میٹھا زہر۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 16, 2019 | 22:11 شام

’’چانکیہ‘‘ایک دن جنگل سے گزر رہا تھا، اس کا دامن درخت کی شاخوں سے اُلجھ کر ’’لیر و لیر‘‘ تو نہیں ہواتاہم اس طرح کانٹوں کے دامن گیر ہونے سے ’’چانکیہ‘‘ آگ بگولہ ہو گیا۔وہ انتقام کے جذبے سے جل بُھن گیا۔ قصور درخت اس کی شاخوں، کانٹوں کا نہیں، یہ اس کی اپنی بے احتیاطی تھی مگر غصہ کمہار پر… اس کا بس چلتا تو درخت کو آگ لگا کر انتقام کی آگ ٹھنڈی کر لیتا مگر تناور درخت کو بلاوجہ کاٹنا

اس دور میں بھی جُرم  تھا، جبکہ جلانا اس سے بڑا جرم تھا۔ اس کے شیطانی دماغ میں ایک ترکیب آئی اور چانکیہ نے اپنی پوٹلی سے شکر نکالی اور درخت کے اردگرد بکھیر دی، کچھ عرصہ بعد چانکیہ کا پھر وہیں سے گزر ہوا اس نے دیکھا وہ درخت جس کے اردگرد شکر ڈالی تھی خشک ہو چکا تھا۔ اور اس قدر خستہ حال تھا کہ درخت کو گرنے کے لیے صرف ہوا کے تیز تھپیڑے کی ضرورت تھی۔

دراصل شکر پر کیڑے مکوڑے ہی آنے تھے۔ وہ آئے، شکر کا صفایا کرنے کے بعد درخت کی جڑوں پر حملہ آور ہوئے۔ چانکیہ نے میٹھے زہرکے ذریعے انتقام لے لیا، اسے کوئی کسی صورت موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس نے بظاہر کیڑوں کی خوراک کا جذبۂ ترحم سے بندوبست کیا تھا۔ لیکن حقیقت میں اپنے اندر جلنے والی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کیا تھا۔۔۔۔