ماہِ ستمبر:پاکستان ،عالمی منظر نامہ اور لیلیٰ خالد

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

ستمبر کے مہینے کا آغاز ہو گیا۔ ہماری سیاست سنبھالے نہیں سنبھل رہی ۔ ایسی افراتفری انارکی اور طوائف الملوکی ہماری پون صدی کی تاریخ کبھی دیکھی گئی ، سنی گئی نہ ہی پڑھی گئی ۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو الزام دیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا وعدہ وفا نہ کرنے پر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں۔ اُس دور میں معاہدے پر عمل کر کے اگر یہی کچھ ہونا تھا جوا ب ”امپورٹڈ“ حکومت کے کئے معاہدے پر عمل کر کے ہو رہا ہے تو ”سیلکٹڈ“عمران خان کو شاباش دینا بنتی ہے۔

بجلی کے جس طرح بل آئے ہیں اور نگران حکومت ریلیف کو آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کر رہی تھی۔ایم ایم ایف نے سرِ دست ”سُکّا“جواب دے دیاہے۔بلوں نے عام آدمی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ پہلے مہنگائی کا تذکرہ کرتے ہوئے محاورتاً کہا جاتا تھا لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اب بلز نے کئی لوگوں کو اپنے ہاتھوں جان لینے پر مجبور کر دیا۔ سیاسی پارٹیاں ہرمعاملے پر اپنی سیاست چمکاتی ہیں۔ احتجاج اور مظاہروں کو لیڈ کرنے کا شوق پورا کرتی ہیں مگر آج صارفین بے قیادت شہر شہر نکلے ہیں۔آج نگرانوں کے ہاتھ میںزمامِ کارہے۔یہ ڈنگ ٹپانے والے اداکار ہیں۔ ان کو موردِ الزام ٹھہرانا بیکارہے مگر وہ کچھ نہ کچھ بہتر کرنا ضرورچاہتے ہیں۔ نگران کیا ہر سیاسی حکومت عوام کی مشکلات بڑھانا نہیں چاہتی مگر کوئی تو اس ”پرکاری“ کا ذمہ دار ہے۔ بجلی کے نرخ اوج پر کیسے پہنچے؟ پٹرولیم کی قیمتیں زقندیں کیوں بھر رہی ہیں۔ ڈالر بے لگام کیوں کر ہو گیا؟جو بھی دِکھتا ہے بلز پر سیاپا کررہا ہے۔ہمارے گھر کا بل ٹیکس ملا کر66روپے یونٹ کے حساب سے آیا ہے۔ گاڑی پٹرول آدھی ٹینکی ہونے پر فِل کروالی جاتی ہے جو اب 9ہزار میں ،ڈیڑھ سال قبل 5میں ہوتی تھی۔

پیٹرول 190 روپے فی لیٹر اور بجلی 300 یونٹ تک مفت کرنے کی ہدایت
 مشتعل لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ اس سے نگرانوں کی صحت پر اثر نہیںپڑنے والا مگر مظاہرین کی سعی لا حاصل و رائیگا ں بھی جاتی نظر نہیں آتی۔ یہ سب نقشِ کہن جیسے نظام کے لیے تباہ کن ہو سکتا۔ اللہ کرے ستمبر کسی کے لیے بھی ستم گر ثابت نہ ہو۔
 11ستمبر کو بابائے قوم دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ نے دارِ فانی سے پردہ کیا فرمایا ۔ قائداعظم جن مشکلات اور مسائل کو سمیٹ رہے تھے وہ بے قابو ہونے لگے۔قائد جیسا ایک بھی لیڈر آ جاتا تو پاکستان کی ترقی کا ستارہ اوجِ ثریا پر جگمگا رہا ہوتا۔ پاکستان میں اچھے لیڈر بھی آئے جنہوں نے پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں پر نالائق اور نا اہل لیڈر شپ نے پانی پھیر دیا۔ ایسے میں 11ستمبر کو وفات پانے والے قائد بے طرح سے یاد آتے ہیں۔
6ستمبردو حوالوں سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔6ستمبر جنگ کی یادیں پاکستانیوں کے لیے استقلال کا باعث ہیں۔6ستمبر کو یوم دفاع ،7یوم بحریہ اور8یوم فضائیہ منایا جاتا ہے۔ سات ستمبر یوم ختم نبوت کے طور پر اسلام عالم میں منایا جاتا ہے تب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پارلیمنٹ نے1973ءمیں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔
عالمی سطح پر6ستمبر کو ایک بہت بڑا واقعہ پیش آیا۔ اس روز فلسطینی عسکریت پسندوں نے بیک وقت4مسافر طیارے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ ایک کے سوا سب ہائی جیک کر لئے گئے۔جس طیارے کے اغوا کی کوشش ناکام ہوئی اس کی ٹیم لیڈ لیلیٰ خالد تھیں 13ستمبر کو ان کی رہائی کے لیے بھارت سے بیروت جانے والا جہاز اغوا کیا گیا اور پھر اسی ماہ ان طیاروں سے جڑے واقعات بھی بلیک ستمبر کا سبب بنے تھے۔بلیک ستمبر سولہ سے ستائیس ستمبر1970کے اُس دورانیئے کا نام ہے جب اُردن میں فلسطینیوں کے خلاف شاہ حسین نے اپریشن کیا اسے جنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔جس میں تین سے چار ہزار فلسطینی عسکریت چھ سواردنی فوجی مارے گئے تھے۔یاسر عرفات جاں بحق ہونے والے فدائین کی تعداد بیس سے 25 ہزار بتایا کرتے تھے۔

خصوصی رپورٹ: فلسطین اور اسرائیل کی پوری کہانی
لیلیٰ خالد اور ان کے ساتھیوں نے 1968ءاور1971ءکے درمیانی عرصے میں 4 جہازاغوا کئے۔ فلسطین لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد لیلیٰ خالد نے پہلاجہاز 29اگست 1969ءکو اغوا کیا یہ بوئنگ 707جہاز تھاجواٹلی سے اسرائیل کے دالحکومت تل ابیب جا رہا تھا۔ اطلاع یہ تھی کہ اسرائیل کے وزیر اعظم اضحاک رابن بھی اس فلائیٹ کے مسافروں میں شامل ہیں ۔ایشیاءکی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی نقاب پوش لیلیٰ خالد نے جہاز کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیا....۔یہ جہاز دمشق میں اتارا گیا۔اسرائیل میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شرط مسافروں کو رہا کرکے جہاز تباہ کردیا گیا۔ 6ستمبر 1970ءکو لیلیٰ خالد نے اپنے پیٹرک گیلیو کے ساتھ مل کر ایمسٹرڈیم سے نیویارک جانے والی اسرائیلی پرواز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔لیلیٰ نے اپنی شناخت چھپانے کیلئے چہرے کی چھ جگہ سے پلاسٹک سرجری کرائی تھی۔یہ اس لئے بھی ناکام ہوئی کہ ان کے دو ساتھیوں کو اس پرواز کا ٹکٹ نہیں مل سکا تھا۔طیارے کو برطانیہ کے ہیتھرو ائرپرپورٹ پر اتار لیا گیا۔ لیلیٰ کے ساتھی پیٹرک گیلیو کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ اسے گرفتار کرلیا گیا۔چند دن بعد تیرہ ستمبر کو فلسطینی جانبازوں نے بھارت سے اُڑان بھرنے والا طیارے کو یرغمال بنالیا جس میں 65برطانوی مسافر تھے۔ مذاکرات کی میز پر لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ کیاگیا۔ یوں لیلیٰ خالد کو ستمبر کے مہینے میں برطانیہ کی قید سے رہائی ملی۔

لیلیٰ خالد: اسرائیلی طیارے کو اغوا کرنے والی فلسطینی خاتون کو رہا کیسے  کروایا گیا؟ - BBC News اردو
لیلیٰ خالد پاکستان بھی آچکی ہی۔اُس وقت لیلیٰ خالد کی زندگی کا انقلابی دور تمام ہو چکا تھا۔ 1995ءیہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کا دورانیہ تھا۔ سپیکرقومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی نے مسلم ممالک کی خواتین ارکان پارلیمنٹ کی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ فلسطینی ارکان کے وفد کی قیادت لیلیٰ خالد کر رہی تھیں۔ اس وفد کا پاکستان میں والہانہ استقبال کیا گیا۔ احترامات کا ایک مکمل پروٹوکول تھا۔ جس پر لیلیٰ خالد کی خوشی دیدنی تھی۔ اسلام آباد میں مہمانوں کے اعزاز میں تقریب رکھی گئی۔ استقبال کرنے والوں کے والہانہ پن کا انداز اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ لیلیٰ خالد تیس منٹ میں سٹیج تک پہنچ پائی تھیں۔