مینار پاکستان کی مظلومیت کی کہانی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 23, 2017 | 08:24 صبح

 لاہور میں داخل ہوتے ہی نظر آنے والا مینار پاکستان 23مارچ 1940ءکی تاریخ ساز قرار داد کو یاد رکھنے کے لیے بنایا گیا۔ پاکستان بننے کے فوراََ بعد تو نہیں مگر جب حالات کچھ سازگار ہوئے تو تحریک پاکستان کے مجاہدوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرنے کیلیے کوئی ترکیب سوچی جانے لگی کیونکہ یہی وہ قرارداد تھی جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔ چنانچہ منٹو پارک میں جس جگہ یہ جلسہ منعقد ہوا، اسے تصورِ پاکستان کے خالق حضرت علامہ اقبالؒ کی نسبت ”اقبال پارک“ کا نام دیا گیا۔ اس کے علاوہ پارک کے قریب چو

راہے کو ”آزادی چوک“ اور سڑک کو ”شاہراہ پاکستان“ کے ناموں سے پکارا جانے لگا۔
عوام کی جانب سے بھی منٹو پارک (اقبال پارک) میں قرارداد کی یاد کے طور پر کسی یادگار کی تعمیر کا مطالبہ شدت سے ہونے لگا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ ایک قرارداد بھی بلدیہ لاہور کے ایڈمنسٹریٹر ملک عبداللطیف خان نے 23مارچ 1959ءکو کارپوریشن کے اجلاس میں پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔صدر ایوب خان کی حکومت نے بھی اس خیال کی تائید کی اور یادگار کے لےے ڈیزائنز پر غور شروع ہوا۔ جون 1959ءمیں کارپوریشن کو ابتدائی طور پر تین ڈیزائن موصول ہوئے تاہم یادگار کمیٹی کو ان میں سے کوئی بھی ڈیزائن پسند نہ آیا اور یہ بھی خیال ظاہر کیا گیا کہ ان کو ملا کر ایک نیا ڈیزائن تیار کر لیا جائے۔ اس کے لےے جو ڈیزائن پسند کیا گیا اس میں ایک ہشت پہلو ہال اور اس کے ساتھ ایک مینار تھا۔ اس مینار کی اُونچائی پہلے 64 فٹ تجویز کی گئی لیکن پھر اسے بڑھا کر 99فٹ کر دیا گیا جو اسمائے ربانی کی نشاندہی ہے۔ مینار کے ہر ایک فٹ کے فاصلے پر مختلف رنگوں کے شیشے کی مربع پلیٹیں لگائی جانی تھیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کے اسماءمبارک کندہ تھے۔ اس وقت یہ بھی خیال تھا کہ منٹو پارک کا نام ”نیشنل پارک“ رکھ دیا جائے۔ (اقبال پارک اس کا نام بعد میں رکھا گیا تھا) کیونکہ یہاں ایک قومی یادگار تعمیر ہونے والی تھی۔تعمیر کے سلسلے میں ”پاکستان ڈے میموریل کمیٹی“ کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمشنر لاہور ڈویژن اس کمیٹی کے چیئرمین تھے جبکہ ڈپٹی کمشنر اس کے سیکرٹری اور خازن اعزازی فاروق احمد (منیجر لاہور کمرشل بینک) تھے۔ کمیٹی کے ارکان کی تعداد تقریباً بائیس تھی، جن میں ڈائریکٹر تعلقات عامہ، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور مارشل لاءحکام کے علاوہ مرات خان، آدم جی، سیٹھ حبیب، نصیر اے شیخ، سعید سہگل، سیّد مراتب علی، مسٹر ڈولیزال، میاں بشیر احمد، نوابزادہ رشید علی خاں، علامہ علاﺅ الدین صدیقی، مسٹر شاہنواز، محمد ولی اللہ خان، میاں محمد شفیع اور صوفی غلام مصطفی تبسم جیسی اہم شخصیات شامل تھیں۔
انیس مارچ 1960ء/ 25رمضان المبارک 1379ھ کو یادگار کا سنگ بنیاد گورنر مغربی پاکستان اختر حسین نے رکھا۔حکومت نے یادگار کی تعمیر کے لےے فنڈز جمع کرنے کے مختلف طریقوں پر غور کیا۔ اس سلسلے میں مالیانہ اور آبیانہ کے ساتھ ایک یا دو پیسے فی روپیہ ٹیکس اور سینما ٹکٹوں کے ساتھ ایک آنہ فی ٹکٹ چندہ لگانے کا فیصلہ ہوا ۔ اس اقدام سے پہلے عطیات سے رقم جمع کرنے کی کوشش کی گئی مگر فنڈز کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکا، اس لےے فروری 1962ءمیں یادگار پر کام کا سلسلہ غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔
دونومبر 1962ءکو موجودہ سادہ ڈیزائن منظور کیا گیا جسے ”مینارِ پاکستان“ کا نام دیا گیا۔ مینارِ پاکستان کا نقشہ روس کے ترک نژاد مسلمان ماہر آرکیٹیکٹ نصرالدین مرات خان نے تیار کیا۔ مینار پر تاریخی عبارات، اشعار اور آیاتِ قرآنی کے انتخاب کی ذمہ داری میاں بشیر احمد (مدیر ”ہمایوں“) اور مولانا صلاح الدین احمد (مدیر ”ادبی دُنیا“) کو سونپی گئی۔ مینار کی تعمیر کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کے حل کے لےے کمشنر لاہور شیر افضل خان کی زیرصدارت ایک اجلاس مرات خان کے گھر ”پتھراں والی حویلی“ واقع منٹگمری روڈ پر جنوری 1963ءمیں منعقد ہوا، جس میں یادگار کی تعمیر کے کام کو حتمی صورت دی گئی۔ اس موقع پر نصرالدین مرات خان نے مینار کی تعمیر کے لےے اپنی خدمات بلامعاوضہ پیش کیں۔ اُنھوں نے مینار کے ڈیزائن اور تعمیراتی امور کی نگرانی کی فیس جو تقریباً دو لاکھ باون ہزار بنتی تھی نہ لی اور اسے مینار کی تعمیر کے لےے بطورِ عطیہ دے دیا۔
مینار کی تعمیر کے لےے ٹینڈر 14مئی 1963ءکو منظور ہوا اور تعمیراتی کام کے آغاز کی تاریخ یکم جون طے پائی۔ تعمیراتی کام کا ٹھیکہ تحریکِ پاکستان کے ایک سرگرم رُکن میاں عبدالخالق کو دیا گیا۔ مناسب فنڈ اکٹھا نہ ہونے کی وجہ سے طے شدہ پروگرام کے تحت مینار کی تعمیر کا کام یکم جون 1963ءکو شروع نہ ہو سکا، لہٰذا مینار کی تعمیر کے لےے مغربی پاکستان کے اداروں اور ملک بھر کے مخیر حضرات سے ایک بار پھر چندے کی اپیل کی گئی۔ چندہ جمع کرنے کی ذمہ داری سیکرٹری انتظامیہ کمیٹی فیض احمد اسلم (چیف ایگزیکٹو افسر لاہور کارپوریشن) کے سپرد تھی۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بڑے بڑے صنعتکار اور مخیر حضرات دل کھول کر عطیات دیں گے اور ٹرانسپورٹر حضرات یہ سامان مفت پہنچائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہر کوئی اپنی اپنی شرائط پر چندہ دینا چاہتا تھا جنھیں انتظامیہ کمیٹی قبول نہ کرتی۔ سامان کا سب سے بڑا عطیہ چونتیس ٹن لوہا تھا ‘صرف ایک فلاحی تنظیم کی طرف سے ملا تھا۔ یوں کئی طرح کے مسائل پیش آنے کی وجہ سے مینار کا تعمیراتی کام بار بار تعطل کا شکار ہوتا رہا۔ مینار کے ٹھیکیدار میاں عبدالخالق ایک سیاسی کارکن اور فعال مسلم لیگی تھے۔ اُنھوں نے 1941ءمیں P.W.D میں ملازمت شروع کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ملازمت چھوڑ کر کنسٹرکشن کا کام کرنے لگے۔ وہ چونکہ ایک بھرپور سیاسی کارکن تھے اور اُنھوں نے صدر ایوب کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا اس بنا پر ان کے تعمیراتی بِل روک لےے جاتے یا تاخیری حربے اپنائے جاتے۔ اپنے بِلوں کی وصولی کے لےے انھیں عدالت کا سہارا تک لینا پڑا تھا۔ ان ہتھکنڈوں نے بھی مینار کے کام کو متاثر کیا۔ مینار کی تعمیر جو 23مارچ 1965ءتک مکمل کرنے کا منصوبہ تھا، مسلسل تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔ فنڈ کی کمی ایک مستقل دردِسر بنی رہی جو تعمیراتی کاموں کو متاثر کرتی رہی۔ چار سال میں صرف تین لاکھ روپے جمع ہوسکے۔
 فنڈ کی فراہمی کے لےے حکومت نے تفریحات پر ٹیکس لگانے کے علاوہ منصوبے میں بھی تبدیلی کی اور اس میں شامل لائبریری اور آڈیٹوریم کی تعمیر بھی ملتوی کر دی۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے موقع پر بھی تعمیراتی کام رُکا رہا۔ مینارِ پاکستان اسی جگہ بنایا گیا ہے جہاں 23مارچ 1940ءکی قرارداد کے وقت اسٹیج بنایا گیا تھا۔ اس جگہ کی نشاندہی میاں امیرالدین نے کی تھی۔ 96فٹ 6انچ اُونچا یہ مینار 31اکتوبر 1968ء/ 8شعبان 1388ھ کو مکمل ہوا۔ اس پر 75لاکھ روپے (بشمول جملہ مصارف اور باغِ دشت) صرف ہوئے۔
مینار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا بیشتر سامان پاکستانی ہے۔ سنگِ سُرخ اور سنگِ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے حاصل کیا گیا ہے۔ مینار 180فٹ لوہے اور کنکریٹ سے بنا ہے۔ اس کی 5گیلریاں اور 20منزلیں ہیں۔ پہلی گیلری 30فٹ کی اُونچائی پر ہے۔ مینار پر جانے کے لےے 334 سیڑھیاں ہیں جبکہ یہاں لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ تعمیراتی سامان بھی اس انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ یہ بذاتِ خود جدوجہد آزادی کی داستان بیان کرتا ہے۔ اس کے ابتدائی چبوترے کی تعمیر کھردرے پتھروں سے کی گئی ہے جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں کٹھن مراحل طے کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ اس سے اگلے چبوترے کی تعمیر پر قدرے ملائم پتھر استعمال کیا گیا جس سے مسلمانوں کی حالت میں بہتری کی عکاسی ہوتی ہے۔ یوں جوں جوں بلندی کی طرف جائیں ملائمت میں اضافہ ملے گا جو اس امر کی نشاندہی ہے کہ پاکستان بتدریج ترقی کی طرف رواں دواں ہے جبکہ مینار کے آخری سِرے پر چمکنے والا گُنبد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان عالمِ اسلام میں خوب روشن مقام رکھتا ہے۔
مینار کے پہلے حصے میں جو برآمدوں والے گول ہال کی شکل میں ہے، یہاں 7-7فٹ لمبی اور 2-2 فٹ چوڑی سنگِ مرمر کی سلوں پر ”خطِ نسخ“ میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسماءمبارک، قرآن حکیم کی سورة آل عمران (رکوع11، 14، 17) اس کے علاوہ یہاں سورة المائدہ (رکوع 10)، سورة الرعد اور سورة البقرہ (رکوع 23) رقم ہیں۔
قرارداد لاہور کا مکمل متن (اُردو، انگریزی، بنگالی زبانوں میں)، علامہ اقبالؒ کے اشعار، قرارداد دہلی (9اپریل 1946ئ) اور ارشاداتِ قائداعظمؒ کندہ ہیں۔ ایک سِل پر علامہ اقبالؒ کی نظم ”صبح“ اور ”تخیلِ پاکستان“ کے عنوان سے علامہ کے مشہور اشعار ”خودی کا سِرنہاں لاالہ اللہ“ کندہ کےے گئے ہیں۔
قائداعظمؒ کی تقاریر سے اقتباسات چار سِلوں پر کندہ ہیں۔ ایک سِل پر قومی ترانہ لکھا ہے۔ ہر سِل ایک چھوٹی سی تختی موضوع کے اعتبار سے بطورِ ”سُرخی“ لگائی گئی ہے۔ ان چھوٹی بڑی تختیوں کی کل تعداد چالیس ہے۔ مینار کے صدر دروازے پر ”مینارِ پاکستان“ اور ”اللہ اکبر“ کی تختیاں آویزاں ہیں۔
مینار کے قریب ہی ایک چبوترہ ہے، جس کی بلندی زمین سے بارہ فٹ کے لگ بھگ ہے اور اسے اب عوامی تقریبات کے لےے بطورِ اسٹیج استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پر آیت مبارک ”واللہ المشرق والمغرب“ کے الفاظ کندہ ہیں۔
خطاطی کے یہ تمام شاہکار معروف خطاطوں حافظ یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم خورشید رقم، محمد صدیق الماس رقم، ابنِ پرویز رقم اور محمد اقبال کے فن کے نمونے ہیں۔ مینار کی چھت گُنبد نُما ہے تاہم بیرونی جانب سے قطعی محسوس نہیں ہوتی۔ اس پر خوبصورت جالی دار پھول اور بیل بوٹے نقش ہیں۔
گورنر مغربی پاکستان نے 19فروری 1966ءکو منٹو پارک کا نام تبدیل کر کے ”اقبال پارک“ رکھ دیا تھا، تاہم عرصہ تک عوام الناس منٹو پارک ہی کہتے رہے۔
مینارِ پاکستان کی تعمیر کے کام میں تاخیر کے سبب اس کی تعمیر کی لاگت بھی بڑھ گئی، چنانچہ 28جون 1966ءکو کمشنر لاہور کی زیرِصدارت کمیٹی کے اجلاس میں مینار اور اس سے ملحقہ پارک کی تعمیر کے نئے تخمینوں کی منظوری دی گئی۔ نئے تخمینے کی رُو سے لاگت 2442926 سے بڑھا کر 5928629 روپے کر دی گئی۔ کمیٹی نے ایک لائبریری اور کیفے ٹیریا کی تعمیر کی منظوری بھی دی، جن پر لاگت کا تخمینہ 174470 روپے تھا۔ یہاں تحریکِ پاکستان میوزیم بنانے کا بھی منصوبہ تھا مگر اگست 1967ءمیں آڈیٹوریم اور اس میں میوزیم کے قیام کا منصوبہ ترک کر دیا گیا اور اعلان ہوا کہ آڈیٹوریم ”پاکستان ہاﺅس“ کے نام سے شاہراہ قائداعظمؒ پر چڑیا گھر سے متصل 9کنال اراضی یا اسمبلی چیمبر کے عقب بنایا جائے گا۔ ”پاکستان ہاﺅس“ کی تعمیر کا تخمینہ 90لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔
خدا خدا کر کے مینار کی تعمیر مکمل ہوئی اور یہ اعلان کیا گیا کہ گورنر مغربی پاکستان محمد موسیٰ خان 21اپریل 1968ءکو ”یومِ اقبال“ کے موقع پر اس کا افتتاح کریں گے، مگر افتتاح سے چند روز قبل ہی اس تقریب کو مو¿خر کر دیا گیا کیونکہ 19اپریل روسی وزیراعظم الیکسی کوسچن پاکستان کے دورے پر آنے والے تھے اور حکمران ان کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے، اس لےے ان کے پاس اس منصوبے کے افتتاح کے لےے وقت نہیں تھا۔
افتتاح کی نئی تاریخ 23مارچ 1969ءمقرر ہوئی۔ مغربی پاکستان حکومت نے ڈویژنل اور ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کی ان ممتاز شخصیات کی فہرست تیار کریں جن کا تعلق قرارداد پاکستان کے سلسلہ میں منعقدہ تاریخی اجلاس لاہور سے رہا ہو تاکہ مینار کی افتتاحی تقریب میں مدعو کیا جاسکے۔ عوام چاہتے تھے کہ مینار کا افتتاح ملک کے دونوں حصوں کے سربراہ یا صدرِ پاکستان کریں۔ اس لےے فیصلہ ہوا کہ مینار کا افتتاح صدر ایوب خان کریں گے، تاہم ملکی سیاسی حالات کی ابتری کی وجہ سے اس کی نوبت بھی نہ آسکی اور مینار کو بغیر افتتاح 23مارچ 1969ءکے روز کھول دیا گیا۔ گورنر عتیق الرحمن نے نومبر 1970ءمیں جا کر کہیں مینار کا دورہ کیا۔
مینار کی دوسرے چبوترے پر چاند کی شکل کا حوض ہے جس کے کونے آپس میں ملے ہوئے ہیں جو ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں کی ترجمانی ہے۔ اس کے اُوپر پانچ کونوں والا ستارہ ہے جو پانچ صوبوں کی نمائندگی کے لےے بنایا گیا ہے۔ ستارے کے وسط میں کنول کے پھول جیسا مینار اپنی سایہ دار پتیاں پھیلائے کھڑا ہے۔ جو دُنیا بھر میں ایک منفرد انداز ہے۔ ویسے بھی شاید یہ دُنیا کا واحد مینار ہے جو کسی قرارداد کی یاد کے طور پر تعمیر ہوا ہے۔
جون 1982ءسے اس کا انتظام وانصرام لاہور کے ترقیاتی ادارے (ایل ڈی اے) کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اس ادارے نے یہاں مرحلہ وار بہتری کے پروگرام بنائے۔
پارک کا رقبہ تقریباً 90ایکڑ ہے۔ اس میں سے بیشتر درخت کاٹ کر اسے پارک کی شکل دی گئی ہے۔ پارک کو خوبصورت فواروں، نشستوں، راستوں، پھولوں کی کیاریوں، آہنی جنگلوں اور گھاس کے قطعات سے آراستہ کیا گیا ہے۔ بجلی کا بیشتر نظام مینار کے 10فٹ گہرے تہہ خانے میں رکھا گیا ہے۔