ایران سے کیسے بات کی جائے؟

تحریر: نصرت علی شاہانی

| شائع |

درج بالا عنوان کے تحت 24 جنوری کے روزنامہ جنگ میں سلیم صافی کا ہماارے واحد دوست مسلم ہمسایہ ملک کے خلاف بغض و عناد اور غلط بیانی پر مشتمل کالم اس وقت شایع ہوا جب ہماری حکومت نے متعلقہ ریاستی اداروں سے مشاورت کے بعد پاک ایران تعلقات میں عارضی کشیدگی ختم کرتے ہوئے دیرینہ دوستانہ تعلقات بحال کر دیے ہیں ، ایرانی وزیر خارجہ خیر سگالی دورے پر آ رہے ہیں ۔ان حالات میں اس قسم کے غیر زمہ دارانہ رویے ہندوستان کو خوش کر سکتے ہیں جو خطے میں پاکستان کو ایران جیسے مخلص دوست سے محروم کرنا چاہتا ہے

۔اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میں کالم نگار نے قومی مفادات کے تقاضوں کے خلاف اپنے قد سے بڑھ کر باتیں کی ہیں ۔


چند دن پہلے سینیئر صحافی جناب وسعت اللہ خان نے بی بی سی کالم میں پاک ایران دوستی کے چند حقایق بیان کرتے ہوئے اس طرح کے غیر زمہ دار لکھنے والوں اور اینکرز کی طرف بھی اشارہ کیا تھا جو دونوں ممالک کی عارضی کشیدگی پر بغلیں بجا رہے تھے ۔خان صاحب نے بجا طور پر اس صحافی نما مخلوق کے رویے کو پاکستان کے ریاستی بیانیہ کے خلاف قرار دیا ۔ جنگ کا مذکورہ کالم اسی کا حصہ ھے۔
بلا شبہ ایران کے ungoverned علاقے میں چھپے ہماری قومی سلامتی کے دشمن نیز فورسز اور معصوم شہریوں کے سفاک قاتلوں کے خلاف پاک فوج کی شجاعانہ کاروائی لایق تحسین ہے ۔یہ اقدام امریکہ، افغانستان اور ہندوستان کے لئے سخت پیغام ہے جنہوں نے پاک سرزمین پر ہزاروں بے گناہوں کو شہید کیا ۔سلیم صافی ویسے تو " خفیہ معلومات"رکھنے میں مہارت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن بلوچستان میں چھپے دہشت گرد تنظیم" جیش العدل " کے ایرانی دہشتگردوں کے سفاک جرائم اور ایرانی کاروائی کے نتیجے میں ان کے عبرتناک انجام بیان کرنے میں نجانے اس کی زبان کیوں گنگ ہو گئی ؟  اس کا ہدف  فقط ایران کی اسلامی حکومت ہے، دہشت گرد کیوں نہیں ؟ وہ ان سفاک دہشتگردوں کو محض ایرانی حکومت کا مخالف قرار دیتا ہے ۔( جیش العدل وغیرہ کی سرپرست قوتوں کی طرف سے ایران مخالف پراپیگنڈہ کے لئے مبینہ سرمایہ کاری تشویش ناک ہے)

جیش العدل کیسے کام کرتی ہے؟
القاعدہ وغیرہ سے ایران کی دوستی کے بارے کالم نگار " صادق و امین" برطانوی صحافیوں کے فرامین پر یقین  رکھتا ہے جن کی عالم اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں اظہر من الشمس ہیں ۔اگر طالبان اور ایران نے تعلقات استوار کر لیے ہیں تو مسٹر سلیم کو کیا تکلیف ہے؟ اس کی تضاد بیانی کا ثبوت اس کا یہ دعویٰ ہے کہ افغانستان پر حملہ کے لئے ایران نے امریکہ پر"  دباؤ" ڈالا تھا ۔امریکی جارحیت کے شکار  ایران کے اس طرح کے" دباؤ" کی بات کوئی سلیم العقل نہیں کر سکتا ۔
صحابہ کرام کے مزارات منہدم اور عراق و شام میں زندہ مسلمانوں کی کھال اتارنے والی اسرائیلی سفاک پراڈکٹ "داعش" کو تہس نہس کرنے والے عظیم اسلامی جرنیل قاسم سلیمانی کی تعریف کرنے کی بجائے کالم نگار نے ان پر اپنے قاتل امریکیوں سے ساز باز کا الزام لگایا ہے جسے کوئی باشعور آدمی قبول نہیں کر سکتا ۔
اسرائیل کے خلاف حماس، یمنی مجاہدین اور ایران کے اتحاد کی تعریف کرنے کی بجائے سلیم صافی اسے ایرانی ایجنسیوں کی " چالاکی" کہتا ہے جس سے اس کی ناپسندیدگی واضح ہوتی ہے جو بالواسطہ اسرائیل کی حمایت ہے۔عرب ، اسرائیل تعلقات میں ایران کے رکاوٹ بننے کی " چالاکی" پر بھی اسے تشویش ہے۔ اس کا یہ جھوٹ کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کہ مغرب نے ایران سے توجہ ہٹا کر حماس پر مرکوز کر دی ہے نیز ایران نے فلسطین کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ غزہ اور یمن میں تو میزائل و اسلحہ کی فیکٹریاں نہیں ہیں۔ حماس راہنما بارہا اعلان کر چکے کہ انہیں سب کچھ ایران دے رہا ہے۔دو دن پہلے اسراءیلی صدر کا بیان تھا کہ غزہ میں ہم حماس نہیں، ایران سے جنگ کر رہے ہیں ۔ دو ہفتے قبل ایران میں دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری اسرائیل نے قبول کرتے ہوئے اسے انتقام قرار دیا ۔واضح رہے کہ  ایران نے فلسطین کو اسرائیل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ ان کے ہم زبان ، ہم مذہب عرب ممالک کی بے حسی ، بزدلی اہل فلسطین کی مظلومیت کا موجب ہے ۔قران و سنت کی تعلیمات کے مطابق ایران آج بھی فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے ۔
کالم میں ایران کے پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا بیہودہ الزام کا حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں ۔ ہماری ریاستی، عسکری ،سیاسی قیادت اس طرح کی ہرزہ سرائی کو مسترد کرتی ہے جس سے بھارت کو خوشی ہو۔

سلیم صافی - شیعہ نیوز پاکستان
سلیم صافی کو اس پر بھی پریشانی ہے کہ پاکستان ،ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ۔یہ در حقیقت ملکی مفادات کے بدخواہوں کی دیرینہ ناپاک خواہش ہے۔یمن کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف پاک فوج کے استعمال نہ ہونے کے ہماری پارلیمنٹ کے تاریخی فیصلے پر بھی جارح قوتوں کے خوشامدیوں کو تاحال تکلیف ہے جس کا اس نے بھی ذکر کیا ۔
کلبھوشن جیسے سیاہ کردار کافی ممالک میں ریاستی اداروں کو دھوکا دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں ، پالے نہیں جاتے جیسا کہ دہشت گرد ایرانی تنظیم " جنداللہ" کا سرغنہ عبدالمالک ریگی دھوکہ دہی سے پاکستانی شناختی کارڈ پر بلوچستان میں رہتے ہوئے سی آ ی اے کی مبینہ سرپرستی میں ایران میں دہشت گردی کرتا تھا جسے ایران نے فضا سے گرفتار کر کے عدالتی کارروائی کے بعد انجام تک پہنچا دیا اب کلبھوشن کے عبرتناک انجام کا انتظار ہے۔

کلبھوشن یادیو کیلئے قانونی نمائندہ مقرر کرنے ایک اور موقع فراہم
کالم نگار کا ایران پر فرقہ وارایت پھیلانے کا گھٹیا الزام کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی ہمنوائی ہے۔ یہاں ایرانی سفارتی مشنوں کی طرف سے منعقدہ اتحاد بین المسلمین کے اجتماعات ، ربیع الاول میں تہران کی سالانہ وحدت کانفرنسوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے اہلسنت کے جید علماء کی شرکت اور دیگر اقدامات ان الزامات کے غلط ہونے کا ثبوت ہیں۔
کافی سال پہلے جب مرحوم قاضی حسین احمد کی کوشش سے اتحاد امت کی خاطر پاکستان کی دینی، مذہبی جماعتوں پر مشتمل معتبر فورم " ملی یکجہتی کونسل" کی تنظیم نو کی گئی تو اسی سلیم صافی نے اس میں ایران کے تعاون یا دخل کا اپنے کالم یا گفتگو میں اعتراف کیا تھا ۔
کیا مذکورہ بالا چند اقدامات فرقہ وارایت پھیلاتے ہیں ؟
امن و امان سے متعلق ہمارے ذمہ دار ادارے فرقہ وارایت میں ملوث افراد ، تنظیموں اور ان کے سرپرستوں کو اچھی طرح پہچانتے ہیں ۔
کالم کے اختتام میں ایران کو ہندوستان کی طرح ڈیل کرنے کے معاندانہ مطالبہ کی ہر محب وطن پاکستانی مذمت کرتا ہے ۔

پاک ایران دوستی زندہ باد!