ریبیز یا باولے کتے کا کاٹا کیا کرے؟ جانئے اس خبر میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 26, 2019 | 14:52 شام

لاہور (مانیٹرنگ رپورٹ) ریبیز سے ہر سال تقریبا 55 ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔ اور اکثر جب لوگوں کو کتا کاٹتا ہے تو وہ اس سوچ بچار میں پر جاتے ہیں کہ کتا گھریلو ہے یا کہیں پاگل تو نہیں تھا، وہ اسی سوچ میں اپنا بہت سارا وقت صائع کر بیھٹتے ہیں۔  کتے کے کاٹنے پر گھریلو ٹوٹکے استعمال نہ کریں انہیں فوری طور پر چاہیے کہ قریبی سرکاری ہسپتال جائیے۔ کیونکہ کے کتے کا کاٹنا موت کا سبب بھی بن سکتا ہے، متاثرہ شخص کو فوری طورپر متعلقہ ہسپتال لے جائیں وہاں ایمرجیسنی والے اس صورت حال کو پرائیویٹ ڈاکٹر

وں سے سو گنا زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں، روزانہ ایسے مریض دیکھتے ہیں۔


ہسپتال دور ہے تو صابن اور بہتے پانی سے دس پندرہ منٹ تک اچھی طرح زخم کو دھوئیے اس کے بعد پٹی مت باندھیں۔ اسے کھلا رہنے دیجیے اور ہسپتال چلے جائیے۔ چودہ ٹیکوں کا زمانہ گزر گیا۔ ایک مہینے میں پانچ ٹیکوں (شیڈول: 0-3-7-14-28) کا کورس ہو گا، بہت سی کمپنیوں کی بنائی سیل کلچرڈ ویکسینز مارکیٹ سے مل سکتی ہیں۔ جو چیز یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ کسی اچھی فارمیسی سے ویکسین خریدی جائے کیوں کہ اس کا اثر تب ہی بہتر ہو گا جب یہ مسلسل کولڈ چین میں رہے گی۔ کوئی بھی ویکسین بننے سے لے کر دوکان پر آنے تک دو سے آٹھ ڈگری کا ٹمپریچر مانگتی ہے، جب بھی یہ سلسلہ ٹوٹے گا، بہرحال اس کا اثر ویکسین کی کوالٹی پر ہو گا۔ 
ویکسین کے ساتھ ساتھ ریبیز امیونوگلوبیولین لگوانے بھی اکثر ضروری ہوتے ہیں۔ اگر کتا آپ کا اپنا پالتو نہیں ہے تو کوئی رسک لینے سے بہتر ہے کہ ریبیز امیونوگلوبیولین ضرور لگوائیں۔ اسی طرح کتا جتنا سر کے قریب کاٹے گا، وائرس اتنی تیزی سے دماغ تک جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پاؤں پر یا ٹانگ پر کاٹا ہے تب بھی جلدی ہسپتال جانا ضروری ہے لیکن کندھے یا گردن والے معاملے میں بے احتیاطی ہرگز نہیں ہونی چاہئیے، فوری طور پر ہسپتال کا رخ کرنا اور ویکسین کے ساتھ ساتھ ریبیز امیونوگلوبیولین یہ بھی ­(کئی کمپنیوں کے موجود ہیں) لگوانا بہتر ہے۔ کتے کا پنجہ لگے، کوئی خراش ہو جائے، یا آپ کے کسی زخمی حصے کو کتا چاٹ جائے، ریبیز کا ٹیکہ لگوا لیجیے، احتیاط لازم ہے، اگر کتا آپ کے یہاں پالتو ہے، یا آپ جانوروں کے ڈاکٹر ہیں، یا آپ فوج میں ہیں، یا دیہی علاقے کی پولیس میں ہیں، یا کسی بھی ایسی جگہ ہیں جہاں دوران ملازمت آپ کھلے میدانوں کا رخ کر سکتے ہیں، یا کتوں والے کسی بھی علاقے میں جانا پڑ سکتا ہے تو آپ ریبیز سے بچاؤ کا حفاظتی کورس بھی کر سکتے ہیں۔


ریبیز سامنے آنے کے بعد پوری دنیا میں آج تک پانچ سے زیادہ لوگ بچ نہیں سکے۔ وہ بھی دس بارہ سال پہلے ایک تجربہ شروع کیا گیا تھا جس میں مریضوں کو مصنوعی طریقے سے کئی ماہ تک بے ہوش رکھا گیا، انہیں مختلف دوائیں دی گئیں اور آہستہ آہستہ جب وائرس ختم ہو گیا تب ہوش میں لایا گیا۔ لیکن یہ طریقہ بھی کئی سو میں سے صرف پانچ لوگ بچا سکا۔ ان پانچ کے بارے میں بھی ڈاکٹر یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں والدین سے ریبیز کے خلاف قوت مدافعت آئی ہو گی۔


بلی، گائے، بھینس، گھوڑا، گدھا، چمگادڑ، ہر وہ جانور جو دودھ پلانے والا ہے، وہ ریبیز کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاگل کتا جب انہیں کاٹتا ہے تو وہ اپنے جراثیم ان میں منتقل کر دیتا ہے۔ وہی جراثیم انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں اگر یہ جانور کاٹ لیں۔ یہ وائرس متاثرہ جانور کے لعاب میں بھی پایا جاتا ہے۔
صرف شہر کراچی میں ہر سال تیس ہزار کتے کاٹے کے مریض مختلف ہسپتالوں میں آتے ہیں۔ اندازہ کر لیجے باقی ملک میں کیا صورت حال ہو گی۔ پالتو کتوں کی ویکسینیشن بھی اس سے بچاؤ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔