سمیریٹن ٹیکنالوجیز میں موٹیویشنل سیشن کا اہتمام

2023 ,فروری 21



رپورٹ: تہذین طاہر
سمیریٹن ٹیکنالوجیز ایک سافٹ ویئر کمپنی اور آئی ٹی کی دنیا کا بڑا نام ہے۔اس کمپنی کے وابستگان کے لیے ایک سیشن کا اہتمام کیا گیا۔ یہ موٹیویشنل سیشن تھا۔
سیشن شروع ہونے سے پہلے جب کمپنی کے سی ای او طاہر فضل حسین اعوان سے پوچھا گیا کہ اس سیشن کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟تو ان کا کہنا تھا”اس کی ضرورت ہمیں اس لیے محسوس ہوئی کہ ہماری کمپنی میں کچھ ایسے لوگ کام کرتے ہیں جنہوں نے پہلے کبھی جاب نہیں کی۔ وہ پہلی بار جاب کرنے کے لیے کسی کمپنی کا حصہ بنے تھے۔جس وجہ سے کچھ چیزیں پروفیشنلی انہیں مسئلہ کر رہی تھیں۔ یہ سیشن کروانے کا مقصد انہیں بتانا ہے کہ پروفیشنلزم کیا ہے۔پروفیشنل رویہ کیا ہوتا ہے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ رابطہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ٹیم ورک.... یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہم کیسے کام کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک ایکٹویٹی کے طور پر بھی یہ سیشن منعقد کیا جا رہا ہے جس میں ہم سب کو بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملے گا“۔
سمیریٹن ٹیکنالوجیز میں موٹیویشنل سیشن منعقد کروانے کے لیے ہیلتھ وائر کمپنی سے رابطہ کیا گیا۔ اس کمپنی سے صوفیہ سہیل جو کہ سائیکولوجسٹ ہیں نے سمیریٹن ٹیکنالوجیز کا دورہ کیا۔صوفیہ سہیل کے ساتھ ہیلتھ وائر کمپنی کی اکاو¿نٹس مینیجر ماہ نور بلوچ بھی سمیریٹن ٹیکنالوجیز کے اس سیشن میں شامل تھیں۔صوفیہ سہیل کی جانب سے سمیریٹن ٹیکنالوجیز کے ورکرز کو بھر پور لیکچر دیا گیا۔ سوال جواب ہوئے جس سے سیشن میں موجود ہر فردبڑے غور ، دھیان اور پوری توجہ سے صوفیہ صاحبہ کی گفتگو سنتا رہا۔ جس طرح صوفیہ سہیل نے لیکچر دیا وہ بلا شبہ اس کے لیے داد کی مستحق ٹھہریں۔ سیشن کو جس طرح ترتیب دیا گیا وہ بھی قابلِ تحسین تھا۔
سمیریٹن ٹیکنالوجیز میں ہونے والا یہ سیشن نہ صرف وہاں کام کرنے والے ملازمین کے لیے بلکہ بلکہ ہم سب کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سیشن والدین، اساتذہ، طلبہ اور دوسرے کئی موٹیویشنل سپیکرز کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ رپورٹ پڑھنے کے ساتھ اگر آپ صوفیہ سہیل کا یہ لیکچر سننا چاہتے ہیں تو رپورٹ میں موجود یو ٹیوب کے لنک سے آپ بذاتِ خود اس لیکچر سے بھرپور رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=htItZ7wwES0
لیکچر کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہیلتھ وائر کمپنی کے اغراض و مقاصد کا کچھ ذکر کرتے ہیں۔
ہیلتھ وائرکمپنی ملازمین کے لیے کام کرنے والی کمپنی ہے۔یہ پہلی ڈیجیٹل ہیلتھ کمپنی ہے جو ملازمین کی صحت کی سہولیات بشمول 24گھنٹے او پی ڈی، لیب ٹیسٹ سپیشلسٹ اور میڈیسن میںرعایت فراہم کرتی ہے۔ یہ ذہنی اور جسمانی صحت کے سیشن اور فری روٹین چیک اپ کی سروس بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ سہولیات صرف کمپنی کے ملازمین کے لیے ہی نہیں ہوتیں بلکہ یہ کمپنی کے ان تمام چھوٹے بڑے ملازمین کے لیے بھی ہیں، جن کی فیملی سات افراد پر مشتمل ہے۔
سمیریٹن ٹیکنالوجیز کمپنی میں دیئے جانے والے صوفیہ سہیل کی لیکچر کی بات کریں تو لیکچر شروع کرنے سے پہلے انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میرا نام صوفیہ سہیل ہے۔ میں سائکولوجسٹ ، آتھر، رائٹر، کوپریٹر ہوں۔ 4سال قاسم علی شاہ فاو¿نڈیشن کی سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ بھی رہی ہوں۔اور پھر میں نے کوآپریٹ سیکٹر جوائن کیا۔آج ہمارا سیشن ایٹی ٹیوڈ(attitude) ڈویلپمنٹ پہ ہے۔
سیشن کا آغاز دوپہر کے کھانے بعد ہوا جس وجہ سے صوفیہ سہیل نے محسوس کیا کہ حاضرین ایکٹو نہیں ہیں اور وہ زیادہ توجہ اور دلچسپی سے انہیں نہیں سن رہے۔ ماحول کی سستی کا حل انہوں نے ہال میں موجود افراد سے تالیاں بجوا کر نکالا۔
سیشن کا پہلا پوائنٹ ویل بیئنگ(well being) تھا۔ صوفیہ سہیل نے بتایا ”ویل بیئنگ کا مطلب ہے ایک خوشگوار اور صحت مند زندگی۔ جب آپ ذہنی طور پر، جسمانی طور پر ہر لحاظ سے خود کو بہتر محسوس کرتے ہیں اسے ویل بیئنگ کہتے ہیں۔ اگر ہم جسمانی طور پر صحت مند نہیں ہوں گے تو ہم سست ہو جائیں گے اور جب ہم سست ہوں گے تو ہم نہ صرف اپنی ذاتی زندگی بلکہ پروفیشنلی امور بھی ٹھیک طریقے سے سر انجام نہیں دے سکیں گے۔ اگر آپ کی صحت اچھی نہیں تو کچھ بھی اچھا نہیں ہے کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے۔
دوسرا پوائنٹ ہے ایٹی ٹیوڈ(Attitude): آج کل ایک جملہ” attidude بہت ہے“ ۔ ہر جگہ اور ہر فرد بہت استعمال کرتا ہے۔ آپ مجھے بتائیں دراصل ایٹی ٹیوڈ کیا ہے؟“۔
حاضرین نے اس سوال کے جواب میں اپنی معلومات کے مطابق جواب دیئے۔
ایک فرد کا کہنا تھا ایٹی ٹیوڈ ہماراbehaviour ہے۔
اور behaviour کیا ہے؟
behaviour ہمارا رویہ۔
رویہ کیا ہے؟
اب ماحول میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ حاضرین میں سے ایک فرد نے کہنا شروع کیا رویہ مطلب ہم کسی کے ساتھ interact (بات چیت)کیسے کرتے ہیں۔
صوفیہ سہیل کا کہنا تھاکسی بھی سچوئیشن اور ماحو ل میں ہم کس طرح behave کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کرتے ہیں۔ ماحول کے مطابق کیے جانے والے ہمارے عمل کو attitude کہتے ہیں۔ میں ایک سائکولوجسٹ ہوں اور یہاں ایک corporate learning کے طور پر موجود ہوں۔ ہم جو عمل کرتے ہیں وہ ہمارا behaviour ہوتا ہے۔ work place (کام کرنے والے جگہیں اور ادارے)کے کچھ خاص behaviour ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ سب نوجوان ہیں اور مختلف یونیورسٹیوںسے پڑھ کر آئے ہیں۔ آپ سب مختلف جگہوں کے پودے ہیں ۔ آپ کی گروتھ اور ڈویلپمنٹ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ آپ کے والدین مختلف ہیں آپ کی پرورش مختلف طریقوں سے ہوئی ہے۔ اب جب ایک خاص جگہ پر آپ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں تو وہاں بہت سارے اختلافات بھی ہو جاتے ہیں۔ ہم سب اپنے اپنے طور پر بہت اچھے judgemental ہیں۔بغیر کچھ سوچے سمجھے کسی کی پرسنیلیٹی کو جج کرتے ہیں اور پھر اپنی ججمینٹ کو دوسرے لوگوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ جبکہ جہاں ہم کام کرتے ہیں وہاں ہمیں ایک خاص ایٹی ٹیوڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارا ایٹی ٹیوڈ ڈویلپ کیسے ہوتا ہے؟۔ہمارا ایٹی ٹیوڈ ہمارے پاسٹ ایکسپیرئنس سے ڈویلپ ہوتا ہے۔ ہم کوئی چیز پہلے محسوس کرتے ہیں اس کے ساتھ کوئی ایموشن ڈھونڈ لیتے ہیں اور پھر ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ اس عمل کو ایٹی ٹیوڈ کہتے ہیں۔منفی سوچیں سب کو آتی ہیں۔ ہمارے غیر مناسب رویے ہوتے ہیں کیونکہ ہم پرفیکٹ نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو ایک انسانی دماغ بنا ہی ایسا ہے کہ وہ منفی چیزوں اور باتوں کو جلدی captureکرتا ہے۔ اور افسوس کی بات ہے ہمارے معاشرے میں منفی رویے زیادہ جلدی پروان چڑھتے ہیںاور وقت کے ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ہمیں عموماً نیگیٹو چیزیں جلدی متاثر کرتی ہیں کیونکہ وہ بظاہر دیکھنے میں خوبصورت ہوتی ہیں۔
ایٹی ٹیوڈ کا مطلب سمجھاتے ہوئے صوفیہ سہیل نے قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:”قرآن بھی کہتا ہے” اور تمہارے دماغ میں وسوسے ڈال دیئے جائیں گے“۔
جب ہماری پرورش ہو رہی ہوتی ہے تب ہمارے گھر کا ماحول ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر گھر کے ماحول میں نیگیٹویٹی زیادہ ہے تو ہم وہی سیکھیں گے اور اگر گھر کے ماحول میں مثبت رویے زیادہ ہیں تو ہماری پرورش مثبت سوچ اور مثبت ردِ عمل کے ساتھ ہو گی۔اگر گھر کا ماحول اچھا ہے تو بعض اوقات آپ ایسے دوستوں کا انتخاب کر لیتے ہیں جو نیگیٹویٹی پیدا کر دیتے ہیں۔ مختصراً ہم اپنے ماحول سے منفی اور مثبت رویے سیکھتے ہیں، لیکن18سے20سال کے بعد ہر فرد اس قابل ضرور ہو جاتا ہے کہ اس نے کس طرح کے رویہ کا استعمال لوگوں کے سامنے کرناہے۔
تیسری چیز ہے Perception۔
Perception کیا ہے؟۔ کسی چیز کو ازیوم کرنا۔ ورک پلیس پر سب سے زیادہ اہم ہمارا Perception ہوتا ہے ۔ ہم Perception کی بیس پر ایٹی ٹیوڈ ڈویلپ کرتے ہیں۔بعض اوقات کئی لوگ ہمیں ویسے ہی بُرے لگ رہے ہوتے ہیں اور کئی لوگ اچھے لگ رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس وجہ سے کہ ہم نے Perception قائم کر لیا ہے ۔ کبھی کسی نے غصے میں کوئی بات کر لی تو جب تک آپ اس کے ساتھ کام کرتے ہیں آپ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہے ہی ایسا۔ ورک پلیس پر یہ چیزیں بہت عام ہیں۔
اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد صوفیہ سہیل نے ہال میں موجود تمام حاضرین کو ایک ایک پرچی دی اور کہا کہ اس پر آپ سب نے 2پوائنٹس لکھنے ہیں۔
-1آپ کا وہ کونسا رویہ ہے جو پروفیشنلی تبدیل ہونے کی ضرورت ہے؟
-2آپ اپنے ادارے میں کون سے رویے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟
صوفیہ سہیل نے یہ بات واضح طور پر کہی کہ پرچی پر کسی نے اپنا نام مینشن نہیں کرنااورآپ کی لکھی جانے والی پرچیاں ہمارے ساتھ جائیں گی۔
پرچیاں لکھوانے کے بعد صوفیہ سہیل نے کچھ پرچیاں وہاں پڑھ کر سنائیں ۔ جن میں لکھے جانے والے پوائنٹس کچھ یوں تھے۔
1- being the team leader i want to change my behaviou with my team.
2- favoritism
٭
1- responsible
2- flexibility and friendly environment
٭
1- need to prove punctuality
2- seniors is good but some time we need to appreciation
٭
ان کچھ پرچیوں کو پڑھنے کے بعد بتایا کہ یہ ایکٹویٹی اس وجہ سے کروائی جاتی ہے تاکہ مینجمنٹ کو پتہ چل سکے کہ ورکرز کیا سوچتے ہیں۔سیشن کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔5بہترین ایٹی ٹیوڈ ہیں جو ورک پلیس پر ہونے ضروری ہیں۔
سب سے پہلے پوزیٹو ِتھنکنگ یعنی (مثبت سوچ)۔آپ کے خیال میں positive thinking built کیسے کی جا سکتی ہے؟۔ حاضرین کی رائے جاننے کے بعد صوفیہ سہیل نے کہا۔ پوزیٹو ایٹی ٹیوڈ ڈویلپ کرنا positive thinking built کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور پوزیٹو ایٹی ٹیوڈ آپ میں اس وقت پروان چڑھتا ہے جب آپ اپنے ایٹی ٹیوڈ کو کنٹرول کرنے کی پریکٹس کرتے ہیں۔جب بھی آپ کو اپنے ادارے سے کوئی شکوہ شکایت ہوتو آپ کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ یہ جو آپ کی جاب ہے یہ کئی لوگوںکا خواب ہے۔ آپ سب آئی ٹی گریجوایٹ ہیں۔ آپ کے ساتھ پرائیویٹ یونیورسٹیز بے شمار ہیں۔ ہر چھے ماہ اور سال بعد ہزاروں آئی ٹی گریجوایٹ نکلتے ہیں۔ان میں سے کتنے لوگوں کے پاس جاب ہے؟۔ جب جاب ہو جاتی ہے تو ہم comparison شروع کر دیتے ہیں۔
comparison with other employees/ comparison with other companies
کچھ بھی جانے بغیر ہم دوسری کمپنیوں کا اور وہاں کام کرنے والے لوگوں کا اپنی کمپنی اور خود اپنی ذات کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ جب کہ دیکھا جائے تو سب different mind set کے ساتھ کام کرتے ہیں کسی بھی کمپنی میں always perfect والا ماحول نہیں ہوسکتا۔آپ کی جاب آپ کے لیے learning point ہے ۔ اور یہ کہ آپ یہاں سے جو کچھ سیکھ رہے ہیں اس سے آپ کا تجربہ بڑھ رہا ہے۔
صوفیہ سہیل کا کہنا تھا کہ میں نے 10سال پہلے اپنا کیریئر ایک چھوٹے سے ہسپتال سے شروع کیا تھا جس کے کونسلنگ روم میں اے سی نہیں تھا، میں وہاں 40ٹمپریچرپر بھی کونسلنگ کرتی تھی۔وہ میرا لرننگ پیریڈ تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج میں یہاں آپ کے سامنے موجود ہوں۔ اس لیے جب بھی آپ کو اپنی پرسنل لائف یا پروفیشنلی لائف میں کسی سے کوئی شکوہ شکایت ہے تو آپ کواپنے ایٹی ٹیوڈ پر کنٹرول کی ضرورت ہے۔اللہ نے آپ کو انسان بنایا ہے۔ آپ کو مکمل صحت کے ساتھ بنایا۔ آپ کوکوئی معذوری نہیں دی۔ آپ کو اتنا ذہن دیا کہ آپ نے آئی ٹی کی ڈگری حاصل کی۔یہاں تک کہ آپ کو موقع دیا کہ آپ ان ڈگریز کو availکرسکیں۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی جب ہم شکوہ شکایت کریں گے تو ہم میں کبھی بھی پوزیٹو ایٹی ٹیوڈ نہیں آئے گا۔
کچھ نصیحتیں جوصوفیہ سہیل کی جانب سے کی گئی وہ تھیں:
٭ہم سب کی زندگیوں میں سب سے ہم چیز sense of responsibilities ہے۔ جب ہم responsible اورpunctual ہوں گے تو ہم ایک اچھے عہدے پر فائز بھی ہو سکیں گے۔
you have to learn to become a responsible employee.
حضرت علیؓ کا قول ہے”تم میں سب سے بہترین اور قیمتی انسان وہ ہے جس میں احساسِ ذمہ داری زیادہ ہے“۔
responsibility ایک ایسی عادت ہے جو ہر جگہ آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کرے گی۔
٭تعریف اور مسکراہٹ کسی بھی ادارے کا ماحول تبدیل کر دیتی ہے، یہ اصول مینجمنٹ کو خاص طور پر اپنانا چاہیے ، وہ جب آفس آئیںاپنے ورکرز کو مسکراتے ہوئے ملیں۔ کیونکہ مسکراہٹ میجک createکرتی ہے۔
٭اپنے کمٹمنٹ وقت پر پورا کریں۔ بلاوجہ کی بہانہ بازی نہ کریں۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو اپنی غلطی نہیں مانتا بلکہ دوسروں کو غلط ٹھہراتا ہے ۔ جو شخص غلطی کر کے سیکھتا نہیں ہے بلکہ الزام تراشی کرتا ہے اسے نہ تو پرسنلی پسند کیا جاتا ہے نہ ہی پروفیشنلی۔اگر آپ نے پروفیشنلی گرو کرنا ہے تو اپنی غلطیوں سے سیکھیں ۔ اور اگر آپ کو کوئی کام کرنے میں مشکل پیش آتی ہے تو آپ مدد لیں۔ اوراس کام کو کرنے کی کوشش کریں۔کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا جب تک اس کام کو کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
٭ورکرز اکثر شکوہ کرتے ہیں کہ مینجمنٹ کی جانب سے انہیں سراہا نہیں جاتا ۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ آپ کسی کو اس کے اچھے کام پر سراہتے ہیں۔ نہیں ہم کبھی خود پر غور نہیں کرتے۔ اگر سوچیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے جو عمل آپ کرتے ہیں وہی آپ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔تعریف کرنے سے کوئی سر پر نہیں چڑھتا بلکہ اس میں مزید اچھا اور بہتر کام کرنے کا جنون پروان چڑھتا ہے۔
٭جب ہم ذمہ دار نہیں ہوتے۔ وقت پر آفس نہیں پہنچتے۔ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتے تو ہماری ریپوٹیشن خراب ہوتی ہے۔ ہم ایک اچھی پوسٹ تک نہیں پہنچ پاتے۔
٭کچھ لوگوں کو بہت زیادہ اور جلدی غصہ آتا ہے۔ یاد رکھیں جب آپ کو غصہ آئے اور آپ کنٹرول نہ کر پا رہے ہوں توسیدھا واش روم جائیں اور پانی کے چھنٹیں منہ پر ماریں۔ کیونکہ جب ہم غصے میں ہوتے ہیں تو ہمارا سانس بہت تیز تیز چل رہا ہوتا ہے اور جب سانس تیز چل رہا ہو تو ہم بہت زیادہ ایموشنل ہو رہے ہوتے ہیں۔اب اس حالت میںجب ہم پانی کے چھنٹیں منہ پر مارے گے تو ہمارا سانس نورمل ہوگا ،ہمارا غصہ کنٹرول ہوگا۔
٭ جب کوئی شخص آپ کے سامنے غصہ کر رہا ہو تو آپ نے ریئکٹ نہیں کرنا، رسپونس کرنا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو شخص آپ کے سامنے غصہ کر رہا ہے آپ نے خاموش رہنا ہے اور آرام آرام سے پچیس تک گنتی کرنی ہے۔ گنتی مکمل ہونے کے بعد آپ نے رسپونس دینا ہے ۔ اس عمل کے بعد جب آپ رسپونس دیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے بات کرنے کا طریقہ بالکل الگ ہے۔
جب آپ ان کچھ چیزوں کی بار بار پریکٹس کریں گے تو آہستہ آہستہ آپ اس کے عادی ہو جائیں گے اور آپ کو غصہ کم آنا شروع ہو جائے گا۔ایک اور بات جس کو غصہ آرہا ہے وہ آپ کا دوست ہے یا آپ کا کوئی کولیگ ہے یا کوئی اور ہے، اسے20سیکنڈ کے لیے گلے لگا لیں اور کچھ نہ کریں۔ اسے کہتے ہیں جادو کی جھپی۔جادو کی جھپی سائنس ہے۔ جب ہمیں کوئی گلے لگاتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کوئی ہم سے محبت کرتا ہے۔ آپ اس سب کی پریکٹس کر کے دیکھیں۔ اپنی زندگی میں تبدیلی بھی محسوس کریں گے اور آپ کو خود کو بھی اچھا لگے گا۔
prectise makes man perfect.
فضل حسین اعوان بھی سمیریٹن ٹیکنالوجیز کمپنی میں ہونے والے اس سیشن میں شامل تھے۔ سیشن اپنے اختتام کو پہنچنے کے قریب تھا۔ غصہ کو کنٹرول کرنے کی بات پرفضل حسین اعوان نے صوفیہ سہیل سے سوال کیا۔
”ہمارے بچے آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی ہیں جس پر ہمیں غصہ آتا ہے تو کیا ایسی صورت حال میں ہم اپنے بچوں کو لڑتا چھوڑ کر باتھ روم میں چلے جائیں؟“۔
فضل حسین اعوان کے اس سوال پر صوفیہ سہیل سمیت تمام افراد ہنسنے لگے۔ جبکہ سوال کے جواب میں صوفیہ سہیل کا کہنا تھا کہ جب بچے لڑ رہے ہوں تو ان کو یہ skill بتائیں۔انہیں بتائیں کہ غصہ کنٹرول کیسے کیا جاتا ہے۔ جب آپ بچے کو بچپن سے ہی ایسی skill سکھائیں گے تو بڑے ہونے تک ان سب کی عادت ہو جائے گی۔ اسے اپنے ایموشنز کو مینج کرنا آئے گا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایموشنز کو مینج کرنا نہیں سکھایا جاتا۔لہٰذا جب تک ہم خود نہیں سیکھیں گے ہم سکھا نہیں سکتے۔
سیشن کے اختتام سے پہلے فضل حسین اعوان نے ایک واقعہ سنانے کی اجازت طلب کی۔ جو واقعہ انہیں نے حاضرین کے گوش گزار کیا وہ کچھ یوں تھا:”میں نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا موت سے زندگی کی طرف۔ اس کتاب میں میں نے چھوٹے بڑے بہت سے لوگوں کے واقعات شامل کیے۔ ان سے سوال کیے ان کی زندگی کے تجربات جانے۔ اور ان سے پوچھا کہ کیا کبھی ان کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا جس پر انہیں لگا کہ وہ موت کے منہ سے واپس آئے ہیں اور اللہ نے انہیں دوسری زندگی سے نوازا ہے۔ اور موت کو بہت قریب سے انہوں نے دیکھا ہو۔ یہ تمام واقعات میں نے کتاب میں شامل کیے اور کتاب شائع ہو گئی۔ میں چونکہ اس وقت نوائے وقت ایڈیٹوریل میں تھا تو ایک دن آفس بوائے سے سوال کیا کہ ”کیوں بھئی کیا تم نے کبھی موت کو قریب سے دیکھا ہے؟“۔میرے سوال کے جواب میں اس نے کہا” فضل صاحب جدوں تُسی مینوں کوئی کم کہندے او، مینوں موت ہی نظر آوندی اے“۔
واقعہ سننے کے بعدسیشن کی لیکچرار صوفیہ سہیل سمیت پورا حال قہقہوں سے گونجنے لگا۔
آخر میں صوفیہ سہیل نے کہا:
٭کام کو مینج کرنا سیکھیں۔
٭کام پر فوکس کریں۔
٭مائنڈ سیٹ بنائیں۔
٭اپنی لائف کو مینج کریں۔
٭ٹائم ٹیبل بنائیں تاکہ آپ اپنی ایموشنز کو قابو کر سکیں اور آپ کوغصہ کم آئے۔کیونکہ آپ کی ذات سب سے اہم ہے ۔
٭سیلفش نہ بنیں بلکہ self learn بنیں۔
٭اپنی مینٹل اور فزیکل ہیلتھ کا خیال رکھیں۔
٭اچھا محسوس کریں گے۔
سیشن کے اختتام پر صوفیہ سہیل اور دارے کی مینجمنٹ کے لیے حاضرین نے جوش سے تالیاں بجائیں۔ اور اس خوبصورت سیشن کا اہتمام کرنے پر اپنے ایس ای او کو داد دی۔ 

متعلقہ خبریں