اداکارہ سورن لتا : 8 فروری ، یوم وفات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 09, 2022 | 05:45 صبح

سورن لتا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلم’’پھیرے‘‘کی ہیروئن تھیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کی پہلی پنجابی فلم تھی بلکہ سورن لتا اور ان کے شوہر اداکار، فلمساز اور ہدایتکار نذیر کی پہلی پنجابی فلم تھی ، جسے یہ ناقابل شکست اعزاز حاصل ہے کہ یہ پاکستان کی کسی بھی زبان کی پہلی سلور جوبلی فلم ہے ۔ سورن لتا نے اپنے 22سالہ کیرئیر میں صرف سترہ فلموں میں کام کیا ۔ ان میں سے صرف پانچ پنجابی اور باقی اردوفلمیں تھیں ۔ اردو فلموں میں بطور ہیروئن 1955ء میں ’’نو

کر‘‘ ہی کامیاب ہوئی تھی جو پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی فلم تھی ۔ سورن لتا کی دیگر اردو فلموں میں ’’سچائی‘‘ ، ’’انوکھی داستان‘‘ ، ’’بھیگی پلکیں‘‘ ، ’’خاتون‘‘، ’’صابرہ‘‘ ، ’’سوتیلی ماں‘‘ ، ’’نور اسلام ‘‘ اور ’’شمع ‘‘ تھیں جب کہ کریکٹر ایکٹر رولز میں ہدایتکار حسن طارق کی ’’سوال ‘‘ (1966)اور ہدایتکار لقمان کی ’’دنیا نہ مانے ‘‘ 1971 آخری فلمیں تھیں۔ ان تمام فلموں میں ہدایتکار روف کی ’’سوتیلی ماں ‘‘1956میں شاد، ہدایتکار نذیر کی ’’نور اسلام ‘‘ 1957درپن اور ہدایتکار نذیر ہی کی ’’عظمت اسلام ‘‘ 1965ء میں حبیب سورن لتا کے ہیرو تھے باقی سبھی فلموں میں نذیر کے ساتھ جوڑی تھی ۔ سورن لتا کی پنجابی فلموں میں دوسری فلم ’’لارے‘‘ 1950ء تھی جو ایک نغمہ بار فلم تھی ۔تیسری پنجابی ’’شہری بابو‘‘ 1953ء کی ایک شاہکار فلم تھی جو خاص طور پر اپنے گیتوں کی وجہ سے یادگار بن گئی۔ یہ پہلی فلم تھی جس میں نذیر سورن لتا کے ہیرو نہیں تھے سترہ میں سے نو فلموں میں نذیر ہی سورن لتا کے ہیرو تھے ۔ سورن لتا کی چوتھی پنجابی فلم ’’ہیر ‘‘ 1955ء تھی جو مکمل طور پر کراچی میں بنائی گئی جس میں عنایت حسین بھٹی ہیرو تھے جو ان کے ابتدائی دور کی واحد کامیاب فلم تھی۔ سورن لتا کی آخری پنجابی فلم ’’بلوجی‘‘ 1962 ء حبیب کے ساتھ تھی اور یہی واحد ناکام فلم تھی۔سورن لتا 1924ء میں راولپنڈی کے ایک سکھ گھرانے میں پیداہوئی تھیں۔ والد سرکاری ملازم تھے اس لیے کبھی لکھنو اور کبھی دہلی میں رہائش اختیار کی ۔ اس دوران بی اے تک تعلیم بھی حاصل کی تھی ۔ فلمی کیرئیر کا آغاز 1942 ء میں فلم ’’آواز‘‘ سے کیا تھا۔ 1944ء کی مشہور زمانہ نغماتی فلم ’’رتن‘‘ نے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ ’’لیلی مجنوں‘‘ ، ’’وامق عذرا‘‘ اور ’’عابدہ ‘‘جیسی فلموں کی کامیابی سے ان کی جوڑی نذیر کے ساتھ پسند کی گئی تھی جو بعد میں ان دونوں کی شادی پر منتج ہوئی تھی ۔ نذیر سے شادی سے پہلے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اسلامی نام سعیدہ بانو رکھا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد دونوں میاں بیوی پاکستان آئے اور سب سے پہلے اردو فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ بنائی لیکن خراب نیگیٹو کی وجہ سے ضائع کرنا پڑی تھی ان کے ادارے کی آخری فلم بلو جی 1962تھی۔یہ اداکارہ آٹھ فروری 2008ء کو 84برس کی عمر میں انتقال کرگئیں