پی ٹی آئی قیادت کاجے یو آئی کے ساتھ احتجاجی تحریک کا معاملہ بانی پی ٹی آئی کے سامنے رکھنے کا فیصلہ

تحریر: None

| شائع |

عمران خان کی ہدایت پر ہی تحریک انصاف کے لیڈر مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں رچا رہے ہیں۔ مولانا حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے پر تول چکے ہیں۔ تحریک انصاف بھی تحریک چلانا چاہتی ہے۔ جب مقصدایک ہے یعنی تحریک چلانی ہےتو خان صاحب سے مزید ہدایات لینے کی کیا ضرورت ہے۔ پہلے ان سے کیا شاباش دعائیں اور ڈانٹ لے کے آئے تھے۔ اکٹھے تحریک چلائیں گے تو کیا منظر نامہ ہو گا۔ایک طرف مولانا کے جبہ دستار پوش کارکن ہونگے، دوسری طرف پی ٹی آئی کے ٹراؤزر، پتلون شرٹ میں ملبوس نوجوان ہونگے جن کو برگر اور مم

ی ڈیڈی کہا جاتا ہے۔ جلسے جلوس کی براہ راست کوریج کرنے والے اپنے ناظرین اور سامعین کو بتا رہے ہونگے کہ کل مولانا عمران خان کو یہودی ایجنٹ اور خان صاحب ان کو مولانا  ڈیزل کہتے تھے۔ مولانا نے اب اپنے فتوے میں یوں ترمیم فرمائی ہے کہ کسی کو یہودی ایجنٹ کہنا گالی نہیں عنوان ہے۔ گویا یہ سیاسی بیان تھا۔ عمران خان نے بھی35 پنکچرز کے بیان کو دو تین سال بعد سیاسی بیان قرار دے کر واپس لے لیا تھا۔ بیانات واپس لینے کی خان اور مولانا میں ایک قدر مشترک ٹھہری۔ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کا ممکنہ اتحاد فطری ہے یا نہیں اس پر بحث ہو رہی ہے مگر” قدر مشترک“ دونوں کو قریب لا سکتی ہے ۔ مگریہ تحریک چلائیں گے کیوں؟ پی ٹی آئی اپنا مبینہ مینڈیٹ واپس مانگ رہی ہے۔ مولانا الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا کر دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ دھاندلی کے پی کے میں ہوئی جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو تحریک کس کے خلاف چلائیں گے۔لو کر لو گل۔