زندگی کا سفر بھی بڑا دلچسپ و عجیب ہے اس کی راہ میں آنے والی ہر منزل اپنے ساتھ نئے امکانات، واقعات اور توقعات لے کر آتی ہے دوست اور دشمن زندگی کی راہوں میں خودبخود چلے آتے ہیں۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے چلتا رہتاہے اور اپنے پیچھے یادوں کی ایک دھول چھوڑتا چلا جاتا ہے یادیں کبھی محو نہیں ہوتیں۔ بالخصوص اچھے اور خوبصورت لمحوں کا ایک غیر مرئی لمس دل میں ہمیشہ پھولوں کی طرح شگفتہ و تروتازہ رہتا ہے۔ ماضی خوبصورت ہوتو اس کی یادیں بڑی کربناک ہوتی ہیں اور اگر ماضی کربناک ہوتو اس کی یادیں انسان کو حوصلہ بخشتی رہتی ہیں۔ زندگی میں ہزاروں لوگ آئے اور بچھڑ گئے۔ ہزاروں ہی واقعات دل پر قیامت برپا کرتے ہوئے گذر گئے۔ زندگی انہی خوشگواریوں اور ناہمواریوں کا مجموعہ ہوتی ہیں مگر کچھ لوگ اور ان سے جڑے ہوئے واقعات اور لمحات ایسے ہوتے ہیں جو بادی النظر میں نہایت معمولی اور بے وقعت ہوتے ہیں لیکن انسانی محسوسات اور ادراک کیلئے ایسے اہم ہوتے ہیں کہ ان کی یادوں سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا۔ لمحہ لمحہ کرکے ایک چشم کشا داستان بن جاتی ہے۔
سائنس نے بہت سی مشکلات کا حل پیش کیا ہے اور انسان کی زندگی کو آسان بنانے میں بہت حد تک مدد کی ہے۔ سائنس نے بیماروں کی صحت یابی کے لیے مختلف وسائل کو جنم دیا ہے۔ بہت سے لاعلاج مریض سائنس کی وجہ سے علاج پانے لگے ہیں۔ مسلمان کیمیا دان ابنِ سینا نے بہت سی بیماریوں کے علاج کے لیے ادویات کے نسخے تیار کئے جو رہتی دنیا تک کارآمد رہیں گے۔
برستے روز و شب ، یخ بستہ در و دیوار۔۔۔ ایسے موسم میں ٹھنڈ سے ٹھٹھرتے بچے ، بڑے اور بوڑھے ، نرم و گرم لحافوں میں دبک کر مختلف مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں۔ اور سردی سے فرار کی کوشش میں لحافوں کی پناہ میں پرسکون بیٹھے ہوتے ہیں۔
سیاسی ماحول کتنا آسیب زدہ ہے۔ پاکستانی گھٹن اور حبس محسوس کرتے ہیں۔ گذشتہ سات آٹھ ماہ کا عرصہ عوام پر قیامت بن کر ٹوٹ رہا ہے۔ مہنگائی کے طوفان کے تھپیڑے جیتے جی مار رہے ہیں۔اس ماحول میں بھی اگر تفریح کے مواقع میسر آتے ہیں تو لوگ زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو انجوائے کرتے ہیں۔ آج کل لاہور دا پاوا اختر لاوا کردار بڑا شہرت پا رہا ہے۔ لاہوریئے خاص کر اس بحرین پلٹ لاہوریئے کی مذاحیہ بڑھکوں کو انجوائے کرتے ہیں۔
٭ترکی اور ترک لوگوں کی اپنی زبان سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ آپ کو شاید ہی پورے ترکی میں کوئی ایک ترک ڈاکٹر بھی ایسا نظر آئے جو انگریزی لفظ ” پین ” (درد) کے معنی جانتا ہو۔ اگر آپ ترکی نہیں بول سکتے یا آپ کے ساتھ کوئی ترجمان نہیں ہے تو پھر آپ کا ترکی گھومنا خاصا مشکل ہے۔
فٹ بال کئی ممالک کے کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ چار سال منعقد ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا ایونٹ ہے۔ 1930ءسے ورلڈ کپ کا انعقاد ہونا شروع ہوا۔ برازیل سب سے زیادہ 5مرتبہ چیمپیئن بن چکا ہے۔ جرمنی تین اور فرانس، اٹلی ، ارجنٹائن دو دو بار کپ جیت چکے ہیں۔ برازیل تو فٹ بال میں مصروف ہونے کے باعث دنیا میں جانا جاتا ہے۔ فٹ بال ورلڈ کپ کا انعقاد جب بھی ہوتا ہے دنیاکی توجہ اسی جانب مبذول ہو جاتی ہے۔ 2018ءمیں عالمی کپ روس میں ہوا، جس پر 18ارب ڈالر اخراجات آئے تھے۔18ارب ڈالر بڑی رقم ہے۔ ہماری حکومت سے آئی ایم ایف سے سوا ارب ڈالر قرض کے حصول کے لیے ناک سے لکیریں نکلوائی تھیں۔ عالمی کپ آج تک مسلم ممالک میں سے کسی کے حصے میں نہیں آیا۔
قدرت کبھی کبھی ایسے سرپرائز دیتی ہے کے زندگی کے سفر میں، ذہن و دل پر جمی پریشانیوں کی اداسیوں کی دھول پل بھر میں دھل جاتی ہے۔نظریں ایسے نظارے دیکھتی ہیں کہ خاک سے بنی انسانی ہستی خود بخود قوس و قزح کے سبھی دلنشیں رنگ اپنی ذات کے اردگرد بکھرے ہوئے محسوس کرتی ہے۔مجھے بھی پچھلے دنوں قدرت کی جانب سے ایسا ہی خوبصورت موقع ملا،جب اچانک دن کے ایک بجے مجھے پر خلوص سا پیغام اصرار کے ساتھ موصول ہوا کے شام چھ بجے کشمیر جانا ہے۔بس تیار رہیے گا
ہم ففتھ جنریشن وار فیئر کے دورسے گزر رہے ہیں۔ یہ میڈیا کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ اس کا سب سے بڑا ہتھیار افواہیں ہیں۔ وہ بیانیہ ہے جس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا مگر اسے دورِ عصر کی سب سے معتبر سچائی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پانچویں نسل کی جنگ عالمی سطح سے سکڑتی اور سمٹتی ہوئی ملک اور معاشرے سے بھی آگے گھروں تک بھی آ پہنچی ہے۔ گھروں میں تو شایدپہلے سے کسی اور نام سے موجود تھی۔ ففھ جنریشن وار فیئر کو ہالو گرافک ٹیکنالوجی کے تناظر میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ ہوتا ہے چین کے شہر یویانگ کے لوگوں نے سمندر کے اوپر بادلوں میں قدیم شہر کو آباد دیکھا۔
تحریر: فضل حسین اعوان سیاسی حالات نے سلگنا تو عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل شروع کردیا تھا۔ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو حالات کی ابتری نے معیشت کو جکڑنا شروع شروع کر دیا۔ آج عروج پر پہنچی ہوئی مہنگائی: بجلی، گیس اور پٹرولیم کی قیمتیں سیاسی عدم استحکام کا شاخسانہ ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کا سیاسی استحکام میں مسلمہ کردار ہے۔چھوٹی سے چھوٹی پارٹی احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے سیاسی صورت حال کو اُلجھا دیتی ہے۔ بڑی پارٹی اگر ایسا کرے تو وہی کچھ ہو سکتا ہے جو آجکل پاکستان میں ہو رہا ہے۔
تحریر: فضل حسین اعوان عمران خان آج28اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کر رہے ہیں۔14اگست 2014ء کو بھی لاہور سے ایک“دو دھاری“ لانگ مارچ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تھا۔ طاہر القادری اور عمران خان اس دن نواز شریف حکومت کی لنکا ڈھانے نکلے تھے، اس دوران شہباز شریف حکومت نے لاہور کو کنٹینرز لگاکر سیل کر دیا تھا تاہم جیسے تیسے لاہور سے عمران، قادری قافلے وقفے وقفے سے روانہ ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب جلد تھک گئے اور وہاں اپنی قبر کھودنے کاا علان کیا اور واپسی کی راہ اختیار کی۔ عمران خان 126دن تک ڈٹے رہے بالآخر اے پی ایس سانحہ کے وقوع پذیر ہونے پر اپنا دھرنا ختم کردیا، نواز شریف کی حکومت گرنے سے بچ گئی۔ عمران کاالزام تھا کہ 2013ء میں ان کو انتخابات میں ہروایا گیا ہے۔وہ چارحلقے کھولنے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔