بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں: شخصیت اور خدمات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 27, 2017 | 07:57 صبح

مولانا ظفر علی خان کا جوڑ مولانا محمد علی سے ٹھیک بیٹھتا ہے، دونوں ایک ہی مادر درس گاہ کے مشہور اور لائق فرزند تھے۔۔۔۔ جیل میں چکی کی مصیبت کے ساتھ ہی ساتھ مشق سخن جاری رکھنے کے لئے جو طرفہ طبیعت درکار ہے وہ حسرت کے ایک ہم مشرب اور ہم عصر کے حصے میں بھی آئی، ان دِنوں کی مشکلیں اور مشغلے یکساں تھے انگریز سے نفرت اور اس کی پاداش میں نظر بندی، آزادی کا مطالبہ اور اس کے جواب میں جیل،دین کی خدمت، لہٰذا جائیداد قرق اور جب اس احوال کو نظم کیا تو شعر بھی ضبط ہو گیا، شوق گناہ ہر سزا کے بعد بڑھتا چلا

گیا اور ایک نے شائد 11 اور دوسرے نے 14سال قید اور نظر بندی میں گزار دیئے ان کی ایذا پسندی اور نازک خیالی کا یہ عالم تھا کہ ساری عمر مار کھانے اور شعر کہتے ہوئے گزر گئی بالآخر سیاست کی راہ میں زندگی لٹا دینے کے بعد ان دونوں کا وہ سفر جو شور انگیزی سے شروع ہوا تھا بڑھاپے اور قدر شناسی کی منزل پر ختم ہو گیا۔
حسرت کی طرح ان کے ہم عصر نے بھی جیل میں اور جیل پر بہت شعر کہے ہیں ان کے ایک مصرعے میں لہو کی مشقت اور چکی کے عذاب کا ذکر ہے،مگر اس مشقت کو برداشت کرنے اور اس عذاب میں مبتلا ہونے کا وقت آیا تو یہ شعر موزوں ہوا۔
زمانہ قید کا برطانیہ کی زندانی
مصیبتوں میں خوشی سے گزار دیتے ہیں
پریس، اخبار اور جائیداد قرق ہوئی تو طبیعت یوں موزوں ہوتی ہے۔
مری روزی نہ کی قرق اس نے میری سرکشی پر بھی
خداوندانِ لندن سے مرا پروردگار اچھا
جب چکی پیستے اور گردش دوراں کی چکی میں پسے ہوئے ایک عمر گذر گئی تو شاعر کو خدا یاد آ جاتا ہے شکوہ و شکایت کے لئے نہیں،بلکہ تشکر و تسلیم کے لئے
یہ ہے پہچان خاصانِ خدا کی ہر زمانے میں
کہ خوش ہو کر خدا ان کو گرفتارِ بلا کر دے
حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان دونوں عمر بھر گرفتارِ بلا رہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے امتیازات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں کا درجہ خاص اور مرتبہ بلند تھا ان تمام باتوں کے باوجود حسرت اور مولانا ظفر علی خان کی شخصیت ایک دوسرے سے مختلف، بلکہ متضاد تھی،موازنے کے لئے مولانا ظفر علی خان کا جوڑ مولانا محمد علی سے ٹھیک بیٹھتا ہے، دونوں ایک ہی مادر درس گاہ کے مشہور اور لائق فرزند تھے، عملی زندگی میں دونوں کو صحافت، خطابت اور بغاوت کی وجہ سے ناموری حاصل ہوئی، انگریز نے ان کو نوکری نہ دی اور دیسی ریاستوں کی نوکری وہ نبھا نہ سکے، ترکوں کے لئے زور و شور سے تحریک چلائی اور ناکام رہے۔ ادب، شعر اور نعت گوئی میں حصہ لیا تو دونوں کامیاب ٹھہرے، مولانا کہلائے، اور مولویوں کا ہدف بنے، طبیعت دونوں کی سیمابی تھی اور ہنگامہ پروری میں لگی رہتی تھی، زندگی شہرت میں بسر ہوئی، مگر موت نے ان کی راہیں جدا کر دیں ایک کو بیت المقدس میں جگہ ملی تو قبال نے کہا:
سوئے گردوں رفت زاں را ہے کہ پیغمبر گذشت
دوسرے کے بارے میں پوچھنا پڑتا ہے کہ کب اور کہاں پیوند خاک ہوئے جاننے والے کہتے ہیں کہ دونوں کی صلاحیتیں بے بدل تھیں اور خدمات بے حساب، مگر ایک کو زندگی نے معترض زیادہ دیئے اور دوسرے معترف، اس میں کچھ زمین کی زرخیزی کا فرق تھا اور کچھ بیج کا اپنا نقص۔
اُردو کے ایک معلم کا خیال ہے کہ ظفر علی خان اگر سیاست میں اُلجھ کر نہ رہ جاتے تو وہ اقبال بن سکتے تھے اس رائے کی بنا پر وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر اقبال سیاست میں زیادہ وقت صرف کرتے تو کیا وہ ظفر علی خان بن جاتے۔ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہر شخص وہی ہوتا ہے، جو وہ بنتا ہے اور ہر انسان صرف وہی بن سکتا ہے، جو وہ ہوتا ہے انسان سب یکساں بھی ہیں اور منفرد بھی ، کوئی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا،کیونکہ اِس دُنیا میں جتنے انسان ہیں جگہیں بھی اس قدر ہیں، کسی فرد کے بارے میں یہ رائے تو دی جا سکتی ہے کہ اگر وہ اپنی صلاحیت کو ضائع نہ کرتا تو وہ بہتر آدمی بن سکتا تھا مگر ایک بڑے آدمی کے بارے میں یہ کہنا مضحکہ خیز لگتا ہے کہ اگر وہ اپنی صلاحیت دوسری طرح استعمال کرتا تو وہ دوسرا بڑا آدمی بن سکتا تھا۔ اقبال اور ظفر علی خان میں سطح کا فرق اتنا نمایاں ہے کہ ان کے الٹ پھیر اور ادل بدل کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ مولانا ظفر علی خان کا شمار ملت کے دست و بازو میں ہوتا ہے اور اقبال شعور ملت کا دوسرا نام ہے یہ بات درست ہے کہ دونوں شاعر تھے، مگر ایک نے شاعری کو پہلوانی کے لئے استعمال کیا اور دوسرے نے پیغمبری کے لئے ظفر علی خان کے کلام کے دو حصے ہیں، سیاسی نظمیں اور نعتِ رسول، ظفر علی کی سیاسی شاعری تیز و تند کہستانی ندی کی طرح دشوار راہوں سے گزرتی چٹانوں سے ٹکراتی اور شور مچاتی میدانوں کی طرح رواں دواں ہے اچھوتے مضمون اور انوکھے قافیے اس کی دشوار راہیں ہیں سرکردہ افراد ، غیر ملکی فرمانروا مخالف تحریکیں اور بڑے بڑے اخبار اس دشوار راہ کی چٹانیں ہیں، ظفر علی ہر اس چٹان سے ٹکرا گئے جسے باطل سمجھا، دشمن بنانے اور اسے زیر کرنے میں وہ بڑی مہارت رکھتے تھے، دشمن کی طاقت یا تعداد سے وہ کبھی مرعوب نہیں ہوئے اور دشمنوں نے انہیں اکثر تنہا، مگر کبھی حقیر نہ سمجھا، ظفر علی نے سیاست کو پتنگ بازی بنا دیا اور کہنے لگے:
یہ ایک تکل اکیلا ہی لڑے گا سب پتنگوں سے
شاعری کو ظفر علی خان نے محفل مشاعرہ سے نکال کر اکھاڑے میں لاکھڑا کیا اور صحرائے نجد سے بھٹکتے ہوئے شعر کو غزنی کی راہ پر ڈال دیا۔ غزل کی نزاکت ان پر حرام ہو گئی اور نظم کو انہوں نے زرہ پوش کر دیا
ظفر علی خان کی حاضر دماغی اور حاضر جوابی کا یہ عالم تھا کہ جس مضمون نے ذرا سا اُکسا دیا،اس پر فوراً شعر کہہ ڈالتے ان کی بدیہہ گوئی اور پر گوئی سے کوئی مضمون بھی محفوظ نہ تھا اور یہ بات اُن کی نظموں کے عنوانات سے ظاہر ہوجاتی ہے مثلاً متصوفانہ، کنکوے بازی، ازمیمیوتا، بانڈلے، ماکیان مشرق، زیر بادی، سنگٹھینے لبرل اندر سبھا، آزادی کا بگل اور محسن شاہ کی موٹر، اُن کی جدت انہیں انوکھے مضامین سمجھاتی ہے اور ان کی جدت اس مضمون کو اچھوتے قافیے مہیا کرتی ہے ان کے یہاں داؤد غزنوی کا قافیہ بود غزنوی تھا اور گاندھی کا قافیہ مکر کی آندھی سے جاملتا تھا ایک نظم میں ہل اور کالج کے قافیے شروع ہوتے تو کھٹمل اور ڈرہیل سے ہوتے ہوئے جھانپل اور بابا ٹل تک جا پہنچے ایک اور نظم میں چوکھٹ کا قافیہ جھٹ پٹ، صفا چٹ ، کھٹ پٹ، تلپٹ، جیوٹ، مرگھٹ اور پرگٹ سے باندھ کر بھی راضی نہ ہوئے اور توسن طبع کو فروٹ کیا اور اور سلہٹ نکلے ان کے اشعار میں ادق اور ثقیل قوافی بڑے ٹھیک اور مانوس لگتے ہیں کوئی اور ہوتا تو لوگ اسے تک بند اور زٹل ٹھہراتے، مگر ظفر علی خان کو اہل زبان نے کامل الفن کہا اور ان کی پرگوئی اور ندرت کو شاعرانہ اجتہاد کا درجہ دیا ظفر علی خان کی ندرت مضامین اور قوافی پر ختم نہیں ہو جاتی وہ نئے استعارے ایجادکرتے اور طنز کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ٹیپ کے مصرعے بھی ایسے کہے ہیں کہ عجیب ہونے کی وجہ سے بے حد کاٹ دار ہیں اور غریب ہونے کے باوجود زبان زد خلائق ہو گئے شیخ و برہمن کے استعارے کو وہ دیر و حرم کی بلندیوں سے اُتار کو لنگوٹی اور تہمد کی سطح پر لے آئے لنگوٹی یوں بھی ستر پوشی میں ناکام رہتی ہے اور جب ظفر علی خان کا ہاتھ اس تک پہنچتا ہے تو اس کے کھل جانے پر تعجب نہ ہوا ظفر علی نے اس پر اکتفا نہ کی، بلکہ شیخ کے بے تہمدے دیوانہ پن کا مظاہر بھی اپنی شاعری میں کر ڈالا اس کی مثالیں اکثر ٹیپ کے مصرعوں میں مل جاتی ہیں جیسے۔
ہت تیری گیدی کی دم میں نمد اور مست قلندر دھررگڑا
ممکن ہے ان حوالے سے ظفر علی کی شاعری کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہو جائے جسے دور کرنے کے لئے بہارستان، نگارستان، چمنستان، جسیات اور زمیندار کے پرانے پرچوں کا مطالعہ لازم ہے سروست یہ چند شعر کافی ہوں گے۔
آج جن کی یہ خطا ہے کہ ذرا کالے ہیں
پی رہے ان کا لہو جیل کے رکھوالے ہیں
کبھی کولہو کی مشقت، کبھی چکی کا عذاب
جس سے ہاتھوں میں بچاروں کے پڑے چھالے ہیں
گوشت اور خون کے پرزے ہیں جو انگریزوں نے
قیصریت کی مشینوں کے لئے ڈھالے ہیں!
قید گورے بھی ہیں چوری میں مگر ان کے لئے
جیل سرکار نے گلزار بنا ڈالے ہیں
ہم کسی بات میں کم ان سے نہیں لیکن
اس کو کیا کیجئے وہ گورے ہیں ہم کالے ہیں
رنگ کے فرق پہ موقوف ہے قانون فرنگ
یوں نکلتے نئی تہذیب کے دیوالے ہیں
ہو گئے کس کے لئے کونسل کے سب ارکان خاموش
وہ بھی کیا ان ستم آرائیوں کے آلے ہیں
ہو گئیں زندہ روایاتِ احد زنداں میں
دانت ٹوٹے ہیں انہیں کے جو خدا والے ہیں
ظفر علی خاں کی شاعر ی کا رخ بھی پہاڑوں میں بہنے والی سرکش ندی جب میدان میں داخل ہوتی ہے تو ایک پاٹ دار اور نرم رو دریا بن جاتی ہے اس دریا سے کھیت سیراب اور کشت دل ہری ہوتی ہے ظفر علی خاں کی شاعری کا یہ رُخ نعت کے میدان میں نظر آتا ہے ظفر علی مجموعہ اضداد تھے اور ان کی نعتیہ شاعری ان کی سیاسی شاعری کی ضد ہے وہاں ہجا، طعن ، اور پھبتی تھی یہاں جذب و کیف اور مستی ہے ،ادھر دشمن ان سے پناہ مانگتا ہے اور ادھر یہ دامن دوست میں پناہ لیتے ہیں۔
ایک طرف آورد کا زور شور ہے اور دوسری جانب بس آمد ہی آمد نعت گوئی میں ظفر علی خاں اس درجہ کمال تک پہنچے جو ان سے بہتر شاعروں کو نصیب نہ ہوا اور دراصل نعت کے لئے کمال سخنوری سے زیادہ کمال جنوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ظفر علی خاں کے پاس وارفتگی کا بڑا وافر سرمایہ تھا ظفر علی کی بیشتر نعتیں بڑی سہل اور پر معنی ہیں والد محترم کی ہدایت کے مطابق میں نے بچپن میں وہ نعت یاد کی جس کا پہلا مصرعہ یہ ہے۔
وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اس وقت مجھے اس نعت کا ہر شعر بڑا سادہ اور آسان لگا جب کچھ مدت گزری اور میں نے تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا تو اس کے ایک ایک مصرعے کے پُر مغز ہونے کا پتہ چلا اسی نعت کے اس مصرعے کی رہبری میں جس میں ہم مرتبت یار ان نبی کا ذکر ہے میں تاریخ کا اور فقہ کے کتنے ہی فردعی اور اختلافی مقامات پر ٹھہرے بغیر گزرگیا۔البتہ ظفر علی خاں کی ایک اور نعت کے ایک مصرعے پر میں مدت تک ٹھہرا رہا اور ایک روز ہمت کر کے اسے ایک خط میں نقل کیا اورلکھا کہ اگر یہ مصرعہ نعتیہ نہ ہوتا تو میں اسے تمہاری نذر کرتا شاید رشتہ پیوند میں اٹکے ہوئے دِلوں میں اس طرح پامال مضمون آتے ہیں اور اچھے نعتیہ شعر صرف اس دِل پر القا ہوتے ہیں جو حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت انسؓ سے مروی حدیث کے مطابق رسول اکرم ؐ کی محبت میں کامل ہو جائے ظفر علی خاں عشق رسول میں اس مقام پر پہنچ چکے تھے، جہاں عاشق رسول کو یہ کہنے کا حق پہنچا ہے۔
دِل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ظفر علی خاں کا زمیندار اخبار میں نے بہت کم پڑا ہے، جب اس کا شہرہ تھا اس وقت اتنی مسافت پر رہتا تھا کہ یہ اخبار وہاں دوسرے یا تیسرے دن پہنچتا تھاروزے آپ قضا کر سکتے تھے، مگر روزنامے کے قضا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور ہو بھی کیونکر جب روزنامہ محض پہلے دن اخبار کہلاتا ہے اور دوسرے دن سے ردی شمار ہوتا ہے،ہمارا واسطہ البتہ برسوں ایسے اخبارات سے بھی رہا جو روز اشاعت ہی سے دوسرے دن کا اخبار معلوم ہوتے کچھ یہی حال زمیندار کا اس وقت ہو چکا تھا جب میں اسے روز کے روز پڑھنے لگا یہ بات قیام پاکستان کے ابتدائی ایام کی ہے،جو زمیندار کے آخری ایام تھے کتابت ناقص اور اخبار بدزیب تھا مصلحت کا یہ عالم تھا کہ اخبار کا مسلک ہر روز تبدیل ہو جاتا اور جس کسی سے دام ملنے کی امید نظر آتی اخبار اس کا بندہ بے دام بن جاتا خبروں کی صحت کا یہ کمال تھا کہ ایک دن کسی کا جنازہ نکال دیتے اور اگلے روز اسی کے حق میں مسیحائی فرما دیتے ظفر علی خاں کے تازہ اشعار جو پہلے ہر روز شائع ہوتے تھے اب تبرک بن چکے تھے طنز و مزاح کے کالم میں البتہ کچھ جان باقی تھی کیونکہ حاجی لق لق ابھی زندہ تھے ایک رات میں زمیندار کے دفتر میں داخل ہوا مجھے ایک خبر کی تفصیل درکار تھی جس کا ریڈیو پر اعلان ہو چکا تھا دفتر کی حالت دیکھ کر دکھ ہوا ان دنوں دفاتر کے بارے میں میرا علم اور تجربہ بڑا محدود تھا میں نے دہلی میں وائسرائے کا دفتر اور کلکتے میں انگریزی اخبار سٹیٹسمین کا دفتر باہر سے دیکھ رکھا تھا، اب جو اردو کے مشہور روز نامے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا ایک کمرے میں مدہم سا بلب جل رہا تھا اور ایک کاتب اکڑوں بیٹھا ہوا تھا ایک لکڑی کا تخت اور دو چار کرسیاں خالی پڑی تھیں درودیوار پر حسرت برستی تھی اگلے کمرے کی حالت بھی ایسی تھی میز اور ڈیسک کچھ ایسے بے ترتیب اور خاک سے اٹے ہوئے تھے جیسے مدت سے ان کے استعمال کی نوبت ہی نہ آئی ہو کمرے کے وسط میں دو آدمی کھڑے باتیں کر رہے تھے میں نے کام بتایا جواب ملا کہ اس وقت دفتر میں کوئی نہیں ویسے جو فہرست آپ کو درکار ہے وہ ابھی تک ہمارے دفتر میں نہیں پہنچی جب میں واپس مڑا تو وہ دونوں بھی کمرے کی بتی بند کر کے باہر نکل آئے اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ زمیندار کا چراغ گل ہوگیا زمیندار اخبار کا بڑا بورڈ اتار کر دفتر کی پیشانی پر زمیندار ہوٹل کا بورڈ لگادیا گیامیں نے پہلی بار نیا بورڈ دیکھا تو مجھے زمیندار اخبار کے ادارتی عملے کے بہت سے نام یاد آنے لگے، علامہ نیاز فتچوری، مولوی وحید الدین، سلیم پانی پتی، غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، عبداللہ العمادی، چراغ حسن حسرت ان لوگوں کی جگہ اب ہوٹل کے بیروں اور خانساموں نے لے لی تھی شاید یہ کوئی ایسا غیر متوقع سانحہ بھی نہ تھا کیونکہ مولانا ظفر علی خان کی جگہ بھی تو آخر مولانا اختر علی خان کے حصے میں آئی تھی وقت کا سیلاب کسی نسل کے لئے تھم جاتاہے اور کسی کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔
مولانا ظفر علی خان کو مَیں نے آخری بار مری میں دیکھا تھا کمشنر ہاؤس کے نزدیک ایک پھاٹک پر ان کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی بوڑھے اورعلیل ظفر علی خاں کا بس نام ہی رہ گیا تھا، کام ان کا پورا ہو چکا تھااور اس کے تمام ہونے میں زیادہ دیر نہ تھی میں جب بھی اُن کے گھر کے سامنے سے گزرتا تو پھاٹک سے ڈھلوان پر نیچے اُترتی ہوئی پہاڑی پک ڈنڈی کو ہمیشہ گھورتا کہ شائد ظفر علی خاں نظر آجائیں ایک دن وہ نظر آگئے۔
رکشا پر بیٹھے ہوئے تھے جسے دو قلی آگے ہانک رہے تھے اور دو پیچھے سے تھامے ہوئے تھے مولانا نحیف و نزار تھے ، نظر کمزور، سماعت ثقیل، زبان خاموش،سرہلتا تھا اور آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں، جوانی میں میانہ قامت ہوا کرتے تھے اب بڑھاپے میں پستہ قد نظر آئے۔
رکشا کے قلی بے خبر تھے کہ ان کی سواری کو مولانا حالی نے نازش قوم اورفخر القرآن کہا تھا اور ایک قصیدے میں،اے شیردل اے ظفر علی خاں کہہ کر مخاطب کیا تھا، رکشہ تیزی سے ڈھلوان پر اُتر گیا اور میں آہستہ آہستہ چڑھائی کی طرف روانہ ہوا۔
مولانا ظفر علی خاں کو مَیں نے پہلی بار علی گڑھ میں دیکھا تھا ان کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا مدیر اور شاعر، بدیہہ گو اور نعت گو خطیب اور باغی، وفاکیش اور جفا کیش سیمابی اور ہنگامہ پرور کہنے والے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر برعظیم میں کسی تحریک کی بنیاد ڈالنی ہو تو ظفر علی خان سے ۔