2023 ,جنوری 21
بہ نوکِ قلم: رابعہ وحید
برستے روز و شب ، یخ بستہ در و دیوار۔۔۔ ایسے موسم میں ٹھنڈ سے ٹھٹھرتے بچے ، بڑے اور بوڑھے ، نرم و گرم لحافوں میں دبک کر مختلف مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں۔ اور سردی سے فرار کی کوشش میں لحافوں کی پناہ میں پرسکون بیٹھے ہوتے ہیں۔
ارے پرسکون کہاں۔۔۔ بچے ہیں کہ بستر سے نکل کر ٹوپا سر سے اتار کر بغیر نشانہ لیے مشرق کی طرف پھینک ، جرسی ، کوٹ اتار کر اسی بے پروائی سے مغرب کی طرف پھینک ، ماں سے نظریں بچا کر گیئر لگاتے ہیں اور کمرے سے باہر۔۔۔ ماں کو جب تک مجرم کے فرار ہونے کا علم ہوتا ہے تب تک بچہ ایک سو اسی کی سپیڈ سے پڑوس میں مقیم اپنے ساتھی مجرموں تک پہنچ چکا ہوتا ہے یا اونچی آواز میں انہیں قید و بند کی سختیوں سے نجات کا الارم سنا چکا ہوتا ہے۔ بس پھر کیا ہوتا ہے بچہ آگے آگے ، ماں پیچھے پیچھے۔۔۔ پولیس مقابلے کا سا سماں۔۔۔۔ جیت کس کی ہوتی ہے، اس وقت دونوں میں سے کوئی نہیں جانتا ہوتا ، البتہ مجرم کو اپنی جیت کی قوی امید ہوتی ہے ، وہ اعتماد سے دوڑتا ہوا دیوار پھلانگنے لگتا ہے ، گھر کی دہلیز پار کرنے ہی لگتا ہے کہ ماں کے ممتا بھرے ہاتھ یکایک آہنی شکنجہ بن کر اس کو دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیتے ہیں اور پھر ماں کی صورت میں اس پولیس کی جیت ہو جاتی ہے اور بچے کی ساری کوششیں پولیس مقابلے میں جاں بحق ہو جاتی ہیں۔یہ تو ایک منظر تھا بچے اور ماں کے ان یخ بستہ گیلے دنوں کا۔
اب باقیوں کا احوال دیکھتے ہیں۔
مزدور طبقے میں سے ان دنوں بعض لحافوں میں دبکے ، بعض کچے سے کمرے کے وسط میں الاؤروشن کر کے اس کے گرد آگ سینکنے کے دوران موسم کی سختی کی وجہ سے کام پر نہ جا سکنے پر آمدنی نہ ہونے پر پریشانی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔
عورتیں گھر کا سودا سلف ختم ہونے کا قصہ لئے بیٹھی ہوتی ہیں ، بعض مائیں بچوں کی بیماری پر شوہروں سے گفتگو کر رہی ہوتی ہیں۔ بعض گھروں میں قہوہ بنا کر مریضوں کو پلایا جا رہا ہوتا ہے۔ بعض چھتوں کے ٹپکنے کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں اور ٹپکنے والی چھتوں کے نیچے مختلف مقامات پر برتن رکھے ہوتے ہیں۔
بعض گھروں میں شوقیہ چائے ، سبز چائے یا قہوہ پیا جا رہا ہوتا ہے۔ بعض اس موسم میں چائے کے ساتھ پکوڑوں کا انتظام بھی کیے ہوتے ہیں۔ بعض علاقوں میں بالخصوص دیہات میں کچے کمرے کے وسط میں کوئی خاتون خانہ چولہے پر کڑھائی چڑھائے ، آگ جلائے اہل خانہ کے لیے حلوہ بنا رہی ہوتی ہے اور اہل خانہ ارد گرد بیٹھے نگاہیں کڑھائی میں مختلف مراحل سے گزرتی سوجی پر رکھے ، حلوہ بننے کا انتظار کرتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔
بعض لوگ بستر میں بیٹھے خشک میوہ جات سے منہ کا ذائقہ بدلتے ہوئے ٹی وی ریموٹ ہاتھ میں لئے چینل بدلنے کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔
مطالعہ کے شائقین اس موسم میں کمبل کی نرمی و گرمی سے ہم کنار کتب بینی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ شاعری کے شوقین ساتھ بیٹھے ہوو¿ں کو شعر پہ شعر سناتے نظر آتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ کوئی سن رہا ہے کہ سو رہا ہے۔ شاعروں کی تو حس شاعری ویسے ہی بھڑک اٹھتی ہے ہر دل فریب موقع پر۔ ادھر بادل آئے ، ادھر شاعر کے لب ہلے ، ادھر بارش برسی ، ادھر غزل ہو گئی۔
موبائل فون جیسی بلا کے ڈسے ہوئے رضائی کے اندر مکمل چھپے موبائل کی سکرین پر آنکھوں اور ہاتھوں کی انگلیوں کو مسلسل رقص کرانے میں مگن ہوتے ہیں۔ رضائی میں ایسی حالت میں بیٹھے انسان کو باہر سے دیکھنے والے کو قبر کا گمان ہوتا ہے۔ اور قبر اندر سے پوری طرح روشن و منور ہوتی ہے۔ لیکن افسوس اس قبر پر نہ کوئی فاتحہ پڑھنے آتا ہے اور نہ ہی پھول چڑھانے۔
بعض لوگ موبائل نامی سکرین پر کوئی مزاحیہ پروگرام دیکھتے ہوئے اس قدر اونچے قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں کہ قریب بیٹھے افراد حیرت سے تکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اور بعض کئی کئی گھنٹے کال پر گپیں لگاتے فراغت کے مزے لیتے سم کمپنیوں کی کال آفر کا پورے حق سے استعمال کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔
بعض لوگ شبانہ روز سو سو کر تھکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ موسم دن میں بھی رات کا سا سماں کیے رکھتا ہے۔
ایسے موسم میں بھی ملازمین کو فرائض کی ادائیگی کا دھیان کرنا پڑتا ہے اور نرم و گداز بستر کو ترک کر کے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ اب وہ ملازمین سرکار کے ہوں یا کسی اور کے۔
بعض ایسے موسم میں لانگ ڈرائیو جیسے شغل کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ موسم کی سختی بعض اوقات ناگہانی آفات کا باعث بن جاتی ہے اور انسانی جان کا نقصان کر دیتی ہے۔
مری میں برف باری کے باعث پیش آنے والا افسوس ناک واقعہ جو کئی جانوں سے روح کو جدا کرنے کا سبب بنا ، ناقابل فراموش ہے۔ بلاشبہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ مگر احتیاط ضروری ہے کہ زندگی میں بہت سے خوش گوار لمحات اور خوب صورت موسمیاتی خوشبوؤں سے لطف اندوز ہونے کے مواقع بےشمار مل سکتے ہیں مگر زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔۔۔