مغلیہ دور کی عظیم شاہکار، مسجد وزیر خان کی معلومات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مئی 05, 2017 | 07:17 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): آج مغلیہ دور کی عظیم شاہکار، مسجد وزیر خان لاہور کے بارے میں معلومات آپ کو دیتے ہیں۔ یہ عظیم الشان مسجد اندرون شہر لاہرکے دہلی دروازہ ،چوک رنگ محل اور موچی دروازہ کے وسط میں تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔ دہلی دروازے سے براستہ شاہی گزرگاہ سیدھے چلتے جائیں تو تقریباً 300 میٹر کے فاصلے پر مسجد وزیر خان نظر آنے لگتی ہے۔ یہ مسجد نقش و نگار میں کاری گری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسجد وزیر خان سلطنت مغلیہ کے عہد میں تعمیر کی جانے والی نفیس کاشی کاری و کان

سی کاری پر مشتمل خوبصورت مسجد ہے جو بادشاہی مسجد کی تعمیر سے 32 سال پہلے 3 دسمبر 1641ء کوتکمیل کو پہنچی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قابل دید مسجد کسی مغل شہنشاہ نے نہیں بلکہ علم الدین انصاری نے تعمیر کروائی۔ شیخ علم الدین انصاری چنیوٹ شہر میں طبیب تھے۔ جنوری 1621ء میں وہ مغل دارالحکومت آگرہ پہنچے‘ ان دنوں ملکہ نور جہاں علیل تھیں۔ انہوں نے ملکہ کا علاج کیا تو ملکہ صحت یاب ہو گئیں۔ اس کے صلے میں انہیں وزیر خان کے خطاب سے نوازا گیا۔
شاہ جہاں کے عہد میں وزیر خان کو ’’امراء الامراء‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ جب شاہ جہاں لاہور آیا تو اس نے وزیرخان کو لاہور کا ناظم یا گورنر مقرر کردیا۔ وزیر خان 1632ء سے 1639ء تک لاہور کے حاکم کے عہدے پر فائز رہے۔ شاہ جہاں کے دور میں وزیر خان نے 1635ء میں اس مسجد کی بنیاد کھی‘ بازاردہلی دروازے کو آباد کیا اور مزار سید محمد اسحقٰ المعروف میراں بادشاہ کا پختہ حجرہ جو زیارت گاہ عام تھا کو مسجد میں شامل کر لیا۔ وزیر خان نے شاہی انعامات کی رقم کو مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا اور یوں اپنا نام رہتی دنیا تک چھوڑ گئے۔
1641ء کو مسجد مکمل ہوئی‘ مسجد کی تکمیل کے بعد وزیر خان نے ایک وصیت نامہ تحریرکروایا جو ان کے بعد ان کی اولاد کو منتقل ہوتا رہا۔ وصیت نامہ کی تحریر کو نور احمد چشتی نے اپنی کتاب ’’تحقیقات چشتی‘‘ اور سید محمد لطیف نے اپنی کتاب ’ِ’تاریخ لاہور‘‘ میں شامل کیا ہے۔ اس وصیت کے مطابق مسجد کا انتظام طویل عرصہ تک متولیوں کے ہاتھ رہا لیکن اب اس کا انتظام محکمہ اوقاف حکومت پنجاب کے پاس ہے۔
مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنے دور حکومت 1801ء سے 1839ء تک لاہور کی تقریباً تمام تاریخی عمارات کو نقصان پہنچایا۔ تاریخی عمارات سے سنگ سرخ اور سنگ مرمر اتروا لیا۔ بعض مقامات کو منہدم کروا دیا لیکن مسجد وزیر خان اس کے نقصان سے اس لئے بچ گئی کیونکہ وزیر خان کے گورو ارجن سے بہت اچھے تعلقات تھے۔
مسجد وزیر خان‘ لاہور کی قدیم‘ عالیشان اور لاثانی مسجد ہے جس کی شہرت اور تذکرہ یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔ مورخین نے اسے لاہورکا فخر قرار دیا ہے۔ مسجدکی عمارت پختہ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے۔ سنگ سرخ کا استعمال کافی کیا گیا ہے۔ مسجد میں داخلے کے لئے دو دروازے ہیں‘ ایک صدر دروازہ جومشرق میں ہے‘ دوسرا شمال مشرقی سمت واقع ہے۔ مسجد کا صحن وسیع ہے جس میں سرخ اینٹوں کا فرش لگایا گیا ہے۔ صحن کے درمیان میں وضو کرنے کے لئے حوض بنا ہوا ہے۔ مسجد کی مشرقی، جنوبی اور شمالی سمت حجرہ نما کمرے بنے ہوئے ہیں جن کی تعداد 32 ہے۔
مسجد کی دیواروں پر ایسی نقاشی کی گئی ہے کہ بڑے بڑے نقاش نقاشی کا سبق لینے اس مسجد میں آتے ہیں‘ کتبوں پر عربی اور فارسی حروف سے ایسی خطاطی کی گئی ہے کہ نامور خطاط بھی دیکھ کرحیران رہ جاتے ہیں۔
انگریزوں کے ابتدائی دور سے اب تک میو سکول آف آرٹس جسے اب نیشنل کالج آٰف آرٹس کہا جاتا ہے کے طلباء کو تزئین کاری سکھانے کے لئے یہاں لایا جاتا ہے۔
مسجد کے صدر دروازے سے داخل ہوں تو ایک طویل ڈیوڑھی نما راستہ ہے۔ اس حصے میں چاروں طرف بلند محرابی دروازے موجود ہیں۔ درمیان میں ایک بلند گنبد ہے جس میں زنجیر سے ایک خوبصورت فانوس لٹکا ہوا ہے۔ مسجد کے دو صحن‘ صحن خاص اور صحن عام ہیں‘ صحن خاص میں پانچ محرابیں ہیں‘ ان میں نفیس کاشی کاری کی گئی ہے۔ مسجد کے 5 گنبد اور چار مینار ہیں‘ ہر مینار کی بلندی 107 فٹ ہےمیناروں پر گلکاری اور نقاشی کا دیدہ زیب کام کیا گیا ہے جو صدیاں گزرنے کے باوجود دلکش دکھائی دیتا ہے۔ 14 دسمبر 1993ء کو یونیسکو نے مسجد وزیر خان کوعالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جو اس کی اہمیت کا ثبوت ہے۔