کیپٹن عمار کے والد کا ایسا مضمون کہ جسے پڑھ کر ہر پاکستانی بھی شہادت کے جذبہ سے سرشار ہوجائے گا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 06, 2018 | 07:43 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ: تحریر: میجر (ر)محبوب حسین): عمار میرا ایسا بیٹا تھا جس کے ماتھے پر شہادت ہمیشہ سے لکھی نظر آتی تھی، مگر ہم اسے اپنی مادی آنکھوں سے دیکھ نہ پائے۔ تاہم اب میں سوچتا ہوں جس طرح اس نے اپنا بچپن ، لڑکپن اور شباب ایک پرہیز گار ولی کی طرح گزارا، بھائیوں اور ماں باپ کو اپنے اخلاص اور محبت سے گرویدہ کیے رکھا۔ اپنے اساتذہ اور ہم جولیوں میں خلوص، سعادت مندی اور محبت کا خاص نقش جمائے رکھا، وہ اسے اس مرتبہ بلند کامستحق بناتا تھا۔ علامہ اقبال نے کہا تھا، جوانوں کو پیروں کا استاد کر، وہ

سچ مچ میرا رہنما بن گیا۔ شہادت کی آرزو مجھے بھی اپنے فوجی کیرئیر کے دوران رہی، ریٹائر ہوا توکشمیر میں جہاد شروع ہوگیا۔میں نے اس میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن شاید میری تمنا خام تھی۔ عمار بازی لے گیا۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ میرا بیٹا عین جوانی میں مجھ جیسے بوڑھے کا استاد بن گیا۔ استاد اور رہنما بننے کے لیے عمر کی قید نہیں ہوتی۔ 
عمارکارگل کے لیے روانہ ہوا توہم اسے معمول کی ڈیوٹی سمجھے اور شاید یہ اس کی منظم اور کیلکولیٹڈ شخصیت کا انداز تھا کہ وہ کبھی پر جوش دکھائی نہ دیتا تھا۔ چھوٹے بھائی بلال سے اپنے ’’غیر معمولی پروگرام‘‘ کے بارے میں اشارتاً ذکرکر دیا تھا لیکن تاکیدکی تھی کہ والدین خصوصاً والدہ کوکسی بھی حال میں کچھ نہ بتائے۔ یہ شاید اس کے مشن کا تقاضا بھی تھا اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ وقت سے پہلے اس کے والدین پریشان ہوں۔ یہ بات توہمیں بعدمیں معلوم ہوئی کہ وہ سر زمین کارگل پرجانے والے رضا کار افسروں میں سے ایک ہے۔
عمار سترہ جون کو ایک خصوصی پرواز سے سکردو پہنچا اور جلد ہی آگے چل پڑا۔ اسکا شوق اسے پر لگا کر اڑا رہا تھا۔اس کی یونٹ نہیں چاہتی تھی کہ ایس ایس جی کے ایک ہونہار افسرکو خطرے سے دوچار کرے۔ لیکن طلب صادق ہو تو مطلوب خود چل کر طالب کے سامنے آجاتا ہے۔ اجازت مل گئی تو پھر اس نے محاذ پر پہنچنے میں دیرنہ لگائی ۔ اگرچہ وہ تاخیر سے معرکے میں داخل ہوا تب فتح کارگل کی بساط لپٹنے والی تھی مگر مجھے خوشی ہے اور اس بات پر فخر بھی ہے کہ میرے بیٹے نے اعلان واشنگٹن کی نفی اپنے گرم لہو سے کی۔ عمارنے اپنی جان چھ جولائی کو راہ حق میں نچھاور کی۔ 
کشمیر سے عمار کوغیر معمولی محبت تھی۔ خصوصا مجاہدین اور شہداء کے تذکروں سے اسے بہت دلچسپی تھی۔ اس کا بچپن اسلام کے دور عروج کے قصے سنتے اورپڑھتے گزرا۔ ابھی وہ سکول میں تھا کہ افغانستان کا جہاد زور و شور سے شروع ہوگیا۔ پھر کشمیر کا جہاد اسے متاثر کرنے لگا۔ اسے یوں تو سبھی کتابوں سے لگاؤ تھا لیکن جہاد اسکا خصوصی موضوع تھا۔ ’’جہاد کشمیر‘‘ کئی برسوں سے زیر مطالعہ تھا۔بہادر کمانڈر خالد بھی ایس ایس جی کے کمانڈو رہ چکے تھے اور کشمیرجانے سے پہلے عمار ہی ان کے کمپنی کمانڈر تھے۔ خالد کے سینے میں اپنے کمانڈرکے بارے میں بہت سی ایمان افروز یادیں محفوظ تھیں۔ یہ ایک مجاہد سے عمار کی بے پناہ محبت کا اظہار تھا۔
خالد کہتے ہیں۔۔۔’’بارہ بجے تک کیپٹن عمار میرے ساتھ جہادکشمیر کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرتے رہے۔ وہ مجھے اپنا ماتحت نہیں بلکہ ایک قابل احترام مجاہد کے طور پرمخاطب کررہے تھے۔ دوران گفتگو کشمیرکے مظلوم مسلمانوں کے ذکرپرعمار بار بار آبدیدہ ہوتے رہے‘‘ خالدکہتے ہیں ’’رات بہت بیت گئی تو میں نے کہا ۔۔۔سر اجازت دیں، میں رات اپنی کمپنی کے جوانوں کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے اجازت دے دی۔لیکن مجھے چھوڑنے کے لیے میری قیام گاہ تک ساتھ گئے۔ راستے میں وہ اصرار کرکے میرے پیچھے چلتے رہے۔ علی الصبح ابھی ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔میں نے دیکھا کیپٹن عمار کھیر کا ایک پیالہ اور چائے لیے کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا’’میں نہیں چاہتا تھا کہ مجھ سے پہلے کوئی اور آپ کو ناشتہ کرا دے۔ خالد نے یہ بھی بتایاکیپٹن عمار نے اصرارکرکے انہیں نماز کا امام بنایا اور کہاآج میں ایک مجاہد کے پیچھے نماز پڑؔ ھنا چاہتا ہوں۔ نماز کے بعدمیں نے دعا کراتے ہوئے کشمیرکے مظلوموں کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد اور فتح کی دعا مانگی تو کیپٹن عمار آمین کہتے ہوئے ایک بار پھر آبدیدہ ہوگئے۔ یہ ایک محض ایک مثال ہے ورنہ عمارکی اسلام سے محبت کے گواہ لا تعداد ہیں‘‘
محاذ پرجانے والے عمار کے ساتھیوں نے بتایاکہ سکردو سے اولڈنگ اور اولڈنگ سے کارگل تری پہنچتے ہوئے انہیں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ یہان پہنچ کر عمار کوکچھ دن موسم اور سمندر سے بلندی سے موانست آکومولئیزیشن میں گزارنے پڑے۔ وہ جلد ازجلد محاذ پر پہنچنا چاہتے تھے۔ لیکن کارگل کی چوٹیاں مسخرکرنے سے پہلے یہ ریاض ضروری تھا۔ اس کے بعدانہیں پندرہ سے اٹھارہ ہزار فٹ بلندی پر تعینات کیا گیا۔ دشمن سے دو بدو ہو کر انہیں خوشی ہوئی۔ میں تصوّر کر سکتاہوں ایک سچے سپاہی کی خوشی کی، مگر مجھے یقین ہے عمارنے بلندیوں پر پہنچنے کاجو خواب دیکھا تھا اور جس معرکے سے اپنے پیاروں کوبے خبر رکھا تھا وہاں پہنچ کر بھی وہ زیادہ جذباتی نہیں ہوا ہوگا۔ اس لیے کہ ایک تو اسے اپنا مشن اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا اور دوسرے راہ جہاد میں نکلنا کسی مجاہد کے لیے غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔
اپنی شہادت سے دو ہفتے پہلے ماں کے نام اپنے خط میں اسنے اپنے اعصاب پرکنٹرول رکھا۔ شہادت سامنے نظر آرہی تھی۔ آسمان سے آگ برس رہی تھی۔ دشمن کی چار سو توپیں دن رات آگ برسا رہی تھیں۔ کسی لمحے کچھ بھی ہو سکتا تھا لیکن اس نے پاک فوج کی بہترین تربیت کا بہترین اظہار کیا۔ اس بات کا اشارہ تک نہیں دیا کہ وہ کس مقام پر ہے اور نہ ہی واضح طور پریہ لکھا کہ وہ کس مشکل معرکے میں شریک ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں تاہم اسکے ان الفاظ سے شہادت کی آرزو ٹپک پڑتی ہے۔
’’میں یہاں پربہت خوش ہوں۔ اگر کوئی غلطی ہوگئی ہو تومعاف کر دینا، ابو سے بھی کہنا اگر میں نے کبھی بدتمیزی کی ہو تو معاف کردیں۔ علی، بلال سے بھی کہیں کہ اگر میں نے کبھی ڈانٹا ہو تو معاف کردیں۔‘‘
عمارنے آخری معرکہ کیسے لڑا۔۔۔کہاں جان دی۔۔۔اسکے بارے میں اب بھی بہت کچھ پردہ اخفا میں ہے، یہ افسردہ کردینے والاالمیہ ہے کہ عین اس وقت جب یہ معرکہ اپنے شباب پر تھا’’مجاہدین‘‘ کو حکم مل گیا کہ واپس آجائیں۔ اس مرحلے میں جولوگ اگلے مورچوں میں تھے، ان میں سے بہت سے اپنی داستانوں اور خاکی جسموں کے ساتھ معرکے کی زمین پر رہ گئے۔ عماربھی ان میں سے تھا۔ میں کہتا ہوں اچھا ہی ہے، اس کی جرأت و شجاعت کا تذکرہ ’’یہاں ‘‘ کے بجائے ’’وہاں‘‘ ہو۔۔۔اللہ کی کتاب میں اسے نفس مطمئنہ شمار کیا جائے۔ سید احمد شہید کی بہت آرزو تھی کہ شہادت کے بعد ان کا بدن کسی کو نہ ملے۔ وہ اکثر ایک مصرع گنگنایا کرتے تھے جس میں انکی یہ تمنا پنہاں تھی۔۔۔
ولم بہ راہ توصد پارہ و ہر پارہ ہزار ذرہ
دہر ذرہ در ہوائے تو بار
’’میرے دل کے تیری راہ میں سوٹکڑے ہوں، ہر ٹکڑا ہزار ذروں میں بٹ جائے،پھر ہر ذرہ تیری ہواؤں میں بکھر جائے۔‘‘
اگرمیرا جسد پارہ پارہ بھی میرے مالک و معبودکی ہواؤں میں بکھر جاتا ہے تو اورکیا چاہئے۔ تاہم اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ آخری معرکے میں وہ نشان حیدرپانے والے کیپٹن کرنل شیر خان کے ساتھ تھا۔ یہ ٹائیگر ہل پراپنے انیس زخمی ساتھیوں کو بچا کر نکال لانے کے لیے دشمن پرحملہ آورہوئے تھے۔ یہ حملہ چھ جولائی کی صبح مٹھی بھر شیروں نے کیا۔ دشمن انکی پوسٹوں کوبلاک کرنے میں کامیاب ہوگیاتھا۔ دو روز پہلے ہونے والے اعلان واشنگٹن سے بزدل بھارتی فوجیوں کویقیناًحوصلہ ملا تھا۔ شیر، عمار اور ان کے ساتھیوں نے چالیس سے زیادہ بھارتی فوجیوں کو واصل جنم کیا مگر پھر وہ وقت آگیا جب وہ چاروں طرف سے دشمن میں گھر گئے۔ انہیں ہتھیار پھینکنے اور جان بچانے کی پیش کش کی گئی جسے انہوں نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس طرح عملاً واجپائی اورکلنٹن کے اندازے غلط ثابت کردیئے۔ وہ بے جگری سے لڑے اور ایک ایک کرکے شہیدہوتے چلے گئے کہ دشمن بھی عش عش اٹھا۔ عمار بھی ان شہیدوں مین شامل تھا۔
عمارکی شہادت پرجولوگ ہمیں مبارک باد دینے آئے یہ ہماری ہمت بندھائی ان سے ہمیں بہت حوصلہ ملا۔ عمارکے دوستوں، فوجی افسروں اور کمانڈروں نے بہترین تاثرات کا اظہارکیا۔ محاذ پر ان کے ساتھ رہنے والے کیپٹن امیرنے کہا۔۔۔’’میں نے اپنی زندگی میں کیپٹن عمار سے زیادہ بہادر شخص نہیں دیکھا اور وہ ایک مرد مومن کاصحیح نمونہ تھے۔ ان کی واحد خواہش یہ تھی کہ دشمن کوزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں‘‘۔ ان کے محاذ کے ایک اور ساتھی نے لکھا۔۔۔’’عمار میرے ہم جماعت اور قریبی دوست تھے۔ وہ ایک سچا مسلمان اور بہادر شخص تھا۔ میں اس کے ساتھ چند ہی دن رہا لیکن مجھے اس سے بے پناہ جذبہ اور جرأت ملی۔ وہ ہر شعبہ حیات میں قیادت کرنے والا شخص تھا۔ اللہ تعالیٰ مجھے عمار جیسا بنا دے۔ وہ ہماری فوج کا اثاثہ تھا اور ہمارے دلوں میں اسکی یاد ہمیشہ باقی رہے گی۔‘‘
کیپٹن احمدجوادجو عمارکے کورس میٹ تھے، اپنے مفصل تاثرات کے آخرمیں لکھتے ہیں ’’مجھے ایک نکتے کا اظہارکرنا ہے کہ جیسے ہی مجھے جناب عمارکی شہادت کی اطلاع ملی میں نے بھی ان سے جا ملنے کے لیے اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر پیش کر دیا۔ ‘‘ عمار کو اپنے کئیریر کے دوران جن افسروں کے ساتھ رہنے کاموقع ملامیجر خالد ان میں سے ایک ہیں۔ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔۔۔’’کاش میں بھی عمار جیسا ہو سکتا۔‘‘ ایس ایس جی اور عمارکے کمانڈر بریگیڈئیر شوکت کمال نے عمار کوبہترین انداز میں خراج تحسین پیش کیا اور آخرمیں لکھا۔۔۔
’’عمار! ہم سب ایس ایس جی والے آپ کوسیلوٹ کرتے ہیں۔‘‘
عمار ہم سے دور چلا گیا۔ لیکن ہمارے نزدیک تر بھی ہے کہ وہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ میرے اللہ نے مجھے کہاہے کہ میں اسے مردہ نہ کہوں لیکن بہرحال یہ حقیقت ہے۔ میدان حشر تک میں اسے نہیں دیکھ پاؤں گا۔ اس نے کارگل پر آخری معرکہ لڑتے ہوئے جب اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی تو کارگل سے مجاہدین کو پیچھے ہٹنے کی ’’درخواست‘‘ جا چکی تھی۔ الحمد للہ، وہ پیچھے نہیں ہٹا، آگے اور آگے ہی بڑھتا رہا۔آخری معرکے میں اپنی کشتیاں جلاکر آگے بڑھتا رہا اور خون کے آخری قطرے تک لڑا۔مجھے ایک روز بعد اسکی شہادت کی اطلاع ملی۔ اللہ کا شکر اداکیا۔ اسکا جسد خاکی اب تک نہیں آیا۔ کسی ان دیکھے ان جانے گوشے میں پڑا رہاہوگا۔ اس کے اس اعزاز پربھی ہم سراپا تشکرہیں۔ اسکی ہمت و جرأت ایک خوشبوکی طرح ہمارے سارے ماحول میں پھیل گئی ہے۔ چاہنے والوں کے دلوں میں بھی وہ زندہ ہے۔ میدان حشرمیں اسے کارگل ہی سے اٹھایا جائے گا تو وہ ہم گناہ گاروں کی شفاعت کرنے کے ساتھ ساتھ واشنگٹن میں کی گئی اس سازش کے خلاف گواہی بھی دے گاجس سازش نے ایک عظیم فتح کوشکست میں بدل دیا تھا۔ اس دن کوئی جھوٹ بول کربری نہ ہوسکے گا۔
آخر میں مجھے اپنے جیسے ان بھائیوں اور بہنوں سے ایک بات کہنی ہے جن کے شیر اور عمار سر زمین کارگل میں حق کی گواہی دینے گئے اور واپس نہیں آئے۔ یا ان کے لاشے آئے، شاید کسی شہید کی باعظمت ماں اور خوش بخت باپ کے دل میں کوئی ٹیس اٹھتی ہوکہ ان کاجوان رعنا یوں خاک میں مل گیا۔ کبھی عقل ان کے دلوں میں حسرت پیدا کرتی ہوکیسے کیسے خواب دیکھے تھے۔۔۔تو میں ان سے عرض کروں گاکہ اللہ کے وعدے پربھروسہ رکھیں۔۔۔آئندہ کی پوری زندگی اس عظیم کامیابی پر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتے گزاری جا سکتی ہے۔
میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتاہوں کہ میرا بیٹا میرے اللہ کامہمان بن گیا۔۔۔مجھے کسی صلاحیت اور عمل کی کسی خوبی کے بغیر اتنے بڑے اعزاز کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے جوکچھ عطا کر دیا میرا ہر سوئے تن اس پرشکر گزار ہے۔ میری دعا ہے کہ مجھے اپنے بیٹے کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا ہو۔۔۔اے اللہ ! توعمارکی ماں کو اسکی قربانی کا اجر عطا کر۔۔۔اور اے اللہ ! تو عمارکے بھائیوں کو اور مجھے بھی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا کر۔ اے اللہ ہم تجھ سے خوش ہیں تو ہم سے راضی ہو جا۔