اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے اہانت آمیز رویے وہ جو نشانِ منزل تھے؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 16, 2022 | 11:20 صبح

تحریر: فضل حسین اعوان پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے سینیئر ترین دو ججوں کی طرف سے ایک اور خط سامنے آیا ہے جس سے سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان تقسیم مزید واضح ہوتی نظر آرہی ہے۔ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورجسٹس سردار طارق مسعود نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین، چیف جسٹس ،عمر عطاءبندیال اور دیگراراکین کے نام لکھے گئے خط میں بیان کیا ہے کہ نئے عدالتی سال کے آغازکی تقریب میں چیف جسٹس آف پاکستان ،مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال کے خطاب نے ہمیں مایوس کیا ہے۔تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم دونوں چیف جسٹس کے خطاب کے دوران خاموش رہے لیکن ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے ہماری رضامندی سے تعبیر نہ کیاجائے۔دونوں فاضل ججوں کی جانب سے جمعرات کے روز جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین،چیف جسٹس ،عمر عطاء بندیال،اراکین جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس سیدمنصور علی شاہ ، جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی ،وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ ،اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی اور پاکستان بار کونسل کے نمائندہ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبراختر حسین ایڈووکیٹ کے نام لکھے گئے دو صفحات پر مشتمل خط میں کہاگیاہے کہ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ غیر ضروری تنازعات سے گریز کریں اور قوم کے سامنے سپریم کورٹ کو ایک وحدت کی صورت میں پیش کریں۔ تاہم 12ستمبر 2022 ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے عدالتی سال کی افتتاحی تقریب کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عمر عطا بندیال کے خطاب نے ہمیں ششدر اورنہایت مایوس کردیا ، اس تقریب کا مقصد (جیسا کہ چیف جسٹس نے بھی بیان کیا) یہ تھا کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور اور اگلے عدالتی سال کے لئے تصور واضع کریں ، لیکن چیف جسٹس نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا دفاع کیا اور اس کے فیصلوں پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے یکطرفہ طور پر بات کی ہے حالانکہ سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں سپریم کورٹ کے تمام جج شامل ہیں۔فاضل ججوں نے خط میں کہا ہے کہ چیف جسٹس نے زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ کیاجو کہ نہایت پریشان کن تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اس کے موجودہ اور متعدد سابق عہدیداروں کے بارے میں غیر ضروری اور اہانت آمیز باتیں کیں اور ان پر سیاسی پارٹی بازی کا الزام لگایا، کیونکہ ان کی جانب سے مذکورہ مقدمہ میں فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی درخواست دائر کی گئی تھی چونکہ سپریم کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی توچیف جسٹس ان کی کی اہانت اور ان کی طرف محرکات کی نسبت بات نہیں کر سکتے تھے۔عدالت نے جو کچھ کیا یا اسے جواب دینے کے لیے چیف جسٹس نے مزید کہااس کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس درخواست کے لئے کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی۔ فاضل ججوں نے لکھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین سپریم کورٹ سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ فیصلے دے لیکن جو امر سب سے زیادہ نامناسب اور غیر معقول تھا وہ پاکستان کے کام اور فیصلوں کا ذکر کرنا تھاآئین کے تحت جوڈیشل کمیشن ایک الگ اور خو دمختار ادارہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے اپنے چیئرمین کی جانب سے تجویز کیے گئے امیدواروں کی منظوری نہیں دی اور انہوں نے وفاقی حکومت کے نمائندو ں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل پر الزام رکھا اور ناراضگی کا اظہار کیا ،کسی بھی صورت میں جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا جو کہا گیا ۔ چیف جسٹس کمیشن کے چیئرمین ہیں اس لئے اس کے فیصلوں کی تعمیل کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ان پر آتی ہے ۔ جوڈیشل کمیشن کے تمام اراکین بشمول چیئرمین برابر ہیں اور چیف جسٹس کی ذمہ داری صرف اس کے اجلاس کی سربراہی کرنا ہے ۔ کمیشن نے 28جولائی کو چیف جسٹس کے نامزد پانچ امیدواروں کی نامزدگی کی منظوری نہیں دی تھی۔یہ چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کمیشن کے ارکان پر حملہ کریں وہ بھی عوام کے سامنے اور صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے ان کے امیدواروں کی تائید نہیں کی۔ فاضل ججوں نے لکھاکہ چیف جسٹس نے خود کہاہے کہ آئینی اداروں کو کسی صورت بھی مجروح ،ان کے احکامات کی خلاف ورزی اور ان پر حملہ نہیں کرنا چاہیئے لیکن چیف جسٹس نے کمیشن کے اکثریتی فیصلے کو تسلیم نہ کرکے خود ہی خلاف ورزی کردی ہے۔ چیف جسٹس نے جو کہا ہے وہ ریکارڈ کے بھی خلاف تھا جیسا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے( بغیر اجازت) جاری کیے گئے آڈیو سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ فاضل ججوں نے واضح کیا کہ جوڈیشل کمیشن کے چار اراکین نے چیف جسٹس کے نامزد امیدواروں کی حمایت نہیں کی تھی اس لئے اجلاس کو پہلے سے طے شدہ کہنا اور ملتوی کئے جانے کا تاثر دینا بھی غلط ہے جب جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اجلاس درمیان میں ہی چھوڑ کر چلے گئے آئین لازم کرتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے کل اراکین کی اکثریت سے اعلیٰ عدلیہ میں نئے جج مقررکئے جائیں۔ ایک تہائی سے زیادہ سپریم کورٹ خالی پڑی ہے، اسے معذور نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم دونوں چیف جسٹس کے خطاب کے دوران خاموش رہے لیکن ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے ہماری رضامندی سے تعبیر نہ کیاجائے۔ جسٹس سردار طارق اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب ایک پیج پر باہمی اعتماد کی معراج پر نظر آتے ہیں۔ایسا ہمیشہ سے نہیں ہے۔قاضی صاحب کیخلاف سپریم کورٹ میں کیس چلا۔سردار صاحب بھی بنچ کا حصہ تھے ان پرفائز عیسیٰ صاحب نے اعتراض کیا تھا کہ میرے ہٹ جانے سے یہ اپنی ٹرن سے پہلے چیف جسٹس بن جائیں گے۔یہ سن کر سردار صاحب جذبذب تو ہوئے لیکن بنچ سے الگ ہوگئے تھے۔اب آئیے اُس خطاب کی طرف جس سے نالاں ہوکر فاضل جج صاحبان نے غم و غصے سے لبریز خط لکھ دیا۔ "ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے پر سیاسی جماعتوں نے سخت ردِعمل دیا، سیاسی جماعتوں کے سخت ردِ عمل کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کردار بھی جانبدارانہ رہا۔سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کا فیصلہ 3 دن میں سنایا۔ سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ پر ججز کی مشاورت سے از خود نوٹس لیا۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف 5 دن سماعت کر کے رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر ہوا۔ اس مقدمے میں وفاق نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جوقانون کے مطابق نہیں تھی۔ اس مقدمے کے فیصلے کا ردِ عمل ججز کی تقرری کے لیے منعقدہ اجلاس میں سامنے آیا۔ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں 5 اہم اور قابل ججز کو نامزد کیا گیا تھا۔ نامزدگی کے حق میں 6 کے مقابلے میں 4 ووٹ آئے۔ وفاق نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے مقدمے پر ردِ عمل جوڈیشل کمیشن میں دیا۔کیا یہ ردِ عمل عدلیہ کے احترام کے زمرے میں آتا ہے؟ " اس موقع پر چیف جسٹس نے مزید کہاتھا۔" سیلابی صورتحال کے تناظر میں تمام سیاسی جماعتیں، ان کے قائدین، فیصلہ ساز، مراعات یافتہ طبقہ اپنے اختلافات ایک طرف کرکے متحد ہوں۔ وقت آ گیا ہے کہ ذاتی ایجنڈوں کو بالائے طاق رکھ کر قوم کی بہتری کے لیے کام کیا جائے۔" قاضی القضاة نے بجا فرمایا مگر کیا ایسا صرف سیلابی تباہی کے پیشِ نظر ہی ہونا چاہیئے عام حالات میں مروجہ ڈگر پر چلتے جائیں۔اداروں کے اعلیٰ حکام کے مابین اختلافات ہوتے ہیں مگر وہ اس طرح سرِ عام زیرِ آجائیں یا لائے جائیں تو کہیں نہ کہیں نقص،سقم یا کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔بجا کہ آزادی اظہار پر قدغن نہیں لگ سکتی مگر ہر بیانیے کو آزادی اظہارکا لبادہ اوڑھادیناجوازِ بلا جوازہے جو پیش کیا جاسکتانہ قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ان اکابرین کی گفتار اوران کا کردار عام آدمی کیلئے تو مشعلِ راہ ہونا چاہئے۔یہ شخصیات تو نشانِ منزل ہیں۔ان کی تقلید کرنے والے بے منزل رہیں گے؟؟؟ افسوس صد افسوس۔ افواج بھی افراد پرمشتمل ادارہ ہے،وہاں سے تو آزادی اظہار کے ایسے مظاہر کبھی سامنے نہیں آئے۔کسی کو اختلاف ہو تو اس کے اظہار کیلئے بہترین آپشن ذمہ داریوں سے سبکدوشی اور پھر کھل کر مافی الضمیربیان کرنے کی آزادی ہی آزادی ہے۔