مودی پر تنقید کی وجہ سے مالدیب کے معطل دو وزیر مستعفی

شمالی اور جنوبی کوریا میں کچرے کے بعد لاؤڈ سپیکر جنگ

پہلے جنم میں نریندر مودی سر سید احمد خان تھے، بھارتی میڈیا کا  اپنے دعوے کا اعادہ

دلہا نے کیا دلہن کا استقبال نوٹوں کے قالین سے

امریکہ نے 133چوری شدہ نوادرات پاکستان کو واپس کر دیں

معلومات

Title
دنیا میں ہوا بھی خالص نہیں رہی
واشن گٹن(ویب رپورٹ)عالمی ادارہٴ صحت کے ایک اندازے کے مطابق، 92 فی صد سے زیادہ افراد کو آلودہ ہوا میسر ہے، اور غیر معیاری ہوا ہر سال 60 لاکھ سے زائد افراد کی موت کا سبب بنتی ہے دنیا کی 90 فی صد سے بھی زیادہ آبادی کو فضائی آلودگی درپیش ہے، جس کے نتیجے میں تندرستی کے کئی ایک مسائل جنم لیتے ہیں۔دنیا کی اکثریتی اآبادی پہلے ہی خالص پانی سے محروم ہے،اب صاف ہوا بھی ان کی قسمت میں نہیں رہی۔ صحت پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے نیا ڈیٹا جاری کیا جس میں دکھایا گیا ہے یہ مسئلہ بڑے شہروں میں عام ہے۔ تاہم، عام لوگ سن کر حیران ہوں گے کہ دیہی علاقوں میں بھی ہوا کا معیار کتنا خراب ہوا ہے۔ ماریا نیرا، عالمی ادارے کے ’محکمہٴ صحتِ عامہ اور ماحولیات‘ کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ معاملہ ایسا ہے جس پر ہم سب کو شدید تشویش لاحق ہے‘‘۔ بقول اُن کے، ’’یہ صحت عامہ کی ہنگامی صورتِ حال ہے۔ ہوا کی آلودگی کے لیے کسی فوری حل کا اقدام موجود نہیں‘‘۔ عالمی ادارہٴ صحت کے ایک اندازے کے مطابق، 92 فی صد سے زیادہ افراد کو آلودہ ہوا میسر ہے، اور غیر معیاری ہوا ہر سال 60 لاکھ سے زائد افراد کی فوتگی کا سبب بنتی ہے۔ اِن میں سے تقریباً تمام اموات، یعنی 90 فی صد، نچلے اور متوسط طبقے پر مشتمل آبادی والے ملکوں میں واقع ہوتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار دنیا کے تقریباً 3000 مقامات سے حاصل کیے گئے، جن میں ہوا میں موجود مہین اور خطرناک ذرات کی پیمائش کی گئی۔ اقوام متحدہ کے صحت سے متعلق ادارے نے کھل کر یہ بتانے سے انکار کیا آیا اِس ضمن میں کس ملک کا آلودگی کا ریکارڈ بدترین ہے۔ تاہم، ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ اِس میں جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی بحر الکاہل کا خطہ، جس میں چین، ملائیشیا اور ویتنام شامل ہے دنیا کی اکثریتی اآبادی پہلے ہی خالص پانی سے محروم ہے
Title
برادر اسلامی ملک میں گھر ٹوٹنے لگے، طلاق کی شرح میں اتنا اضافہ کہ جان کر ہی آپ کے ہوش اڑ جائیں گے
قاہرہ : برادر اسلامی ملک مصر میںخاندانی زندگی مغرب کی ڈگر پر نظر آرہی ہے جہاں ہر 4 منٹ بعد ایک طلاق واقع ہو رہی ہے ۔ مصر کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں مصر میں طلاق کے رحجان میں غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں 1995ءسے 2015ءتک طلاق کے فروغ پذیر رحجان کے اسباب و محرکات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ 1996ءسے 1999ءکے دوران طلاق کی شرح فی ہزارایک اعشاریہ 2 فیصد رہی ہے تاہم یہ شرح 2000ءمیں کم ہو کر فی ہزار ایک اعشاریہ 1 فیصد پر آگئی تھی جس میں 2015ءمیں 1996ءکی نسبت 83 فی صد اضافہ ہوا اور یہ 2 اعشاریہ 2 فیصد پر جا پہنچی اور ایک سال میں طلاق کے 2 لاکھ واقعات رونما ہوئے۔ مصر میں ایک گھنٹے میں 2 اعشاریہ 6 طلاقیں اور 3 اعشاریہ 8سیکنڈ زمیں ایک طلاق ہوتی رہی ہے ۔ مردوں میں 20 سے 34 سال کی عمر کے افراد طلاق کی شرح 49.7 فی صد ہے جب کہ بیس سے کم عمر کے افراد میں یہ تناسب 0.4 فی صد ہے۔ 35 سے 49 اور 50 سے 64 سال کی عمر کے افراد میں طلاق کی شرح .50 فی صد ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں طلاق کی شرح 40 فی صد اور تعلیم یافتہ لڑکیوں میں طلاق کی شرح 34 فی صد ہے۔ مصر کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طلاق کے عوامل میں گھریلو تشدد، میاں بیوی میں سے کسی ایک کی بددیانتی، جسمانی ایذا رسانی، گھر کے دیگر افراد اور عزیزو اقارب کا میاں بیوی کے معاملات میں مداخلت کرنا، ناتجربہ کاری، عمروں میں غیرمعمولی فرق جیسے عوامل زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
Title
اسلامی ملک کے سربراہ کی سب سے بڑی تصویر بنا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا گیا، کون سا اسلامی ملک ہے؟ جان کر آپ کا سر بھی فخر سے بلند ہوجائے گا
جدہ:سعودی عرب نے خادم الحرمین الشریفین شاہ عبدالعزیز مرحوم کا سب سے بڑا پورٹریٹ تیار کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب کی وزارت تعلیم کی جانب سے سعودی عرب کے 86ویں قومی دن کے موقع پر جدہ میں قائم شاہ سعود الفیصل سکول میں خادم الحرمین الشریفین شاہ عبدالعزیز مرحوم کا دیو قامت پورٹریٹ تیار کیا گیا ۔ یہ پورٹریٹ سعودی آرٹسٹ محمد العسیری نے طویل محنت کے بعد کچی دھات الیکینوز سے تیار کیا ہے ۔ ۔ دو سو سولہ مربع میٹر پرپھیلی یہ تصویر کسی بھی سابق سربراہ مملکت کی اب تک کی سب سے بڑی تصویر ہے اور مسلسل چالیس روز تک تیاری کے عمل میں تصویرمیں الیکرولین رنگ استعمال کیے گئے۔ اب اسے دنیا کی سب سے بڑی پورٹریٹ کے طور پر گیینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
Title
فضاؤں میں چڑیاں اور سمندر میں کون سی مخلوق چہچہاتی ہے؟ ماہرین نے ایسی تحقیق کردی کہ جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے
پرتھ: آسٹریلوی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت ہواؤں میں صرف چڑیاں ہی نہیں چہچہاتیں بلکہ پانی میں مچھلیاں بھی چہچہاتی ہیں۔تفصیلات کے مطابق سائنسدانوں نے اب تک خشکی اور پانی میں پائے جانے والے 800 جانداروں کی ایسی اقسام دریافت کی ہیں جو مختلف آوازیں نکال کر آپس میں رابطہ کرتی ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب مچھلیوں کاپانی کے نیچے چہچانا دریافت کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی پرتھ میں ماہرینِ حیاتیات نے 18 ماہ تک مچھلیوں کی مختلف اقسام کا مطالعہ کیا اور دریافت کیا کہ صبح طلوع آفتاب اور شام میں سورج غروب ہوتے وقت مچھلیاں ایک ساتھ مل کر خاص آوازیں پیدا کرتی ہیں لیکن پانی میں ہونے کی وجہ سے ان کی آوازیں ایسے لگتی ہیں جیسے مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ مطالعے کے دوران ماہرین نے ایسی 7 آوازیں ریکارڈ کیں جن میں زیرِ آب ایک ساتھ چہچہاتی ہوئی مچھلیوں کی آوازیں صاف سنی جاسکتی ہیں۔مثلاً کلاؤن فش کی آواز جھینگر کی جھائیں جھائیں سے مماثلت رکھتی ہے جب کہ اوئسٹر ٹوڈفش کہلانے والی مچھلیوں کی آواز مینڈک کی ٹرٹراہٹ سے مشابہت رکھتی ہے۔ ان میں سے بعض مچھلیاں اپنے دانٹ کٹکٹاتی ہیں جب کہ کچھ اقسام کی مچھلیاں آوازیں پیدا کرنے کے لیے پھیپھڑوں کا استعمال کرتی ہیں۔

علاج

Title
ملک بھر وچ سکیورٹی سخت، لوکاں نوں شناختی کارڈ کول رکھن دی ہدایت

لاہور(منیٹرنگ)سیہون شریف دھماکے مگروں قانون نافذ کرن والے اداریاں نے سکیورٹی سخت کر دِتی اے۔ تفصیل دے مطابق لاہور وچ ڈی آئی جی آپریشنز حیدر اشرف نے ناکیاں اُتے سکیورٹی سخت کرن دے نال نال مشکوک بندیاں دی چیکنگ دی ہدایت وی کیتی اے۔ اوہناں نے آکھیا کہ شہری سفر دوران اپنے شناختی کارڈ اپنے نال رکھن۔ یاد رہوے کہ اج سیہون شریف وچ لعل شہباز قلندر دی درگاہ اُتے دھماکے سنے پچھلے 5دِنا دوران 7واں دہشت گردی دا واقعہ اے۔ جہدے پاروں ملک بھر دیاں سرکاری بلڈنگاں تے حساس علاقیاں دی سکیورٹی ہور سخت کر دِتی گئی اے۔

 
Title
اِک پردیسی یار بنایا

اِک پردیسی یار بنایا
اُڈیا باز تے فیر نئیں آیا
کیہہ کَٹھیا جس نیوں نئیں لایا
جس نے لایا او پچھتایا
رَل مِل مینُوں دیو وَدھائی
میرے ویہڑے جوگی آیا
کُجھ تے دَسّو کیہہ ہویا اے
مینوُں کیوں سب نیں پَرچایا
چنگی وا وچھوڑے والی
جس نیں ساہنُوں گَل نال لایا
“ب“ دے جھگڑے سارے مُک گئے
“ا“ اَکَلّا نظرِیں آیا
خیر دِیاں خبراں آون شالا
 واصفؔ دل دا پُھل کُملایا

انتخاب:بنتِ ہوا

Title
عمران خان نے حسین نواز دے 2انٹرویوز دے ٹرانسکرپٹ سپریم کورٹ وچ جمع کروا دِتے

اسلام آباد(مانیٹرنگ رپورٹ)پاناما کیس وچ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے حسین نواز دے دو انٹرویوز دے ٹرانسکرپٹ سپریم کورٹ وچ جمع کروا دِتے نیں۔ پی ٹی آئی دے وکیل نعیم بخاری نے متفرق درخاستاں نال انٹرویوز بارے وادھو دستاویزات جمع کروائیاں نیں۔ وسیلیاں دے مطابق وزیر اعظم نواز شریف دی پاناما کیس وچ ہور قانونی کارروائی مگروں عمران خان وی متحرک ہو گئے نیں۔

پاناما کیس وچ تحریک انصاف دے وکیل نعیم بخاری نے حسین نواز دے 2انٹرویوز دے ٹرانسکرپٹ سپریم کورٹ وچ جمع کروا دِتے نیں۔ وزیر اعظم دے پ±تر حسین نواز دے 19جنوری تے 4اپریل 2016دے انٹرویوز دے ٹرانسکرپٹ سپریم کورٹ وچ جمع کروائے گئے نیں۔پی ٹی آئی دے وکیل نعیم بخاری نے سپریم کورٹ توں استدعا کیتی اے کہ وادھو دستاویزی ثبوتاںنوں ریکارڈ دا حصہ بنایا جائے۔
 

Title
پی ٹی آئی یو ٹرن :پھیر لائن بدل گئی۔فوجی عدالتاں دی حمائیتاں

اسلاآباد (مانیٹرنگ رپورٹ) اک وار پھیر پی ٹی آئی اپوزیشن نال گل کرن تو بغیر”قبلہ“ بدل لتا۔عمران خان نے پہلے شیری مزاری نوں مخالفتاں لئی اگے کیتا اتے پھیر شاہ محمود قریشی کولوں اک ہور بیان دوا دتا۔پہلے آکھیا جاندا سی پئی حکومت سانوں دسے کہ اوس اپنا کم کیتا ہے اتے کڈا کیتا ہے۔اساں سرکار کولوں ضمانتاں چاہندے ہاں تانجے ریفارمز کرن دا ویلہ متھیا جائے۔جداں تیک سانوں پتہ نہیں چل سی اساں فوجی عدالتاں دی مخالفتاں کردے رواں گے۔پر ہن شاہ محمود پرانے دعوے تے دلیلاں بھل گئے نیں اتے ایس مسلہ تے اپوزیشن نوں وی پچھے بغیر کانٹا بدلدے ہوئے ہن فوجی عدالتاں دی حمائیتاں کر دتیاں نیں۔ انہاں آکھیا پئی سیکورٹی دی صورتحال بہوں خراب جے۔دوجے پاسے خیبر پی کے دے آئی جی پلس ناصر خان درانی ہوراں دنیا ٹی وی نوں انٹرویو دیندے ہوئے آکھیا فاٹا نوں ریگولیٹ کرن تو بغیرامن نہیں ہو سکدا۔انہاں دسیا پئی ایران وچ وی افغان مہاجر گئے سن پر انہاں نوں کیمپاں وچ رکھیا گیا سی پر اساں افغان مہاجراں نوں بغیر اطلاع دتے پورے ملک وچ آون جاون دی اجازتاں دتیاں۔انہاں اپنی صوبائی سرکار نوں آکھیا پئی پنجاب وچ پلس دے شہید نوں اک کڑوڑ روپئیے دتے جاندے نیں جد کہ خیبر پختونخواہ وچ نرے30لکھ دتے جاندے نیں جس پاروں جواناں وچ بددلی ودھدی ہے۔شاہ محمود قریشی جے اپنے آئی جی پلس کولوں ہی بریفنگ لے لیندے تے اوہ فوجی عدالتاں دی حمائیتاں دے نال نال ات گردیاں دا شکار صوبے دے مسلیاں بارے وی کجھ کر سکدے۔اک دوجے ٹی وی شو وچ خزانے دے وزیر دسیا پئی دو یا تن سالاں لئی فوجی عدالتاں نوں جاری جاری ر کھیاجائے گا اتے ایس عرصہ وچ عدالتی بندوبست نوں ٹھیک کرنا ہو سی۔
 

عکس

Title
ٹھنڈا گوشت افسانہ سعادت حسن منٹو

ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔

کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالبا اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا، ہاتھ میں کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کیبعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔

کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ جوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور کچھ زیادہ ہی اوپر کو اٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں، بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔

ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا، سر پر اسکی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ جو کرپان کو تھامے ہوئے تھے، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے مگر اسکے قدوقامت اور خدوخال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کیلئے موزوں ترین مرد ہے۔

چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی سے گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اسقدر کہہ سکی ” ایشر سیاں”
ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کیطرف دیکھا مگر اسکی نگاہوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔
کلونت کور چلائی ” ایشر سیاں ” لیکن فورا ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ سے اٹھ کر اسکی جانب جاتے ہوئے بولی ” کہاں رہے تم اتنے دن؟ ”
ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری، مجھے معلوم نہیں۔

کلونت کور بھنا گئی۔ یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے۔
ایشر سنگھ نے کرپان ایکطرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کیطرف دیکھا جو اب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اسکے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا ” جانی کیا ہوا ہے تمہیں؟

ایشر سنگھ چھت کیطرف دیکھ رہا تھا اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ کلونت ”
آواز میں درد تھا، کلونت ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آ گئی۔ ہاں جانی۔ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔

ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کو سہارا لینے والے نگاہوں سے دیکھا۔ اسکے گوشت بھرے کولہے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا ” یہ کڑی یا دماغ خراب ہے”
جھٹکا دینے سے اسکے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا ” ایشر سیاں کہاں رہے تم اتنے دن؟
برے کی ماں کے گھر۔ ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتا دونوں ہاتھوں سے اسکے ابھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ قسم واہگورو کی، بڑی جاندار عورت ہو۔

کلونت کور نے ایک ادا کیساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایکطرف جھٹک دیے اور پوچھا، تمہیں میری قسم، بتاؤ کہاں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر گئے تھے؟
ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کو جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ نہیں۔
کلونت کور چڑ گئی، نہیں تم ضرور شہر گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم نے بہت سا روپیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔
وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔

کلونت کور تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہو گئی، لیکن فورا ہی بھڑک اٹھی۔
لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا،اس رات تمہیں ہوا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ سارے گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بپھیاں لے رہے تھے، پر جانے ایکدم تمہیں کیا ہوا، اٹھے کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔

ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا۔ دیکھا، کیسے رنگ نیلا پڑ گیا۔ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔
تیری جان کی قسم، کچھ بھی نہیں۔
ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ” ایشر سیاں، کیا بات ہے؟َ تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟

ایشر سنگھ ایکدم اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اس پر حملہ کیا تھا۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے ساتھ بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ جانی میں وہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھٹ گھٹ پا جپھیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی، تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟
برے کیا ماں کا وہ ہو گیا تھا۔

بتاؤ گے نہیں؟
کوئی بات ہو تو بتاؤں۔
مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولوں۔
ایشر سنگھ نے اپنے بازو اسکی گردن میں ڈال دیے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں پر گاڑ دیے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آ گئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔

ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوانی نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ” آ جاؤ ایک بازی تاش کی ہو جائے۔
کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کیساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا۔ چل دفعان ہو۔
ایشر سنگھ نے اسکے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایکطرف ہٹ گئی۔ نہ کر ایشر سیاں، میرے درد ہوتا ہے۔

ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا ” لو پھر ہو جائے ترپ کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جسطرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، اسی طرح اسکو اتار کر ایکطرف رکھدیا۔ پھر اس نے گھور کے اسکے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔ کلونٹ ، قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔

کلونت کور اپنے بازو پر اھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی، بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں۔
ایشر سنگھ اپنے گھنی مونچھوں میں مسکرایا۔ ہونے دے آج ظلم۔ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کر کئے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ ابھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا۔

بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنیوالے چانٹے مارے۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔ چوس چوس کر اسکا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کیطرح ابلنے لگی۔ لیکن اشیر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گر اور جتنے داؤ اسے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کیطرح استعمال کر دیے پر کوئی کارگر نہ ہوا۔

کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خودبخود بج رہے تھے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا، ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا، اب پتا پھینک۔

یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اسکے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہی ہوتا رہا تھا، لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضاء کو سخت نا امیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی۔ اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھیلا کر بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ایشر سیاں، وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھ کو نچوڑ ڈالا ہے؟

ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
کلونت کور غصے سے ابلنے لگی۔ میں پوچھتی ہوِں، کون ہے وہ چڈو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے وہ الفتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے وہ چور پتا؟
ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔
کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کیساتھ کہا، ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہگورو جی کی قسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟

ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی، قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تکا بوٹی کر دونگی اگر تو نے جھوٹ بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لے اب کھا واہگورو کی قسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟

ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کیساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ کلونت کور بالکل دیوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کیطرح اتار کر ایکطرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا۔

آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیوں کیطرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کیبعد نقاہٹ بھری التجا کی، جانے دے اب کلونت، جانے دے۔

آواز میں بلا کا درد تھا۔ کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔
خون ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کیطرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔

میری جان، تم نے بہت جلدی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔
کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا، مگر وہ کون ہے؟ تمہاری ماں۔
لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اسکا ذائقہ چکھا تو اسکے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کرپان سے۔
کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی، میں پوچھتی ہوں۔کون ہے وہ حرام زادی؟
ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔
گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔
کلونت چلائی۔ میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟
ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی، بتاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔ انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔
کلونت کور اسکے جواب کی منتظر تھی، ایشر سیاں تو مطلب کی بات کر۔

ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلا چرا ہے ماں یا میرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔
اور جب وہ بات بتانے لگا تو اسکے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت، میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کیطرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔

ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا، جس مکان پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دھاوا بولا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سات آدمی تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھ میں نے قتل کر دیے اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکی تھی بہت سندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔

کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایکبار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ کلونت جانی میں تم سے کیا کہوں کتنی سندر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا، نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔

کلونت کور نے اسقدر کہاں، ہوں،
اسے میں کندھے پر ڈال کر چل دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راستے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں راستے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس، تھوہر کی چھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے ایشر کی زبان سوکھ گئی۔

کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ پھر کیا ہوا؟
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے، میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا پھینکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن
اسکی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھجھوڑا، پھر کیا ہوا؟
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کیطرف دیکھا، جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی، وہ مری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاش تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔

 

Title
محبت حلال یا حرام ۔۔۔۔ ویلنٹائن ڈے سپیشل

رات کا آخری پہر تھا ، وہ دونوں مزے کی نیند سو? ہوئے تھے ، ، ، ،۔
 نوجوان کی آنکھ کھلی ،اس نے کمرے میں جلتی مدھم لائٹ میں کلاک کو دیکھا ، ، اوہ ،،،! بہت لیٹ ہو گئے ، ، اس نے سوچا ، ، ، ابھی اور آرام کر لیں !! نہیں ، ،اس نے اس خیال کو جھٹکا اور ا±ٹھ کر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ، ، ، ، وہ غسل کر کے باہر نکلا تو اس نے ایک محبت بھری نگاہ اپنی منکوحہ پر ڈالی اور محبت بھری آواز سے اسے بیدار کرنا چاہا ، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا ، وہ دوبارہ باتھ روم میں داخل ہوا،اپنے ہاتھ گیلے کیے اور واپس ا?کر ایک چھینٹا اپنے منکوحہ کے منہ پر مارا ،، اس نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں۔وہ مسکرایا اور اسے تہجد کے لیے خبردار کیا ، ، !!۔۔۔۔۔

یہ تھی وہ محبت بھری کوشش۔۔۔ اس مبارک جوڑے کی۔۔۔۔۔ کہ جس پر اللہ تعالیٰ بھی فرشتوں سے فخر فرماتے ہیں اور ان کی بخشش کا اعلان فرماتے ہیں ، ان پر خاصی رحمتِ الٰہی کا نزول ہو رہا تھا۔۔!!!۔۔ایک پاکیزہ محبت ، ،!!!۔۔۔۔۔۔۔۔

چودہ فروری کی ایک تاریک شام۔ ، ،۔۔۔!۔۔۔

اسے بار بار لوّ میسج وصول ہو رہا تھا ، اس نے مسکرا کر اسے اوکے کر دیا اور گھر سے نکلنے کی ترکیب سوچنے لگی۔۔ !۔

تھوڑی دیر بعد۔۔۔
وہ اپنے یونیورسٹی فیلو کے ساتھ ایک جدید ھوٹل میں بیٹھی آئس کریم کھا رہی تھی۔۔۔ !۔۔۔۔
! !۔۔
 غیر محرم ہوتے ہوئے اس ملاپ سے ان پر لعنت اللہ تعالیٰ کی طرف سے برس رہی تھی۔۔ لعن اللہ الناظر و المنظور الیہ۔۔۔۔مگر وہ دونوں اس سے بے خبر تھے۔۔۔۔ وہ اللہ تعالیٰ کے غیر محرموں سے اجتناب کے احکامات کی دھجیاں ا±ڑا کر اللہ تعالیٰ کے غضب اور قہر میں داخل ہو رہے تھے , ,اور اللہ کے عذاب کا کوڑا کسی بھی وقت ، کسی شکل میں ان پر برس سکتا تھا۔۔۔ ، ، ، ،

وہ اس کے حسن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا ، شہوت اس کی آنکھوں میں ناچ رہی تھی۔۔۔
آو¿ ، ، ،۔۔۔
ڈنر کے لیے میں نے ایک سیپریٹ کمرے میں بندوبست کروایا ہے۔۔ ، ،
اور وہ دونوں ایک خوبصورت ، ویل فرنشڈ کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔۔۔
 مگر اسے معلوم نہ تھا کہ آج جو اس کا مدعی عشق ہے ، وہ کل کا بڑا بلیک میلر ثابت ہو گا ، اور کمرے میں لگے خفیہ کیمرے سے بنی ہوئی ایچ ڈی ویڈیو جہاں اس کے نام نہاد محبوب کے لیے کمائی کا ذریعہ ہو گی، وہیں وہ اس کی معصوم زندگی کو تلخ اور ناکام بنا دے گی ، ، ،۔۔۔۔۔۔
 مگر اس وقت تو اس کی آنکھوں پر جھوٹی محبت اور مغربی تہذیب کی نقل کا ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ۔۔۔۔اسے اپنی عزت ،اپنے خاندان کی عزت کے ا±ٹھتے ہوئے جنازے کا بھی احساس تک نہ تھا۔۔۔ اور وہ ایک ایسی بند گلی میں پھنس چکی تھی جہاں سے واپسی ناممکن تھی ، ، ، ،۔۔۔۔۔۔

مگر وہ خوش تھی ،۔۔۔
ناجائز اظہار ِ محبت کی آزادی پر۔۔۔
ایک بےحیائ دن # ویلنٹائن ڈے#
کی یاد تازہ کرنے پر۔۔۔

 بہت بڑی قیمت چکانے کے باوجود ۔ ۔ ۔ !!

کاش کوئی اس کو سمجھاتا تو آج اندھیروں اور ناکامیوں کے سفر سے وہ بچ جاتی ، ، ،۔۔۔۔۔۔۔

۔ ۔ یا اللہ اُمّتِ مسلمہ کی بچیوں کی حفاظت فرما ۔ ۔ ۔!!۔ ۔ آمین ، !!!۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔

bintehawa727@gmail.com

ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔

Title
لحاف:آخر اس لحاف میں تھا کیا۔۔۔۔۔۔

جب میں جاڑوں میں لحاف اوڑھتی ہوں، تو پاس کی دیوا روں پر اس کی پرچھائیں ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ایک دم سے میرا دماغ بیتی ہوئی دنیا کے پردوں میں دوڑنے بھاگنے لگتا ہے۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔
معاف کیجئے گا، میں آپ کو خود اپنے لحاف کا رومان انگیز ذکر بتانے نہیں جا رہی ہوں۔ نہ لحاف سے کسی قسم کا رومان جوڑا ہی جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں کمبل آرام دہ سہی، مگر اس کی پرچھائیں اتنی بھیانک نہیں ہوتی جب لحاف کی پرچھائیں دیوار پر ڈگمگا رہی ہو۔

یہ تب کا ذکر ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور دن بھر بھائیوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ مارکٹائی میں گزار دیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتاکہ میں کم بخت اتنی لڑاکا کیوں ہوں۔ اس عمر میں جب کہ میری اور بہنیں عاشق جمع کر رہی تھیں...اور میں اپنے پراۓ ہر لڑکے اور لڑکی سے  بیزاری میں مشغول تھی۔
یہی وجہ تھی کہ اماں جب آگرہ جانے لگیں، تو ہفتے بھر کے لۓ مجھے اپنی منہ بولی بہن کے پاس چھوڑ گئیں۔ ان کے یہاں اماں خوب جانتی تھی کہ چوہے کا بچہ بھی نہیں ہے اور میں کسی سے لڑ بھڑ نہ سکوں گی۔ سزا تو خوب تھی! ۔

ہاں تو اماں مجھے بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ وہی بیگم جان جن کا لحاف اب تک میرے ذہن میں گرم لوہے کے داغ کی طرح محفوظ ہے۔ یہ بیگم جان تھیں جن کے غریب ماں باپ نے نواب صاحب کو اسی لۓ داماد بنالیا کہ وہ پکی عمر کے تھے۔ مگر تھے نہایت نیک۔ کوئی رنڈی بازاری عورت ان کے یہاں نظر نہیں آئی۔ خود حاجی تھے اور بہتوں کو حج کرا چکے تھے۔ مگر انہیں ایک عجیب و غریب شوق تھا۔ لوگوں کو کبوتر پالنے کا شوق ہوتا ہے، بٹیرے لڑاتے ہیں، مرغ بازی کرتے ہیں۔ اس قسم کے واہیات کھیلوں سے نواب صاحب کو نفر ت تھی۔ ان کے یہاں تو بس طالب علم رہتے تھے۔ نوجوان گورے گورے پتلی کمروں کے لڑکے جن کا خرچ وہ خود برداشت کرتے تھے۔
مگر بیگم جان سے شادی کر کے تو وہ انہیں کل ساز و سامان کے ساتھ ہی گھر میں رکھ کر بھول گۓ اور وہ بے چاری دبلی پتلی نازک سی بیگم تنہائی کے غم میں گھلنے لگی۔
نہ جانے ان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ وہاں سے جب وہ پیدا ہونے کی غلطی کر چکی تھی، یا وہاں سے جب وہ ایک نواب بیگم بن کر آئیں اور چھپر کھٹ پر زندگی گزارنے لگیں۔ یا جب سے نواب صاحب کے یہاں لڑکوں کا زور بندھا۔ ان کے لۓ مرغن حلوے اور لذیذ کھانے جانے لگے اور بیگم جان دیوان خانے کے درزوں میں سے ان لچکتی کمروں والے لڑکوں کی چست پنڈلیاں اور معطر باریک شبنم کے کرتے دیکھ دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگیں۔
یا جب سے، جب وہ منتوں مرادوں سے ہار گئیں، چلے بندھے اور ٹوٹکے اور راتوں کی وظیفہ خوانی بھی چت ہو گئی۔ کہیں پتھر میں جونک لگتی ہے۔ نواب صاحب اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوۓ۔ پھر بیگم جان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ علم کی طرف متوجہ ہوئیں لیکن یہاں بھی انہیں کچھ نہ ملا۔ عشقیہ ناول اور جذباتی اشعار پڑھ کر اور بھی پستی چھاگئی۔ رات کی نیند بھی ہاتھ سے گئی اور بیگم جان جی جان چھوڑ کر بالکل ہی یاس و حسرت کی پوٹ بن گئیں۔ چولہے میں ڈالا ایسا کپڑا لتا۔ کپڑا پہنا جا تا ہے، کسی پر رعب گانٹھنے کے لۓ۔ اب نہ تو نواب صاحب کو فرصت کہ شبنمی کرتوتوں کو چھوڑ کر ذرا ادھر توجہ کریں اور نہ وہ انہیں آنے جانے دیتے۔ جب سے بیگم جان بیاہ کر آئی تھیں رشتہ دار آکر مہینوں رہتے اور چلے جاتے۔ مگر وہ بے چاری قید کی قید رہتیں۔
پھرتیلے چھوٹے چھوٹے ہاتھ، کسی ہوئی چھوٹی سی توند۔ بڑے بڑے پھولے ہوۓ ہونٹ، جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے اور جسم میں عجیب گھبرانے والی بو کے شرارے نکلتے رہتے تھے اور یہ نتھنے تھے پھولے ہوۓ، ہاتھ کس قدر پھرتیلے تھے، ابھی کمر پر، تو وہ لیجۓ پھسل کر گۓ کولھوں پر، وہاں رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔

میں تو جب بھی بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی دیکھتی کہ اب اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
گرمی جاڑے بیگم جان حیدر آبادی جالی کارگے کے کرتے پہنتیں۔ گہرے رنگ کے پاجامے اور سفید جھاگ سے کرتے اور پنکھا بھی چلتا ہو۔ پھر وہ ہلکی دلائی ضرور جسم پر ڈھکے رہتی تھیں۔ انہیں جاڑا بہت پسند تھا۔ جاڑے میں مجھے ان کے یہاں اچھامعلوم ہوتا۔ وہ ہلتی جلتی بہت کم تھیں۔ قالین پر لیٹی ہیں۔ پیٹھ کھج رہی ہے۔ خشک میوے چبا رہی ہیں اور بس۔ ربو سے دوسری ساری نوکرانیاں خار کھاتی تھیں۔ چڑیل بیگم جان کے ساتھ کھاتی، ساتھ اٹھتی بیٹھتی اور ماشاءاللہ ساتھ ہی سوتی تھی۔ ربو اور بیگم جان

عا م جلوؤں اور مجموعوں کی دلچسپ گفتگو کا موضوع تھیں۔ جہاں ان دونوں کا ذکر آیا اور قہقہے اٹھے۔ یہ لوگ نہ جانے کیا کیا چٹکے غریب پر اڑاتے۔ مگر وہ دنیا میں کسی سے ملتی نہ تھیں۔ وہاں تو بس وہ تھیں اور ان کی کھجلی۔
میں نے کہا کہ اس وقت میں کافی چھوٹی تھی اور بیگم جان پر فدا۔ وہ مجھے بہت ہی پیار کرتی تھیں۔ اتفاق سے اماں آگرے گئیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اکیلے گھر میں بھائیوں سے مار کٹائی ہوگی۔ ماری ماری پھروں گی۔ اس لۓ وہ ہفتے بھر کے لۓ بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ میں بھی خوش اور بیگم جان بھی خوش۔ آخر کو اماں کی بھابھی بنی ہوئی تھیں۔
سوال یہ اٹھا کہ میں سوؤں کہاں؟ قدرتی طور پر بیگم جان کے کمرے میں۔ لہذا میرے لۓ بھی ان کے چھپر کھٹ سے لگا کر چھوٹی سی پلنگڑی ڈال دی گئی۔ گیارہ بجے تک تو باتیں کرتے رہے، میں اور بیگم جان تاش کھیلتے رہے اور پھر میں سونے کے لۓ اپنے پلنگ پر چلی گئی اور جب میں سوئی تو ربو ویسی ہی بیٹھی ان کی پیٹھ کھجا رہی تھی۔ ”بھنگن کہیں کی۔“ میں نے سوچا۔ رات کو میری ایک دم سے آنکھ کھلی تو مجھے عجیب طرح کا ڈر لگنے لگا۔ کمرہ میں گھپ اندھیرا اور اس اندھیرے میں بیگم جان کا لحاف ایسے ہل رہا تھا جیسے اس میں ہاتھی بند ہو۔ بیگم جان…. میں نے ڈری ہوئی آواز نکالی، ہاتھ ہلنا بند ہو گیا۔ لحاف نیچے دب گیا۔
”کیا ہے، سو رہو….“ بیگم جان نے کہیں سے آواز دی۔
”ڈر لگ رہا ہے۔“ میں نے چوہے کی سی آواز سے کہا۔
”سو جاؤ۔ ڈر کی کیابات ہے۔ آیت الکرسی پڑھ لو۔“
”اچھا…. میں نے جلدی جلدی آیت الکرسی پڑھی مگر یَعْلَمُ مَا بَیْنَ پر دفعتاً آکر اٹک گئی۔ حالانکہ مجھے اس وقت پوری یاد تھی۔
”تمہارے پاس آجاؤں بیگم جان۔“
”نہیں بیٹی…. سو رہو….“ ذرا سختی سے کہا۔
اور پھر دو آدمیوں کے کھسر پھسرکرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ہاۓ رے دوسرا کون…. میں اور بھی ڈری۔
”بیگم جان….چور تونہیں۔“
”سوجاؤ بیٹا…. کیسا چور….“ ربو کی آواز آئی۔ میں جلدی سے لحاف میں منہ ڈال کر سو گئی۔
صبح میرے ذہن میں رات کے خوفناک نظارے کا خیال بھی نہ رہا۔ میں ہمیشہ کی وہمی ہوں۔ رات کو ڈرنا۔ اٹھ اٹھ کر بھاگنا اور بڑبڑانا تو بچپن میں روز ہی ہوتا تھا۔ سب تو کہتے تھے کہ مجھ پر بھوتوں کا سایہ ہوگیا ہے۔ لہٰذا مجھے خیال بھی نہ رہا۔ صبح کو لحاف بالکل معصوم نظر آرہا تھا مگر دوسری رات میری آنکھ کھلی تو ربو اور بیگم جان میں کچھ جھگڑا بڑی خاموشی سے چھپڑ کھٹ پر ہی طے ہو رہا تھا اور مجھے خاک سمجھ نہ آیا۔ اور کیا فیصلہ ہوا، ربو ہچکیاں لے کر روئی پھر بلی کی طرح چڑ چڑ رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔ اونہہ میں گھبرا کر سو گئی۔۔
ان رشتہ داروں کو دیکھ کر اور بھی ان کا خون جلتا تھا کہ سب کے سب مزے سے مال اڑانے، عمدہ گھی نگلنے، جاڑوں کا ساز و سامان بنوانے آن مرتے اور باوجود نئی روئی کے لحاف کے بڑی سردی میں اکڑا کرتیں۔ ہر کروٹ پر لحاف نئی نئی صورتیں بنا کر دیوار پر سایہ ڈالتا۔ مگر کوئی بھی سایہ ایسا نہ تھا جو انہیں زندہ رکھنے کے لۓ کافی ہو۔ مگر کیوں جۓ پھر کوئی، زندگی! جان کی زندگی جو تھی، جینا بدا تھا نصیبوں میں، وہ پھر جینے لگیں اور خوب جئیں
ربو نے انہیں نیچے گرتے گرتے سنبھال لیا۔ چپ پٹ دیکھتے دیکھتے ان کا سوکھا جسم ہرا ہونا شروع ہوا۔ گال چمک اٹھے اور حسن پھوٹ نکلا۔ ایک عجیب وغریب تیل کی مالش سے بیگم جان میں زندگی کی جھلک آئی۔ معاف کیجۓ، اس تیل کا نسخہ آپ کو بہترین سے بہترین رسالہ میں بھی نہ ملے گا۔
جب میں نے بیگم جان کو دیکھا تو وہ چالیس بیالیس کی ہوں گی۔ اُفوہ کس شان سے وہ مسند پر نیم دراز تھیں اور ربو ان کی پیٹھ سے لگی کمر دبا رہی تھی۔ ایک اودے رنگ کا دوشالہ ان کے پیروں پر پڑا تھا اور وہ مہارانوں کی طرح شاندار معلوم ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کی شکل بے انتہا پسند تھی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ گھنٹوں بالکل پاس سے ان کی صورت دیکھا کروں۔ ان کی رنگت بالکل سفید تھی۔ نام کو سرخی کا ذکر نہیں اور بال سیاہ اور تیل میں ڈوبے رہتے تھے۔ میں نے آج تک ان کی مانگ ہی بگڑی نہ دیکھی۔ مجال ہے جو ایک بال ادھر ادھر ہو جاۓ۔ ان کی آنکھیں کالی تھیں اور ابرو پر کے زائد بال علیحدہ کردینے سے کمانیں سے کچھی رہتی تھیں۔ آنکھیں ذرا تنی ہوئی رہتی تھیں۔ بھاری بھاری پھولے پپوٹے موٹی موٹی آنکھیں۔ سب سے جو ان کے چہرے پر حیرت انگیز جاذبیت نظر چیز تھی، وہ ان کے ہونٹ تھے۔ عموماً وہ سرخی سے رنگے رہتے تھے۔ اوپر کے ہونٹوں پر ہلکی ہلکی مونچھیں سی تھیں اور کنپٹیوں پر لمبے لمبے بال کبھی کبھی ان کا چہرہ دیکھتے دیکھتے عجیب سا لگنے لگتا تھا۔ کم عمر لڑکوں جیسا!….
ان کے جسم کی جلد بھی سفید اور چکنی تھی۔ معلوم ہوتا تھا، کسی نے کس کر ٹانکے لگا دۓ ہوں۔ عموماً وہ اپنی پنڈلیاں کھجانے کے لۓ کھولتیں، تو میں چپکے چپکے ان کی چمک دیکھا کرتی۔ ان کا قد بہت لمبا تھا اور پھر گوشت ہونے کی وجہ سے وہ بہت ہی لمبی چوڑی معلوم ہوتی تھیں لیکن بہت متناسب اور ڈھیلا ہوا جسم تھا۔ بڑے بڑے چکنے اور سفید ہاتھ اور سڈول کمر، تو ربو ان کی پیٹھ کھجایا کرتی تھی۔ یعنی گھنٹوں ان کی پیٹھ کھجاتی۔ پیٹھ کھجوانا بھی زندگی کی ضروریات میں سے تھا بلکہ شاید ضرورت زندگی سے بھی زیادہ۔
ربو کو گھر کا اور کوئی کام نہ تھا بس وہ سارے وقت ان کے چھپر کھٹ پر چڑھی کبھی پیر، کبھی سر اور کبھی جسم کے دوسرے حصے کو دبایا کرتی تھی۔ کبھی تو میرا دل ہول اٹھتا تھا جب دیکھو ربو کچھ نہ کچھ دبا رہی ہے، یا مالش کر رہی ہے۔ کوئی دوسرا ہوتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔ میں اپنا کہتی ہوں، کوئی اتنا چھوۓ بھی تو میرا جسم سڑ گل کے ختم ہو جاۓ۔
اور پھر یہ روز روز کی مالش کافی نہیں تھی۔ جس روز بیگم جان نہاتیں۔ یا اللہ بس دو گھنٹہ پہلے سے تیل اور خوشبودار ابٹنوں کی مالش شروع ہو جاتی اور اتنی ہوتی کہ میرا تو تخیل سے ہی دل ٹوٹ جاتا۔ کمرے کے دروازے بند کرکے انگیٹھیاں سلگتیں اور چلتا مالش کا دور اور عموماً صرف ربو ہی رہتی۔ باقی کی نوکرانیاں بڑبڑاتی دروازہ پر سے ہی ضرورت کی چیزیں دیتی جاتیں۔
بات یہ بھی تھی کہ بیگم جان کو کھجلی کا مرض تھا۔ بے چاری کو ایسی کھجلی ہوتی تھی اور ہزاروں تیل اور ابٹن ملے جاتے تھے مگر کھجلی تھی کہ قائم۔ ڈاکٹر حکیم کہتے کچھ بھی نہیں۔ جسم صاف چٹ پڑا ہے۔ ہاں کوئی جلد اندر بیماری ہو تو خیر۔ نہیں بھئی یہ ڈاکٹر تو موۓ ہیں پاگل۔ کوئی آپ کے دشمنوں کو مرض ہے۔ اللہ رکھے خون میں گرمی ہے۔ ربو مسکرا کر کہتی اور مہین مہین نظروں سے بیگم جان کو گھورتی۔ اوہ یہ ربو…. جتنی یہ بیگم جان گوری، اتنی ہی یہ کالی تھی۔ جتنی یہ بیگم جان سفید تھیں، اتنی ہی یہ سرخ۔ بس جیسے تپا ہوا لوہا۔ ہلکے ہلکے چیچک کے داغ۔ گٹھا ہوا ٹھوس جسم۔ پھرتیلے چھوٹے چھوٹے ہاتھ، کسی ہوئی چھوٹی سی توند۔ بڑے بڑے پھولے ہوۓ ہونٹ، جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے اور جسم میں عجیب گھبرانے والی بو کے شرارے نکلتے رہتے تھے اور یہ نتھنے تھے پھولے ہوۓ، ہاتھ کس قدر پھرتیلے تھے، ابھی کمر پر، تو وہ لیجۓ پھسل کر گۓ کولھوں پر، وہاں رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب بھی بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی دیکھتی کہ اب اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
آج ربو اپنے بیٹے سے ملنے گئی ہوئی تھی۔ وہ بڑا جھگڑالو تھا۔ بہت کچھ بیگم جان نے کیا۔ اسے دکان کرائی،گاؤں میں لگایا مگر وہ کسی طرح مانتا ہی نہ تھا۔ نواب صاحب کے یہاں کچھ دن رہا۔ خوب جوڑے بھاگے بھی بنے۔ نہ جانے کیوں ایسا بھاگا کہ ربو سے ملنے بھی نہ آتا تھا۔ لہٰذا ربو ہی اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں اس سے ملنے گئی تھی۔ بیگم جان نہ جانے دیتی مگر ربو بھی مجبور ہو گئی۔
سارا دان بیگم جان پریشان رہیں۔ اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا رہا۔ کسی کا چھونا بھی انہیں نہ بھاتا تھا۔ انہوں نے کھانا بھی نہ کھایا اور سارا دن اداس پڑی رہیں۔
”میں کھجا دوں سچ کہتی ہوں“۔ میں نے بڑے شوق سے تاش کے پتے بانٹتے ہوۓ کہا۔ بیگم جان مجھے غور سے دیکھنے لگیں۔
میں تھوڑی دیر کھجاتی رہی اور بیگم جان چپکی لیٹی رہیں۔ دوسرے دن ربو کو آنا تھا مگر وہ آج بھی غائب تھی۔ بیگم جان کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا۔ چاۓ پی پی کر انہوں نے سر میں درد کرلیا۔
میں پھر کھجانے لگی، ان کی پیٹھ…. چکنی میز کی تختی جیسی پیٹھ۔ میں ہولے ہولے کھجاتی رہی۔ ان کا کام کرکے کیسی خوش ہوتی تھی۔
”ذرا زور سے کھجاؤ…. بند کھول دو“ بیگم جان بولیں۔
ادھر…. اے ہے ذرا شانے سے۔ نیچے…. ہاں…. وہاں بھئی واہ…. ہا…. ہا…. وہ سرور میں ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لے کر اطمینان کا اظہار کرنے لگیں۔
”اور ادھر…. حالانکہ بیگم جان کا ہاتھ خوب جا سکتا تھا مگر وہ مجھ سے ہی کھجوا رہی تھیں اور مجھے الٹا فخر ہو رہا تھا“ یہاں …. اوئی…. تم تو گدگدی کرتی ہو…. واہ….“ وہ ہنسیں۔ میں باتیں بھی کر رہی تھی اور کھجا بھی رہی تھی۔
تمہیں کل بازار بھیجوں گی….کیا لوگی…. وہی سوتی جاگتی گڑیا۔
نہیں بیگم جان…. میں تو گڑیا نہیں لیتی…. کیا بچہ ہوں اب میں….“
بچہ نہیں تو کیا بوڑھی ہو گئی…. وہ ہنسیں…. گڑیا نہیں تو ببوا لینا….کپڑے پہنانا خود۔ میں دوں گی تمہیں بہت سے کپڑے سنا….“ انہوں نے کروٹ لی۔
”اچھا“ میں نے جواب دیا۔
”ادھر“۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر جہاں کجھلی ہو رہی تھی، رکھ دیا۔ جہاں انہیں کھجلی معلوم ہوتی وہاں رکھ دیتی اور میں بے خیالی میں ببوے کے دھیان میں ڈوبی مشین کی طرح کھجاتی رہی اور وہ متواتر باتیں کرتی رہیں۔
”سنو تو….تمہاری فراکیں کم ہو گئی ہیں۔ کل درزی کو دے دوں گی کہ نئی سی لاۓ۔ تمہاری اماں کپڑے دے گئی ہیں۔“
”وہ لال کپڑے کی نہیں بنواؤں گی…. چماروں جیسی ہے۔“ میں بکواس کر رہی تھی اور میرا ہاتھ نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم بھی نہ ہوا۔ بیگم جان تو چت لیٹی تھیں…. ارے…. میں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
”اوئی لڑکی….دیکھ کر نہیں کھجاتی…. میری پسلیاں نوچے ڈالتی ہے۔“ بیگم جان شرارت سے مسکرائیں اور میں جھینپ گئی۔
ادھر آکر میرے پاس لیٹ جا….“ انہوں نے مجھے بازوپر سر رکھ کر لٹا لیا۔
اے ہے کتنی سوکھ رہی ہے۔ پسلیاں نکل رہی ہیں۔ انہوں نے پسلیاں گننا شروع کردیں۔
”اوں….“ میں منمنائی۔
”اوئی…. تو کیا میں کھا جاؤں گی….کیسا تنگ سویٹر بُنا ہے!“ گرم بنیان بھی نہیں پہنا تم نے…. میں کلبلانے لگی۔
”کتنی پسلیاں ہوتی ہیں….“ انہوں نے بات بدلی۔
”ایک طرف نو اور ایک طرف دس“ میں نے اسکول میں یاد کی ہوئی ہائی جین کی مدد لی۔ وہ بھی اوٹ پٹانگ۔
”ہٹالو ہاتھ….ہاں ایک….دو….تین….“
میرا دل چاہا کس طرح بھاگوں…. اور انہوں نے زور سے بھینچا۔
”اوں…. “ میں مچل گئی…. بیگم جان زور زور سے ہنسنے لگیں۔ اب بھی جب کبھی میں ان کا اس وقت کا چہرہ یاد کرتی ہوں تو دل گھبرانے لگتا ہے۔ ان کی آنکھوں کے پپوٹے اور وزنی ہوگۓ۔ اوپر کے ہونٹ پر سیاہی گھری ہوئی تھی۔ باوجود سردی کے پسینے کی ننھی ننھی بوندیں ہونٹوں پر اور ناک پر چمک رہی تھیں۔ اس کے ہاتھ یخ ٹھنڈے تھے۔ مگر نرم جیسے ان پر کھال اتر گئی ہو۔ انہوں نے شال اتار دی اور کارگے کے مہین کرتے میں ان کا جسم آٹے کی لونی کی طرح چمک رہا تھا۔ بھاری جڑاؤ سونے کے گرین بٹن گربیان کی ایک طرف جھول رہے تھے۔ شام ہو گئی تھی اور کمرے میں اندھیرا گھٹ رہا تھا۔ مجھے ایک نا معلوم ڈر سے وحشت سی ہونے لگی۔ بیگم جان کی گہری گہری آنکھیں۔ میں رونے لگی دل میں۔ وہ مجھے ایک مٹی کے کھلونے کی طرح بھینچ رہی تھیں۔ ان کے گرم گرم جسم سے میرا دل ہولانے لگا مگر ان پر تو جیسے بھتنا سوار تھا اور میرے دماغ کا یہ حال کہ نہ چیخا جاۓ اور نہ رہ سکوں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پست ہوکر نڈھال لیٹ گئیں۔ ان کا چہرہ پھیکا اور بد رونق ہو گیا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔ میں سمجھی کہ اب مریں یہ اور وہاں سے اٹھ کر سرپٹ بھاگی باہر۔
شکر ہے کہ ربو رات کو آگئی اور میں ڈری ہوئی جلدی سے لحاف اوڑھ کر سو گئی مگر نیند کہاں۔ چپ گھنٹوں پڑی رہی۔
اماں کسی طرح آہی نہیں چکی تھیں۔ بیگم جان سے مجھے ایسا ڈر لگتا تھا کہ میں سار ا دن ماماؤں کے پاس بیٹھی رہی مگر ان کے کمرے میں قدم رکھتے ہی دم نکلتا تھا اور کہتی کس سے اور کہتی ہی کیا کہ بیگم جان سے ڈر لگتا ہے۔ بیگم جان جو میرے اوپر جان چھڑکتی تھیں۔
آج ربو میں اور بیگم جان میں پھر ان بن ہوگئی…. میری قسمت کی خرابی کہیے یا کچھ اور مجھے ان دونوں کی ان بن سے ڈر لگا۔ کیونکہ رات ہی بیگم جان کو خیال آیا کہ میں باہر سردی میں گھوم رہی ہوں اور مروں گی نمونیے میں۔
”لڑکی کیا میرا سر منڈواۓ گی۔ جو کچھ ہوا ہو گیا، تو اور آفت آۓ گی۔“
انہوں نے مجھے پاس بٹھالیا۔ وہ خود منہ ہاتھ سلفچی میں دھو رہی تھیں، چاۓ تپائی پر رکھی تھی۔
”چاۓ تو بناؤ…. ایک پیالی مجھے بھی دینا…. وہ تولیے سے منہ خشک کر کے بولیں ذرا کپڑے بدل لوں۔“
وہ کپڑے بدلتی رہیں اور میں چاۓ پیتی رہی۔ بیگم جان نائن سے پیٹھ ملواتے وقت اگر مجھے کسی کام سے بلواتیں، تو میں گردن موڑے جاتی اور واپس بھاگ آتی۔ اب جو انہوں نے کپڑے بدلے، تو میرا دل الٹنے لگا۔ منہ موڑے میں چاۓ پیتی رہی۔
”ہاۓ اماں…. میرے دل نے بے کسی سے پکارا…. آخر ایسا بھائیوں سے کیا لڑتی ہوں جو تم میری مصیبت…. اماں کو ہمیشہ سے میرا لڑکوں کے ساتھ کھلینا ناپسند ہے۔ کہو بھلا لڑکے کیا شیر چیتے ہیں جو نگل جائیں گے ان کی لاڈلی کو؛ اور لڑکے بھی کون؟ خود بھائی اور دو چار سڑے سڑاۓ۔ ان ذرا ذرا سے ان کے دوست مگر نہیں، وہ تو عورت ذات کو سات سالوں میں رکھنے کی قائل اور یہاں بیگم جان کی وہ دہشت کہ دنیا بھر کے غنڈوں سے نہیں۔ بس چلتا، سو اس وقت سڑک پر بھاگ جاتی، پھر وہاں نہ ٹکتی مگر لاچار تھی۔ مجبور کلیجہ پر پتھر رکھے بیٹھی رہی۔“
کپڑے بدل کر سولہ سنگھار ہوۓ اور گرم گرم خوشبوؤں کے عطر نے اور بھی انہیں انگارا بنا دیا اور وہ چلیں مجھ پر لاڈ اتارنے۔
”گھر جاؤں گی….“ میں نے ان کی ہر راۓ کے جواب میں کہا اور رونے لگی۔ ”میرے پاس تو آؤ…. میں تمہیں بازار لے چلوں گی…. سنو تو….“۔
مگر میں کلی کی طرح پھسل گئی۔ سارے کھلونے، مٹھائیاں ایک طرف اور گھر جانے کی رٹ ایک طرف۔
”وہاں بھیا ماریں گے …. چڑیل….“ انہوں نے پیار سے مجھے تھپڑ لگایا۔
”پڑیں ماریں بھیا…. میں نے سوچا اور روٹھی اکڑتی رہی۔ ”کچی امیاں کھٹی ہوتی ہیں بیگم جان….“ جلی کٹی ربو نے راۓ دی اور پھر اس کے بعد بیگم جان کو دورہ پڑ گیا۔ سونے کا ہار جو وہ تھوڑی دیر پہلے مجھے پہنا رہی تھیں، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ مہین جالی کا دوپٹہ تار تار اور وہ مانگ جو میں نے کبھی بگڑی نہ دیکھی تھی، جھاڑ جھنکاڑ ہو گئی۔
”اوہ …. اوہ اوہ اوہ….“ وہ جھٹکی لے لے کر چلانے لگیں۔ میں رپٹی باہر۔
بڑے جتنوں سے بیگم جان کو ہوش آیا۔ جب میں سونے کے لۓ کمرے میں دبے پیر جا کر جھانکی، تو ربو ان کی کمر سے لگی جسم دبا رہی تھی۔
”جوتی اتار دو…. اس نے اس کی پسلیاں کھجاتے ہوۓ کہا اور میں چوہیا کی طرح لحاف میں دبک گئی۔“
سر سر پھٹ کج…. بیگم جان کا لحاف اندھیرے میں پھر ہاتھی کی طرح جھوم رہا تھا۔
”اللہ آں….“ میں نے مری ہوئی آواز نکالی۔ لحاف میں ہاتھی چھلکا اور بیٹھ گیا۔ میں بھی چپ ہوگئی۔ ہاتھی نے پھر لوٹ مچائی۔ میرا رواں رواں کانپا۔ آج میں نے دل میں ٹھان لیا کہ ضرور ہمت کرکے سرہانے لگا ہوا بلب جلا دوں۔ ہاتھ پھڑپھڑا رہا تھا اور جیسے اکڑوں بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چپڑ چپڑ کچھ کھانے کی آواز آرہی تھیں۔ جیسے کوئی مزے دار چٹنی چکھ رہا ہو۔ اب میں سمجھی! یہ بیگم جان نے آج کچھ نہیں کھایا اور ربو مردی تو ہے سدا کی چٹو۔ ضرور یہ تر مال اڑا رہی ہے۔ میں نے نتھنے پھلا کر سوں سوں ہوا کو سونگھا۔ سواۓ عطر صندل اور حنا کی گرم گرم خوشبو کے اور کچھ محسوس نہ ہوا۔
لحاف پھر امنڈنا شروع ہو ا۔ میں نے بہیترا چاہا کہ چپکی پڑی رہوں۔ مگر اس لحاف نے تو ایسی عجیب عجیب شکلیں بنانی شروع کیں کہ میں ڈر گئی۔ معلوم ہوتا تھا غوں غوں کرکے کوئی بڑا سا مینڈک پھول رہا ہے اور اب اچھل کر میرے اوپر آیا۔
آ….ن….اماں…. میں ہمت کرکے گنگنائی۔ مگر وہاں کچھ شنوائی نہ ہوئی اور لحاف میرے دماغ میں گھس کر پھولنا شروع ہوا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پلنگ کے دوسری طرف پیر اتارے اور ٹٹول ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبایا۔ ہاتھی نے لحاف کے نیچے ایک قلابازی لگائی اور پچک گیا۔ قلابازی لگانے میں لحاف کا کونہ فٹ بھر اٹھا۔
اللہ! میں غڑاپ سے اپنے بچھونے میں آئی۔

عصمت چغتائی

Title
کھول دو" سعادت حسن منٹو کا افسانہ جس پر مقدمہ دائر کیا گیا۔


امر تسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی، راستے میں کئی آدمی مارے گئے، متعدد زخمی اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔
صبح دس بجے ۔۔۔۔کیمپ کی ٹھنڈی زمین پرجب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں، اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہوگئیں، وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا، یو تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا، لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے، اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا، کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا تھا، کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے، اسے کچھ سنائی نہیں دیتا ہے، اس کے حوش و حواس شل تھے، اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کی طرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں، تیز روشنی اس کے وجود کے رگ و ریشے میں اتر گئی اور وہ جاگ اٹھا، اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں، لوٹ، آگ۔۔۔۔۔بھاگم بھاگ۔۔۔۔۔اسٹیشن۔۔۔۔گولیاں ۔۔۔۔رات اور سکینہ۔۔۔سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھلیے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھٹکانا شروع کیا۔
پورے تین گھنٹے وہ سکینہ سکینہ پکارتا کیمپ کی خاک چھانتا رہا، مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیٹی کا پتہ نہ چل سکا،چاروں طرف ایک دھاندلی سی مچی ہوئی تھی، کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئی ماں، کوئی بیوی اور کوئی بیٹی، سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ گیا، اور حافظے پر زور دینے لگا، کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی تھی لیکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکینہ کی ماں کی لاش پر جا کر جم جاتا ہے، جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں، اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔
سکینہ کی ماں مر چکی تھی، اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا، لیکن سکینہ کہاں تھی، جس کے متعلق اس کی ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا، مجھے چھوڑ دو اور سکینہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جا۔
سکینہ اس کے ساتھی ہی تھی، دونوں ننگے پاں بھاگ رہے تھے، سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا، اسے اٹھانے کیلئے سراج الدین نے رکنا چاہا مگر سکینہ نے چلا کر کہا ابا جی ۔۔۔۔۔چھوڑئیے، لیکن اس نے دوپٹہ اٹھا لیا تھا۔۔۔یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی بھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اور میں ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔سکینہ کا وہی دوپٹا تھا۔۔۔۔لیکن سکینہ کہاں تھی؟
سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا، کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن لے آیا تھا؟۔۔۔۔کیا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار تھی؟۔۔۔ راستہ میں جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کیا وہ بے ہوش تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کر لئے گئے؟
سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے، جواب کوئی بھی نہیں تھا، اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی، لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے، سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی، سراج الدین نے رونا چاہا، مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی، آنسو جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کیلئے تیار تھے، آٹھ نوجوان تھے، جن کے پاس لاری تھی، بندوقیں تھیں، سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا، گورا رنگ ہے، بہت ہی خوبصورت ہے ۔۔۔۔مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی۔۔۔۔عمر سترہ برس کے قریب اکلوتی لڑکی ہے، ڈھونڈ لا، تمہارا خدا بھلا کرے گا۔
رضاکار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدین کو یقین دلایا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہوگی۔
آٹھوں نوجوانوں نے کوشش کی، جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ امرتسر گئے، کئی عورتوں کء مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا، دس روز گزر گئے مگر انہیں سکینہ نہ ملی۔ایک روز وہ اسی خدمت کیلئے لاری پر امر تسر جا رہے تھے، کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہیں ایک لڑکی دکھائی دی، لاری کی آواز سن کر وہ بدکی اور بھاگنا شروع کردیا، رضاکاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اس کے پیچھے بھاگے، ایک کھیت میں انہوں نے لڑکی کو پکڑ لیا، دیکھا تو بہت ہی خوبصورت تھی، دہنے گال پر موٹا تل تھا، ایک لڑکے نے اس سے کہا گھبرا نہیں۔۔۔۔۔۔کیا تمہارا نام سکینہ ہے؟
لڑکی کا رنگ اور بھی زرد ہوگیا، اس نے کوئی جواب نہ دیا، لیکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم سلاسہ دیا تو اسکی وحشت دور ہوئی اس نے مان لیا کہ وہ سراج الدین کی بیٹی سکینہ ہے۔آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے سکینہ کی دل جوئی کی، اسے کھانا کھلایا، دودھ پلایا، اور لاری میں بیٹھا دیا، ایک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا، کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہی تھی، اور بار بار بانہوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔ کئی دن گزر گئے ۔۔۔۔۔۔۔سراج الدین کو سکینہ کی کوئی خبر نہ ملی، وہ دن بھر مختلف کمیپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا، لیکن کہیں سے بھی اسکی بیٹی سکینہ کا پتہ نہ چلا سکا، رات کو وہ بہت دیر تک ان رضاکر نوجوانوں کی کامیابی کیلئے دعائیں مانگتا رہا، جنہوں نے اسکو یقین دلایا تھا کہ اگر سکینہ زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں وہ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔
ایک روز سراج الدین نے کیمپ میں ان نوجوان رضا کاروں کو دیکھا، لاری میں بیٹھے تھے، سراج الدین بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا، لاری چلنے والی تھی کہ اس نے پوچھا بیٹا میری سکینہ کا پتہ چلا؟سب نے یک زبان ہو کر کہا چل جائے گا، چل جائے گا اور لاری چلادی۔
سراج الدین نے ایک بار پھر ان نوجوانوں کی کامیابی کیلئے دعا مانگی اور اس کا جی کس قدر ہلکا ہوگیا، شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا، اس کے پاس ہی کچھ گڑبڑ سی ہوئی چار آدمی کچھ اٹھا کر لارہے تھے، اس نے دریافت کیا تو معلوم ہو کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑی تھی، لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں، سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہولیا، لوگوں نے لڑکی کو اسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گئے۔
کچھ دیر بعد ایسے ہی اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا، کمرے میں کوئی نہیں تھا، ایک اسٹیریچر تھا، جس پر ایک لاش پڑی تھی، سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا، کمرے میں دفعتا روشنی ہوئی سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہو تل دیکھا اور چلایا، سکینہ۔
ڈاکٹر نے جس نے کمرے میں روشنی کی تھی، سراج الدین سے پوچھا کیا ہے؟سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا، جی میں ۔۔۔۔۔ جی میں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا باپ ہوں۔ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا کھڑکی کھول دو۔
سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی ، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دیا، بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا، زندہ ہے۔۔۔۔۔۔میری بیٹی زندہ ہے۔۔۔۔ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا

روحانیت

Title
حضرت شیخ العالم خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ​ کی حالاتِ زندگی

لاہور(مہرماہ رپورٹ):پاک و ہند میں اسلام صوفیائے کرام کی مساعی جمیلہ سے پھیلا ۔ اس خطے میں ان مردانِ با خدا کا وجود مسعود اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام تھا (اور بفضلہ تعالیٰ اب بھی ہے) ۔ برصغیر میں مسلمان سلاطین نے کم و بیش ایک ہزار سال تک حکومت کی ، اس دوران میں ہندوؤں نے اسلامی کلچر کو نقصان پہنچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر صوفیا کرام کی مسلسل تبلیغی کوششوں کے سامنے وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے ۔ پروفیسر ایچ آر گب نے کتنا صحیح لکھا ہے:

تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا ، لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہو سکا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ صوفیا کا انداز فکر فوراً اس کی مدد کو آ جاتا تھا اور اس کو اتنی قوت اور توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔

(اسلامک کلچر مطبوعہ لندن)

صوفیا کرام کا ہاتھ ہمیشہ ملت کی نبض پر اور دماغ تجدید و احیا کی تدابیر سوچنے میں مصروف رہا ۔ مادیت کے سیلاب کو روکنے اور ذہنی انتشار کو ختم کرنے کا جو عظیم الشان کام اس جماعت نے سرانجام دیا وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔

بلاشبہ ان بزرگوں نے جب کبھی قوم کا اخلاقی مزاج بگڑتا ہوا دیکھا تو اپنی تمام تر ذہنی اور عملی صلاحیتیں صحت مند عناصر کو ابھارنے میں صرف کر دیں۔

حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کو جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی میں تبلیغ و ہدایت کے منصب پر مامور فرمایا تو اس وقت حالات نہایت ہی نامساعد تھے ، سلطان التمش کی وفات ہو چکی تھی ، بڑے بڑے علما موقع سے فائدہ اٹھا کر میدانِ سیاست میں کود پڑے تھے ۔ لیکن حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے سیاسی بکھیڑوں سے بچ کر دینِ حق کی خاطر جو شاندار خدمات سر انجام دیں ، وہ آج بھی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھی ہوئی نظر آتی ہیں۔

حضرت بابا صاحب دہلی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے سجادے پر بیٹھے تھے ، لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ دارالسلطنت کا ماحول تبلیغ و ترویج پر اثر انداز ہونے لگا ہے تو وہ دہلی چھوڑ کر ہانسی تشریف لے گئے ۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ کے پیر و مرشد نے یہی مقام آپ کو دیا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا ” میرے پیر نے جو نعمت مجھے عطا فرمائی وہ کسی خاص مقام سے وابستہ نہیں ہے”

(سیر الاولیا صفحہ 73)

حضرت بابا صاحب پہلے ہانسی اور بعد میں اجودھن تشریف لے گئے ۔ اجودھن پاک پتن کا پرانا نام ہے ۔ یہاں بابا صاحب نے اپنی تربیت خاص کے سانچے میں ڈھال کر جو لوگ تیار کئے ان میں شیخ جمال الدین ہانسوی ، شیخ بدر الدین اسحاق ، شیخ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی ، شیخ علی احمد صابر کلیری اور شیخ عارف جیسے مردان حق شامل ہیں جو بابا ساحب کے مکتبِ صحبت سے فارغ ہونے کے بعد ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے اور ہر طرف خدا کے دین کا بول بالا کر دیا۔

بابا صاحب کا شجرہ نسب

تمام تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ صحیح النسل فاروقی ہیں ۔ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ان کا سلسلہ نسب اس طرح مل جاتا ہے؛

1۔۔حضرت شیخ جمال الدین سلیمان والد

2۔ شیخ شعیب

3۔ شیخ احمد

4۔ شیخ یوسف

5۔ شیخ محمد

6۔ شیخ شہاب الدین

7 شیخ احمد  ۔معروف بہ فرخ شاہ بادشاہ کابل 

8۔ شیخ نصیر الدین

9۔ محمود شاہ

10۔ سامان شاہ

11۔ شیخ سلیمان

12۔ شیخ مسعود

13۔ شیخ عبداللہ واعظ الاکبر

14۔ شیخ ابوالفتح

15۔ شیخ اسحاق

16۔ حضرت خواجہ ابراہیم شاہ بلخ

17۔ خواجہ ادھم

18۔ شیخ سلیمان

19۔ شیخ ناصر

20۔ حضرت عبداللہ

21۔ امیر المومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ؛

والدین کریمین

بابا صاحب کے دادا حضرت شیخ شعیب کو اللہ تعالیٰ نے تین فرزند عنایت فرمائے۔

1۔ خواجہ جمال الدین سلیمان

2۔ خواجہ احمد

3۔ خواجہ سعد حاجی

خواجہ جمال الدین سلیمان حضرت بابا صاحب کے والد تھے جو نہایت عالم و فاضل اور دیندار بزرگ تھے ۔ جن دنوں خواجہ شعیب کھتوال میں سکونت پذیر تھے ، انہی دنوں نواحِ کابل سے ایک خاندان ہجرت کر کے قصبہ کوٹ کروڑ (نواح ملتان) اقامت گزیں ہوا ۔ اس خاندان کے سربراہ مولانا وجیہہ الدین خجوندی تھے ، جو معتبر عالم اور نہایت متقی بزرگ تھے ۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت عباس بن عبدالمطلب سے ملتا تھا ۔ ان کی صاحبزادی قرسم خاتون تھیں ۔ خواجہ شعیب نے مولانا وجیہہ الدین خجوندی سے اپنے فرزند خواجہ سلیمان کے لیے بی بی قرسم خاتون کے رشتے کی درخواست کی ۔ مولانا خجوندی فوراً رضامند ہو گئے ۔ اس طرح خواجہ سلیمان اور بی بی قرسم خاتون کا عقد عمل میں آیا۔

خواجہ سلیمان کی طرح حضرت بی بی قرسم خاتون بھی نہایت عبادت گزار اور شب زندہ دار خاتون تھیں۔ اکثر تذکرہ نگاروں نے لکھا کہ وہ کثرتِ عبادت کی بدولت درجہ ولایت پر فائز تھیں۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی فرماتے ہیں کہ ایک رات بی بی قرسم خاتون نماز تہجد میں مشغول تھیں کہ ایک چور گھر میں گھس آیا۔ جونہی بی بی صاحبہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہو گیا ۔ اس پر اس نے گریہ و زاری شروع کر دی اور کہنے لگا کہ جس نیک بخت کی بددعا سے میری بینائی سلب ہوئی ہے میں اس سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میری بینائی دوبارہ مجھے مل جائے تو میں عمر بھر چوری نہ کروں گا۔

بی بی صاحبہ کو اس کی فریاد اور گریہ زاری پر ترس آگیا اور انہوں نے بارگاہ الہی میں اس کی بینائی کے لیے دعا کی۔ چور کی بصارت عود کر آئی۔ اس وقت بی بی صاحبہ کے قدموں میں گر کر معافی مانگی اور رخصت ہو گیا۔

اگلی صبح وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ حاضر خدمت ہوا اور اہل و عیال سمیت مشرف باسلام ہو گیا ۔ حضرت بی بی صاحبہ نے اس کا اسلامی نام عبداللہ رکھا۔ عبد اللہ قبول اسلام کے بعد کثرت مجاہدات و ریاضات کی بدولت درجہ ولایت پر پہنچا اور اسے خاندانِ خواجہ شعیب کی طرف سے “چاولے مشائخ” کا لقب عطا ہوا۔ بعد میں قصبہ کھتوال اسی کے نام سے “چاولے مشائخ” سے مشہور ہو گیا۔

حضرت خواجہ شعیب اور خواجہ سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے تین فرزند اور ایک صاحبزادی عطا فرمائی جن کے نام یہ ہیں

1۔ حضرت عزیز الدین رحمۃ اللہ علیہ

2۔ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ

3۔ حضرت نجیب الدین متوکل

4۔ حضرت بی بی ہاجرہ ملقب بہ جمیلہ خاتون ۔والدہ ماجدہ حضرت مخدوم سید علاوالدین علی احمد صابر کلیری

ابتدائی تعلیم

حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ ابھی کم سن تھے کہ ان کے والد ماجد نے وفات پائی اور ان کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری ان کی والدہ محترمہ کے سر پر آ پڑی ۔ وہ خود علم و فضل کے اعتبار سے بلند مقام رکھتی تھیں ۔ انہوں نے نہایت توجہ سے اپنے لخت جگر کی پرورش اور تربیت کی ۔ بابا صاحب نے ابتدائی تعلیم کھتوال سے حاصل کی ۔ نہایت ذہین اور محنتی تھے ۔ جو سبق ایک دفعہ پڑھ لیتے ہمیشہ کے لیے ذہن نشین ہو جاتا۔

بابا صاحب بچپن میں ہی نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ بدتمیز اور شرارتی بچوں کے ساتھ نہ کھیلتے تھے ۔ انکی والدہ کی تربیت کا یہ عالم تھا کہ کم سنی میں ہی نماز کے سخت پابند ہو گئے تھے۔ سات سال کی عمر میں انہوں نے تمام ابتدائی دینی کتب ختم کر لیں تو والدہ کو ان کی مزید تعلیم کی فکر ہوئی۔ کھتوال میں کوئی ایسا عالم نہ تھا جو آپ کو علوم متداولہ کی تکمیل کرا سکتا۔ ملتان ان دنوں علم و دانش کا مرکز تھا ، وہاں بڑے بڑے نامور علما موجود تھے ، چنانچہ بابا صاحب کی والدہ نے انہیں مزید تعلیم کے لیے ملتان بھیج دیا۔

ملتان میں قیام

ملتان پہنچ کر آپ نے ایک مسجد میں قیام کیا۔ یہ مسجد ایک سرائے میں واقع تھی ، جہاں اس دور کے ایک نامور عالمِ دین مولانا منہاج الدین ترمذی درس دیا کرتے تھے۔ بابا صاحب نے انہی سے علوم دینہ کی تعلیم شروع کی اور دو تین سال کے اندر اندر تفسیر ، حدیث ، اصول ، معانی ، فلسفہ ، منطق ، ریاضی اور ہیئت کی کتابیں ختم کر لیں ۔ ایک روایت ہے کہ انہوں نے قرآن مجید بھی اسی مسجد میں حفظ کیا (بعض تذکرہ نگاروں کے مطابق قرآن حکیم بابا صاحب نے کھتوال ہی میں حفظ کر لیا تھا)۔

اسی مسجد میں ایک روز بابا صاحب فقہ کی مشہور کتاب نافع پڑھ رہے تھے کہ قطب عالم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ وہاں تشریف لائے ۔ انہوں نے بابا صاحب کو مصروف مطالعہ پا کر پوچھا ؛ میاں ! کیا پڑھتے ہو؟

آپ نے جواب دیا نافع! حضرت نے پھر سوال کیا : کیا اس کے مطالعہ سے تمہیں کچھ نفع حاصل ہو گا؟

اب جو بابا صاحب کی قطب عالم سے نظریں چار ہوئیں تو عجیب کیفیت ہوئی ، فوراً قدموں پر سر رکھ دیا اور عرض کیا : حضرت نفع تو مجھے آپ کی نگاہِ کیمیا اثر سے حاصل ہو گا!۔۔۔۔۔۔

اب کیا تھا ۔ بابا صاحب حضرت خواجہ قطب صاحب کے دامن دولت سے وابستہ ہو گئے۔ حضرت قطب صاحب جتنے روز ملتان مقیم رہے بابا صاحب ان کی صحبت سے مستفیذ ہوتے رہے ، جب قطب صاحب دہلی کے لئے روانہ ہونے لگے تو بابا صاحب بھی ان کے ساتھ چل دیئے ۔ ابھی چند میل ہی چلے ہوں گے کہ قطب صاحب نے ارشاد فرمایا:

“میرے عزیر! ابھی کچھ مدت اور علم ظاہری کی تحصیل میں صرف کرو۔ فارغ ہو جاؤ تو میرے پاس آ جانا۔ ان شاء اللہ اپنی مراد کو پہنچو گے” بابا صاحب نے پیر و مرشد کے اس ارشاد کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔

ملتان سے تکمیلِ علوم کے بعد انہوں نے مزید پانچ سال تعلیم کے لیے خطہ قندھار ، غزنی ، بغداد ، سیوستان اور بدخشاں وغیرہ میں گزارے اور پھر دہلی میں آئے۔ جہاں حضرت قطب صاحب کے آستانے پر حاضری دی۔ قطب صاحب نے فرمایا : ” خوب ہوا۔ تم اپنا کام پورا کر کے میرے پاس آئے”۔

بعض تذکروں میں یہ بھی ہے کہ بابا صاحب نے دہلی آ کر حضرت قطب صاحب کی بیعت کی۔ خود ” فوائد السالکین” میں بابا صاحب نے اپنی بیعت کا واقعہ اس طرح سے بیان کیا ہے ؛

جب اس بندہ حقیر خادمِ درویشاں کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی نعمتِ قدم بوسی حاصل ہوئی ، تو آپ نے اسی وقت کلاہ چہار ترکی میرے سر پر رکھی۔ اس مجلس میں قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا علاوالدین کرمانی ، سید نور الدین مبارک رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ نظام الدین الموید ، مولانا شمس الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ محمود موئنہ دوز اور بہت سے دوسرے درویش موجود تھے۔ اسی موقع پر حضرت خواجہ بختیار کاکی نے فرمایا : “اے فرید! مرشد میں اتنی قوت باطنی ضرور ہونی چاہیے کہ جو شخص اس سے بیعت کا طالب ہو اس کے سینے کی آلائش کو اپنے تصرفِ روحانی سے ایک ہی نگاہ میں دور کر دے اور اس کے بعد اس سے بیعت لے کر واصل الی اللہ کر دے۔ اگر مرشد میں اتنی قوت نہیں تو پیر اور مرید دونوں بادیہ ضلالت میں ہیں”

بعض تذکرہ نگاروں نے قیاساً لکھا ہے کہ قطب صاحب نے ملتان میں بابا صاحب سے رسمی بیعت لی اور جب وہ تعلیم و سیاحت سے فارغ ہو کر دہلی آئے تو ان کے سر پر کلاہ چہار ترکی رکھی اور باقاعدہ اپنے حلقہ ارادت میں شامل فرمایا۔

بابا صاحب نے دیکھا کہ دہلی میں ہجوم مرداں کی وجہ سے یکسوئی میسر نہیں تو مرشدِ کامل کی اجازت سے ہانسی چلے گئے ، لیکن وہاں سے دہلی آتے جاتے رہے۔

ایک دفعہ آپ دہلی آئے تو خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف فرما تھے ۔ چناچہ آپ ان کی توجہ سے فیض یاب ہوئے۔ “سیر العارفین” میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بابا صاحب کے ذوق و شوق اور روحانی استعداد سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ان کے پیر و مرشد اور اپنے مرید و خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے فرمایا :

“بابا بختیار! شہباز عظیم بقید آوردہ کہ جز بہ سدرۃ المنتہے آشیاں نگیرد۔

این فرید شمعیست کہ خانوادہ درویشاں منور سازد”

(سیر العارفین صفحہ 23)

گنج شکر

گنج شکر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے مختلف روایات لکھی ہیں یہاں پر صرف تین روایتیں درج کی جاتی ہیں۔

تاریخ فرشتہ میں مرقوم ہے کہ بابا صاحب کی والدہ ماجدہ بچپن میں نماز کی پابندی کرانے کے لئے ان کی جا نماز کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیا کرتی تھیں اور ان سے فرماتی تھیں کہ جو نماز پڑھتے ہیں ، ان کی جا نماز کے نیچے سے روزانہ انکو شکر مل جاتی ہے ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ والدہ شکر کی پڑیا رکھنا بھول گئیں۔ کچھ دیر بعد انہیں یاد آیا تو گھبرا کر پوچھا : مسعود ! تم نے نماز پڑھی؟ بابا صاحب نے ادب سے جواب دیا : ہاں امی جان ! نماز پڑھ لی اور شکر بھی کھا لی ۔ یہ جواب سن کر انکی والدہ بڑی حیران ہوئیں اور سمجھ گئیں کہ اس بچے کی غیب سے مدد ہوئی ہے ۔ چنانچہ اس وقت سے انہوں نے اپنے بچے مسعود کو گنج شکر کہنا شروع کر دیا۔

اخبار الاخیار ، خزینۃ الاصفیا اور گلزار ابرار میں لکھا ہے کہ ایک سوداگر گاڑی پر شکر لاد کر ملتان سے دہلی جا رہا تھا ، جب اجودھن پہنچا تو راستے میں حضرت شیخ کھڑے تھے آپ نے اس سے پوچھا کہ اس میں کیا لدا ہوا ہے؟ سوداگر نے ٹالنے کے لیے کہا: نمک ہے بابا اس ہر آپ نے فرمایا : اچھا نمک ہی ہو گا ۔ سوداگر نے منزل پر پہنچ کر جب دیکھا تو بوروں میں شکر کے بجائے نمک تھا۔ بہت پریشان ہوا اور پھر واپس منزل اجودھن حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور معافی طلب کی ۔ آپ نے فرمایا : جھوٹ بولنا بری بات ہے ۔ آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ پھر فرمایا : بوروں میں شکر تھی تو ان شا اللہ شکر ہی ہو گی۔

سوداگر نے جھوٹ سے توبہ کی اور جا کر بوروں کو دیکھا تو ان میں شکر بھری ہوئی تھی۔ بیرم خان خانخاناں نے اس واقعہ کو اس طرح نظم کیا ہے

کانِ نمک ، جہانِ شکر ۔ شیخ بحر و بر

آں کز شکر نمک کند داز نمک شکر

تیسری روایت اس طرح سے ہے کہ :

ایک دفعہ بابا صاحب نے اپنے پیر و مرشد حضرت قطب صاحب کے ارشاد کے مطابق تین دن کا روزہ رکھا ۔ تیسرے روز افطار کے وقت ایک شخص چند روٹیاں لایا۔ آپ نے غیبی امداد سمجھ کر ان سے روزہ افطار کر لیا۔ لیکن فوراًبا ہی متلی ہونے لگی اور جو کچھ کھایا تھا قے کے ذریعے نکل گیا۔

تھوڑی دیر بعد پیر و مرشد کی خدمت میں پہنچ کر یہ واقعہ عرض کیا ۔ انہوں نے فرمایا وہ روٹیاں ایک شرابی جواری نے بھجوائی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تیرے معدے نے اسے قبول نہیں کیا ۔ اب تین روزے اور رکھو اور جو غیب سے میسر آئے اس سے افطار کرو۔

بابا صاحب نے تین دن کا روزہ رکھا ۔ لیکن تیسرے روز افطار کے وقت کچھ میسر نہ آیا ۔ رات کو بھوک نے بہت ستایا تو بابا صاحب نے چند کنکریاں اٹھا کر منہ میں رکھ لیں ۔ اللہ کی قدرت کہ وہ کنکریاں منہ میں جاتے ہی شکر بن گئیں۔ بابا صاحب نے یہ واقعہ اپنے مرشد کریم کی خدمت میں بیان کیا تو انہوں نے فرمایا:

“سبحان اللہ ، یہی غیب سے تھا ۔ ان شا اللہ تو شکر کی طرح ہمیشہ شیریں رہے گا اور گنج شکر کہلائے گا”

جعفر قاسمی نے اس ضمن میں بڑی اچھی بات لکھی ہے کہ حضرت بابا صاحب کو گنجِ شکر اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا مزاج بہت میٹھا تھا۔

مسندِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد بابا صاحب پیر و مرشد کی اجازت سے ہانسی شریف تشریف لے گئے اور ہمہ وقت تبلیغ اسلام اور خدمت خلق میں مصروف رہنے لگے۔ آپ کو ہانسی میں آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ بیدار ہوتے ہی دہلی روانہ ہو گئے ۔

دہلی میں معلوم ہوا کہ پیر و مرشد نے وصال سے قبل اپنا خرقہ ، عصا، نعلین ، مصلی اور دیگر تبرکات حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کیے اور وصیت کی کہ میرا جانشین فرید الدین مسعود ہو گا اور یہ سب تبرکات اسی کو دے دیے جائیں۔

بابا صاحب نے پیر و مرشد کے مزار اقدس پر حاضری دی ۔ بعد ازاں حضرت قظب صاحب کے سب خلفا اور ارباب صحبت جو دہلی میں موجود تھے جمع ہوئے اور سب نے حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو قطب عالم کا جانشین تسلیم کیا۔ اسی محفل میں تمام تبرکات بابا صاحب کے سپرد کیے گئے۔

دہلی میں بابا صاحب نے اپنے مرشد گرامی کی خانقاہ میں قیام فرمایا۔ رات دن عبادت الٰہی میں مشغول رہتے اور صرف نماز جمعہ کے لیے حجرہ سے باہر تشریف لاتے۔ ایک جمعہ کو حجرہ سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک درویش باہر کھڑا ہے اس نے بابا صاحب کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا ” شیخ عالم ! ہانسی کے لوگ آپ کی جدائی میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں، کرم فرمائیے اور ہانسی کو پھر اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمائیے”

بابا صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے ہانسی جانے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ اس سے لوگوں میں سخت اضطراب پیدا ہوا اور انہوں نے آپ سے دہلی ہی میں قیام کرنے کی درخواست کی ۔ لیکن بابا صاحب نے فرمایا:

“دہلی کی نسبت ہانسی کو میری زیادہ ضرورت ہے ۔ اس لیے میرا وہاں جانا ضروری ہے”

یہ سن کر لوگ خاموش ہو گئے اور بابا صاحب ہانسی تشریف لے گئے۔

ہانسی میں ایک مدت تک قیام فرما رہے ۔ وہاں کے لوگوں نے بابا صاحب کے وجود مسعود سے خوب خوب فیض اٹھایا ۔ شیخ جمال الدین ہانسوی عرصہ سے وہاں مجاہدہ اور ریاضت میں مشغول تھے ۔ بابا صاحب نے اپنی باطنی توجہ سے انہیں درجہ کمال تک پہنچا دیا اور جب ہجوم خلق حد درجہ بڑھا تو شیخ جمال الدین ہانسوی کو اپنی سند خلافت دیکر انہیں ہانسی میں ٹھہرنے کی ہدایت فرمائی اور خود اجودھن (پاک پتن ) کی طرف چل پڑے جہاں کفر و شرک میں ڈوبی ہوئی مخلوق کا یہ علاقہ مدت سے باران رحمت کا منتظر تھا۔

بابا صاحب پاک پتن میں

ہانسی سے بابا صاحب کھتوال پہنچے اور اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت میں رہنے لگے ، لیکن خلقت کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف سے ٹوٹی پڑتی تھی۔آپ طبعاً عزلت پسند تھے ۔ جب ہجوم خلق سے بیزار ہو گئے تو ایک روز والدہ صاحبہ سے اجازت لے کر کھتوال سے چل پڑے ۔پھرتے پھراتے ایک غیر معروف قصبہ اجودھن میں پہنچے۔ اجودھن ان دنوں جنگلوں سے گھرا ہوا اور حشرات الارض کا دل پسند مسکن تھا۔ قصبہ کے اطراف میں دور دور تک کفار اور مشرکین کی بستیاں تھیں۔

بابا صاحب نے اپنے قیام کے لیے اس جگہ کو پسند فرمایا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شب خواب میں آپ کے مرشد گرامی حضرت قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ فرید! اس قصبہ میں مستقل طور پر اقامت اختیار کر لو اور مخلوق خدا کو راہ حق کی طرف بلاؤ۔

غرض اجودھن سے باہر مغرب کی سمت کریر کے ایک درخت کے نیچے بابا صاحب نے اپنا مصلی بچھایا اور یاد الٰہی میں مشغول ہو گئے۔

مخالفت

بابا صاحب کی شبانہ روز کوشش سے جب اجودھن کے در و دیوار قال اللہ و قال الرسول سے گونجنے لگے اور ہر طرف مسلمانوں کی چہل پہل ہو گئی تو بعض کوتاہ اندیش محض حسد و بعض کی وجہ سے بابا صاحب کی مخالفت کرنے لگے۔ ان مخالفوں میں سب سے پیش پیش اجودھن کی مسجد کا پیش امام اور قاضی تھا۔ جس نے پہلے تو حکومت کے کارندوں کو بابا صاحب کو ستانے پر اکسایا اور جب اس سے اس کا جی نہ بھرا تو بابا صاحب کے ذوق سماع پر طرح طرح کے اعتراضات کرنے لگا۔

ادھر بابا صاحب کی وسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ وہ مخالفوں کی حرکات کو مطلق خاطر میں نہ لاتے تھے اور اپنا دل میلا نہ کرتے تھے۔بابا صاحب کی اس شانِ بے اعتنائی سے قاضی کا غصہ اور بھڑک اٹھا اور اس نے سماع کے جواز اور عدم جواز کے مسلہ کی آڑ میں بابا صاحب کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ اس نے ملتان کے علما سے آپ کے خلاف فتوی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنے ایک خط میں علمائے ملتان سے استفسار کیا کہ ایک شخص جو اہل علم میں سے ہے ۔ قوالی سنتا ہے اور وجد کرتا ہے ۔ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

علمائے ملتان نے قاضی کو تحریر کیا کہ اس شخص کا نام لکھو۔ قاضی نے بابا صاحب کا نام لکھ بھیجا۔ علمائے ملتان نے حضرت کے خلاف فتوی جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا اور قاضی کو لکھا کہ تم نے ایک ایسے درویش خدا مست کا نام لکھا ہے جو تمام علوم شریعت کا منتہی ہے ۔ ہماری کیا مجال کہ اس کے قول و فعل پر اعتراض کریں۔

قاضی کا یہ حربہ ناکام ہوا تو اس نے ایک آوارہ گرد لالچی قلندر کو بابا صاحب کے قتل پر آمادہ کیا۔ یہ شخص کپڑوں کے نیچے اپنی کمر میں ایک تیز دھار چھرا چھپا کر آپ کے آستانے پر پہنچا۔ بابا صاحب اس وقت عبادت میں مشغول تھے اور سجدہ میں پڑے ہوئے تھے ۔ صرف سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ آپ کے پاس موجود تھے۔ بابا صاحب نے حالت سجدہ ہی میں فرمایا:

“یہاں کوئی موجود ہے”

حضرت سلطان المشائخ نے جواب دیا:

“آپ کا غلام نظام الدین حاضر ہے”

بابا صاحب نے فرمایا: یہاں ایک قلندر کھڑا ہے جو کانوں میں سفید رنگ کے مندرے پہنے ہوئے ہے۔

سلطان المشائخ نے اثبات میں جواب دیا تو بابا صاحب نے فرمایا:

“اس شخص کی کمر کے ساتھ چھرا بندھا ہے اور یہ میرے قتل کے ارادے سے آیا ہے اور اس سے کہہ دو کہ اپنی عاقبت خراب نہ کرئے اور یہاں سے چلا جائے”

اس سوال و جواب سے قلندر پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ وہ بھاگ اٹھا اور سیدھا قاضی کے پاس جا کر دم لیا اور اسے کہا : ” ایسے مرد خدا کو قتل کرنا میرے بس میں نہیں”

اب قاضی نے ایک پٹواری کو اکسایا ۔ جس نے بابا صاحب کے فرزندوں کو ناحق ستانا شروع کیا۔ جب اس کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو صاحبزادوں نے بابا صاحب سے فریاد کی بابا صاحب جلال میں آ گئے اور اپنا عصا زور سے زمین پر پٹکا اور فرمایا :

“اب وہ تمہیں تنگ نہیں کرے گا”

اسی وقت ظالم پٹواری کے پیٹ میں درد اٹھا ۔ اسے بابا صاحب کے فرزندوں پر اپنی زیادتیاں یاد آئیں۔ اس نے لوگوں سے کہا ، مجھے بابا صاحب کی خدمت میں لے چلو لوگ اسے چارپائی پر ڈال کر بابا صاحب کی خدمت میں لا رہے تھے کہ راستے ہی میں اس کا انتقال ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کے خلاف قاضی کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا اور رفتہ رفتہ آپ کے تمام دشمن اور حاسد خائب و خاسر ہو کر بیٹھ گئے۔

مریدوں کی تربیت

ایک روز مولانا جمال الدین ہانسوی جنگل سے ڈیلے اور مولانا بدر الدین اسحاق لکڑیاں لائے۔ حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا نے انکو ابالنے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا۔ اتفاق سے اس روز لنگر خانے میں نمک موجود نہ تھا۔ سلطان المشائخ بازار جا کر بقال سے نمک قرض لائے اور ڈیلوں میں ڈالا۔ جس وقت دسترخوان بچھایا گیا اور سب فقرا جمع ہو گئے، تو دعا پڑھنے کے بعد حضرت بابا صاحب نے لقمہ اٹھایا مگر فوراً ہی واپس رکھ دیا اور فرمایا :

“لقمہ گراں ہے ، کوئی شبہ والی بات معلوم ہوتی ہے”

یہ سن کر حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کھڑے ہو گئے اور عرض کیا : حضور ! لکڑیاں تو حضرت مولانا سید بدر الدین اسحاق لائے ہیں اور ڈیلے مولانا جمال الدین لائے ہیں ، پانی مولانا حسام الدین نے بھرا ہے اور ان کو جوش میں نے دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ لقمہ کس سبب سے گراں ہے۔

حضرت بابا صاحب نے ایک لمحہ تامل کے بعد فرمایا:

“نمک کہاں سے آیا؟”

اتنا سننا تھا کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا حیران رہ گئے اور ہاتھ جوڑ کر عرض کیا:

حضور کی ذات کاشفِ حالات ہے ۔ یہ خطا مجھ سے سرزد ہوئی ہے ۔ یہ ڈیلے کڑوے کسیلے ہوتے ہیں ، اگر ان میں نمک نہ ہو تو پھر یہ کیسے کھائے جائیں گے ۔ محض اس خیال سے میں نے اس میں نمک قرض لے کر ڈال دیا ہے۔ حضرت نے یہ سن کر فرمایا: اچھا اب اس کھانے کو دوسرے فقرا میں تقسیم کر دو اور پھر فرمایا: “نظام الدین! درویشاں اگر بفاقہ بمیرند برائے لذت نفس قرض نہ گیرند”

حضرت سلطان المشائخ نے اسی وقت دل میں عہد کیا کہ آئندہ تمام عمر قرض نہیں لوں گا۔ بابا صاحب نے انکی طرف دیکھا اور فرمایا : ان شاء اللہ آئندہ تم کو قرض لینے کی ضرورت بھی نہ پڑے گی۔

تنگ دستی کا علاج

حضرت بابا صاحب کے پاس کوئی شخص دینی یا دنیاوی مشکل لے کر آتا تو وہ اسے کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے۔ عام طور پر صبر کی تلقین فرماتے اور نماز پڑھنے کی ہدایت فرماتے۔ ایک روز ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی کہ یا حضرت! میں بیحد تنگ دست ہوں۔ گھر میں عام طور فاقوں کی نوبت آ جاتی ہے۔ آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی اور پھر اسے ہدایت کی کہ ہر روز رات کو سنے سے پہلے سورہ جمعہ بڑھ لیا کرو۔

بلبن کے نام خط

ایک بار پاک پتن میں کوئی ضرورت مند بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : حضور! بادشاہ کے نام ایک سفارشی خط لکھ دیجیے تاکہ میرا کام بن جائے ۔آپ نے فرمایا کہ کام کرنے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ میں تمہارے لیے دعا کرتا ہوں ۔ اس نے خط لکھنے کے لیے اصرار کیا تو حضرت بابا صاحب نے سلطان بلبن کے نام یہ خط لکھ کر دے دیا

میں نے اس شخص کی ضرورت کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا ۔ پھر تیرے پاس بھیج دیا۔ اگر تو اس کو کچھ دے گا تو دَین اللہ تعالیٰ کی ہو گی اور یہ تیرا شکر گزار ہو گا اور اگر کچھ نہ دے گا تو روک اللہ کی طرف سے ہو گی اور تو معذور سمجھا جائے گا۔

غوث بہاوالحق سے تعلق

حضرت شیخ الاسلام بہاوالحق زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بابا صاحب کے درمیان بہت محبت تھی ۔ بابا صاحب جب بھی انہیں خط تحریر فرماتے تو شیخ الاسلام بہاوالحق زکریا ملتانی لکھتے ۔ ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا آپ جب بھی حضرت کا نام لیتے ہیں تو شیخ الاسلام ضرور کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے لوح محفوظ پر ان کے نام نامی کے ساتھ شیخ الاسلام لکھا ہوا دیکھا ہے

(سیر الاولیا ص 82)

ایک دفعہ حضرت شیخ الاسلام بہاوالحق زکریا ملتانی نے بابا صاحب کو خط لکھا جس میں تحریر فرمایا کہ میرے تمہارے درمیان عشق بازی ہے۔ بابا صاحب نے جواب میں لکھا کہ میرے اور آپ کے درمیان عشق تو ہے مگر بازی نہیں ہے

(سیر العارفین ص 54)

بزرگوں کی روش

حضرت شیخ بدر الدین غزنوی آپ کے پیر بھائی تھے۔ دہلی میں ملک نظام الدین خریطہ دار نے ان کے لیے ایک خانقاہ بنوا دی تھی جہاں ان کے آرام و آسائش کا سارا سامان بہم پہنچایا تھا۔ ایک دفعہ ملک نظام الدین زر کثیر کے غبن میں ماخوذ ہوا جس سے شیخ بدر الدین کے آرام میں بھی خلل پڑنا شروع ہوا۔ ان حالات میں انہوں نے بابا صاحب کی خدمت میں درد بھرا خط لکھا اور سارے حالات بیان کیے اور دعا کی درخواست کی

فرید الدین و ملت یار زیرک

کہ بادش در کرامت زندگانی

دریغا خاطرم گر جمع داری

بمدحش کردمے گوہر فشانی​

بابا صاحب نے یہ خط پڑھا تو جواب میں تحریر فرمایا:

” عزیز الوجود کا رقعہ ملا اور جو کچھ اس میں درج تھا ، اس سے آگاہی ہوئی۔ جو کوئی اپنے بزرگوں کی روش پر نہ چلے گا ، ضرور ہے کہ اسے اس طرح کا ماجرا پیش آئے اور وہ غم و الم سے دوچار ہو۔ آخر ہمارے پیران عظام میں سے کون تھا جس نے اپنے لیے خانقاہ بنوائی اور اس میں جلوس فرمایا ” ( سیر العارفین ص) 51

ذوق سماع

ایک روز حضرت بابا صاحب کو سماع کا ذوق ہوا۔ اتفاق سے اس وقت کوئی قوال موجود نہ تھا۔ آپ نے مولانا بدر الدین اسحاق سے فرمایا کہ وہ خط جو قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھیجا ہے ، لاؤ اور سناؤ ۔ مولانا کھڑے ہوئے اور خط پڑھنا شروع کیا۔ اس میں حمد و نعت کے بعد تحریر تھا :

فقیر ، حقیر ، نحیف ، ضعیف ، بندہ درویشاں در دیدہ خاکپائے ایشاں محمد عطا المعروف حمید الدین ناگوری۔

اتنا سننا تھا کہ بابا صاحب پر کیفیت طاری ہو گئی اور مولانا نے خط کی یہ رباعی پڑھی تو بابا صاحب پر وجد طاری ہو گیا:

آں عقل کجا کی در کمالے تو رسد

آّں روح کجا کی در جلال تو رسد

گیرم کہ پردہ گرفتی زجمال

آں دیدہ کجا کہ در جمال تو رسد​

اسی طرح ایک روز آپ کو ذوق سماع ہوا اور آپ کی زبان پر مولانا نظامی کا یہ شعر آیا

نظامی آنچہ اسرار است کز خاطر عیاں کر دی

کسے سرّش نمیداند زباب در کش زباں در کش​

اس شعر کو آپ تمام دن پڑھتے رہے ، پھر رات کو بھی یہی حال رہا اور دوسرے دن بھی۔

ایک روز سماع کی حرمت و حلت پر گفتگو ہو رہی تھی تو فرمایا : سبحان اللہ ! کوئی جل کر راکھ ہو جائے اور دوسرے ابھی اختلاف ہی میں ہوں۔

ایک بار فرمایا : سماع انہی لوگوں کے لیے جائز ہے جو اس میں ایسے مستغرق ہوں کہ ایک لاکھ تلواریں ان کے سر پر ماری جائیں یا ایک ہزار فرشتے ان کے کان میں کچھ کہیں تو بھی ان کو خبر نہ ہو۔

وصال

ذوالحجہ 663 ہجری کے آخری دنوں میں بیماری نے شدت اختیار کی اور آپ کو بے ہوشی کے دورے ہونے لگے۔ لیکن اس کے باوجود آپ کی کوئی نماز حتی کہ نفلی عبادت تک قضا نہ ہوئی اور وظائف و اوراد بھی وقت پر ادا ہوتے رہے۔ محرم 664 ہجری کی چار تاریخ کو دہلی سے آپ کے مخلص قدیم سید محمد کرمان پرسش احوال کے لیے پاک پتن آئے۔ حضرت بابا صاحب اس وقت حجرہ میں تھے اور دروازہ بند تھا۔ باہر صاحبزادگان اور چند مرید آپ کی جانشینی کے متعلق سرگوشیاں کر رہے تھے۔ جیسے ہی ان حضرات نے سید محمد کرمان کو دیکھا تو کہا : اس وقت اندر نہ جانا ، حضرت کی طبیعت ناساز ہے ۔ سید صاحب باہر بیٹھے سوچتے رہے کہ میں دہلی سے چل کر آیا ہوں ، اگر یہ لوگ مجھے حضور کی قدم بوسی کر لینے دیں تو کیا حرج ہے آخر ان سے ضبط نہ ہوسکا اور وہ حجرے میں داخل ہو گئے اور بابا صاحب کے قدموں پر سر رکھ دیا ۔ آپ نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا:

” سید کیا حال ہے ”

عرض کیا : حضور کی دعا سے اچھا ہوں ، ابھی حاضر ہوا ہوں۔ اس کے بعد سید صاحب نے دہلی کے علما و مشائخ کے سلام عرض کیے ۔ آخر میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا سلام عرض کیا۔ جیسے ہی بابا صاحب نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا نام سنا تو خوش ہو کر پوچھا:

ان کا کیا حال ہے؟

عرض کیا: وہ ہر وقت حضور کی یاد میں رہتے ہیں ۔ یہ سن کر بابا صاحب اور خوش ہوئے اور مولانا بدر الدین اسحاق سے فرمایا کہ جو تبرکات مجھے سلسلہ بہ سلسلہ اپنے حضرت سے پہنچے ہیں وہ نظام الدین محمد بدایونی کا حق ہے ، انکو پہنچا دینا۔

بعد ازاں نماز مغرب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ عشاء کی نماز آپ نے جماعت سے ادا کی ، پھر بے ہوش ہو گئے ۔ ہوش میں آنے کے بعد آپ نے سوال کیا : میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کی گئی جی ہاں۔ آپ نے فرمایا :

ایک مرتبہ پھر پڑھ لوں۔ دوبارہ نماز عشاء ادا کی تو پھر بے ہوش ہو گئے۔ ہوش میں آنے پر پھر یہ سوال کیا ۔ کہا گیا: آپ دو مرتبہ عشاء کی نماز ادا پڑھ چکے ہیں ، فرمایا: ایک دفعہ اور پڑھ لوں ، ممکن ہے پھر موقع نہ ملے۔ یہ فرما کر آپ نے عشاء کی نماز مع وتر ادا کی اور پھر تازہ وضو کیا۔ اس کے بعد سجدہ کیا اورسجدہ ہی میں ایک مرتبہ زور سے یا حیُ یا قیوم کہا اور جاں جان آفریں کے سپرد کر دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔۔۔

وصال سے چند منٹ پہلے پوچھا : نظام الدین دہلی سے آئے یا نہیں؟ کہا گیا ، جی نہیں۔ فرمایا کہ میں بھی اپنے شیخ کے انتقال کے وقت ان کے پاس موجود نہ تھا ، ہانسی میں تھا۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کو اطلاع ہوئی تو وہ پاک پتن آئے ۔ حضرت بابا صاحب کا مزار شریف تعمیر کرایا اور اس اہتمام سے کہ ہر اینٹ پر ایک قرآن شریف ختم کیا۔

معمولات

بابا صاحب کا معمول تھا کہ وہ آنے والوں کی سہولت کے لیے اپنی خانقاہ آدھی رات تک کھلی رکھتے تھے۔ رات کا زیادہ حصہ عبادت میں گزارتے تھے اور سورج طلوع ہونے کے بعد بھی عبادت اور مراقبے میں مشغول رہتے تھے۔ طہارت و صفائی ان کی فطرت ثانیہ تھی ۔ ہر روز غسل فرماتے۔

صبح عبادت کے بعد دو گھنٹے تک طویل سجدہ کرتے اور اس دوران میں کبھی چپ چاپ دعا مانگتے اور کبھی اپنے خالق و مالک کی حمد و ثنا میں اشعار پڑھتے۔ کبھی تمام مخلوق کے لیے رحمت و بخشش کی دعائیں مانگتے اور بے حد گریہ و زاری کرتے۔ اس کے بعد دوپہر تک آنے والوں سے ملاقات کرتے ۔ پھر مختصر سےقیلولے کے بعد نماز ظہر ادا کرتے اور اس کے بعد خانقاہ کے مکینوں کی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دیتے۔ ہر ایک سے اس کی خیریت دریافت فرماتے اور کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تو فوراََ دور کرنے کی کوشش کرتے۔ ہر آنے والا ان تک رسائی حاصل کرسکتا تھا۔

مقام رضا

زہد و ریاضت میں بابا صاحب کی مثال نہ تھی۔ عمر کے آخری ایام میں اکثر فرمایا کرتے تھے: چالیس برس تک اللہ کے بندے مسعود نے اپنے آقا و مولیٰ کی اطاعت کی اب گذشتہ چند برسوں سے یہ حال ہے کہ آقا کی ذرہ نوازی سے مسعود کے فکر و خیال میں جو کچھ آیا ، وہ حقیقت ثابت ہوا اور مسعود نے جو بھی آرزو کی وہ پوری ہوئی۔

بابا صاحب کے خلفاء

حضرت کے بے شمار خلفا تھے جن کا مکمل رجسٹر حضرت جمال الدین ہانسوی کے پاس تھا۔ بعض خلفا کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں :

1.حضرت خواجہ قطب شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ

2۔ حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ

3۔ حضرت مخدوم علاوالدین علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ

4۔ حضرت شیخ بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ

5۔ حضرت نصیر الدین متبنیٰ رحمۃ اللہ علیہ

6۔ حضرت بدر الدین سلیمان رحمۃ اللہ علیہ

7۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ

Title
واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک):حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد نبی اسرائیل کو مصر میں رہتے ہوئے کافی مدت گزر چکی تھی، چوں کہ باہر سے آئے ہوئے تھے، اس لیے مصری انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔اس زمانے میں مصر کا ہر بادشاہ فرعون کہلاتا تھا، حضرت یوسف علیہ السلام سولہویں فرعون کے زمانے میں مصر تشریف لائے اور جس زمانے کا ذکر ہم کرنے والے ہیں وہ انیسواں فرعون تھا۔ اس کا نام منفتاح بن ریمسس دوم تھا۔فرعون نے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ بنی اسرائیل کا ایک لڑکا تیری حکومت کے زوال کا باعث ہوگا اس پر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اس قتل کردیا جائے۔اسی زمانے میں حضرت موسی علیہ السلام عمران کے گھرمیں پیدا ہوائے۔ ماں باپ کو سخت پریشانی تھی اور وہ سمجھتے تھے اگر کسی کو پتا چل گیا تو اس بچے کی خیر نہیں۔

کچھ مدت تک تو ماں باپ نے اس خبر کو چھپایا، لیکن مارے پریشان کے ان کا حال برا ہورہا تھا۔ آخر خداوند کریم نے آپ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس معصوم بچے کو صندوق میں ڈال کر درائے نیل میں بہادو۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایسا ہی کیا اور اپنی بڑی لڑکی کو بھیجا کہ وہ صندوق کے ساتھ ساتھ کنارے پر جائے اور دیکھے کہ خدا کس طرح اس کی حفاظت کرتا ہے۔جب یہ صندوق تیرتا ہوا شاہی محل کے قریب پہنچا تو فرعون کے گھرانے کی عورتوں میں سے ایک نے اس کو دیکھ کر باہر نکلوالیا اور جب اس میں ایک خوب صورت بچے کو دیکھا تو خوش ہوئیں اور اس بچے کو محل میں لے گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن بھی فرعون کی خادمائوں میں شامل ہوگئیں۔فرعون کے کوئی اولاد نہ تھی۔ جب اس کی بیوی آسیہ نے ایک حسین و جمیل بچے کو دیکھا تو بہت خوش ہوئیں۔ اتنے میں فرعون بھی آگیا۔ اور اس کے قتل کا حکم دے دیا۔

فرعون کی بیوی نے منت سے کہا کہ اس معصوم کو قتل نہ کرو، کوئی بڑی بات نہیں اگر یہی بچہ میری اور تیری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بن جائے اور ہم اس کو اپنا بیٹا بنالیں اور اگر حقیقت میں یہی وہ بچہ ہے جو تیرے خواب کی تعبیر بننے والا ہے تو ہم اس کی ایسی تربیت کریں گے کہ ہمارے لیے نقصان رسان بننے کی بجائے مفید ہی ثابت ہو۔ اس طرح فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے سے باز رہا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے گھر میں پل کر جوان ہوئے۔ آپ بڑے خوب صورت اور طاقتور تھے۔ایک دن آپ شہر سے باہر جارہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک مصری ایک اسرائیلی کو بیگار میں لے کر تنگ کررہا ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے قریب سے گزرے تو اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی، آپ نے مصری کو سختی اور جبر سے روکنے کی کوشش کی، لیکن مصری نہ مانا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غصے میں آکر مصر کے ایک ایسا طمانچہ مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کی موت کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت رنج ہوا۔

آپ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس کو جان سے مار دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے خدا سے اس کی معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیا۔اگلے ہی دن پھر آپ ایک طرف سے جارہے تھے کہ وہی اسرائیلی ایک قبطی سے جھگڑ رہا ہے۔ آج پھر اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی۔ آپ کو اگرچہ بہت ناگوار گزرا۔ مگر آپ نے ایک طرف تو اس قبطی کو روکا اور دوسری طرف اسرائیلی کو ڈانٹا کہ تو ہر وقت جھگڑا مول لے کر بلاوجہ فریاد کرتا رہتا ہے، جونہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو ہٹانے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو اس نے سمجھا کہ مجھے مارنے لگے ہیں۔ وہ چلایا، موسیٰ کل تم نے ایک مصری کو مارا۔ اسی طرح آج مجھے بھی ہلاک کرنا چاہتا ہے۔اب کیا تھا سارے شہر میں خبر مشہور ہوگئی کہ کل والے مصری کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مارا تھا۔ فرعون نے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کردئیے۔ اس وقت ایک آدمی فرعون کے دربار میں موجود تھا، جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام  سے انس تھا۔ اس نے فوراً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جا کر سارے واقعہ کی اطلاع دی اور مشورہ دیا کہ آپ فوراً یہاں سے نکل جائیں۔

چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام  بے سرو سامان نکل کھڑے ہوئے اور منزلیں طے کرتے ہوئے مدین کے شہر جاپہنچے۔آپ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہورہے تھے، جب ایک کنوئیں پر پہنچے تو دیکھا کہ کنوئیں پر لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے اور لوگ اپنے اپنے ریوڑوں کو پانی پلا رہے ہیں۔ سب سے پیچھے دو لڑکیاں اپنی بکریاں لیے کھڑی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ تم کیوں اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلاتیں۔ انہوں نے کہا ہمارا باپ ضعیف ہے اور ہم کمزور عورتیں۔ یہاں جو طاقتور ہے وہ سب سے پہلے اپنے ریوڑ کو پانی پلاتا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے وجیہ، خوش شکل اور جوان تھے۔ آپ بھیڑ کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور اس چرسسے کو جس کو تین چار آدمی کھینچتے تھے۔ اکیلے ہی کھینچ کر پانی نکالا اور ان لڑکیوں کے ریوڑ کو پلادیا۔ وہ لڑکیاں تو چلی گئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے۔

جب وہ لڑکیاں گھر پہنچیں تو ان کا بوڑھا باپ بہت حیران ہوا اور پوچھا کہ آج تم پہلے ہی کیوں آگئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایک پردیسی نوجوان آگیا تھا جس نے ہماری بکریوں کو پہلے پانی پلادیا۔ بوڑھے باپ نے کہا کہ یہ احسان فراموشی ہوگی کہ ہم اپنے محسن کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہ کریں۔ جائو پردیسی نوجوان کو اپنے گھر بلالائو تاکہ ہم اس کی کچھ خدمت کرسکیں۔ چنانچہ ایک لڑکی گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ساتھ لے آئی۔ ان کے باپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کھانا کھلایا اور اس طرف آنے کی وجہ پوچھی۔ آپ نے تمام واقعہ سنادیا۔اس لڑکی نے جو آپ کو بلانے گئی تھی اپنے بزرگ باپ سے کہا کہ بابا جان بہتر ہوگا کہ اس نوجوان کو ملازم رکھ لیا جائے ملازم وہی اچھا ہوتا ہے جو ایماندار بھی ہو اور طاقتور بھی۔یہ سن کر وہ بزرگ بہت خوش ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اگر تم آٹھ سال میری بکریاں چرائو تو میں اپنی یہ بیٹی تمہارے نکاح میں دے دوں گا اور اگر تم دو سال اور بکریاں چرائو تو یہی لڑکی کا حق مہر ہوگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو قبول کیا اور فرمایا یہ میری خوشی پر چھوڑ دئیے۔

ان دونوں میں سے جو مدت میں چاہوں اس کو پورا کردوں۔ چنانچہ مقررہ مدت تک بکریاں چرانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شادی ہوگئی۔ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چراتے ہوئے دور نکل گئے۔ آپ کی بیوی بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔ رات ہوگئی اور آپ راستہ بھول گئے۔ رات بڑی سرد اور تاریک تھی۔ آپ کو آگ کی تلاش ہوئی۔ ادھر ادھر دیکھا۔ سامنے کوہ سینا پر چمکتا ہوا شعلہ نظر آیا۔ آپ نے اپنی بیوی سے کہا۔ تم یہیں ٹھہرو، میں وہاں سے آگ لے آئوں اور ہوسکتا ہے وہاں کوئی ایسا آدمی مل جائے، جو ہمیں سیدھا راستہ بتاسکے۔آپ چلے جارہے تھے اور آگ دور ہوتی جارہی تھی۔ جب کچھ دور تک چلنے کے بعد بھی آگ سے دور رہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام خوف کھانے لگے اور قریب تھا کہ واپس ہوجائیں کہ آواز آئی۔اے موسیٰ علیہ السلام میں تیرا پروردگار ہوں۔ اپنا جوتا اتار دے۔ یہ طویٰ کی مقدس وادی ہے۔ میں نے تجھ کو رسالت کے لیے چن لیا ہے۔ پس جو کچھ حکم دوں اس کو غور سے سن۔ سچ ہے۔

خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال

کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل  جائے

حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ آواز سن کر چونکے اور اپنے جوتے اتار دئیے۔ خوشی اور مسرت سے حیران کھڑے تھے کہ آواز آئی۔

موسیٰ! تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے۔

حضرت موسیٰ نے عرض کی کہ یہ میرا سونٹا ہے اس سے میں بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور اس کی ٹیک لگا کر آرام کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اس لاٹھی کو زمین پر ڈال دو۔

جونہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر پھینکی وہ ایک خوفناک اژدھا بن کر دوڑنے لگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام  ڈر کر بھاگنے ہی والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ خوف نہ کھائو، اس کو پکڑلو، ہم اس کو پھر اسی حالت میں لوٹا دیں گے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس اژدھا کو پکڑا تو وہ پھر لاٹھی تھی۔

اب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنے ہاتھ کو گریبان کے اندر مس کرکے باہر نکالیے وہ روشن ہوجائے گا اور یہ ایک بیماری نہ ہوگی، بلکہ تیرے اللہ کی نشانیاں ہیں۔ ہماری ان نشانیوں کو لے کر فرعون کے پاس جائو اور اس کو او اس کی قوم کو سیدھا راستہ دکھائو۔ اس نے بہت سرکشی اور نافرمانی اختیار کررکھی ہے اور وہ بنی اسرائیلی پر انتہائی ظلم کررہا ہے، ان کو اس غلامی اور ذلت سے نجات دلائو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی کو ساتھ لے کر فرعون کے دربار گئے اور فرعون سے کہا کہ خدا نے مجھے اپنا پیغمبر اور رسول بنا کر تیرے پاس بھیجا ہے۔ ہم تم سے دو باتیں کہتے ہیں ایک تو خدا واحد پر ایمان لے آئو۔ دوسرے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم سے باز آئو اور ان کو غلامی سے نجات دو۔

فرعون سے کافی باتیں ہوئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پیار و محبت سے فرعون کو سمجھانے کی بہت کوشش کی اور جب اس سے کوئی جواب نہ بن آیا تو درباریوں سے کہنے لگا کہ یہ کوئی پاگل معلوم ہوتا ہے اور کج بحشی کرنے لگا اور اپنے وزیر بامان سے کہنے لگا کہ ایک اونچی عمارت بنائو جس پر چڑھ کر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں اور میں تو اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں اپنی صداقت میں تیرے پاس ظاہر نشان لایا ہوں۔ فرعون نے کہا اگر تیرے پاس کوئی نشان ہے تو ہمیں بھی دکھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینک دیا اور وہ ایک خوفناک اژدھا بن گیا۔ پھر اپنا ہاتھ گریبان کے اندر لے گئے۔ جب نکالا تو وہ ایک رون ستارے کی طرح چمک رہا تھا۔

یہ دیکھ کر فرعون کے درباری چلا اٹھے کہ یہ تو کوئی بہت بڑا جادو گر ہے۔ چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ اب تو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون کو جانے دیا جائے اور کچھ دن بعد اپنی سلطنت کے تمام بڑے بڑے جادوگروں کو اکٹھا کرکے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کرایا جائے۔

مقابلے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، اللہ پر جھوٹی تہمت نہ لگائو، ایسا نہ ہو کہ خدا کا عذاب تم کو دنیا سے نیست و نابود کردے۔ جادوگروں نے آگے بڑھ کر کہا کہ ان باتوں کو جانے دو۔ اب ذرا دو دو ہاتھ ہوجائیں۔ اب یہ بتائو کہ پہل تم کرو گے، یا ہم کریں۔ آپ نے دیکھا کہ اب پر کوئی بات اثر نہیں کرتی، تو آپ نے فرمایا کہ پہل تمہاری طرف سے ہونی چاہیے۔

اب ان جادوگروں نے اپنی رسیاں بان اور لاٹھیاں زمین پر ڈال دیں جو اژدھا بن کر زمین پر دوڑنے لگے۔ یہ دیکھ کر حضرت  موسیٰ علیہ السلام کچھ گھبراگئے ۔ مگر اسی وقت خدا کا حکم ہوا، موسیٰ خوف نہ کھائو، ہمارا وعدہ ہے تم غالب رہو گے، اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈال دو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فوراً اپنا عصا زمین پر پھینک دیا اور وہ ایک خوفناک اژدھا بن گیا۔ جس نے تمام جادو کے زور سے بنے ہوئے نمائشی سانپوں کو نگل لیا۔ جادوگر یہ دیکھ کر سخت حیران ہوئے اور پکار اٹھے کہ موسیٰ علیہ السلام کا یہ عمل جادو نہیں بلکہ خدا کا معجزہ ہے اور فوراً سجدہ میں گر پڑے اور اعلان کیا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام اور ہارون کے خدا پر ایمان لے آئے ہیں۔

جادوگروں نے کہا کہ اب سچائی ہمارے سامنے آگئی ہے تو جو کچھ کرنا چاہتا ہے کر گزر، ہم ایک خدا پر ایمان لاچکے ہیں۔ وہ ہماری خطائیں بخش دے۔

یہ دیکھ کر اسرائیلی نوجوانوں کی ایک جماعت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی۔ لیکن وہ بھی فرعون کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے اس لیے کھل کر اعلان نہ کرسکے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے ہو اور اس کے فرمانبردار بننا چاہتے ہو تو فرعون سے ہرگز نہ ڈرو اور اللہ پر ہی اپنا بھروسہ رکھو۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے درباریوں کے منصوبوں کا علم ہوا تو آپ نے بنی اسرائیل کے لوگوں نے کہا۔ موسیٰ، ہم تو پہلے ہی مصیبتوں میں پھنسے ہوئے تھے، تیرے آنے سے کچھ امید بندھی تھی، مگر تیرے آنے کے بعد تو اور بھی مصیبت آگئی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو تسلی دی اور کہا کہ گھبرائو نہیں۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے تم ضرور کامیاب رہو گے اور تمہارا دشمن ہلاک ہوگا۔

اب فرعون اور اس کے درباریوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے مشورے ہونے لگے، ان میں ایک مرد مومن بھی تھا جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا، اس نے کہا تم ایک ایسے شخص کو مارنا چاہتے ہو جو سچی بات کہتا ہے اور تمہارے پاس اپنی سچائی میں بہترین نشانیاں لایا ہے، اگر وہ جھوٹا ہے تو تم کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر وہ سچا ہے تو پھر اس کے وعدوں سے ڈرو جو وہ خدا کی جانب سے سناتا ہے۔ لیکن فرعون اور اس کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام سے پہلے اس سے نپٹ لینا چاہیے۔

آخر جب مصریوں کی سرکشی اور نافرمانی حد کو پہنچ گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے فرعون کو مطلع کردیا کہ تم پر عذاب الہٰی نازل ہونے والا ہے، اب یہ صورت ہوئی کہ جب عذاب کی صورت پیدا ہوتی تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہتے کہ اگر یہ عذاب ٹل جائے تو ہم تمہارے خدا پر ایمان لے آئیں گے اور پھر عذاب ٹل جاتا۔ اس طرح کئی بار ہوا لیکن جب عذاب رفع ہوجاتا تو یہ لوگ پھر منکر ہوجاتے۔

اب اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم نبی اسرائیلی کو مصر سے نکال کر باپ دادا کی سرزمین پر لے جائو، چنانچہ آپ رات کے وقت نبی اسرائیل کو لے کر نکل گئے۔ ادھر فرعون کو بھی اطلاع مل گئی، اس نے ایک زبردست فوج کے ساتھ ان کا تعاقب کیا۔ وہ پانی کے کنارے پر پہنے تھے کہ مصری فوجیں آگئیں۔ جنہیں دیکھ کر بنی اسرائیل بہت گھبرائے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو تسلی دی کہ گھبرائو نہیں اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی پانی پر مارو، چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بحیرہ قلزم کے پانی پر اپنی لاٹھی ماری تو اس میں سے راستہ بن گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے آرام سے بحیرہ قلزم سے پار ہوگئے۔ یہ دیکھ کر فرعون نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ تم بھی اس راستے سے بحیرہ قلزم کو پار کرجائو۔ لیکن جب فرعون اور اس کی ساری فوج درمیان میں آگئی تو اللہ کے حکم سے پانی پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا اور فرعون اپنی فوج سمیت غرق ہوگیا۔ جب فرعون غرق ہونے لگا تو اس نے پکارا کہ میں موسیٰ کے خدا کے اوپر ایمان لاتا ہوں، لیکن یہ بعد از وقت تھا اور مصری ایسے کئی وعدے پہلے کرچکے تھے۔ فرعون کی پکار پر اللہ نے فرمایا کہ "آج کے دن ہم تیرے جسم کو ان لوگوں کے لیے جو تیرے پیچھے آنے والے ہیں نجات دیں گے کہ وہ عبرت کا نشان بنے"۔ چنانچہ ہزارو سالوں کے بعد اس کی لاش دستیاب ہوئی ہے اور اب مصر کے عجائب خانہ میں موجود ہے۔

Title
غیاث الدین بلبن

دورحکومت”1266ءتا 1286ء
لاہور (سید اسامہ اقبال)خاندان غلاماں کا آٹھواں سلطان۔ بطور غلام ہندوستان لایا گیا۔ سلطان التمش کی نگاہ مردم شناس نے اس کو خرید لیا۔ اس نے اپنے دور حکومت میں امرا اور سرداروں کا زور توڑ کر مرکزی حکومت کو مضبوط کیا۔ بغاوتوں کو سختی سے کچل کر ملک میں امن و امان قائم کیا اور سلطنت کو تاتاریوں کے حملے سے بچایا۔
بڑا مدبر ، بہادر اور منصف مزاج بادشاہ تھا۔ علماءو فضلا کا قدر دان تھا۔ اس کے عہد میں شراب کی خرید و فروخت اور راگ رنگ کی محفلوں کے انعقاد کی اجازت نہ تھی۔ انصاف کرتے وقت ہندو مسلم اور غریب اور امیر کی تمیز روا نہ رکھتا تھا۔ مجرموں کو سخت سزائیں دیتا۔ لیکن رعایا کے لیے بڑا فیاض اور روشن خیال تھا۔

ابتدائی زندگی
اس کی پیدائش 1200ء بتائی جاتی ہے۔ وہ فراختائی نسل کا ترک تھا اور البری قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا بچپن اور کم عمری میں ہی وہ منگولوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا جنہوں نے اسے اور اس کے خاندان کے لڑکوں کو غزنی لے جا کر فروخت کر دیا بقول مو¿رخین اسے خواجہ جمال الدین بصری نے خریداخواجہ صاحب نیک فطرت انسان تھے انہوں نے ان غلاموں کو اپنی اولاد کی طرح پالا جب یہ جوان ہوئے تو وہ انہیں دہلی لائے جہاں1232ء میں سلطان شمس الدین التمش نے انہیں خریدلیا۔
اس کی عملی زندگی کا آغاز سقا ( ماشکی )کی حیثیت سے ہوا تاہم جلد ہی وہ سلطان کا مقرب خاص بن گیا

سلطان غیاث الدین بلبن کی کہانی !!! 
 
تمام وزیر میدان میں تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے۔سلطان غیاث الدین بھی ان کے ساتھ شریک تھا۔ اچانک سلطان کا نشانہ خطا ہوگیااور وہ تیر ایک بیوہ عورت کے بچے کو جا لگا۔اس سے وہ مرگیا۔ سلطان کو پتہ نہ چل سکا۔ وہ عورت قاضی سلطان کی عدالت میں پہنچ گئی۔ قاضی سراج الدین مے عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: '' کیا بات ہے ؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ "
عورت نے روتے ہوئے سلطان کے خلاف شکایت لکھوائی '' سلطان کے تیر سے میرابچہ ہلاک ہوگیا ہے ''
قاضی سراج الدین نے عورت کی بات پوری توجہ سے سنی اور پھر اسی وقت سلطان کے نام خط لکھا: '' آپ کے خلاف شکایت آئی ہے۔ فوراً عدالت میں حاضر ہو جائیں اور اپنے خلاف آنے والی شکایت کا جواب دیں ''
پھر یہ حکم عدالت کے ایک پیادے کو دے کر ہدایت کی: '' یہ حکم نامہ فوراً سلطان کے پاس لے جاو¿ " پیادے کو یہ حکم دے کر قاضی سراج الدین نے ایک کَوڑا نکالا اور اپنی گدی کے نیچے چھپا دیا۔
پیادہ جب سلطان کے محل میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سلطان کو درباریوں نے گھیر رکھا ہے اور قاضی کا حکم نامی سلطان تک پہنچانا مشکل ہے۔ یہ دیکھ کر پیادہ نے اونچی آواز میں اذان دینا شروع کر دی۔
بے وقت اذان سن کر سلطان نے حکم دیا: '' اذان دینے والے کو میرے سامنے پیش کرو '' پیادے کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا۔
سلطان نے گرج کر پوچھا: '' بے وقت اذان کیوں دے رہے تھے ''
'' قاضی سراج الدین نے آپ کو عدالت میں طلب کیا ہے آپ فوراً میرے ساتھ عدالت چلیں '' پیادے نے قاضی صاحب کا حکم نامہ سلطان کو دیتے ہوئے کہا۔
سلطان فوراً ا±ٹھا۔ ایک چھوٹی سی تلوار اپنی آستین میں چھپالی۔ پھر پیادے کے ساتھ عدالت پہنچا۔ قاضی صاحب نے بیٹھے بیٹھے مقتول کی ماں اور سلطان کے بیان باری باری سنے پھر فیصلہ سنایا:
'' غلطی سے ہو جانے والے قتل کی وجہ سے سلطان پر کفارہ اور اس کی برادری پر خون کی دیت آئے گی۔ ہاں اگر مقتول کی ماں مال کی کچھ مقدار پر راضی ہو جائے تو اس مال کے بدلے سلطان کو چھوڑا جا سکتا ہے ''۔
سلطان نے لڑکے کی ماں کو بہت سے مال پر راضی کر لیا پھر قاضی سے کہا :
'' میں نے لڑکے کی ماں کو مال پر راضی کر لیا ہے '' قاضی نے عورت سے پوچھا : '' کیا آپ راضی ہو گئیں ''
'' جی ہاں میں راضی ہو گئی ہوں '' عورت نے قاضی کو جواب دیا۔
اب قاضی اپنی جگہ سے سلطان کی تعظیم کے لئے اٹھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھایا۔ سلطان نے بغل سے تلوار نکال کر قاضی سراج الدین کو دیکھاتے ہوئے کہا:
'' اگر آپ میری ذرا سی بھی رعایت کرتے تو میں اس تلوار سے آپ کی گردن اڑا دیتا''
قاضی نے بھی اپنی گدی کے نیچے سے کَوڑا نکال کر سلطان غیاث الدین کو دکھاتے ہوئے کہا:
'' اور اگر آپ شریعت کا حکم ماننے سے ذرا بھی ہچکچاتے تو میں اس کَوڑے سے آپ کی خبر لیتا۔ بےشک یہ ہم دونوں کا امتحان تھا۔

 

Title
آپ ﷺ کی زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ۔۔۔۔شق صدر کتنی بار ہوا؟

لاہور(مہرماہ رپورٹ):ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﺍﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭼﺮﺍﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺯﻧﺪ “ ﺿﻤﺮﮦ ” ﺩﻭﮌﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﻧﭙﺘﮯ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﮞ ﺟﺎﻥ ! ﺑﮍﺍ ﻏﻀﺐ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ،

ﻣﺤﻤﺪ  ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ  ﮐﻮ ﺗﯿﻦ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺳﻔﯿﺪ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﭼﺖ ﻟﭩﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺷﮑﻢ ﭘﮭﺎﮌ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﮨﻮﺍ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ۔

ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺪﺣﻮﺍﺱ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮔﮭﺒﺮﺍﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﺧﻮﻑ ﻭ ﮨﺮﺍﺱ ﺳﮯ ﭼﮩﺮﮦ ﺯﺭﺩ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﺍﺱ ﮨﮯ،

ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻣﺸﻔﻘﺎﻧﮧ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﭼﻤﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﺎ ! ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟

ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﻦ ﺷﺨﺺ ﺟﻦ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺳﻔﯿﺪﺍﻭﺭ ﺻﺎﻑ ﺳﺘﮭﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﭼﺖ ﻟﭩﺎ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﮑﻢ ﭼﺎﮎ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﮑﻢ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺷﮕﺎﻑ ﮐﻮ ﺳﯽ ﺩﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﺫﺭﮦ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ۔

 یہ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮯ ﺣﺪ ﮔﮭﺒﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺣﻠﯿﻤﮧ ! ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﭽﮫ ﺁﺳﯿﺐ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺗﻢ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺅ۔

ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﮑﮧ ﻣﮑﺮﻣﮧ ﺁﺋﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺧﻮﻑ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺏ ﮨﻢ ﮐﻤﺎﺣﻘﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﮯ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﮑﮧ ﻣﻌﻈﻤﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻣﺎﺟﺪﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺣﻠﯿﻤﮧ ! ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺗﻢ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺟﻠﺪ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﻧﮯ ﺷﮑﻢ ﭼﺎﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺳﯿﺐ ﮐﺎ ﺷﺒﮧ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺁﻣﻨﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ، ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ! ﻣﯿﺮﮮ ﻧﻮﺭ ﻧﻈﺮ ﭘﺮ ﮨﺮﮔﺰ ﮨﺮﮔﺰ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺟﻦ ﯾﺎ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﺩﺧﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺷﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺎﻡ ﺣﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺖ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺳﻨﺎ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﻮ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻣﺎﺟﺪﮦ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﭼﻠﯽ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍﺍﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻣﺎﺟﺪﮦ ﮐﯽ ﺁﻏﻮﺵِ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﭘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔
ﺷﻖ ﺻﺪﺭ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﺎﺭ ﮨﻮﺍ ؟
 ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺳﻮﺭۂ “ ﺍﻟﻢ ﻧﺸﺮﺡ ” ﮐﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﺎﺭ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺁﭖ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻣﻘﺪﺱ ﺳﯿﻨﮧ ﭼﺎﮎ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺭ ﻭ ﺣﮑﻤﺖ ﮐﺎ ﺧﺰﯾﻨﮧ ﺑﮭﺮﺍ ﮔﯿﺎ۔
 ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺟﺐ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻠﯿﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺗﮭﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻥ ﻭﺳﻮﺳﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮯ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮭﯿﻞ ﮐﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺍﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺎﺋﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺭ ﺩﺱ ﺑﺮﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﭘﺮ ﺁﺷﻮﺏ ﺷﮩﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻄﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺁﭖ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔

ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺑﺎﺭ ﻏﺎﺭِ ﺣﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﺷﻖ ﺻﺪﺭ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻗﻠﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺭ ﺳﮑﯿﻨﮧ ﺑﮭﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻭﺣﯽ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﺍﮞ ﺑﺎﺭ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﻮ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ ۔

ﭼﻮﺗﮭﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺷﺐ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﯿﻨﮧ ﭼﺎﮎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﻭ ﺣﮑﻤﺖ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﻤﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ، ﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻗﻠﺐ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﻭﺳﻌﺖ ﺍﻭﺭ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﯽ ﺗﺠﻠﯿﻮﮞ، ﺍﻭﺭ ﮐﻼﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﮨﯿﺒﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻈﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺘﺤﻤﻞ ﮨﻮ ﺳﮑﯿﮟ۔