بیٹی کا هونا ضروری هے۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 03, 2019 | 18:51 شام

چند دن پہلے ڈیڑهہ سالہ نواسہ صاحب کا فون آیا ابو کہنے کی کوشش میں ,, آپهو آپهو ,, کہہ رها تها اُسکے بلانے پر اگلی صبح میں بیٹیوں کے گاؤں میں تها۔
گیراج میں گاڑی لگائی چهوٹی بیٹی بیمار تهی وه آ کر ملی اور واپس کمرے میں جا کر لیٹ گئی بڑی والی نے میرا کنٹرول سنبهال لیا۔
میری چارپائی پر تکیئے رکهہ کر صاحبزادی نے ساتهہ ٹیبل لگا دیا گاڑی سے گلاس اور پانی نکال کر میز پر رکها نمک سے گلاس دهویا اور بهر کر میرے هاتهہ میں دیا۔
موبائل , ٹیب, چارجر

, سگریٹ گاڑی سے نکالے موبائل بچوں سے بچا کر فرج کے اُوپر رکهہ کر چارجنگ پر لگایا اور ٹیب میز پر رکهہ دی۔
دس منٹ بعد کهانا لے آئی میں کهانے لگ گیا اور وه پاس بیٹهہ گئی تهوڑا حیران هوا کہ توے کی صرف ایک روٹی؟ بهوک بہت تهی لیکن دوسری روٹی مانگنا بهی مشکل تها
بیٹی دیکهتی رهی پہلی روٹی کا آخری لقمہ ابهی هاتهہ میں تها تو وه فورا" هی دوسری گرما گرم روٹی پکا کر لے آئی میں نے کہا کہ بیٹی پہلے هی دو روٹیاں لے آتی وه بولی ابو آپ کے کهاتے کهاتے دوسری روٹی ٹهنڈی هو جانی تهی
رات گیاره بجے هم لوگ سو گئے, میں ٹی وی لاؤنج میں اور بیٹیاں اپنے اپنے کمرے میں، اُس دن خوب بارش اور ژالہ باری هو رهی تهی سردی لگنے لگ گئی دیکها تو اُوپر کرنے کیلئے کهیس نا تها سوچا بیٹی کو اٹها کر کهیس کا کہوں لیکن دل نا مانا کہ سارا دن کام کر کر کہ میری پیاری بیٹی تهکی هوئی هو گی, اب آدهی رات وه کہاں سے کهیس ڈهونڈهتی پهرے گی گهٹنے سینے سے لگا کر ٹهٹهرتا هوا سو گیا۔
پچلی رات تهوڑی آهٹ محسوس هوئی تو آنکهہ کهل گئی دیکها تو کهیس هاتهہ میں لئے بیٹی پاس کهڑی مجهے دیکهہ رهی تهی میں آنکهیں موندے میسنڑا سا بن کر دیکهتا رها
اُس نے مجهے سویا سمجهہ کر بہت عقیدت کے ساتهہ میرے دونوں پیر اُٹهائے اور کهیس کا ایک سرا پیروں کے نیچے دبا دیا ایک ھاتهہ کے ساتهہ هولے سے میرا سر اُوپر کر کے کهیس کا دوسرا سرا سر کے نیچے کیا کمر کی طرف آ کر تیسرا سرا کمر کے نیچے کر دیا پهر سامنے کی طرف آ کر انگلی کے ساتهہ میرے ناک کے سامنے آیا کهیس هٹایا تا کہ ابو کو سانس لینے میں مسلئہ نا هو۔
اِدهر سے فارغ هو کر بیٹی نے پانی کا گلاس چیک کیا تو وه خالی تها پانی والی بوتل کهول کر گلاس بهرا اور ٹیبل پر اِسطرح سے رکها کہ میں لیٹا لیٹا هی گلاس اٹها سکوں
پرائی جگہ پر نیند کچهہ کم هی آتی هے سحری کے وقت بیٹی پهر مجهے چیک کرنے آئی پیروں پر سے کهیس اُترا هوا تها دوباره میرے پیر تهوڑے اُوپر اٹها کر کهیس صحیح کر گئی۔
صبح میں فیصل آباد واپس آتے هوئے راستے میں سوچ رها تها کہ بیٹی اور ماں میں کیا فرق هوتا هے۔