2016 ,نومبر 2
فضل حسین اعوان
(معروضی حالات اور محلاتی سازشیں)
کوئی کاﺅنٹ ڈاﺅن اور کوئی 48گھنٹے اہم ہونے کی بات کرتا ہے‘ سید ظفر علی شاہ نے چودھری نثار علی خان کے وزیراعظم بننے کا شوشہ چھوڑا یا میاں نوازشریف کو شیشہ دکھایا، ظفر علی شاہ نوازلیگ میں معتوب نہیں تو محبوب بھی نہیں ہیں۔ میاں نوازشریف کے متبادل کے طور پر چودھری نثار نوازلیگ کی چوائس نہیں اسٹیبلشمنٹ(فوج) کی خواہش ہو سکتے ہیں۔ آصف زرداری کی دوستی میںخواجہ آصف نے پیپلزپارٹی پر ایک بڑا احسان کیا تھا۔مارچ 2008ءکے دوسرے ہفتے جب امین فہیم پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر کی حیثیت سے صدر مشرف سے حکومت بنانے کےلئے دعوت دینے کا مطالبہ کررہے تھے جبکہ آصف زرداری ان کو وزیر اعظم بنانے کے حق میں نہیں تھے۔اس موقع پر خواجہ آصف نے کہا کہ انکی پارٹی کیلئے امین فہیم قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ وہ مشرف سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں اور وہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے روز بھی مشرف سے ملے ۔اس پر امین فہیم بہت تلملائے مگر۔۔۔اسکے بعد مخدوم امین کا پتہ کٹ گیا،وزیراعظم پنجاب سے لیا گیا جس سے سندھ سے زرداری کے صدر بننے کا راستہ صاف ہوگیا۔زرداری کی اس حکمت عملی کا ن لیگ کی قیادت کو وہم گمان بھی نہیں ہوگا۔اقتدار کے ایوانوں میں ایسی محلاتی سازشیں ایک معمول ہے۔یوسف رضا گیلانی کے استعفے کے بعد جب مخدوم شہاب الدین کو گیلانی کا جانشین نامزد کر دیا گیا تو ان کیخلاف اچانک ایفیڈرین کیس کیا کھلا کہ راجہ پرویز اشرف کا مقدر کھل گیا۔
مسلم لیگ ن کے وزراءکی گروپ بندی کی کسے خبر نہیں۔ خواجہ آصف اور چودھری نثار گروپ‘ یہ لیڈر خود کہہ چکے ہیں کہ انکی کئی ماہ سے بول چال بند ہے۔ بلاول کی توپوں کا رُخ آج نوازشریف اور چودھری نثار کی طرف ہے۔ انکی اپنے مطالبات تسلیم کرانے کی ڈیڈ لائن تو 27 دسمبر تھی اب انہوں نے دفعتاً7نومبر کر دی اور ساتھ ہی چودھری نثار کا استعفیٰ بھی مانگ لیا۔ ظفر علی شاہ نے فرمایا کہ چودھری نثار اگر وزیراعظم بن گئے تو کیا بلاول ان سے پھر بھی استعفیٰ مانگیں گے۔ بادی النظر میں بلاول نے استعفیٰ مانگا ہی اس لئے ہے کہ وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ ان کو چودھری نثار وزیر داخلہ کے طور پر قبول نہیں تو وزیراعظم کے طور پر کیسے ہوسکتے ہیں۔ اب پیپلز پارٹی آٹھ سال قبل کا احسان اتاررہی ہے۔
چودھری نثار کو انکے کردار و عمل اور اقدامات و بیانات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کا جھکاﺅ فوج کی طرف رہا ہے۔ کچھ حلقے ان کو پاک فوج اور حکومت کے درمیان پل بھی قرار دیتے ہیں۔ میاں نوازشریف سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ سنیارٹی اور تجربہ خداداد صلاحیت نہیں یہ ارتقائی عمل ہے۔ فوج حکومت کے ماتحت ادارہ ہے۔ اس کے ساتھ بہتر تعلقات‘ مصالحت اور مفاہمت کی باتیں بظاہر احمقانہ نظر آتی ہیں مگر پاکستان کی جمہوریت میں یہی حقیقت ہے۔ پاک فوج کوپس پردہ طاقتور کا محور سمجھا جاتا ہے۔ طاقت کے اس محور کو طاقت اور سازشوں سے نہیں توڑا جا سکتا۔ حکمت عملی اور پلاننگ کی ضرورت ہے۔ اس ادارے کو آپ اپنی طاقت بنائیں، اپنے اقدامات سے مقابل نہ لائیں۔
وزیراعظم کے اختیارات کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا مگر ہر اختیار کو بروئے کار لانا صحیفہ آسمانی نہیں۔ آپ کسی کو بھی وزیر لگا سکتے ہیں اور ہٹا بھی سکتے ہیں۔ جیسا کہ پرویز رشید کی جگہ مریم اورنگزیب کو لایا گیا ہے۔ یہ آپ کا اختیار ہے۔ آپکے پاس اس وزارت کیلئے سینکڑوں پارلیمنٹرین ہیں، کل آپ نے مشاہد اللہ کو وزارت سے فوج کے بارے میں متنازعہ انٹرویو دینے پر نکالا تھا آج انکی صاحبزادی کو وزیر بنا دیا۔خواجہ آصف کی پاک فوج کے حوالے سے تضحیک آمیز تقریریں قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ان کو آپ نے وزیر دفاع بنا دیا۔ بجا یہ آپ کا اختیار ہے۔ مگرنتائج ؟؟؟ رانا ثناءاللہ کو آپ نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے تناظر میں معطل کیا اور پھر بحال کر دیا۔ اس سے طاہر القادری‘ انکی پارٹی اور مرنے والوں کے لواحقین کے اشتعال میں کیا کمی لانا مقصود تھا؟
آج عمران خان اسلام آباد میں لاﺅ لشکر کے ساتھ موجود اور حشر بپا کرنے پر آمادہ ہیں۔انہوں نے اپنے احتجاج کو سپریم کورٹ کی طرف سے جوڈیشل کمیشن بنانے کے بعد یوم تشکر میں بدل دیا ہے مگر مقصد وہی ہے۔ کچھ حلقے کہتے ہیں اس موومنٹ کے پیچھے فوج ہے۔ فوج ہو نہ ہو ان کا مطالبہ درست ہے۔ وزیراعظم پانامہ لیکس کا حساب دیں۔ اگر عمران کے احتجاج کے پس منظر میں فوج تھی تو اس کا کوئی تو ایجنڈا ہو گا۔ کل اگر فوج عمران کے پس پردہ تھی تو آج اسے عمران خان کی ضرورت نہیں رہی عمران کو بھی شاید باور کرا دیا گیا تو وہ سپریم کورٹ کی طرف سے جوڈیشل کمیشن بنانے کے فیصلے کو تاریخ ساز قرار دے کر پھولے نہیں سما رہے۔ ” فوج کے پاس مبینہ ایجنڈے“ کی تکمیل کےلئے ڈان اور سرل المیڈاوالی نیوز لیکس ہی کافی ہے۔ چودھری نثار نے رواں ماہ کے پہلے ہفتے کہا تھا کہ چار روز میں تحقیقات مکمل ہو جائیگی مگر ابھی تک تحقیقات شروع بھی نہیں ہوئی لیکن وزیر اطلاعات کو کوتاہی کا مرتکب قرار دیکر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ کوتاہی کیا ہوئی کہ انہوں نے خبر رکوائی کیوں نہیں۔ وہ کونسا دور یاد دلا رہے ہیں جب جرنیلی آمریتوں میں اخبارات پریس میں جانے سے قبل فوج کے حضور پیش کئے جاتے تھے ۔ فوجی ”غیرمناسب“خبر کو اچک لیتے اور اگلے روز اخبار شائع ہوتا تو ان خبروں کی جگہ خالی ہوتی۔
چودھری نثار کی دو روز قبل کی پریس کانفرنس میں کئی جھول موجود تھے۔ انکی کئی باتیں بظاہر بے معنی‘ لایعنی اور بے مقصد تھیں۔ شاید وہ کسی کےلئے بامقصد ہوں اور ان میں کوئی پیغام ہو۔ انہوں نے نیوز لیکس پر رام لیلا ان الفاظ میں بیان کی ”خبر کا معاملہ انتہائی پروفائل کیس ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف کی موجودگی میں فیصلہ ہوا کہ اس حوالے سے ابتدائی تحقیقات کی جائیں گی۔ کوئٹہ میں وزیراعظم آرمی چیف اور میری ملاقات ہوئی تو آرمی چیف نے کہا کہ ڈان کی خبر سے متعلق انکوائری کی کیا پوزیشن ہے ؟وزیر اعظم نے میری طرف دیکھا جس پر میں نے بتایا کہ میں تو ملاقات کیلئے کل سے تیار تھا تاکہ سفارشات سے آگاہ کر سکوں اس ملاقات میں بھی یہی طے پایا کہ سفارشات کو آرمی چیف اور وزیراعظم کے ساتھ شیئر کیا جائےگا۔ وزیراعظم کو اس بارے میں آگاہ کیا، انہوں نے مختلف سوالات کیے اور اصولی طور پر سفارشات کی منظوری دے دی کیونکہ یہ طے ہوا تھا کہ آرمی چیف سے بھی یہ سفارشات شیئر کرنی ہیں۔۔۔اس لیے شہباز شریف اور اسحاق ڈار کے ہمراہ آرمی چیف سے ملاقات کی ۔ جب ان سفارشات سے آرمی چیف کو آگاہ کر دیا گیا تو پرویز رشید کو اس بارے میں بتایا گیا۔۔۔“
انکی طرف سے نیوز لیکس کی تحقیقات کیلئے آئی ایس آئی‘ ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے سینئر افسران پر مشتمل کمیٹی بنانے کا اعلان کیا گیا۔ وہ آج چوتھے روز بھی نہیں بن سکی۔ معاملے کو کیوں لٹکایا جارہا ہے‘ کون لٹکا رہا ہے؟؟؟ بہرحال چودھری نثار کی باڈی لینگویج سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کی طرح وہ بھی اس معاملے کی جلد تحقیقات چاہتے ہیں۔ فوج نیوز لیک کو سکیورٹی بریچ کہہ چکی ہے۔بالفرض کمیٹی وزیر اعظم کو موردِ الزام ٹھہرا دیتی ہے تو۔۔۔
اسکے بعد کیا ہو گا۔ معاملہ عدالت جائیگا‘ کس عدالت جائیگا؟ فوجی عدالت‘ سول عدالت۔۔۔ یہاں رکئے‘ زیادہ دماغ لڑانے کی ضرورت نہیں ابھی تو کمیٹی ہی نہیں بنی‘ یہ کمیٹی فوج نے نہیں‘ وزیراعظم نے بنانی ہے۔
چودھری نثار نے آج ہی کہا ہے وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ اس کمیٹی کا سربراہ کوئی سیولین ہو!
کچھ لوگ زیادہ ہی جذباتی ہیں،کہتے ہیں حکومت نے یہ کر دیا‘ وہ کر دیا‘ کرپشن ہے‘ پانامہ لیکس سامنے آچکی ہیں‘ فوج کیوں خاموش ہے!!۔ بالفرض حکومت کے خلاف سارے الزامات درست ہیں تو بھی فوج اس کا کیوں نوٹس لے؟۔ یہ فوج کا کام ہی نہیں ہے۔ اگر فوج یہ کام کرتی ہے تو اس کا جرم بھی نیوز لیکس جیسا ہو گا۔ یہ کام عدلیہ کا ہے‘ اس کے احکامات پر عمل خود کار طریقے سے ہوتا ہے۔ وزیراعظم گیلانی کو ایک سیکنڈ کی سزا ہوئی، اس کے مضمرات اور اثرات ان کی چھٹی کی صورت میں سامنے آئے۔ 1993ءمیں میاں نوازشریف کی حکومت سپریم کورٹ نے طاقتور صدر کی خواہش کے برعکس بحال کر دی۔ قوم فوج کی طرف نہیں عدلیہ کی طرف دیکھے۔ آج کچھ حلقے‘ طبقے اور تجزیہ نگار ن لیگ حکومت کے جانے کی باتیں کررہے ہیں مگریقین ہے کہ یہ اپنی مدت پوری کرے گی،یہ میری خواہش نہیں،حقائق کے تناظر میں تجزیہ ہے۔ نوازشریف کی وزارت عظمیٰ البتہ ہلتی نظر آتی ہے، ضروری نہیں گر بھی جائے مگر نیوز لیکس سے کوئی انہونی یا نواز شریف کا مقدر ہی بچا سکتاہے۔ نوازشریف مقدر کے سکندر واقع ہوئے ہیں،محلاتی سازشوں سے عموماً بچ نکلتے ہیں مگر ایک دن سکندر کو بھی جانا ہوتا ہے۔