سائنس میوزیم ،لاہور

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 05, 2018 | 06:02 صبح

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ واقع سائنس میوزیم پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد ”سائنسی میوزیم“ ہے جس کا منصوبہ 1965میں منظور ہوا تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر اسے 1976میں عوام کے لیے کھول دیا گیا یہاں سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں کا زیادہ رش رہتا ہے ایک اندازے کے مطابق ہر سال ایک لاکھ سے زائد لوگ اسے دیکھنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

" />
سائنس میوزیم میں جو ماڈلز رکھے کئے ہیں ان میںکمپیوٹر، برقی موٹریں، جنریٹر متحرک انسانی دل، انسانی آنکھ اور کان، نظام شمسی، موٹر کار، میزائل خوردبین، دوربین، خلائی سیارہ اور دوسری بے شمار اشیاءشامل ہیں ان ماڈلز میں ایک ایسا کمپیوٹر بھی شامل ہے جو حسب ہدایت اردو میں بات کرتا ہے کمپیوٹر کے ذریعے سنائی دینے والی آواز، انسانی نہیں بلکہ میکانکی ہے۔ کمپیوٹر کی زبانی ادا ہونے والے الفاظ سکرین پر بھی نمودار ہوتے ہیں۔ صنعتی کیمسٹری ماڈل، متحرک تصویروں کے ذریعے واضح کیے گئے ہیں کچھ ماڈل ایسے کھیلوں پر مشتمل ہیں جس کے ذریعے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے ایسے ماڈل خاص طور پر نسب کیے گئے ہیں جن سے برقی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے پلاسٹک کے انسانی ڈھانچے کے ذریعے یہ بٹایا گیا ہے کہ جسمانی اعضاءکیسے کام کرتے ہیں میوزیم میں کائنات کا ماڈل سب سے دلچسپ ہے جس میں نظام شمسی کو باقاعدہ گردش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ساتھ ہی چارٹ پر دج ہے کہ کائنات میں ایک ارب سے زیادہ کہکشائیں اور یہ سب باہمی کشش کی وجہ سے ایک گروپ کی صورت میں ایک دوسرے سے مربوط ہیں نیز یہ تمام کہکشائیں مسلسل ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں.

یہاں پر آنے والا کوئی بھی شخص ماڈل کا ایک بٹن دبا کر یہ دیکھ سکتا ہے کہ نظام شمسی میں ان کی زمین کی پوزیش کیا ہے ایک کمرے میں پاکستان میں سب سے پہلے انجینئرنگ یونیورسٹی میں آنے والے کمپیوٹر کا ماڈل رکھا گیا ہے جس کے دس علیحدہ علیحدہ حصے ہیں یہ کمپیوٹر کمرے کی لمبائی سے بھی بڑا ہے اب اس کمپیوٹر کے تمام حصے ایک چھوٹی سی میز پر آجاتے ہیں۔ملک کے مایہ¿ ناز سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بھی اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری کی طرف سے چند ماڈل میوزیم کو تحفے میں دیئے ہیں یہاں کے ایک حصے میں غوری اور دوسرے میزائلوں کے ماڈل رکھے گئے ہیں۔ بچے شوق سے ان میزائیلوں کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں یہاں ایک اور دلچسپ ماڈل پلی سسٹم اور لیور شامل ہیں جنہیں حرکت میں لا کر اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ اگر کسی بھاری چیز کم طاقت لگا کر اوپر اٹھانا ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہیے اس طرح مسئلہ فیثا غورث کو ثابت کرنے کے لیے کسی جیومیٹری یا حسابی فارمولے کو استعمال کرنے کی بجائے مائع استعمال کیا گیا ہے۔


لاہور کا یہ سائنس میوزیم پورے ملک میںاپنی نوعیت کا پہلا میوزیم ہے وڑارت تعلیم، حکومت پاکستان کے زیر اہتمام قائم کردہ اس میوزیم کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات اور عام لوگوں میں سائنسی شعور بیدار کرنا ہے۔ 2001ءمیں اسے قائم ہوئے 25سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے یکم دسمبر 2000ءسے جنوری 2001ءکے دوران ایک لاکھ پندرہ ہزار طالب علموں نے میوزیم کو دیکھا میوزیم میں سالانہ سائنس میلے بھی منعقد کیے جاتے ہیں میوزیم کی دو گیلریوں میں 300سے زائد ماڈلز رکھے گئے ہیں انہیں چھ سیکشنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گیلریوں میں رکھے ہوئے سائنسی ماڈلز میں گاہے بگاہے تبدیلیاں لائی جاتی ہیں تاکہ طالب علم انہیں اچھی طرح سمجھ سکیں۔ طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے چلا کر ان ماڈلوں کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کر سکیں۔


خصوصاً نوجوانوں میں سائنس سے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ایسے میوزیم دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں بھی قائم کیے جانے چائیں۔
آج کا ترقی یافتہ دور بلاشبہ سائنس ہی کے مرہون منت ہے حقیقت میں وہی قومیں اوج ثریا تک پہنچیں جنہوں نے سائنس کی دنیا میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ ہمارے ملک میں بھی اس وقت سائنس کی ترقی و تعمیر کے لیے بہت سے منظم ادارے کام کر رہے ہیں جن میں اور زیادہ بہتری کی گنجائش ہے۔


نیشنل میوزیم آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور میں مورخہ 08-06-2004کو ایک بجے سہ پہر تین بجے تک جدید اور پیچیدہ دروبینوں کے ذریعے اور بڑی سکرین پر لوگوں کو سیارہ زہر ہ کا سورج کے سامنے سے گزرنے کا مشاہدہ کرانے کا اہتمام کیا گیا۔ لوگوں کثیر تعداد نے یہ نظارہ براہ راست دیکھا۔ زہرہ سیارہ تقریبا 08سال میں دو دفعہ اور پھر 122سال کے بعد دو دفعہ زمین سے ٹکرانے والا منظر فراہم کرتے ہوئے سورج کے سامنے سے گزرتا ہے اب یہ سیارہ 2012میں دوبارہ سورج کے سامنے سے سے گزرے گا اس سے پہلے یہ سیارہ 1882ءمیں سورج کے سامنے سے گذرا تھا۔


سائنس میوزیم نے محدود پیمانے پر کمپیوٹر پروگرام کا ماہانہ کورس شروع کیا ہوا ہے جس میں کوئی فیس نہیں لی جاتی یہ پروگرام ہر ماہ کی 15تاریخ سے شروع ہوتا ہے اور اس کے لیے درخواستیں ہر ماہ کی پہلی تاریخ سے دس تاریخ تک وصول کی جاتی ہیں۔


”بچوں کا جنگ“ لاہور۔تحریر:رﺅف ظفر