محبت اور ادب کا عجیب انداز

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 23, 2022 | 17:57 شام

ایک ڈاکٹر تھے اکثر ایسا ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لئے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئے؟ تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ھے۔ کہ جس کا نام ابوبکر ھو، عمر ھو، عثمان ھو، علی ھو یا خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ ھو تو میں اس سے پیسے لوں۔ ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدینؓ، امہات المومنینؓ اور بنات رسولﷺ کے ھم نام لوگوں سے پیسے نہ لیئے۔

یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔ امام احمد بن حنبل رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

نہر پر وضو فرما رھے تھے کہ انکا شاگرد بھی وضو کرنے آن پہنچا، لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ھوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔ پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ھے۔ مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔ اپنے سگے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟ (عمر پوچھنا مقصود تھا) کہا یارسول اللہﷺ بڑے تو آپ ھی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ھے۔ مجدد الف ثانی رات کو سوتے ھوئے یہ احتیاط بھی کرتے کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ھوں اور بیت الخلا جاتے ھوئے یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ھوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔

ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ھے اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ھی خاص نہ تھا بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ھوئی جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اھمیت حاصل تھی کیونکہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ھم میں سے نہیں۔ ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، انکے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے اور اُنکے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ اس کے صدقے اللہﷻ انہیں نوازتا بھی تھا۔ اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی کہ جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے رزق میں اضافہ کرے وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔ اور جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔

ایک دوست کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ھے یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔ حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔ اس (دوست) کا کہنا ھے کہ عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ھے مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ھے، اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے، چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔ کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ھوئے اور انہی کی دعا کا صدقہ ھے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ھے۔ والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور اس کا تسلسل بھی صحابہؓ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔ حضورﷺ کے چچا کے بیٹے عبد اللہ ابن عباسؓ کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہںتے۔

اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابیؓ خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچھتے اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہںتا، لو چلتی رہںتی اور یہ برداشت کرتے رہںتے۔ وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے کہ آپؓ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں اور اپنے کام کیلئے آپ کو تکلیف نہ دوں۔ کتنی ھی مدت ھمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا (بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ھے) کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ھوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے جب کہ اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ھے۔

مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ھی محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ھی احتیاط کی جاتی تھی۔ وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ھی رہتا تھا۔ ابن عمرؓ جا رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ کسی نے کہا کہ یہ بدو ھے تھوڑے پہ بھی راضی ھو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔ فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔ اسلامی تہذیب کمزور ھوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اھمیت کھو بیٹھی۔

اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ھوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔ جس سے وہ سار ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔ اسلام اس مساوات کا ھرگز قائل نہیں کہ جس میں ابوبکرؓ اور ابوجہل برابر ھو جائیں۔ ابو بکرؓ ابوبکرؓ رہیں گے اور ابو جہل ابو جہل رھے گا۔ اسی طرح استاد، استاد رھے گا اور شاگرد، شاگرد۔ والد، والد رھے گا اور بیٹا، بیٹا۔ سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ھے اُنکو اُنکے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترام دینا ھی تہذیب کا حسن ھے۔ مغربی تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار (شاید) اسی راستے سے ھوا ھے جب کہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سمجھ رھے ہیں۔ عریانی اور فحاشی کا برا ھونا سب کو سمجھ میں آتا ھے اس لیئے اس کے خلاف عمل کرنانسبتا آسان ھے جب کہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اھمیت کا سمجھ آنا مشکل ھے اس لیئے یہ قدر تیزی سے رُو بہ زوال ھے. اللہ کریم ھم سب کو صحیح سمجھ اور خالص عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثمہ آمین یا رب العلمین