وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ ایک کوٹھے پر رونما ہونے والا حیرت انگیز واقعہ.......

2016 ,دسمبر 24

بنت حوا

بنت حوا

تہذیب

bintehawa727@gmail.com



مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ وہ ضرورت پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اسکا چہرہ آنسووں سے تر اور برف کی مانند ایسے سفید تھا جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔

اس کی یہ حالت دیکھ کر میں چکرا سا گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟

میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر گھٹی گھٹی آواز میں بولی "ماں مر گئی۔"

"کیا؟"

جب مجھے اسکی سمجھ نہیں آئی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے دوبارہ بولی کہ "آج میری ماں مر گئی۔"

اس جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے کے لیے میں اس کی جانب آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔

"تو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔

" کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ اس لئے میں مجرا کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت مندی ہے۔ تماش بین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ایدھی والوں سے اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو۔"

اتنا کہہ کے وہ برقعہ پہن کر کوٹھے سے باہر نکل آئی۔

میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا،"میں تمھاری ماں کے کفن و دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔"

وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا کئی بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اسکو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے۔کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔ صحن کے بیچ میں چارپائی پر اسکی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔ صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھی ۔ ایک کی گود میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا۔ آدھی رات ہونے کو آئی تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے سونپتے اور دیر آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بے قرار تھا اور پھر وہ اسکی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔

"کیا یہ بلبل کا بچہ ہے؟" یہ ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور اک پرانی کرسی اٹھا لائی۔

"سیٹھ جی! معذرت۔ میرے گھر میں آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔" وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔میں سر ہلاتے ہوئے اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہاں سے شروع کروں۔

"تمھارا اصل نام کیا ہے بلبل؟" بالآخر میں نے اس سے پوچھا ۔وہ چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی

"افشاں"۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔

" بہت افسوس ہوا تمھاری ماں کی وفات کا۔"

وہ خاموش رہی۔

"تمھارا باپ، بھائی کوئی ہے ؟"

اس نے خاموشی سے "نہیں" میں سر ہلایا۔

"یہ بچہ تمھارا ہے ؟"

اس نے پھر خاموشی سے "ہاں "میں سر ہلایا۔

"تمھارا شوہر کہاں ہے؟"

چند لمحوں بعد وہ بولی "چھوڑ گیا۔"

"تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟

"اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی، "سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا"یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔۔ وہ مجھے مجرا کرنے کے روزانہ دو سو روپے دیتی ہے اور ساتھ میں تماش بینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کے اپنی ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں جس سے محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور اک بھرم قائم ہے۔ سیٹھ جی، ایسی کتنی ہی بے سہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کوٹھوں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتی ہیں ۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں اک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی ہی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتی ہیں۔" یہ سب کچھ بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بے بسی اور بے چارگی تھی جیسے وہ کسی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر پرس سے چند نوٹ نکالے اور اسکے ہاتھ میں رکھتے ہوئے وہاں سے جانے کے لیے اٹھا۔ابھی میں چند قدم ہی چلا تھا کہ افشاں کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔۔۔۔۔

صاحب۔اس کے بدلے مجھے کتنی راتیں آپ کے ساتھ گزارنے ہوں گے۔۔۔۔

میں نے مڑ کر دیکھا وہ بے بسی کے عالم میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ ایک پل میں مجھے کچھ وقت پہلے والا وقت یاد آ گیا جب میں شیطانی نیت کے ساتھ بلبل کی مدد کرنے آیا تھا۔۔۔اس کی یہ بات مجھے میری ہی نظروں میں گرا گئی۔میں نے اس لمحے خود کو بلبل سے بھی زیادہ گرا ہوا جانا۔۔۔مجھ پر جیسے سکتا طاری ہو گیا تھا۔۔۔۔۔جب میری طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو افشاں نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا۔۔۔۔۔میں نے جلدی سے اپنا روخ دروازے کی طرف کیا۔۔۔دروازے کے پاس جا کر میں روکا اور بغیر مڑے بولا۔۔۔۔۔۔۔

آج کے بعد تمہیں کہی جانے کی ضرورت نہیں ہے ہر ماہ تمہیں تمہاری ضرورت کے مطابق رقم مل جائے گئی۔۔۔۔۔یہ کہہ کر میں باہر نکل آیا۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی میں بیٹھا تو مجھے میرا چہرہ تر لگا۔۔۔۔۔۔

جو صبر میں بلبل ارف افشاں کے سامنے کیا ہوا تھا وہ اب ختم ہو گیا تھا۔۔میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔خود کو کوسنے لگا۔۔۔۔۔۔۔اللہ سے معافی مانگی کہ میں بھٹک گیا تھا۔۔۔۔۔۔مجھے سیدھا راستہ دیکھا مولا۔۔۔۔۔مجھے معاف فرما دے۔۔۔۔۔۔

میں زیادہ کچھ تو نہیں کہوں گی اس تحریر کے بارے میں لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کوئی لڑکی گھر سے نکلتی ہے تو وہ کسی مجبوری کے بنا پر نکلتی ہے لیکن لوگ اس کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ خدارا آپ لوگ ان کو بھی انسان سمجھے۔۔۔۔۔۔اور یہ سوچے کہ اگر اس لڑکی کی جگہ میری ماں ،یا بہن ہوتی تو میں کیا کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

(بنتِ حوا)

متعلقہ خبریں