2022 ,دسمبر 7
تحریر: تہذین طاہر
٭ترکی اور ترک لوگوں کی اپنی زبان سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ آپ کو شاید ہی پورے ترکی میں کوئی ایک ترک ڈاکٹر بھی ایسا نظر آئے جو انگریزی لفظ ” پین ” (درد) کے معنی جانتا ہو۔
اگر آپ ترکی نہیں بول سکتے یا آپ کے ساتھ کوئی ترجمان نہیں ہے تو پھر آپ کا ترکی گھومنا خاصا مشکل ہے۔
٭ چین :ماؤزے تنگ کا یہ حال تھا کہ انھوں نے ساری زندگی کبھی انگریزی نہیں بولی۔ جب کبھی کوئی لطیفہ ان کو انگریزی میں سنایا جاتا ان کی آنکھوں کی پتلیوں تک میں کوئی جنبش نہیں ہوتی تھی اور جب کوئی وہی لطیفہ چینی زبان میں سنایا جاتا تو قہقہہ لگا کر ہنستے تھے۔ وہ ہمیشہ بولتے تھے کہ چینی قوم گونگی نہیں ہے۔
٭ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی: ان کی والدہ نے ساری زندگی گھروں میں کام کیا اور باپ نے اسٹیشن پر چائے بیچی ۔وہ حالات کی وجہ سے گھر سے بھاگے۔ دن رات محنت کے بعد گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے اور بعد ازاں ہندوستان جیسے بڑے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ آپ نریندر مودی کی کوئی تقریر اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو وہ ہندی بولتے نظر آئیں گے۔ہندوستان کی خود اعتمادی کا یہ حال ہے کہ ان کی وزیر خارجہ سشما سوراج تک اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہندی میں بات کرتی ہیں۔
٭صدر ترکی طیب اردوگان پاکستان آئے۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے ترکی زبان میں خطاب کیا ۔وہ پاکستانی قوم ، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو یہ بتا گئے کہ کسی قوم کی ترقی کی علامت اس کی غیرت ہوتی ہے انگریزی نہیں۔
٭ہم مرعوبیت کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ہمارا کوئی کرکٹر پاکستان سے باہر اردو میں بات کرلے تو ہم منہ چھپا چھپا کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی پرفارمنس کو کرکٹ سے ناپنے کے بجائے انگریزی سے ناپتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس خوبصورتی کا معیار گورا رنگ اور قابلیت کا معیار انگریزی ہے۔ ہمارے ملک میں بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کا واحد مقصد انگریزی سکھاناہوتا ہے۔
ہماری ذہنی غلامی کا تماشہ دیکھیں ہم نے اسکولز تک کو انگریزی اور اردو میڈیم بنایا ہے۔ قوم کا غریب اور زوال پذیر طبقہ اردو پڑھے گا جبکہ امیر اور پیسے والا طبقہ انگریزی۔ دنیا کی معلوم دس ہزار سالہ تاریخ میں کسی قوم نے کسی غیر کی زبان میں ترقی نہیں کی۔ تخلیق ، تحقیق اور جستجو کا تعلق انگریزی سے نہیں ہوتا اور اگر آپ ان چیزوں کا تعلق بھی انگریزی سے جوڑ دیں گے تو پھر وہی ہوگا جو آج ہمارے ملک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آپ کو پورے ملک میں سوائے چند کے کوئی قابل ذکر سائنسدان ، کوئی تحقیق کرنے والا ڈاکٹر اور کچھ نیا ایجاد کرنے والا انجینئر نہیں ملے گا۔ اس قوم کا نوجوان بھلا کیسے کچھ سوچ سکتا ہے جس کا واحد مقصد اپنی انگریزی درست کر کے اعلیٰ نوکری حاصل کرنا ہو۔ جو لکیر کا فقیر بن چکا ہو۔
بنا سوچے سمجھے بس رٹے لگائے جائےں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب ہمارے بچوں کو انگریزی آتی نہیں ہے اور اردو مشکل لگتی ہے۔ آپ کسی بھی نوجوان کو راستے میں روکیں اور اس کو انگریزی میں ایک درخواست لکھنے کا بول دیں وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے گا۔ اصل بیڑہ غرق اس موبائل فون کی رومن اردو نے کیا ہے۔ ہماری نئی نسل تو اردو کے الفاظ تک لکھنا بھول چکی ہے۔ حتیٰ کہ موبائل کمپنیز کے آفیشل میسجز تک رومن اردو میں موصول ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہے۔
دنیا میں نظر گھمائیں اوردیکھیں! کس زبان کے ساتھ یہ ظلم عظیم ہو رہا ہے کہ اس کے فونٹس کی موجودگی میں آپ کو ” رومن ” لکھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟۔ کسی میں دم نہیں ہے کہ واٹس ایپ یا میسج انگریزی میں کرے۔ ساری قوم اردو میں کرتی ہے لیکن ” رومن ” اردو میں۔ پلے اسٹور سے ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے اس پر اردو لکھنے میں کیامشکل ہے۔ عجیب بات ہے ہمیں لکھنی بھی اردو ہے اور اردو میں بھی نہیں لکھنی ہے۔
اب تو شاذ و نادر ہی کوئی والدین ایسے ہوں گے جنھوں نے اپنے بچے کے اخلاق ، کردار ، گفتگو اور تمیز تہذیب پر بات نہ کی ہو۔ سارا وقت اس کی اخلاقی حالت کو روتے رہے اور آخر میں مدعا یہ ٹھہرا کہ آپ کسی طرح اس کی انگریزی ٹھیک کروائیں۔ میں نے اس ملک میں اور اس دنیا میں قابلیت کا کوئی نمونہ انگریزی کی وجہ سے نہیں دیکھا۔ چین ، جاپان ، ترکی ، جرمنی ، فرانس اور اب تیزی سے ابھرتا ہوا بھارت ان میں سے کون سے ملک نے انگریزی کی وجہ سے کامیابی اور ترقی کی منازل طے کی ہیں ؟۔
خدارا خود بھی قابل بننے کی کوشش کیجیے اور بچوں کو بھی قابل بنائیے انگریز نہیں۔
اردو میری پہچان۔ میں ہوں پاکستان۔