تحریک عدم اعتماد جو عمران خان کے خلاف کامیاب ہوئی تھی ۔ عمران خان کی حکومت گر گئی تھی۔ عمران خان گھر چلے گئے تھے وہ ریورس ہونے جا رہی ہے۔ یہ کوئی قیاس آرائی نہیں ہے، کوئی افواہ نہیں ہے۔ بلکہ پکی خبر ہے۔کیوں سارا معاملہ ریورس ہونے جا رہا ہے؟ اوریا مقبول جان کی طرف سے ایک پروگرام میں کہا گیا ہے
عمران خان معاملات کو رفتہ رفتہ دھیرے دھیرے آگے بڑھا رہے ہیں ۔ حساسیت کی بقا پاکستانی کر رہے ہیں۔ ان کی طرف سے ایک مرتبہ کہا گیا کہ نیوٹرل صرف جانور ہوتا ہے۔اسے کچھ لوگوں نے فوج کی طرف اشارہ قرار دیا جو بار بار سیاسی معاملات میں نیوٹرل رہنے کی بات کرتے تھے۔ پی ٹی آئی کے حلقوں نے تردید کر دی کہ فوج کی طرف عمران خان کاروئے سخن نہیں تھا مگر آج یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان انہی کو کہہ رہے تھے۔ ایک تو شیریں مزاری نے کہا کہ نیوٹرل نیوٹرل نہیں رہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کابینہ کے ساتھ لندن میں ہیں۔کئی "نورے" الگ سے بھی گئے ہیں۔یہ نیا لندن پلان ہے ۔دیسی کابینہ نے ولایت میںبیٹھ کر فیصلے کئے۔میاں نواز شریف کی طرف سے اقتداری رفقاءکوئی ایسی ڈکٹیشن دینامقصود ہے جس کی سیاسی مخالفین اور آج کے حامی اداروں،ایجنسیوںکوبھنک تک نہ پڑ سکے۔کابینہ کے دس بارہ لوگ بڑی شان سے لندن گئے۔
”میں یورپ سے آیا ہوں، یونیورسٹی کے لئے لائی گئی مشینوں کو دیکھنا ہے۔ کمپنی نے آج ہی معائنے کے لیے کہا ہے“۔فون پراتنا ہی کہا گیا لیکن فون ریسیو کرنے والے کو پوری بات سمجھ آ گئی۔ ”میری اپنی بھی طے شدہ مصروفیات ہیں، کل شام سے پہلے ملاقات ناممکن ہے“۔اِس طرف سے جواب دیا گیا تو اگلے روز شام کا وقت ملاقات کے لئے طے پا گیا۔ مشینیں ایک سیکنڈے نیوین کنٹری سے قائداعظم یونیورسٹی میں استعمال کے نام پر لائی گئی تھیں۔ ایکس وائے زیڈ کمپنی کو درست مخبری ہوئی تھی کہ وہ کہیں اور استعمال ہو رہی ہیں۔
دبئی اور باکو میں مماثلتوں کی بات کریں تو دونوں کے مسلم ممالک ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں جدید طرز کی عمارتوں کی تعمیر، انکا امیر ہونااور ڈسکو کلبوں میں راتوں کاجاگنا شامل ہے۔ ترکی میں بھی یہ سب ”شرافات“ موجود ہیں۔ نائٹ کلبوں میں شباب کا عروج ہوتا ہے۔ شباب کے ساتھ کے لوازمات بھی دستیاب ہیں۔ باکومیں رات گئے ہوٹلوں کے سامنے اور شاپنگ مالز اور ریستورانوں کے باہر ٹیکسی ڈرائیور ڈسکو کلب تک فری لے جانے کی پیشکش کرتے ہیں۔ کچھ ٹاﺅٹ بھی" ڈسکو بوم" کے خاص الفاظ اداکرکے دعوت دیتے ہیں۔ڈسکو بوم ان کا کوڈ ہے۔
معزز قارئین! کافی عرصہ پہلے مرحوم مجید نظامی صاحب کی فرمائش پر میں نے ’’میرا پاکستان‘‘ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت میں کالم لکھے۔ پھر کچھ عرصہ کے لیے ملک سے باہر گیا تو یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ واپس آیا بھی تو یہ سلسلہ دوبارہ شروع نہ ہو سکا۔ صرف اچھے کالموں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ میری طرح کے لوگ جن کی عمریں پاکستان کے برابر ہیں انہوں نے بارہا پاکستان کو تاریخ کے نازک ترین موڑ پر دیکھا ہے اور آجکل ہم پھر اُسی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
فاروق احمد خان لغاری پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ناقابلِ فراموش اور" سبق آموز" کردار ہیں۔وہ بے نظیر بھٹو کے معتمد ساتھیوں میں سے تھے، محترمہ کی ان پر اعتماد کی انتہا تھی کہ دوسری مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پرمتمکن ہوئیں تو لغاری کو صدر پاکستان کا عہدہئ جلیلہ تفویض کردیا۔ اُس دور میں صدر اختیار ات کا منبع و محور تھا۔وہ 58ٹو بی حکومت توڑنے کے اختیارات سے لیس تھے۔ بے نظیر بھٹو کو اپنی حکومت کے خلاف اپنے صدر کی طرف سے ان اختیارات کے استعمال کا شائبہ تک نہیں تھا۔
اس ایک شخص کو سب مل کے گرانے چلے تھے، تیاری پوری تھی، شکنجہ بھی کس لیا تھا۔ مقتدر حلقے بھی زچ تھے، بڑا گھر بھی آن بورڈ تھا، باہر سے بھی آشیرباد حاصل تھی، سروے چیخ چیخ کے غیر مقبولیت کا پتہ دے رہے تھے۔ کوئی کہتا بزدار کیوں لگایا!! کوئی کہتا جہانگیر کو علیم کو ناراض کر دیا، کوئی کہتا فیض پہ ضد کی، اب اسکی خیر نہیں۔ کوئی ڈالر، تیل، مہنگائی، بجلی کی دہائی دیتا۔
جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں 15جون 1993ء کو سپریم کورٹ نے اوپر تلے تیس بتیس روز کیس کی سماعت کر کے میاں نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تھی۔ صدر اسحق خان نے 58ٹوبی کے تحت بیڈ گورننس اور کرپشن کے الزامات لگا کر اسمبلیاں توڑیں تو مسلم لیگ نے لاہور ہائیکورٹ میں کیس دائر کیا۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومت کی نمائندگی کرنیوالے واحد رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے انتہائی جوشیلا خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے حکومت قربان کی ہے لیکن غلامی قبول نہیں کی، عمران خان کا گناہ یہ ہے کہ اس نے سامراج کے سامنے کھڑے ہوکر ایبسولوٹلی ناٹ کہا، مجھے اس بات پر فخر ہے میرا لیڈر کھڑا رہا، جھکا نہیں،