قصہ دو قصوں کا وہ قصے جو کسی کو جان کی طرح عزیز تھے ان کے بارے میں کیا اور کیوں وصیت کی گئی جب لمحوں کا توازن بگڑنے لگا

2023 ,فروری 21



تحریر / منیر احمد ساحر
زندگی کا سفر بھی بڑا دلچسپ و عجیب ہے اس کی راہ میں آنے والی ہر منزل اپنے ساتھ نئے امکانات، واقعات اور توقعات لے کر آتی ہے دوست اور دشمن زندگی کی راہوں میں خودبخود چلے آتے ہیں۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے چلتا رہتاہے اور اپنے پیچھے یادوں کی ایک دھول چھوڑتا چلا جاتا ہے یادیں کبھی محو نہیں ہوتیں۔ بالخصوص اچھے اور خوبصورت لمحوں کا ایک غیر مرئی لمس دل میں ہمیشہ پھولوں کی طرح شگفتہ و تروتازہ رہتا ہے۔ ماضی خوبصورت ہوتو اس کی یادیں بڑی کربناک ہوتی ہیں اور اگر ماضی کربناک ہوتو اس کی یادیں انسان کو حوصلہ بخشتی رہتی ہیں۔ زندگی میں ہزاروں لوگ آئے اور بچھڑ گئے۔ ہزاروں ہی واقعات دل پر قیامت برپا کرتے ہوئے گذر گئے۔ زندگی انہی خوشگواریوں اور ناہمواریوں کا مجموعہ ہوتی ہیں مگر کچھ لوگ اور ان سے جڑے ہوئے واقعات اور لمحات ایسے ہوتے ہیں جو بادی النظر میں نہایت معمولی اور بے وقعت ہوتے ہیں لیکن انسانی محسوسات اور ادراک کیلئے ایسے اہم ہوتے ہیں کہ ان کی یادوں سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا۔ لمحہ لمحہ کرکے ایک چشم کشا داستان بن جاتی ہے۔

بدلتے گاؤں اور گاؤں والے۔۔۔! - ہم نیوز
10 اپریل 1978ءکی وہ ایک بہت خوشگوار صبح تھی دو روز پہلے ہی ہلکی بارش ہوئی تھی فضا میں اس کی خوشبو اور خوشگوار خنکی ابھی تک برقرار تھی صبح ہی صبح میں جلدی جلدی تیار ہو کر کراچی کے لئے گھر سے نکلا۔ ایڈوانس ٹریننگ کے بعد کراچی میں میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ دل طرح طرح کے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا آنے والے حسین مستقبل کی امید نے مجھے بڑا پرُامید بنا دیا تھا جس نے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ساری زندگی دور رہنے کی تکلیف دہ احساس کو بھی قابل برداشت بنا دیا تھا۔ دل میں امیدوں اور بیقراریوں کا ملا جلا طوفان لیے میں تیز تیز چلنا چاہتا تھا کہ گاﺅں کی آخری نکر پر پرائمری سکول کے بالکل سامنے وہ اچانک میرے سامنے آگئے۔ ادھیڑ عمر مگر تواناں اور پرُکشش شخصیت کے مالک سڈول اور لمبا جسم ، سفید لباس، ہاتھ میں تسبیح، داڑھی ایسے کہ شیو بڑھی ہوئی نظر آ رہی تھی چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ، میں نے آگے بڑھ کر احتراماً سلام کیا اور انہوں نے اسی مسکراہٹ سے مجھے دعا دی۔

شہر سے گاؤں تک

ایک مختصر سے تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ ان کانام شاہ محمد ہے اور وہ صرف میرے والد صاحب ہی کو نہیں بلکہ میرے پورے حسب و نسب سے بھی واقف ہیں۔ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا میں ان کے ساتھ آہستہ آہستہ چلنے لگا اور وہ دھیمے دھیمے لہجے میں باتیں کرنے لگے گاﺅں سے ہمارا بس سٹاپ تقریباً پون کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جلد ہی میں ان کی باتوں سے گویا مسحور ہوتا چلا گیا۔ لہجے میں مٹھاس، بیان میں فصاحت، خیالات بلند پرواز، انداز میں تغنن اور بلا کی سلاست، شاعری کی تو ایک دنیا ان کے اندر آباد تھی۔ ہر بات کو کسی نہ کسی شعر سے باوزن بنا دینا ان کے اعلیٰ ذوق تکلم کا پتہ دیتا تھا اچانک ہی دل میں ا یک خواہش نے انگڑائی لی کہ بس وہ باتیں کرتے رہیں اور میں سنتا رہوں اور ہم یوں ہی چلتے رہیں وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر انہیں اپنے دینی و دنیوی رجحانات اور خیالات پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ ستاروں اور علم نجوم پر انہیں عبور حاصل تھا شاید اسی لئے وہ گاﺅں میں ”نجومی“ کے نام سے بھی مشہور تھے اگرچہ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی مگر ان کا نام میرے لئے نیا نہیں تھا یہ نام ہم بچپن ہی سے سنتے آئے تھے وہ پنجابی زبان کے فی البدیہہ شاعر بھی تھے۔ مادری زبان میں وہ ایسے شگفتہ اور مزاحیہ شعر کہتے جو گاﺅں کی زندگی کا حقیقی کلچر اور عکس پیش کرتے۔ ان کی زیادہ تر شاعری قصوں کی شکل میں تھی وہ اپنے کلام میں گاﺅں کے لوگوں کے نام ان کے پیشے کے لحاظ سے اس طرح استعمال کرتے کہ لطف دوچند ہوجاتا۔ لوگ خوش بھی ہو جاتے اور بڑے مزے سے ایک دوسرے کو سنایا کرتے۔

As Jat Protesters Assemble At Jantar Mantar, There Are More Hookahs Than  Placards
یہ وہ دور تھا جب گاﺅں کی زندگی سادگی میں اپنی مثال آپ ہوا کرتی تھی۔ بجلی ابھی آئی نہیں تھی ضروریات زندگی بہت محدود تھیں آج کل کی طرح سیاسی رقابتوں سے بھی ابھی ماحول آلودہ نہیں ہوا تھا۔ ٹرانسسٹر ریڈیو پر فرمائشی گانے، خبریں اور ڈرامے ہی لوگوں کی سب سے بڑی تفریح اور معلومات کا ذریعہ تھے۔ نوجوانوں کی اپنی مصروفیات اور مشاغل تھے۔ کچھ میلوں ٹھیلوں کی رونق دوبالا کرتے تو کچھ کبڈی اور کشتی کے پنڈال سجاتے۔ کچھ ایسے بھی تھے کہ ماں باپ سے چھپ کر کسی سینما ہاﺅس میں جا کر کوئی نئی فلم دیکھ آتے اور رات بڑبھوجن کی بھاڑ کے اردگرد بیٹھ کر ہاتھ بھی تاپتے جاتے اور فلم کی کہانی کو بڑے انہماک سے دہراتے جاتے۔ سنانے والے سے جونہی کوئی چوک ہوئی دوسرے نے فوراً یاد دلا دیا کہ نہیں ایسے نہیں ایسے تھا اور یوں آدھی رات تک فلم کے گیتوں پر بات ہوتی اداکاری پر تبصرے ہوتے اور فلم کی کہانی پر اپنا تجزیہ اوریہ مہمل سی مگر پرُانہماک محفل اس وقت تک جاری رہتی جب تک گھر سے کوئی بزرگ نمودار نہ ہو جاتے۔

اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا؟ | Jasarat Blog
بچپن میں گاﺅں کے لوگوں کا اجتماعی پیار، محبت اور امن و آشتی کا وہ دور بھی ہم نے دیکھا ہے جب گاﺅں کے ساتھ ہی ملحقہ چوپال میں تین بڑے بڑے برگد کے درختوںکے نیچے لوگ اپنی اپنی چارپائیاں جا بچھاتے اور موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ ان کے گھنے سایوں میں ہی گذار لیتے۔ ایک طرف عورتیں اور نوجوان لڑکیاں اپنے سینے پرونے لگ جاتیں۔ کوئی کروشیے کی مدد سے تکیوں کے غلافوں پر رنگ برنگ پھول اور بیل کاڑھنے لگ جاتی تو کوئی کھجور کے پتے ایک چھوٹے سے مٹی کے کوزے میں بھگو کے بیٹھ جاتی اور گھر کیلئے چنگیزیں بنانے لگتی۔ دوپہر کا کھانا بھی وہی چلتا آپس میں سالنوں اور چٹیوں کا تبادلہ ہوتا۔ دوسری طرف تمام مرد اور بوڑھے اپنی ہی دنیا بسا کے بیٹھے ہوتے۔ چاچا منصب دار، اللہ غریق رحمت کرے کی آواز بہت پیاری اور مسحور کن تھی جب وہ لہک لہک کر ہیر رانجھا، یوسف زلیخا یا کوئی اور کتاب پڑھ رہے ہوتے تو سماں بندھ جاتا ایسے میں ہی وہ جب شاہ محمد کی مزاحیہ شاعری پڑھنا شروع کرتے تو ہر طرف مسکراہٹیں اور قہقہے پھوٹ پڑتے لوگ ہنسی سے دوہرے ہوئے جاتے ان کا ایک قصہ ”دساں حقے دے نقصان“ تو سارے گاﺅں کو زبانی یاد ہو گیا تھا جس میں وہ اللہ اور اس کے رسول کے نام سے ابتدا کے بعد کہتے ہیں
نہ پھڑنا بسم اللہ کرکے
نہ چھڈنا شکرانہ کرکے
ایہہ مکروہ اے پنا دھرکے
نبی پاک دا ہے فرمان
دساں حقے دے نقصان
ماتم تے جد لوکی بہندے
حقہ پی پی فاتحہ کہندے
بن کلی تو پڑھدے رہندے
ایہہ کد فرموندا اے قرآن
دساں حقے دے نقصان
گل سناوے گاہیا نائی
حقہ پیندیاں نیندر آئی
دونوں جل گئے کھیس رضائی
جل گیانویں منجی دا وان
دساں حقے دے نقصان
حقے دا سی نیچہ پھڑیا
بھونڈ سی اوہدے اندر وڑیا
کچھیا گھٹ بلہاں تے لڑیا
ابراہیم کہے ترکھان
دساں حقے دے نقصان
رحمت اللہ تے اس دا بھائی
ٹیشنے حقہ پین سودائی
پتہ ای نہیں کد گڈی آئی
مگروں ہندے پھرن حیران
دساں حقے دے نقصان

No description available.
طنز و مزاح سے بھرپور یہی وہ فن پارے تھے جو اس زمانے میں گاﺅں کے لوگوں کی بہت بڑی تفریح کا ساماں مہیا کرتے تھے اور آج ان سے مل کر میرا دل خوشی سے بھرگیا تھا میں خود کو اس قدر شاداں، فرحاں محسوس کر رہا تھا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ ہم کافی دیر سے بس سٹاپ پر کھڑے ہیں بلکہ دو تین سواریاں گذر بھی گئی ہیں ان کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہونے کی غالباً ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے میرے اندر کے نیم خوابیدہ ذوق شعر و ادب پر دستک دی تھی ان کی باتوں سے مجھے یوں لگا کہ یہی تو وہ باتیں ہیں جو میں بھی کہنا چاہتا ہوں مگر مجھ میں ابھی کرنے کا سلیقہ نہیں آیا تھا وہ میرے اندر ہی کی تو باتیں کر رہے تھے جن تصورات کو میں محض ایک خواب تصور کرتا رہا آج وہ حقیقت کا روپ دھار کر میرے سامنے کھڑے تھے میں ان سے اجازت لے کر رخصت ہوا تو خیالات کا ایک انبوہِ کثیر بھی میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ کتنی عجیب بات تھی کہ میں آج تک ان سے مل ہی نہیں سکا ایسا حسن اتفاق پہلے کیوں نہ ہوا عمروں میں ایک واضع فرق کے باوجودہ میں انہیں اپنا بہترین دوست سمجھنے لگا میں نے دل ہی دل میں یہ عہد کیا کہ اب جب بھی آئندہ چھٹی آیا تو ان سے ضرور ملوں گا۔

گاؤں
کراچی پہنچا تو پاکستان ائر فورس میں نئی ملازمت کی نئی ذمہ داریاں اور یکسر نیا ماحول میرا منتظر تھا جو باہر کی دنیا سے بالکل ہی مختلف ہوتا ہے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے علاوہ فارغ اوقات میں فارغ بیٹھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ہر کوئی اپنی طبع کے مطابق کوئی نہ کوئی اپنی مصروفیت ڈھونڈ لیتا ہے۔ مطالعہ کتب کا شوق تو مجھے یوں بھی ورثے میں ملا تھا اس کے علاوہ بھی اس دور کے ماہنامے اور دیگر رسائل جنہیں ہم اپنے ماں باپ اور بڑے بھائیوں سے چوری آنکھ بچا کر پڑھا کرتے تھے نوجوانی میں روح کو جذباتی طور پر طلاطم رکھنے کیلئے کافی تھے گھر میں چونکہ یہ رسائل وغیرہ پڑھنے پر قدغن تھی مگر اب ہم آزاد تھے جو چاہیں پڑھیں کوئی پابندی نہیں تھی مگر ان سب کا فائدہ یہ ہوا کہ میرا اپنا ذوق خامہ فرسائی اپنی پوری رعنائیوں اور آب و تاب کے ساتھ نکھر کر سامنے آ گیا میں نے بھی طبع آزمائی شروع کر دی کبھی کبھی شعر کہنا، کسی ماہنامے کیلئے کہانیاں وغیرہ لکھنا میرا محبوب مشغلہ بنتا چلا گیا لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ شاہ محمد صاحب کی یاد ہمیشہ میرے ساتھ رہی اس مختصر سی ملاقات کا ایک ایک جزو مجھے یاد رہا کچھ لکھتے وقت میں ان کے خیالات سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا دوستوں یاروں میں کبھی کوئی محفل سخن برپا ہوتی تو میں ان کے مزاحیہ کلام سے محفل میں ایک نئی روح پھونک دیتا۔ ہر طرف مسکراحت اور ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑتے اور یوں ساری محفل زعفران بن جاتی۔
کچھ دنوں سے ان کی یاد کچھ زیادہ ہی ستانے لگی تھی کیونکہ میں عنقریب چھٹی جانے والا تھا تقریباً دس ماہ کے بعد میں پہلی مرتبہ گھر جا رہا تھا اپنوں سے ملنے کی امید اور خوشی مجھے ہر دم بے چین رکھنے لگی تھی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب رہنے لگی تھیں اور روح میں نئی نئی کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں اور آخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب میں گھر پہنچ کر شاہ محمد سے ملنے کی تیاری کررہا تھا میں نے اپنے بڑے بھائی کو ساتھ جانے کے لئے راضی کر لیا تھا میں جلدی جلدی ان سے ملنا چاہتا تھا کئی وسوسے بھی سرابھارنے لگے تھے کہیں وہ مجھے پہنچاننے سے انکار ہی نہ کر دیں اگر ایسا ہوا تو زیادہ دیر نہیں بیٹھیں گے مگر میں ان سے کہوں گا کیا....؟ آج میں ان سے ان کا کلام بھی سنوں گا اور اپنا بھی سناﺅں گا۔
جب ہم وہاں پہنچے تو یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ یہاں کوئی فوت ہوگیا ہے بازار میں بیٹھے لوگ فاتحہ خوانی کررہے تھے کچھ باہر سے آئے ہوئے مہمان بھی تھے جو اندر بیٹھے نظر آ رہے تھے ہم نے بھی فاتحہ خوانی کیلئے ہاتھ اٹھا دیے اب میری کوشش تھی کہ شاہ محمد صاحب سے میری ہلکی سی ملاقات ہو جائے کیونکہ تفصیلی ملاقات کا تو امکان نظر نہیں آ رہا تھا میں نے اردگرد دیکھا مگر وہ نظر نہ آئے شاید مہمانوں میں مصروف ہوں گے میں نے پاس ہی بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے پوچھا ”سر! وہ شاہ محمد صاحب ....؟“ ”جی وہ میرے چچا تھے....“ انہوں نے میرا سوال کاٹتے ہوئے فوری جواب دیا۔
”کیا....؟ کیا مطلب.... کہاں ہیں وہ ....؟ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا۔
”بھائی آپ نے ابھی فاتحہ خوانی کس پہ کی ہے کل رات وہ فوت ہو گئے تھے اور آج ان کی رسم قل ہے“

Malik Khalid Farooq Khokhar | Lahore

لفظوں کا ایک بم تھا جس نے مجھ پر گویا سکتہ طاری کر دیا ان کی آواز مجھے کسی گہرے کنویں سے ابھرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی چند لمحے دبے پاﺅں گذر گئے میں نے خاموش اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے بھائی کو دیکھا وہ بھی میری کیفیت بھانپ گئے تھے مجھے اٹھنے کا اشارہ کیا اور میں کسی کٹ پتلی کی طرح اٹھ کر ان کے ساتھ چلنے لگا بازار میں دور تک مجھے سناٹا سا دکھائی دے رہا تھا۔ موت کے سائے لمبے ہی ہوتے چلے گئے تھے میں سوچ رہا تھا کہ کیا یہی زندگی ہے کیا زندگی ایسی ہی ہوتی ہے وہ صرف ایک ملاقات .... ایک مختصر سی ملاقات جس نے میری پوری سوچوں کا احاطہ کئے رکھا اتنا عرصہ ان سے ملاقات کی آرزو کئے رہنا .... یہ سب کیا ہے .... یہ انتظار ....اور صلے میں صرف ایک مختصر سی ملاقات کی یادیں، کیا یادوں کو اسی لئے سرمایہ حیات کہتے ہیں کہ انسان کے پاس سوائے ان کے کچھ بچتا ہی نہیں۔
یہ وہ پہلا چرکہ تھا پہلا حادثہ تھا جس نے زندگی کے بارے میں میرے تمام خیالات اور اس سے وابستہ تواقعات کو یکسر تبدیل کر دیا میری کیفیت غبارے سے کھیلتے اس بچے کی سی ہو گئی جس کا غبارہ اچانک ایک دم سے اس کے ہاتھوں ہی میں پھٹ جائے.... حیران اور ششدر۔

گاؤں یا دیہات کو چک کیوں کہا جاتا ہے؟ - Videos - AAJ
چھٹی ختم ہو گئی اور میں دوبارہ زندگی کے ہنگاموں میں کھو گیا ہر شخص کو اپنی زندگی گزارنا ہوتی ہے ساتھ ساتھ تلخ و شیریں یادوں کا بوجھ بھی سہارنا ہوتا ہے زندگی کے رویوں کو بھی برداشت کرنا ہوتا ہے وقت گزرتا رہتا ہے یادیں شعور سے نکل کر تحت الشعور اور پھر لاشعور کی نذر ہوتی رہتی ہیں اور یوں ہی زندگی کا سفر جاری رہتا ہے میں ان کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا تھا لکھنا شروع بھی کیا مگر زیادہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے میں انہیں صفحہ قرطاس پر پورٹریٹ نہ سکا جب کبھی گھر چھٹی پہ جاتا میں کوشش بھی کرتا مگر مناسب اور سیر حاصل معلومات حاصل نہ کر سکا اور آخر کو یہ ادھوری اور تشنہ خواہش بھی رفتہ رفتہ میرے تحت الشعور کے قبرستان میں دفن ہوتی چلی گئی اب اگر وہ ملاقات اور فاتحہ خوانی کا منظر یاد بھی آتا تو میں ایک آہ بھرتے ہوئے فقط مسکرا کے رہ جاتا۔ میرے لئے وہ تلخ حقیقت ایک دلچسپ واقعہ سے زیادہ کچھ نہ رہی۔ ہاں! کبھی کبھی یہ خیال مجھے ضرور تکلیف دیتا کہ ایک سادہ اور عظیم شاعر کیا گمنامیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی نذر ہو جائے گا کیا اس کی بکھیری ہوئی مسکراہٹیں اور قہقہے وقت کے ساتھ خود ہی تہہ خاک چلے جائیں گے اگر ایسا ہی ہے پھر تو یہ ان کے ذوق کی تضحیک ہو گی ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی وقت گزرتا رہا مشق سخن بھی جاری ہی زندگی کے نئے نئے مسائل پرانی یادوں کی جگہ لیتے رہے حتیٰ کہ کئی برس بیت گئے۔
 ریٹائرمنٹ کے بعد میرے سامنے ایک نئی زندگی تھی بچے ابھی چھوٹے درجوں میں تھے ان کی تعلیم، آئندہ مستقبل، نئے مکان کی تعمیر اور میری مختصر سی پنشن.... یہ وہ سارے مسائل اور تفکرات تھے جنہوں نے میری خوشحالی اور فارغ البالی کے تمام خوابوں کو مسترد اور چکنا چور کر دیا۔ میرے سامنے سر اٹھاتے ہوئے مسائل کی ایک لمبی فہرست تھی جن سے مجھے نبردآزما ہونا تھا جلد ملازمت تو نہ مل سکی حالات کی نزاکت کے پیش نظر میں نے ایک سکول میں ٹیچنگ کی جاب کر لی سکول کے بعد شام کو تین چار گھنٹے ٹیوشن بھی چلنے لگی جس سے میرے گھریلو اخراجات پورے ہونے لگے۔ اپنے گاﺅں سے کوئی پانچ چھ کلومیٹر دور ایک دوسرے گاﺅں کے مضافات میں میرے نئے مکان کی تعمیر بھی شروع ہو چکی تھی میں اپنے بیوی بچوں سمیت وہاں شفٹ بھی ہوگیا زندگی مکمل طور پر اپنی ہیئت بدل کر اپنی منازل طے کر نے لگی تھی مجھے ایک مقامی فرم میں ایک اچھی جاب بھی مل گئی تھی مگر شام کے وقت اپنے طبعی ذوق کے پیش نطر میں نے ٹیوشن ترک نہیں کی تھی جب حالات میں ایک خوشگوار یکسانیت اور آسودگی میسر آئی تو مطالعہ کتب اور تعلیمی ماحول کے ساتھ ساتھ میرے ذوق طبع کو پھر سے جلا ملنے لگی ایک عرصہ سے میرے روح و بدن کے وہ کل پرزے جن کی خوراک ہی ذوق کلام ہوتی ہے اور وہ ادھ موئے ہوئے جا رہے تھے پھر سے بیدار ہونا شروع ہوگئے میں نے پھر سے لکھنا شروع کر دیا شعر، سخن، افسانہ نگاری اور بعد میں کالم نگاری پر بھی طبع آزمائی کی۔ اچانک ہی ایک روز، ایک خیال نے میرے اندر انگڑائی لے کر مجھے بے چین کر دیا۔ شاہ محمد صاحب جنہیں میں تقریباً بھول ہی گیا تھا کے بارے میں کچھ لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی اس ادھوری خواہش نے میرے اندر نئے سرے سے ایک اضطراب پیدا کر دیا ہر وقت اٹھتے بیٹھتے انہی کے بارے میں سوچنے لگا اب تک تو ان کا چہرہ بھی میری آنکھوں میں دھندلا چکا تھا صرف مسکراہٹ اور لہجہ یاد رہ گیا چالیس سال کا عرصہ ذہن پر نقش تمام عکس مٹا دیتا ہے بڑے بڑے زخم بھر جاتے ہیں انسان زندگی کانٹے سرے سے تعین کر لیتا ہے اب یہ موضوع میرے لئے اتنا اہمیت کا حامل نہیں رہا تھا مگر .... اچانک ہی پھر سے اس نئے ولولے نے میرے اندر ایک کہرام جانے کیوں برپا کر دیا تھا میں ان کے خاندان کے بہت سے افراد سے جا کر ملا اور اپنا مقصد بیان کیا کہ مجھے ان کی شخصیت، عادات ، اطوار یا ان کی کوئی شعری یادداشت مل سکے میں نے انہیں بتایا کہ ان کی محبت کو میں گزشتہ چالیس برس سے سینے میں لگائے بیٹھا ہوں میں چاہتا ہوں کہ ان کے بارے میں اور ان کے کلام کے بارے میں کچھ ایسا لکھوں کہ ان کی شخصیت کو لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں پھر سے زندہ کر دوں.... جمال الدین صاحب جو رشتے میں شاہ محمد صاحب کے بھتیجے تھے انہوں نے میری بڑی مدد کی شاہ محمد صاحب کے بارے میں بہت سی باتیں جو میں معلوم کرنا چاہتا تھا بتائیں وہ اندر گئے اور کافی تگ و دو اور تلاش کے بعد صرف دو ہی قصے ڈھونڈ سکے ایک ”تلاواں دی صفت“ اور دوسرے ”دساں حقے دے نقصان“ ۔ ”تلاواں دی صفت“ بجائے خود ا یک شاہکار ہے ہر ہر لفظ سے ظرافت کی چشمے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں پورے گاﺅں کے لوگوں کے نام ان کے مزاج اور پیشے ساتھ استعمال کرنا، لمبی بحر میں ایک ہی قافیہ ردیف استعمال کرکے اور ان میں مزاح کی چاشنی برقرار رکھتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد شعر کہ لینا ان کی گاﺅں والوں کے ساتھ قلبی وابستگی و محبت اور ان کے اعلیٰ شعری ذوق کی دلیل ہے۔ جمال الدین صاحب نے مجھ سے وعدہ لیا کہ ا یک تو یہ قابل واپسی ہیں اور دوسرے اگر میں کچھ لکھوں تو ایک کاپی انہیں ضرور بھیجوں میں نے خوشی سے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ جیسا انہوں نے کہا وعدہ کر لیا اور تیز تیز واپسی کی راہ لی۔ان کے کلام کو میں نے یوں مضبوط پکڑا ہوا تھا جیسے کوئی قیمتی خزانہ میرے ہاتھ لگ گیا ہو برسوں سے جو ایک خواب ادھورا رہ گیا تھا شائد اب اس کی تکمیل کا وقت آ گیا تھا میں نے اپنی تمام صلاحیتیں پھر سے اکٹھی کیں اور ایک نئے عزم کے ساتھ اسی دن کام شروع کر دیا تمام اشعار کو بڑے غور سے پڑھا ان کی تراکیب اور طرز فکر کے مختلف جزئیات کو الگ سے نوٹ کیا مضمون میں شامل کئے جانے والے خصوصی اشعار کا انتخاب کیا ان کی زندگی کے مختلف پہلوﺅں کو ترتیب وار اشارتاً الگ کاغذ پر نوٹ کیا پلاٹ ترتیب دیا ان کی مصروفیات اور عادات و اطوار کو مضمون میں کہاں جگہ دینی ہے الغرض ایک مکمل خامہ تیار کرکے تیسرے دن میں نے اپنی کاوش کا آغاز کر دیا ذہن کو ٹٹول ٹٹول کر اس پہلی ملاقات کا احوال بڑے ہی خوبصورت اور رنگیں پرائے میں بیان کیا۔ لکھتے وقت میرا وہ ذوق و شوق، دلجمعی اور بیقراری واقعی دیدنی تھی لفظوں کے ساتھ کھیلنا میرا ہمیشہ سے ایک مشغلہ رہا ہے مگر لفظوں کے ساتھ عقیدت اور محبت میں نے پہلی مرتبہ محسوس کی تقریباً ایک ہفتے کی محنت سے آدھے سے زیادہ میں کام مکمل کر چکا تھا کہ گھر میں میری مصروفیت نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا آئندہ ہفتے میرے بچے اور ایک بچی کی شادی طے تھی جس کے لئے ضروری خریداری اور دیگر اہم امور انجام دینے تھے جس کی وجہ سے چند دن کے لئے مجھے اپنا کام ملتوی کرنا پڑا میں نے یہ مسودہ اور وہ دونوں قصے نہایت احتیاط سے اپنی لائبریری کے ایک شلف میں رکھ دیے اور خود شادی کے ہنگاموں میں مصروف ہو گیا۔

حضور ﷺ نے فرمایا:اس قسم کی عورت سے شادی کرنے والا انسان بہت جلد غریب ہوجاتا  ہے- روزنامہ اوصاف
تقریباً دو ہفتے اسی مصروفیت میں گذر گئے فارغ ہونے کے بعد میں نے خود کو پھر سے تیار کیا شلف میں وہ مسودہ دیکھا تو غائب۔ میں نے اردگرد اوپر نیچے دیکھا .... ندارد.... کہیں رکھ کے بھول گیا ہوں گا یاد شادی کے دوران صفائی کرتے ہوئے بچوں نے ادھر ادھر کر دیا ہو گا میں نے تمام لائبریری چھان ماری دوسرے کمرے میں کتابوں کی ایک دوسری الماری تھی وہاں دیکھا کچھ سمجھ نہ آیا میرا ماتھا ٹھنکا گھر والوں سے پوچھا بچوں سے استفسار کیا مگر کوئی سراغ نہ ملا میں ایک دم سے پریشان ہو گیا اگلے روز میری پریشانی دیکھتے ہوئے میرے بچے بچی میرے ساتھ تلاش میں مصروف ہو گئے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا مگر سب ناکام۔ شک گذرا کہ شادی سے دوچار روز پہلے صفائی کے دوران بہت سی ردی بچی گئی تھی شائد وہ بھی.... مگر ایسا نہیں ہو سکتا اس خیال سے میرا خون کھولنے لگا میرے غصے اور پریشانی کی انتہا نہ رہی شادی کے دوران جو مہمان اس کمرے میں ٹھہرائے گئے تھے ان پہ گمان گذرا.... رابطہ کیا گیا تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا الغرض کہیں سے بھی کوئی نشان یا سراغ ہاتھ نہ لگا۔ جب چاروں طرف سے مایوسی ہی نظر آئی تو سوچا کسی روز جمال الدین صاحب سے معذرت کر لی جائے مگر یہ تو سب سے زیادہ مشکل کام تھا دو ہفتے کی تگ و دو کے بعد تھک ہار کر بچوں کو کوسنے دیتے ہوئے آخر کار میں بے جان سا ہو کر بیٹھ رہا کچھ مجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے جو کچھ لکھ چکا تھا اسے دوبارہ ذہن میں لاتے ہوئے دوبارہ کوشش کی جائے یا اسے ایک حسرت ناکام سمجھتے ہوئے لکھنے لکھانے کے شوق ہی سے جان چھڑا لی جائے دل کی یہ حالت تو نہیں دیکھی جاتی۔
تقریبا دو ماہ کے بعد جمال صاحب کا ایک پیغام ملا وہ واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے اسی خوفناک لمحے کا مجھے انتظار تھا میں نے مسکراتے ہوئے کمال اعتماد بھرے لہجے سے میں جلد واپسی کا پیغام بھجوا دیا چند روز بعد ایک اور پیغام ملا پھر ایک اور حتیٰ کہ پیغام کے دوران وقفے کم ہوتے گئے واپسی کے مطالبے میں شدت آتی گئی پھر ان پیغامات میں کڑوی کسیلی باتوں کی آمیزش بھی ہونے لگی جس سے پیغام بھیجنے والے کی بیقراری اور بے چینی واضع طور پر عیاں ہوتی۔
ایک روز میرے جی میں آئی کہ ان سے جا کر صاف کہہ دوں کہ وہ دونوں قصے اب اس دنیا میں نہیں ہیں کہیں کھو گئے ہیں میں بہت شرمندہ ہوں اب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ آپ میری اس چالیس سالہ محبت اور ریاضت کا لحاظ کرتے ہوئے مجھے کچھ رعایت دیں اور معاف کر دیں پھر خیال آیا کہ اگرچہ میں ان کی محبت کو اتنے عرصے سے دل میں لئے بیٹھا ہوں مگر یہ کوئی دلیل نہیں کہ میں ان نشانیوں کو گم کر دوں جو انہوں نے بھی کم و بیش اتنا ہی عرصہ سنبھال کر رکھی ہیں کیا وہ اسی دن کیلئے ان کی حفاظت پر معمور رہے کہ میں دیکھتے دیکھتے انہیں صفحہ ہستی سے ہی غائب کر دوں ان کے بہت سے پیغام آئے مگر میں نے بھی کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا اور ہر بار ایک نیا بہانہ بناتے ہوئے انہیں ٹالنے کی کوشش کی دو سال اسی کشمکش میں گذر گئے اب ان کی طرف سے مطالبات کی شدت بھی قدرے کم ہو گئی تھی شائد کچھ صبر آ گیا ہو میری دھڑکنیں بھی حالات سے سمجھوتہ کرکے کچھ مطمئن ہو گئی تھین مگر پھر بھی مجھے اپنے آپ سے شرمندگی سی محسوس ہونے لگی تھی میں خود کو قصور وار سمجھتا تھا کہ میں نے ایک شریف انسان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اسی احساس نے میرا جینا دوبھر کر دیا جب بے قراری دل حد سے بڑھی تو میں نے خود جا کر معذرت کرنے کا تہیہ کر لیا اس عزم کے بعد میں خود کو ہلکا پھلکا سا محسوس کرنے لگا میں فوراً گاﺅں گیا اپنے استاد محترم صوفی اسلم صاحب سے ملا اور انہیں ساری کہانی صاف صاف بتا دی اور ساتھ میں یہ گذارش بھی کہ کہ آپ میرے ساتھ چلیں میں ان سے مل کر معذرت کرنا چاہتا ہوں وہ انتہائی نفیس انسان اور پورے گاﺅں میں ہر دلعزیز شخصیت ہیں آئندہ اتوار کا وقت طے ہوگیا اور میں پرسکون ہو کر گھر واپس آ گیا ابھی پورے آٹھ دن باقی تھے سوچنے لگا کہ ان سے سامنا کیسے ہوگا اسی ادھیڑ بن میں دو دن گزر گئے ایک شام میں حسب معمول مطالعہ کے کمرے میں گیا مشتاق احمد یوسفی کی ایک کتاب ہاتھ لگی کھڑے کھڑے ہی تھوڑی سی ورق گردانی کی اور واپس رکھ دی پھر اشفاق احمد صاحب کی کتاب ”زاویہ“ اٹھائی اور ساتھ ہی کرسی پر بیٹھ گیا ابھی میں نے اسے کھولا ہی تھا کہ میں خوشی سے اچھل کر دروازے سے جا لگا میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ دونوں قصے میرے سامنے موجودتھے خوشی سے میرے منہ سے کوئی بات نہیں ہو رہی تھی میں نے چیخ چیخ کر سارے گھر والوں کو اکٹھا کر لیا اگر میں ایک گلاس ٹھنڈا پانی نہ پیتا تو شائد دھڑکنوں پر قابو پانا مشکل ہو جاتا سارے گھر والے مجھے کوسنے لگے کہ خود ہی رکھ کر بھول گئے تھے اور جینا ہمارا محال کیا ہوا تھا وہ مسودہ تو نہ ملا البتہ اپنے ناراض محسن کی امانت میرے سامنے تھی میں نے فوراً اپنے استاد محترم کو فون پر یہ خوشخبری سنائی اور ساتھ ہی جمال الدین صاحب کا فون نمبر بھی مانگ لیا میں اب آئندہ اتوار کا انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا میں انہیں خود بتانا چاہتا تھا کہ اس آئندہ اتوار کو آپ کی امانت آپ کو واپس مل جائے گی میں نے فون ملایا تو اگلی طرف میرے مخاطب وہی تھے آہستہ آہستہ بات کر رہے تھے ان کی نحیف سی آواز سے یوں لگ رہا تھا گویا وہ بیمار ہوں اپنا تعارف کرانے کے بعد میں نے انہیں اپنا مقصد بتانا چاہا کہ آپ کی امانت آئندہ اتوار .... پہلے تو وہ خاموش رہے مگر ایک ہلکے سے توقف کے بعد انہوں نے میری بات کاٹ کر خود بات شروع کر دی ان کی شکوہ بھری آواز میری روح کو چیرتی ہوئی گذر گئی پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں غالباً وہ میری سفید داڑھی اور میری خاندانی شرافت کا تذکرہ کر رہے تھے مگر وہ جس طریقے اور انداز سے کر رہے تھے اسے برداشت کرنا میرے بس سے باہر ہو گیا تھا میں نے فون بند کر دیا اور تلملاتے ہوئے آنکھیں بھی بند کر لیں میں نے سوچا کہ چلیں اتوار تک برہمی مزاج میں کچھ تو افاقہ ہوگا انہیں اطمینان تو ہو گیا ہے کہ اب ان کی امانت انہیں واپس مل جائے گی بس میں بھی یہی چاہتا تھا۔

تعلیم کا شوق 90 سالہ سعودی بزرگ کو بھی اسکول لے آیا - ایکسپریس اردو
دو دن مزید گزر گئے جمعہ کا روز آ گیا میں حسب معمول آفس پہنچا نماز جمعہ کے بعد اپنے استاد محترم کی زبانی مجھے فون پر ایسی اطلاع ملی کہ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا جمال الدین صاحب ایک مہینہ صاحب فراش رہنے کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے تھے اور نماز مغرب کے بعد نماز جنازہ ادا کیا جائے گا میں ایک دم مبہوت ہو کر رہ گیا سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کیا کروں کیا زندگی واقعی ایک ایسا عجیب اور دلچسپ سفر ہے کہ اس کی راہ میں آنے والی ہر منزل اپنے ساتھ نئے امکانات و واقعات اور نئی توقعات لے کر آتی ہے میرے پاﺅں من بھر کے ہو رہے تھے چلنا پھرنا مشکل ہونے لگا تھا اگرچہ میرے دل کے نہان خانوں میں دور کہیں یہ آپشن اور امکان موجود تھا میں چاہتا تھا کہ کاش کبھی ایسا ہو کہ وہ خود ہی اپنی امانت سے دستبردار ہو جائیں مگر خدا گواہ ہے میں نے ایسی خواہش کبھی نہیں کی تھی جیسا ہو گیا تھا شام کو جنازہ پڑھا گیا ان کی آخری دیدار کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہو رہی تھی گھر واپس پہنچ کر میں بہت دیر تک اپنے مطالعہ کے کمرے میں خاموش بیٹھا رہا .... بالکل ساکت و جامد.... وہ دونوں قصے میرے سامنے میز پر پڑے تھے بہت دیر تک نا پائیداری حیات پر سوچتا رہا مختصر سی زندگی ملتی ہے انسانوں سے غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں عملی زندگی میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ضمیر صرف اسی لیے رکھا گیا ہے کہ انسان اپنے رویوں پر گاہے گاہے غور کرتا رہے اور اپنے لئے کوئی ایسی راہ متعین رکھے جو حقیقی طور پر سکون کا باعث ہو انسان ضمیر کبھی بھی کسی ایسے رویے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جس کا انجام انسانی خفت کا باعث بنے بڑے بڑے واقعات کو وقت کی دھند دھندلا دیتی ہے دلوں سے یادیں بھی محو ہو سکتی ہیں مگر یہ نشانیاں انسان کو ایک مستقل اذیت میں مبتلا رکھتی ہیں میں نے سگریٹ نکالا منہ میں رکھا لائٹر آن کیا دوسرے ہاتھ میں وہ قصے تھے جنہوں نے مجھے گزشتہ دو سال سے ایک خوفناک اذیت میں مبتلا رکھا تھا میرے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی میں سگریٹ سلگانے کے بعد وہ قصے بھی جلتے ہوئے لائٹر پر رکھ دیے ہلکے سے شعلے بلند ہوئے اور فوراً ہی راکھ بن گئے میں نے ایک پرُسکون مسکراہٹ کے ساتھ وہ راکھ اٹھا کر قریب پڑے ہوئے ڈسٹ بن میں پھینک دی ہاتھ صاف کرتے ہوئے اپنی بچی کو آواز دی۔ ”ایک بہترین چائے کا کپ دینا بیٹا بہت تھک گیا ہوں....“ میں نے مسکراتے ہوئے پرسکون ہو کر سر صوفے کی پشت پر ٹیک دیا اور آنکھیں بند کرکے چائے کا انتظار کرنے لگا .... آہ کتنے اچھے انسان تھے جمال الدین صاحب اللہ غریق رحمت کرے بہت نیک تھے“ اچانک ہی فون بیل ہوئی جس نے کمرے کے گہرے سکوت میں ایک ارتعاش پیدا کر دیا دوسری طرف کوئی صاحب کہہ رہے تھے ”انکل آداب....! میں جمال صاحب کا بیٹا بات کررہا ہوں آپ جنازے پر تشریف لائے بہت مہربانی۔ اس وقت اپ سے بات نہیں ہو سکی تھی ابو کہہ رہے تھے کہ اپنے انکل سے وہ دونوں قصے واپس لے لینا.... اتوار کو آپ آئیں گے یا مجھے حکم کر دیں میں آ جاﺅں گا....“
میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور لمحوں کا توازن بگڑنے لگا۔

Sad Men Wallpapers - Top Free Sad Men Backgrounds - WallpaperAccess

متعلقہ خبریں