جنون اور جذبہ کی عملی تفسیربشیر نظامی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 28, 2017 | 17:47 شام

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ اعجاز بٹالوی): زمینی حقائق کیا ہیں اور امر واقعہ کیا ہے، اس سے قطع نظر اخبارات کی چیختی، چنگھاڑتی سرخیاں اور مختلف ٹیلی وژن چینل پر ہونے والے ٹاک شوز پتہ دے رہے ہیں کہ اس وقت علاقیت کا عفریت پوری قوت سے پھنکار رہا ہے اور ہمارے بعض سیاست دان صوبائیت کا جن بوتل سے نکال کر خوب رقص فرما رہے ہیں اس تاثر کی یکسر نفی بھی قرین عقل نہیں، آخر کچھ تو ہے جو سطح پر ابھر رہا ہے۔ ہم ایسے دیوانے ایک عرصہ سے بتلانے میں لگے ہوئے ہیں کہ یہ فسانہ اساس پاکستان سے مجرمانہ غفلت ہے، آگہی اور قی

ام پاکستان کے جواز سے مکمل بیگانگی کا۔ پاکستان کا قیام صوبائی حقوق کے تحفظ اور علاقائی مفادات کی نگہبانی کی بنیاد پر نہیں ہوا تھا بلکہ اسلامیان ہند کے دینی تشخص، ملی مفاد اور قومی استحکام کے لئے ایک الگ خطہ زمین کا مطالبہ تھا۔ اسی فلاسفی نے بھارتیوں کے دیوتا مہاتما گاندھی کو چپ کرایا، متحدہ قومیت کے نام لیواؤں کو کپکپا گیا اور محض حقوق کی جنگ اور سیاست کرنے والوں کو ناکام بنایا گیا۔ قیام پاکستان کے وقت کوئی ایسی دستاویز سامنے نہیں آئی جسے قائداعظم نے اپنی استدلال ٹھہرایا ہو کہ فلاں فلاں صوبے اور ریاست پر مشتمل ایک ملک ہمیں درکار ہے بلکہ مطالبہ یہی تھا کہ جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہ علاقے پاکستان میںشامل ہوں گے تاکہ مسلمانان اپنے عقیدے اور نصب العین کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ اس فلسفہ اور نظریہ کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے کر اور قائداعظم کے بے تیغ سپاہی بن کر پورے جنون اور جذبہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے دوران ایک بے مثال اور جرات رندانہ کی مثالیں قائم کی گئیں۔ میں لیڈروں کی بات نہیں کر رہا بلکہ عام ورکرز کی بات کرتا ہوں جو اصل سپاہ ہوتے ہیں۔ جب ورکرز جنون جذبہ کی تصویر ہوں تو منزل خود قائد کے قدموں کو بوسا دیتی ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران بشیر نظامی مرحوم جنون اور جذبہ کی عملی تفسیر تھے اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ بشیر نظامی مرحوم دم آخر تک دل دل پاکستان کی عملی تصویر نظر آئے۔ بشیر نظامی بھی محض ایک ورکر ہونے کے ناطے ورکروں کے لئے تقلید درس کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان دنوں ان کی برسی منائی جا رہی ہے۔ لیڈروں کی برسی منانا تو ایک روایت چلی آ رہی ہے لیکن کسی تحریک کے ورکر کی برسی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ورکر ابدی نیند سونے کے باوجود لوگوں اور ورکروں کے دل میں زندہ و پائندہ ہے اور اس کا مرقد روشن ہے اور قبر روشن ہے۔ چراغ اسی کی قبر پر جلتا ہے جس نے اپنی زندگی کو ایک نصب العین اور فلسفہ پر مکمل کیا ہو اور ایسے افراد اولیاءاللہ کے پیروکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ بشیر نظامی مرحوم کی جدوجہد کے حوالہ سے مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہے ہیں جن میں یہ بات بھی ریکارڈ کا درجہ رکھتی ہے کہ سانگلہ ہل ریلوے سٹیشن پر قائداعظم کی جب نگاہ اس دیوانہ پر پڑی تو دیوانہ وار نعرہ رقص میں مصروف تھا۔ قائد نے انہیں نہ صرف اپنے پاس بلایا بلکہ تحسین کے پھول نچھاور کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے دیوانوں کی موجودگی میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم منزل سے ہمکنار نہیں ہوں گے۔ یہ دیوانے تو منزل اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ بدقسمتی اور المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ متحدہ قومیت کا نعرہ بلند کرنے والے اور اپنی موت کے بعد پاکستان میں اپنی قبر نہ بنانے کی نصیحت کرنے والوں کے نام پر ہم اپنی یونیورسٹی کا نام رکھتے ہیں جبکہ باچا خان، عبدالغفار خان نے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا تھا اور اس کا وہی نعرہ تھا جو آج الطاف حسین نے بلند کر دیا ہے۔ کراچی والوں نے تو الطاف حسین کے نام پر بننے والی یونیورسٹی کا بورڈ اتار دیا۔ فخر و انبساط کے چمن سے جو خوشبو آتی ہے جو مجھے معطر معطر کر دیتی ہے کہ بشیر نظامی مرحوم کسی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک ایسے مجاہد، غازی اور درویش کا نام ہے جو اپنی جوانی سے لے کر بڑھاپے کی دہلیز تک جس اساس کو بدقسمتی سے سب سے زیادہ کمزور کیا گیا چاہے یہ کردار مسلم لیگ کے نام پر حکمرانی کرنے والوں نے ادا کیا یا کسی اور نے، اس اساس کو یتیم بنانے کی سازشیں کیں اور اس عقیدے پر ضرب لگائی جو قائد و اقبال کا فلسفہ تھا اور جو قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کی ضمانت تھی اور ہے یعنی اسلام۔ بشیر نظامی مرحوم نے تادم آخر اس کا پرچار نہیں کیا بلکہ اپنے وجود سے اس کی عملی تصویر بھی پیش کی تھی تو میں کہتا ہوں کہ دل دل پاکستان کی تصویر تو بشیر نظامی مرحوم کے وجود میں دکھائی دیتی ہے۔ لیڈروں کی وفات اور برسی پر بیانات جاری کرنا ایک فیشن ہے اور اس بیانات سے صلہ کی توقع بھی کی جاتی ہے لیکن بشیر نظامی مرحوم نہ لیڈر تھا نہ اقتدار کی راہ داری سے کبھی اس کا گزر ہوا تھا وہ محض تحریک پاکستان کے ایک ورکر کی وفات پر اور آج بھی جبکہ ان کی برسی منائی جا رہی ہے ان کی یادیں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور انہیں اسی احترام اور عقیدت کی نگاہ سے لوگ یاد کرتے ہیں اور اس کی کہی ہوئی باتوں کو دوہراتے ہیں جیسے یہ کل کی بات ہو ایک ورکر کے رخصت ہونے کے 36برس بعد بھی وہ شخص عوام کے دلوں میں بستا ہے تو یہ اس مالک حقیقی کا خصوصی کرم اور رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندہ کو عوام کے دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ بشیر نظامی مرحوم کی برسی پر میں یہ کہوں گا کہ بشیر نظامی مرحوم ایک ایسے تحریک پاکستان اور استحکام پاکستان کے ورکر کا نام ہے جس نے نفرتوں کی آگ دہکانے والوں کی سیاست اور تجارت کو ہمیشہ چیلنج کیا اور ان ظالموں کی سیاست کو چمکانے نہیں دیا بلکہ اس بھٹی کو ہی سرد کر دیا۔ بشیر نظامی مرحوم جیسی ہستیاں تو پاکستان اور استحکام پاکستان کے دشمنوں کے لئے ایک شمشیر برہنہ کا درجہ رکھتے تھے اور جس جرات رندانہ سے جو حکمرانوں کی چیرہ دستو پر اپنے خطاب کے دوران نشتر کے تیر چلاتے تھے۔ خونی سے اپنے ضمیر کی آواز کو عوام کے کانوں تک پہنچاتے تھے۔ دراصل وہ آواز عوام کی آواز ہوتی تھی زبان بشیر نظامی کی۔ بشیر نظامی مرحوم نے تحریک ختم نبوت کے دوران بھی جو کردار ادا کیا ان کے ایک سچے اور کھرے مسلمان اور پاکستان کا کردار ہی نہیں بلکہ ایک عاشق رسول ہونے کا مسلمہ ثبوت ہے۔ مرحوم فدایان رسول کے اول دستے میں شامل رہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی سے بھی سرفراز کیا۔ یوں تو بے شمار لوگ ہیں جو آج بھی بشیر نظامی مرحوم کو اسی انداز میں یاد کرتے ہیں جیسے زندگی میں کرتے تھے لہٰذا چند سطور جو کہ محترم بشیر نظامی مرحوم کی برسی کے موقع پر سپردقلم کی ہیں تاکہ ان لوگوں کو یاد دلا سکوں کہ کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، لیکن یہ مقام شکر اور فخر ہے کہ بشیر نظامی مرحوم کے حوالہ سے یہ مصرعہ موضوع نہیں بلکہ محترم کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے لوگ کہہ رہے ہیں۔ ہم تجھے بھولے نہیں تو تو دل دل پاکستان تھا اور جنون و جذبہ کی چلتی پھرتی عملی تصویر۔