ایسا معروف شخص جو امریکا کا قومی ہیرو بن گیا، لیکن اس نے کیا کیا تھا؟۔۔۔ جانئے اس خبر میں

2019 ,نومبر 3



لاہور (مانیٹرنگ رپورٹ) تم جانتے ہو کے دنیا کا مصروف ترین ائیرپورٹ کونسا ہے، ان کی نظریں میرے چہرے پر جم گئیں، میں نے پانچ، سات ائیرپورٹوں کا نام لیا لیکن انہوں نے ہر نام پر نفی میں سر ہلا دیا میں ٹھک کر عرض کیا سر آپ ہی فرما دیجئیے، وہ میٹھے لہجے میں بولے شکاگو اوہیر کا شمار دنیا کے مصروف ترین ائیرپورٹ میں ہوتا ہے اس ائیر پورٹ سے روزانہ ایک سو انیس انٹرنیشنل فلائٹس اڑتی ہیں، یہ اس وقت دنیا کا آٹھواں بڑا جبکہ 2008 تک یہ دنیا کا دوسرا بڑا ائیرپورٹ تھا، اس نے 2003 میں شمالی امریکا کے بہترین ائیرپورٹ کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا، اس کے چار ٹرمینل اور ایک سو بیاسی کیٹ، میں انہیں ستائشی نظروں سے دیکھا، وہ مسکرا کر بولے لیکن کہانی یہ نہیں، کہانی اس ائیرپورٹ کا نام ہے۔
اوہیر ایک چھوٹا سا سرکاری ملازم تھا اوہیر کا پورا نام بچ اوہیر تھا وہ امریکی فوج میں فائٹر پائلٹ تھا دوسری جنگ عزیم کے دوران اس کی ڈیوٹی ائیر کرافٹ کیرئیر لیگزینٹن پر لگ گئی یہ ائیر کرافٹ کیرئیر پیسیفک اوشن میں کھڑا تھا اوہیر اور اسکے دوسرے فائٹر پائلٹ بحری جہاز سے اپنے طیارے اڑا رہے تھے، جاپانیوں پر حملے کرتے تھے اور واپس آجاتے تھے 1941ء دسمبر کی ایک شام اوہیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اڑا یہ لوگ ابھی چند میل دور گئے تھے کہ اوہیر نے اپنے سنگل انجن گلو مین ایف فور ایف طیارے کے فیول کی سوئی دیکھی اس طیارے میں پیٹرول بہت کم تھا اوہیر نے اپنے چیف کو اپنی پوزیشن بتا دی، چیف نے اسے فوری طور پر واپس جانے کا حکم دیدیا اوہیر اپنے ائیر کرافٹ کیرئیر کی طرف واپس مڑ گیا جب وہ کیرئیر کے قریب پہنچا تو اس نے ایک عجیب منظر دیکھا، اس نے دیکھا کہ نو جاپانی طیارے کیرئیر پر حملہ آور ہیں اور کیرئیر کی حفاظت کے لیا وہاں کوئی طیارہ موجود نہیں، اس صورتحال میں اوہیر کے پاس دو راستے تھے وہ اکیلا ان تمام جاپانی طیاروں کا مقابلہ کرتا یا وہ پھر اپنی جان بچا کر فرار ہوجاتا اوہیر ایک دلیر شخص تھا لہذا اس نے مقابلہ کرنا کا فیصلہ کیا، وہ جاپانی طیاروں پر پل پڑا وہ فضاء میں طیاروں پر چھپرٹا، ان پر گولے پھینکتا اور دوسری طرف نکل جاتا، وہاں سے واپس پلٹتا اور دشمن طیاروں پر گولیوں کی پچھاڑ کردیتا، اس نے آدھے گھنٹے میں دشمن کے پانچ طیارے ماڑ گرائے، اس دوران اس کا بارود ختم ہوگیا، اس نے نئی تیکنک سے لڑنا شروع کردیا، وہ دشمن کے طیارے پر چھپڑتا اور اسے اپنے طیارے کے پر سے چیڑتا ہوا دوسری طرف نکل جاتا، اس تیکنیک کے نتیجہ میں دشمن کے مزید تین طیارے تباہ ہوگئے۔
جبکہ آخری طیارہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ سمندر میں گر گیا، اوہیر کیرئیر پر اتر آیا اسی اٹنا میں اسکے ساتھی پائلٹ واپس آگئے، اوہیر نے ان کو ساری بات بتائی لیکن ان لوگوں نے یقین کرنے سے انکار کردیا، اس زمانے میں امریکی فضائیہ کے تمام طیاروں میں کیمرے نصب ہوتے تھے۔ یہ کیمرے آپریشن کے دوران تصویریں اتاڑتے رہتے تھے۔
اوہیر اپنے طیارے سے کیمرہ اتاڑ کر لے آیا جب تصویریں بن کر آئی تو پورے امریکا میں شور ہوگیا، امریکا کا بچا بچا اوہیر زندہ باد کے نعرے لگانے لگ پڑا، حکومت نے فروری 1942 میں اوہیر کو دوسری جنگ عزیم کا پہلا نیوی ایس اے سی ائی ایوارڈ دیا، جبکہ ا1943 میں امریکن آرمی کے انتہائی شاندار ایوارڈ فلائنگ کلاس سے بھی نوازا گیا، اوہیر 26 نومبر 1943 میں ایک جنگی مہم پر نکلا اس کا طیارہ دشمن کا نشانہ بنا، وہ سمندر میں گرا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہوگیا، اس کی موت کے بعد امریکی حکومت نے اپنا سب سے بڑا ائیرپورٹ اس کے نام سے منسوب کردیا۔
وہ خاموش ہوگئے میں نے جذباتی لہجے میں کہا سر ولٹر یہ تو واقعی لاجواب کہانی ہے، وہ مسکرائے نہیں میں تو اس سے بھی اچھی کہانی سنانا چاہتا ہوں، میں ہمہ طن خاموش ہوگیا تو وہ بولے  شکاگو میں ایزی ایڈی نام کا ایک وکیل رہتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے بے تاہشہ ذہانت سے نواز رکھا تھا، اسے امریکا کا سارا قانون ازبتر تھا، وہ شکاگو کا سب سے بڑا اچھا مقرر بھی تھا، کیرئیر کے آغاز میں اس کی ملاقات الپکون نام کے ایک بدمعاش سے ہوگئی، الپکون شکاگو معافیہ کا لارڈ تھا، پورا شہر اس سے درتا تھا الپکون نے ایزی ایڈی کو اپنا وکیل نامزد کردیا۔
پولیس جب بھی الپکون کو پکڑتی ایزی ایڈی بڑی مہارت سے اسے عدالت سے چھوڑا لیتا، اس زمانے میں لوگ کہتے تھے کہ اگر الپکون کو ایزی ایڈی کا تعاون حاصل نہ ہو تو اسکا سارا معافیہ ایک مہینہ میں بکھر جائے، ایزی ایڈی نے الپکون سے بے تہاشہ مالی فوائد حاصل کیے، اسکا شمار شکاگو کے امرا میں ہوتا تھا، اس کے پاس شہر کا سب سے بڑا فارم ہائوس تھا، وہ بیسیوں گاڑیوں اور لمبے چوڑے بینک بیلنس کا مالک تھا، ایزی ایڈی کا ایک ہی بیٹا تھا، اس نے اسے دنیا کی ہر نعمت دے رکھی تھی، ایک دن یہ بیٹا گھر آیا اور اپنے باپ کا دامن پکڑ کر بولا ڈیڈی میں جب بھی باہر جاتا ہوں تو بچے مجھے الپکون الپکون کہہ کر چھیڑتے ہیں۔
بیٹے کی یہ بات باپ کے دل پے لگی وہ بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر سوفے پر بیٹھ گیا، اور اس نے سوچا میں اپنے بیٹے کو دنیا کی تمام  سہولتیں دیدی ہیں لیکن ایک اچھی شناخت ایک اچھا نام نہیں دے سکا، ایزی ایڈی نے اسی وقت الپکون کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ گھر سے نکلا تو وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی گھر واپس نہیں آسکے گا، الپکون کے کاغذوں میں غداری کی سزا موت ہوتی ہے۔
لیکن اس کے باوجود ایزی ایڈی سیدھا تھانے گیا اور اس نے الپکون کیخلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا اعلان کردیا، پولیس نے اسی وقت الپکون کو گرفتار کرلیا ایزی ایڈی گھر کی طرف رخصت ہوا تو راستے میں اسے کسی نے گولی سے اڑا دیا تھا، وہ رکے اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔
یہ کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے، میں نے حیران ہوکر عرض کیا  سر یہ  تو نہایت ہی فضول اور بچگانہ سی کہانی ہے جاسوسی ناول اور دائجسٹ ایسی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں، انہوں نے قہقہ لگایا اور کہا میں ابھی ایک فکرا بولوں گا اور یہ دنیا کی بہترین اور انتہائی قیمتی کہانی ہوجائے گی، انہوں نے سرکس کے جادوں گروں کر طرح میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے ہماری پہلی کہانی کا ہیرو اوہیر اس ایزی ایڈی کا بیٹا تھا، مجھے جھٹکا لگا اور میں شدتِ حیرت سے کھڑا ہوگیا، وہ مسکرائے اور کہا میرے بچے بعذ فیصلے بعذ نکیاں کھجوڑ کے درختوں کی طرح ہوتی ہیں۔
ایک نسل ہونے کاشت کرتی ہے ان کی آبیاری کرتی ہے انہیں جوان کرتی اور اس کے بعد قبر میں اتر جاتی ہے اور دوسری نسل اس نیکی اس فیصلے کا پھل کھاتی ہے، اگر ایزی ایڈی اس لمحے یہ فیصلہ نہ کرتا تو اسکا بیٹا بڑا ہوکر کسی معافیہ کا حصہ بن جاتا وہ کسی پولیس مقابلے میں مارا جاتا اور تاریخ اسکا نام تک فراموش کردیتی، لیکن ایزی ایڈی نے اپنے بیٹے کو ایک اچھا نام دینے کا فیصلہ کیا، وہ خود مرگیا لیکن اپنے بیٹے کو نیکی اور سچائی کے راستے پر کھڑا کرگیا، یہاں تک کے اسکا بیٹا اوہیر اس راستے پر چلتا چلتا امریکا کا قومی ہیرو بن گیا، وہ اپنے باپ کو ایسی شناخت دے گیا جو قیامت تک برقرار رہے گی۔
آج بھی جب کوئی طیارہ اوہیر ائیر پورٹ پر اترتا ہے اور اسکے اندر خواتین و حضرات ہم چند لمحوں میں اوہیر ائیرپورٹ پر اترنے والے ہیں کا اعلان ہوتا ہے تو سب لوگ سر سے ٹوپی اتاڑ کر ایزی ایڈی کی عظمت کو سلام کرتے ہیں۔ او سر ہم کرکے اسے زندآباد کا نظرانہ پیش کرتے ہیں، ایزی ایڈی اور اسکے بیٹے اوہیر کی کہانی بتاتی ہے کہ اچھے فیصلے درخت کے قلم کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کے اپ کی اوالاد گرمی ٹپش اور بارش سے محفوظ رہے تو آپ ایزی ایڈی کی طرح اپنے صحن میں کسی اچھے فیصلے کی طرح قلم بونا پڑتی ہے۔ آپ کو اپنی نسل اپنی اولاد کو اچھا نام دینے کے لیے اپنی جان اپنی ذات تک کی قربانی دینا پڑتی ہے۔

متعلقہ خبریں