب نہیں ہے۔
وہ بولی:بات یہ ہے ڈاکٹر صاحبہ، کہ یہ بچہ کسی صورت بھی میں نہیں پیدا کر سکتی،آپ پلیز میری مدد کریں۔
میں بولی:ٹھیک ہے مگر پہلے تم سچ سچ بتاؤ۔ اصل بات کیا ہے،ایسی کیا مشکل ہے کہ تم یہ بچہ نہیں پیدا کرنا چاہتیں۔
وہ بولی: میری شادی کو سات سال ہو چکے ہیں۔ میرا شوہرانور ایک مکینک ہے ۔ یہاں کام کرتا تھا مگر کوئی خاص کمائی نہ تھی۔ شادی کے ایک سال بعد ہی اسے دوبئی جانے کا موقع ملا تو وہ بہتر مستقبل کی خاطر دوبئی چلا گیا۔اس وقت میرا بڑا بیٹا میرے پیٹ میں تھا۔ میں یہاں اپنی ساس اور نند کے ساتھ رہنے لگی۔ جس وقت میرا بیٹا دو سال کا ہوا میری ساس فوت ہو گئی۔ اس کی فوتگی پر انور پہلی بار گھر آئے۔ ایک مہینہ یہاں رہے اور میرے رہنے کا انتظام اپنے ایک جاننے والے کے مکان کی دوسری منزل پر کر دیا۔ سیدھے سادھے شریف لوگ تھے سو اچھی گزربسر ہونے لگی۔
ایک سال بعد میری نند کی بھی شادی ہو گئی اور میں اکیلی ہی رہنے لگی۔چونکہ اب میں اکیلی تھی تو وہ ایک سال کے بعد آنے لگے۔ اس دوران میرا ایک بیٹا اور پیدا ہوا۔
پچھلے سال اس مکان مالک کو مکان کی اوپری منزل کی ضرورت پڑی تو ہمیں وہ مکان چھوڑ کر اسی محلے میں ایک دوسرے مکان میں شفٹ ہونا پڑا۔یہ مکان بھی پہلے کی طرح بالائی منزل پر تھا،مالک مکان ایک شریف شخص تھا۔ میرے شوہر بھی اس مکان میں آئے اور رہ کر گئے۔ اس دوران انھوں نے بھی اس رہائش گاہ کو تسلی بخش قرار دیا۔جب سے دوسرا بیٹا پیدا ہوا،ہم دونوں میاں بیوی نے مزید بچے پیدا کرنے میں احتیاط شروع کر دی۔ وہ جتنے دن رہے ہم نے احتیاط سے تعلق قائم کیا۔

Dating, love, Marriage & Relationships In Islam - The Deen Show - YouTube
انھیں گئے تین مہینے ہو گئے تھے۔ ایک دوپہر میرے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی ۔ کھولا تو مالک مکان کا بیٹا سہیل بجلی کا بل دینے آیا تھا۔
میں نے بل وصول کر کے اسے روانہ کر دیا۔ اگلے کچھ دن سہیل دن میں ایک دو بار کسی نہ کسی کام کے بہانے میرے گھر ضرور آتا۔ میں بھی کبھی کبھار اس سے سودا سلف منگوانے لگی۔ اس ہلکے پھلکے میل ملاپ کو کسی نے، بشمول میرے، نوٹ نہ کیا، کیونکہ میں شادی شدہ اور سہیل سے چھ سات سال بڑی تھی۔
ایک دن بچے گلی میں کھیلنے گئے ہوئے تھے۔ دروازہ کھلا تھا اور سہیل میرے کمرے میں آ گیا۔ اس سے قبل میں اسے دروازے سے ہی فارغ کر دیا کرتی تھی۔ مجھے پہلے حیرت ہوئی کہ وہ سیدھا اندر کیوں چلا آیا،مگر اس کی آنکھوں اور چہرے کی رنگت سے مجھ جیسی شادی شدہ عورت ایک لمحے میں سب سمجھ گئی۔اس نے اندر گھستے ہی میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی جس کا میں نے خوب سامنا کیا اور اسے اپنے جسم کو حاصل کرنے نہ دیا۔

As a Muslim woman, it's my duty to speak out about the sexual abuse I  survived as a child | The Independent | The Independent
وہ بھی میری مزاحمت کے آگے جلد ہی مایوس ہو گیا اور اسی طرح خاموشی سے لوٹ گیا۔
میں نے پہلے چاہا کہ یہ بات سہیل کی ماں سے کہہ دوں۔ پھر یہ سوچ کر ٹال دیا کہ اگلی بار اگر اس نے ایسا کچھ کیا تو سیدھا اس کی ماں سے کہہ دوں گی۔ ایسا یہ سوچ کر کیا کہ اس بات سے خواہ مخواہ میری بھی بدنامی ہو گی۔
کچھ دن خاموشی سے بیت گئے۔ سہیل نے دوبارہ اپنی شکل نہ دکھائی۔ ایک رات سوتے ہوئے مجھے کچھ کھٹکا محسوس ہوا۔ نچلے مکان میں لوگوں کی موجودگی کے باعث مجھے ڈھارس تھی،اسی لیے میں نے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ باہر مکمل خاموشی اور تاریکی تھی۔ میں نے سوچا کہ شاید کوئی بلی ہو۔ اسی لیے ہمت کر کے کمرے سے باہر نکل کر برآمدے میں آ گئی۔
اسی وقت کسی نے پیچھے سے مجھے جکڑ لیا اور میرے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ میں ڈر کے مارے بالکل ہی ڈھے گئی۔ میرے منہ سے کئی چیخیں نکلیں جو اس کی ہاتھ کے قفل سے قید ہو گئیں۔حملہ آور نے مجھے بانہوں میں بھر کر مجھے گھسیٹ کر دوسرے کمرے کی فرشی چٹائی پر گرا دیا۔ میں شدید خوف سے کپکپا رہی تھی،مجھ میں زور لگانے یا مزاحمت کرنے کا حوصلہ ہی باقی نہ رہا۔
کمرے کے اندھیرے میں مجھے بس اس کا جسمانی ہیولہ ہی دکھائی دے رہا تھا۔

Depressed Woman Sitting Alone Dark Room Stock Photo 706527769 | Shutterstock
میں اپنی جان کے خوف سے تھرتھراتے ہوئے رونے لگی۔ میری طرف سے بہت کم مزاحمت پا کر اس نے مجھے لٹا کر میرے جسم کے نازک حصوں سے چھیڑچھاڑ شروع کر دیا۔ جب اس نے میری شلوار کا ازاربند کھولا تو مجھے اس کی نیت صاف معلوم ہو گئی۔ اسے میری جان کی نہیں عزت کی ضرورت تھی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا مگر اس نے سختی سے میرا ہاتھ جھٹک دیا اور پھروہ تھا اور میری عزت کی دھجیاں اڑنے لگیں۔ایک ہی پل میں میرا سارا جسم سُن ہو گیا۔حیران کن طور پر تھوڑی ہی دیر میں میرا خوف، میرا ڈر، میرا ہر احساس جیسے تھم گیا۔ایک ثانیے میں انور کے ساتھ گزرے لاتعداد پل نظروں میں گھوم گئے اور میں خود آمادگی پر مائل ہوگئی۔ کچھ دیر تک وہ میری عزت کے ساتھ کھیلتا رہا اور کمرے سے نکل گیا۔
اور میں نجانے کتنی دیر یونہی ساکت لیٹی رہی جیسے ابھی اس نے ایک بار اور آنا ہو۔ مرغوں کی بانگوں سے مجھے صبح کا احساس ہوا۔ میں چونک کر اٹھی۔یہ سب خواب لگ رہا تھا۔ مگر سب حقیقت تھا۔

Despair rape victim waiting for help, stop sexual harassment and violence  against women, rape and sexual abuse concept. | CanStock
میں ایک گھنٹے جسم پر پانی بہا کر روتی رہی۔ میرا جسم ناپاک ہو گیا تھا۔ پشیمانی اور احساسِ گناہ سے سارا دن بت بنی بیٹھی رہی۔ احساس گناہ مجھے کاٹنے لگا۔
عزت لٹنے سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ مجھے عزت لٹوانے میں مزا کیوں آیا تھا۔
میں رورو کر اپنے گناہ کی معافی مانگتی رہی۔ شام کو سہیل کسی کام سے آیا تو میں نے اسے دروازے سے ہی دھتکار دیا۔
اگلے دن آدھی رات کو کمرے کے باہر کھٹکا ہوا،میں باہر نکلی تو کوئی نہ تھا۔ ساتھ والے کمرے میں داخل ہوئی تو کسی کی سانسوں کی آواز سنائی دی۔ میں چپ چاپ جا کر چٹائی پر لیٹ گئی تووہ مرد میرے قریب آ گیا۔یہ کھیل رات سے صبح تک وقفے وقفے سے جاری رہا۔
اس رات کے بعد کئی دن ہر رات وہ مرد آتارہا رات گزارتااور چپ چاپ بنا بات کیے سب کچھ کرکے چلا جاتا۔
میں بولی:تو کیا وہ سہیل ہے؟۔
وہ بولی:ہاں شاید،ہم نے کبھی آپس میں کوئی بات نہیں کی۔
میں خاموش ہو گئی۔ سلمیٰ کی کہانی بڑی عجیب تھی،دن کی روشنی میں وہ ایک باکردار عورت ہوتی ہے،جسے اپنے گناہ کا شدید قلق ہوتا ہے۔ مگر رات ہوتے ہی جسم کی بھوک اسے کسی کا بستر گرمانے پر اکساتی تھی۔اس کہانی کا یہیں انجام نہیں ہوجاتا۔وہ میرے پاس ایک عرصہ نہیں آئی ۔پانچ سال بعد اس سے ملاقات ہوئی وہ بھی ایک مجلس میں۔یہ مذہبی مجلس تھی۔حیران کن طور پر جو مقررہ تھی وہ وہی سلمٰی تھی۔اس کی آواز میں تاثیر تھی ۔خواتین اس کا وعظ بڑے انہماک سے سن رہی تھیں۔

Removing The Hijab Doesn't Make You A Bad Muslim | HuffPost UK Life
اسے یہ توفیق کیسے مل گئی،میں حیران تھی۔ایک گناہ آلودہ عورت اورواعظہ؟ مجلس کے اختتام پر میں اسے ملی تو اس نے بتایا کہ اس کے شوہر نے اسے عمرے کیلئے بلایا۔میںجانے میں متذبذب تھی کہ کس منہ سے جاﺅں۔گناہوں سے بھری زندگی آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھی۔اسی شش وپنج میں نیند آگئی تو خواب میں ایک سفیدریش والے سفید پوش ملے۔انہوں نے صرف ایک فقرہ کہا۔”کیاتیرے گناہ اُس کی رحمت سے بڑے ہیں؟۔ “ میں جاگی تو میری دنیا بدل چکی تھی۔میں نے عمرہ کیااسی دوران مذہبی رجحان ٹھاٹھیں مارنے لگا۔سکول میں میں اچھی ڈیبیٹر تھی۔مجلس میں جانا شروع کیا مطالعہ بھی کرنے لگی۔باقی جو بھی ہوں آپ کے سامنے ہوں۔اس کی کہانی ختم ہوئی تو اس کی آنکھوں کے ساتھ میری آنکھیں بھی چھلک رہی تھیں۔ 

School girl can't wear the Hijab anymore | School Diaries Ep. 3

متعلقہ خبریں